بانو قدسیہ ساری بات

شعیب صفدر

محفلین
دراصل ساری بات ڈگری کی ہوتی ہے۔برقعے والیاں، بےنقاب لمبی چوٹی والی کو آزاد خیال سمجھتی ہیں۔لمبی چوٹی والی کٹے بالوں والی کو بے حیا جانتی ہے۔بال کٹی کا خیال ہوتا ہے کہ اس کے تو صرف بال کٹے ہیں۔اصل خرافہ تو وہ ہے جو دن کے وقت ماسکارا بھی لگاتی ہے اور آئی شیڈو بھی۔آئی شیڈو والی کو یقین ہوتا ہے کہ وہ بے چاری تو اللہ میاں کی گائے ہے اصل میں تووہ اچھال چھکے جو دوپٹہ نہیں اوڑھتیsee throughکپڑے پہنتی ہےاور سب کے سامنے سگریٹ پینے سے نیہں چوکتی۔ سگریٹ نوش بی بی کے سامنے وہ فسادن ہوتی ہے جو نا محرموں کے ساتھ بیٹھ کر بلیو فلم دیکھتی ہے۔وغیرہ وغیرہ

اس طرح مردوں میں بھی نیکی تعلی موجود ہوتی ہے اور اس کی کئی ڈگریاں مقرر ہوتی ہیں۔جو شخص صرف نظرباز ہے اوراچٹتی نظر سے لڑکیوں کوآنکتا ہے وہ ان مردوں کو بد معاش سمجھتا ہے جولڑکیوں کی محفل میں راجہ اندر بن کربیٹھتے ہیں اور لطیفوں اور کہانیوں سےفضا کو غزل الغزلات کی طرح رومانٹک کردیتے ہیں۔عورتوں سے باتیں کرنے کےرسیا ان مردوں کوغنڈہ سمجھتے ہیں جو اندھیرے سویرے کواڑ کے پیچھے سیڑھیوں کے سائے میں غسل خانے کی سنک کے پاس چوری چھپے کسی لڑکی کوبازوؤں میں لے لیتے ہیں۔چوری چھپے بلے اڑانے والے ان حضرات کو عادی مجرم سمجتے ہیں جو کھلے بندوں آوازے کستے ہیں جو زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور زنا کار ان پر نکتہ چینی کر کے بے قیاس راحت محسوس کرتے ہیں جو زنا بلجبر کرتے ہیں اور قانون کی گرفت میں ملزم ٹھرائے جاتے ہیں۔۔
(بانوقدسیہ کے ناول راجہ گدھ سے اقتباس)۔
agreed8mv.gif
 

منہاجین

محفلین
انا عند ظن عبدی بی

ہر فرد اپنے آزاد زاویہء نگاہ یا نکتہء نظر کے باعث نیکی اور بدی کا تعین اپنے انداز میں کرتا ہے۔ صرف نیکی و بدی جیسی بنیادی اقدار ہی نہیں، خدا کا تصور بھی ہر شخص کے من میں مختلف ہوتا ہے۔ چنانچہ حدیثِ قدسی ہے: اَنَا عِندَ ظَنِ عَبدِی بی۔ (میں ویسا ہی ہوتا ہوں جیسا میرا بندہ میرے بارے گمان کرتا ہے)

اس طرح کی تحریریں بندے کو یہ سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہیں کہ جس بدی کو میں معمولی سمجھتے ہوئے کئے جاتا ہوں ہو سکتا ہے وہ ایک بڑا گناہ ہو۔ چنانچہ ایسی تحریریں من پر اثر کرتی ہیں۔
 
Top