سدا ای وسدا رہنا ڈیرہ داتا دا

از قلم عبدالرزاق قادری
جیسا کہ میری پچھلی تحریروں سے ظاہر ہے کہ میں 12 اگست سن 2000 عیسوی ہفتے کی شام ساڑھے نو بجے لاہور آیا۔ ریلوے سٹیشن سے تانگے پر بیٹھ کر داتا دربار تک آگئے۔ یہ میرا ریلوے کا اور فیصل آباد سےلاہور تک کا پہلا سفر تھا۔ مجھے راتوں رات ہی دربار دیکھ لینے کا شوق تھا لیکن اگلے دن یہ سعادت نصیب ہوئی۔
ان تیرہ سالوں میں دوبار درندوں نے اس مقدس درگاہ کی بے حرمتی کرنے کی کوشش کی۔ پہلی بار پرویز مشرف کے دور میں 2001 میں ایک پولیس افسر کلب عباس کی پولیس جوتوں سمیت مسجد اور دربار کے احاطے میں گھس گئی اور ایک سیمینار کے حاضرین پر دھاوا بولنے کے علاوہ دربار کے احاطے میں قرآن پڑھتے لوگوں پر بھی لاٹھی چارج کیا۔ اور دوسری بار سن 2010 میں بد بختوں نے داتا دربار پر بم دھماکے کر دئیے۔ یہ جولائی کی یکم تاریخ تھی۔ پھر یہ جولائی پورے ملک میں امن سے خالی گزرا۔ اس انتہا کی دہشت گردی اور سفاکی کا مظاہرہ کرنے والوں کے ماسٹر مائنڈ ٹولے کے جذبات اور اقدامات چڑھے سورج کی طرح انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ ان کی وڈیوز دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ جہنمی ٹولہ جو یہودی لابی کی "ایڈ" پر پلتا ہے کیا کیا ارادے رکھتا ہے۔ ان سفاکانہ دھماکوں کو تین سال مکمل ہو رہے ہیں۔ اور کروڑوں عقیدت مند آج تک عدل کی زنجیر کا منہ تاک رہے ہیں۔ مجرموں کا گرفتار نہ ہونا حکومتی رٹ ختم ہوجانے کے مترادف ہے۔ آنے والے کل کا مؤرخ کیا لکھے گا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت میں اسلام کے مراکز اور درگاہیں تک محفوظ نہ تھیں۔ اور ان کی حرمت کے دشمن کھلے عام دندناتے پھرتے تھے؟ اس بات سے سب آگاہ ہیں کہ داتا دربار کی حرمت کے دشمن وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو وہاں حاضری دینے والے مسلمانوں کو مشرک کہتے ہین۔ تاہم، حکومتی ادارے ان لوگوں کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔ نجانے ادارے کسی خوف میں ہیں یا ان کے اپنے کچھ خاص مقاصد/تعلقات ان دہشت گرد گروہوں سے ہیں۔ بہرحال سفاکی اور بزدلی ایک ہی برائی کے دو نام ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے سفاک بزدلوں اور ان کے پشت پناہوں کو دردناک عذاب سے ہمکنا کرے گا کیونکہ ان درندوں نے اللہ کے ولی سے دشمنی مول لی ہے اور حدیث پاک کے مطابق اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہے۔ میں نے ایک بار کہیں پڑھا تھا کہ ایک مغل بادشاہ نے وصیت کی تھی کہ اسےداتا دربار کی سیڑھیو ں میں دفن کیا جائے۔ اس دور میں وہ سیڑھیاں مشرقی جانب ہوتی تھیں۔ اس تحریر کے مطابق جہاں چند سال پہلے تک چراغ رکھے جاتے تھے ان سے پہلے یہ سیڑھیاں تھیں۔ بعد کی توسیعات نے نقشے میں تبدیلیاں وضع کیں۔ اگر آپ داتا دربار کا بغور دورہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ بہت سے بادشاہوں اور امراء نے یہاں سلام کیا اور اس درگاہ کی تعمیر و توسیع میں اپنا حصہ ڈالا۔ کہیں آپ کو گورنر اختر حسین کا نام نظر آئے گا تو کہیں ذوالفقار علی بھٹو کا۔ کہیں ضیاءالحق کا نام تو کہیں میاں محمد نواز شریف کا نام نظر آئے گا۔ کہیں اسحاق ڈار کا نام تو کہیں مولوی فیروز دین(فیروز سنز والے) کا نام۔ ان تعمیرات کی تاریخ جاننا مقصود ہو تو ڈاکٹر غافر شہزاد کی کتب دیکھیں۔ ان معلومات پر کئی پی۔ایچ-ڈی کے مقالہ جات لکھے جا سکتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بادشاہوں کے سر جھکے۔ یہاں اربوں لوگ حاضری دیتے رہے۔ ان کا دشمن بے نام ونشان اور ناکام رہا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام سربلند کر کے خلق کے دلوں میں ان کی عقیدت ڈال دی۔
 
