صفحہ 20
کو سمجھو کہ مر گئے۔
چاپ چھاپے کا کام ہندوستان سے گیا۔ اسی واسطے یہ نام پایا۔
(5) علمی الفاظ اور علمی اصطلاحیں بھی پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ اکثر زندہ رہتی ہیں اور کاروائی کرتی ہیں۔ علم ہمیشہ ترقی کرتا ہے۔ اور اصلاح پاتا ہے۔ اس لئے بعض الفاظ جلد مر جاتے ہیں۔ نئے پیدا ہو جاتے ہیں۔ آج سے 30 برس پہلے کی ریاضی یا جغرافیہ کی کتاب اُردو زبان میں دیکھو تو یہ تعجب جاتا رہیگا۔
(6) خوش ایجاد نام بھی اکثر کم عمر اور ناپائدار ہوتے ہیں۔
محمود غزنوی جب ہندوستان میں آیا اور آم کھایا۔ تو بہت بھایا۔ مگر نام سُن کر ہنسا اور کہا۔ سخت ستم ہے کہ ایسا لطیف میوہ اور نام میں یہ فحش! اسے نغزک کہنا چاہیے کہ اسم بامسمٰے ہو چنانچہ بعض فارسی کی کتابوں میں نغزک بعض میں انبہ لکھتے ہیں۔ امیر خسرو نے قران السعدین میں ہندوستان کے میووں کی تعریف کرتے کرتے آم کے باب میں بھی چند اشعار لکھے ہیں :
نغزکِ خوش مغز کنِ بوستاں
خوب تریں میوہ ہندوستاں
نعمت خان عالی نے اپنے دوست حسن خاں کو آموں کی رسید لکھی۔ اسکی نظم میں ایک شعر ہے کہ نہیں بھولتا :
انبہ فرستاد حسن خاں گمن
انبتہ اللہ نباتا حَسَن
اکبر نے صدہا چیزوں کو ناموں کے خلعت دئے۔ کوئی باقی ہے کوئی پُرانا ہو کر پھٹ گیا۔ ایک دن اصطبل خاصہ میں گھوڑوں کے دیکھنے کو آیا۔ ہلاک خور ٹوکرے بھر بھر کر کثافتیں اُٹھا رہے تھے۔ فرمایا کہ بڑی محنت کی روٹی کھاتے ہیں۔ انہیں حلال خور کہنا چاہیے۔ آج تک وہی نام چلا آتا ہے۔
ہار کو کہا کہ سنگار کی چیز۔ اور مبارک چیز پر ہار کا نام آنا بدشگونی ہے۔ اسے پُھل مال کہا کر ۔۔۔۔۔۔ سرسبز نہ ہوا۔