سارا سفر ہے کرب ِ مسلسل کی قید میں

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سارا سفر ہے کرب ِ مسلسل کی قید میں
چھوٹی سی جیسے کشتی ہو بوتل کی قید میں

اپنے بدن کی آگ میں جل کر مہک اٹھی
خوشبو جو بیقرار تھی صندل کی قید میں

اے فصل ِ تشنہ کام نویدِ رہائی دے
پانی کو دیکھ کب سے ہے بادل کی قید میں

گہرائی اُس کے ضبطِ الم کی بھی دیکھئے
ساگر رکھے ہوئے ہے جو کاجل کی قید میں

آوارہ اک ورق تھا ، مجھے دے دیا ثبات
اُس نے گرہ سے باندھ کے آنچل کی قید میں

بچپن کے آنگنوں سے بچھڑنے کا دُ کھ ظہیر
آسیب بن کے رہتا ھے پیپل کی قید میں

ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۸

ٹیگ: فاتح سید عاطف علی کاشف اختر محمد تابش صدیقی
 
Top