یکم جولائی 2010 صوفی مزار، داتا دربار لاہور پنجاب (پاکستان) میں دو خودکش حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا کم از کم 50 لوگ جاں بحق اور 200 کے قریب بم دھماکوں میں چوٹ لگ کر زخمی ہوئے۔ یہ 2001ءکے بعد سے پاکستان میں ایک صوفی کے مزار پر سب سے بڑا حملہ تھا۔تصوف اسلام کا ایک حصہ ہے اور صوفی، تصوف کی مشق کرنے والے لوگ ہیں۔گزشتہ چند صدیوں کے اندر اندر یہ وہابی فرقے کی طرف سےشرک کے فتوے/حملے کی زد میں آیا ہے۔ داتا دربار مشہور صوفی سید علی ہجویری کے دفن کی جگہ ہے۔ ان کی کتاب کشف المحجوب صوفی ادب میں پہلی کتاب ہے جمعرات عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد کے طور پر مزار پر مصروف ترین دن ہے۔ مزار زیادہ تر طالبان اور وہابی فرقے کے نزدیک شرک اور بدعت کا اڈا سمجھا جاتا ہے۔ مارچ2009ء میں طالبان عسکریت پسندوں نے صوفی شاعر رحمان بابا کے مزار پر بمباری کی تھی اور 12 جون 2009ء کو ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہید، ایک اعتدال پسند عالم نے طالبان پر فتویٰ لگایا اور پھر انہیں خودکش بم حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔​
حملہ​
پولیس کے مطابق ابتدائی طور پر تین خود کش حملہ آوروں نے مزار پر حملہ کیا۔ ایک حملہ مزار، ایک صحن میں، اور ایک تہ خانے میں گیٹ نمبر 5 میں کیا گیا۔ مزار ٹھنڈے موسم کی وجہ سے سب سے زیادہ مصروف تھا جب حملہ آوروں نے رات کے وقت دھاوا بولا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا امکان ہے؛ اور زخمیوں کو میو ہسپتال لاہور میں بھیج دیا گیا، حکام نے ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا۔ پچیس افراد ہسپتال حکام کے مطابق نازک حالت میں تھے​
فوری طور پر رد عمل​
میڈیا اہلکاروں پرحملہ کرکےمشتعل افراد نے فوری ردعمل کا اظہار کیا۔ پولیس نے علاقے کو صاف کرنے کے لئے مزار پر جمع ہوئے لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے ہوائی فائرنگ کا سہارا لیا۔ لوگوں نے تحقیقات کے لئے سیکورٹی انتظامات میں کمیشن بنائے جا نے کا مطالبہ کیا۔ اگلے دن کچھ مسلح افراد سمیت تقریبا 2000 لوگوں نے ، "شہباز شریف کو معطل کرو" کے نعرے لگا کر شہر میں احتجاج کیا۔ وسطی پنجاب میں مسلح مذہبی گروہوں کے خلاف ایک سخت کریک ڈاؤن کے مطالبات پر، پولیس کو پاکستان بھر کے مزارات پر ہائی الرٹ کر دیا گیا۔ پنجاب حکومت کے افسران کے استعفی کے لئے بہت سے پاکستانیوں نے مطالبہ کیا​
انویسٹی گیشن​
مزار کے منتظمین نے مزار میں داخل ہونے والے تمام لوگوں کو اچھی طرح چیک کرنے کا اور سخت حفاظتی انتظامات کرنے کا حکم دے دیا۔ پولیس کمشنر نے کہا کہ دو خودکش حملہ آوروں کے جسم کے حصے ان کے سروں کے ساتھ ملے ہیں اور خود کش حملہ آور بہت چھوٹے تھے اور ایک خود کش جیکٹ 10 سے 15 کلو تک دھماکہ خیز مواد اٹھا سکتا تھا۔ اصل مجرموں کی شناخت ایک معمہ بنی ہوئی ہے تاہم جولائی 5، پاکستانی حکام نے 12 مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا۔ گولہ بارود اور ہتھیار بھی لاہور کے دو علاقوں میں چھاپوں کے دوران برآمد کیا گیا تھا۔ پانچ پولیس افسروں کو بھی ناقص سکیورٹی کی بناء پر معطل کر دیا گیا تھا۔​
ذمہ داری​
کسی جماعت نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم لاہور میں گزشتہ بم دھماکوں کی وجہ سے پاکستانی طالبان پر الزام عائد کیا گیا تھا۔ تاہم، اعظم طارق، پاکستانی طالبان کے ایک ترجمان، نے ان حملوں کی ذمہ داری سے انکار کیا اور انہیں خفیہ غیر ملکی ایجنسیوں کا کام قرار دیا۔ پنجابی طالبان کے لئے ایک ترجمان ، محمد عمر، نے کہا کہ ہم مزارات پر حملوں کی پالیسی کی پیروی نہیں کرتے " اس نے کہا کہ افغانستان میں حکومت کے پانچ سالوں کے دوران، طالبان کے کسی ایک مزار کو منہدم نہیں کیا۔ ہم کسی خود کش حملے کے لیے کسی کو بھیج دیں تو یہ بھی مضحکہ خیز ہو جائے گا۔ ہم ایسا کیوں کریں؟ اگر ہم واقعی وہاں لوگوں کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں صرف ایک دھماکہ خیز مواد سے بھری کار کھڑی کردینا ہی کافی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 'بلیک واٹر' اور جاسوس ایجنسیوں کی طرف سے مجاہدین کو بدنام کرنے کی یہ ایک سازش تھی۔تاہم لاہور میں منعقد احتجاج میں، حملے کے لئے طالبان عسکریت پسندوں پر الزام لگایا گیا۔​
رد عمل​
پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے سختی سے دھماکوں کی مذمت کی اور جرائم کی تحقیقات کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کے لئے پولیس کو کہا۔​


 
Top