زندہ زمین ۔۔ حصہ دوم ۔۔۔( عادل منہاج )

عادل

معطل
می شنگ اپنے آفس میں بیٹھا ایک فائل کی ورق گردانی کر رہا تھا اس کے چہرے پر حیرت کے آثار تھے
’یہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘ وہ بڑبڑایا پھر اس نے میز پر رکھے فون کا ریسیور اٹھایا اور ایک نمبر دبا کر بولا’چیانگ فورا میرے پاس آؤ‘
اس کی آنکھیں کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیںجلد ہی آفس کا دروازہ کھلا اور ایک نوجوان اندر داخل ہوا
’سر آپ نے یاد کیا‘ وہ سرسراتی آواز میں بولا اور می شنگ کو ایک بار پھر جھٹکا سا لگا وہ پہلے بھی چیانگ کی آواز سن کر اور اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر پریشان ہوگیا تھا جب اس نے یہ رپورٹ اسے لاکر دی تھی
’بیٹھو چیانگ میں نے تمہاری رپورٹ پڑھ لی ہے اس کے مطابق اس علاقے میں تیل کی تلاش کرنا بے سود ہے کیوں کہ وہاں سے تیل ملنے کی کوئی امید نہیںلہذا ہمیں اپنا کام سمیٹ لینا چاہیے‘می شنگ بولا
’یس سر میں نے یہی لکھا ہے‘ وہ سپاٹ آواز میں بولا
’مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے ! ہمارے ابتدائی سروے کے مطابق اس علاقے سے تیل ملنے کی قوی امید تھیاور ابھی پچھلے ہفتے تم نے بھی مثبت رپورٹ دی تھی کہ وہاں تیل کے ذخائر موجود ہیں اور اب ایک دم تم نے بالکل مختلف رپورٹ لکھ دی ہےمیں اس سے کیا سمجھوں؟‘ می شنگ نے کہا
’پچھلی رپورٹ غلط تھی یہی حقیقت ہے کہ وہاں تیل ملنے کی کوئی امید نہیں ہمیں اپنا وقت اور سرمایہ برباد نہیں کرنا چاہیے اور یہاں سے کوچ کرجانا چاہیے‘چیانگ سرد آواز میں بولا
می شنگ کی نظریں اس کی نظروں سے ٹکرائیں تو وہ کانپ اٹھا نہ جانے ان نگاہوں میں کیا تھا’آخر میں اپنے ماتحت سے خوفزدہ کیوں ہورہا ہوں؟‘ اس نے سوچا پھر سخت لہجے میں بولا
’ٹھیک ہے میں کل خود علاقے کا دورہ کروں گا اور جائزہ لوں گا کہ کیا صورت حال ہے میں تمہاری اس رپورٹ پر بھروسہ نہیں کرسکتاآخر یہ کمپنی کی ساکھ کا سوال ہےہم نے کئی ماہ لگا کر سروے کیا اور یہاں کی حکومت کو بتایا کہ اس علاقے میں تیل کے ذخائر موجود ہیںاب میں ایک دم منفی رپورٹ کیسے دے دوں‘
’آپ ایسا نہیں کرسکتےآپ کو وہاں جانے کی کوئی ضرورت نہیں اپنا عملہ اور مشینری وہاں سے واپس منگوالیں اور یہاں سے چلیں‘ چیانگ سخت لہجے میں بولا
’یہ تم مجھ سے کس لہجے میں بات کر رہے ہو؟تم مجھے حکم دینے والے کون ہوتے ہو؟‘ می شنگ غصے میں بولا
’میری بات مان لیں ورنہ پچھتائیں گے‘چیانگ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا اور کمرے سے نکل گیا می شنگ اسے دیکھتا رہ گیا

جیپ کے رکتے ہی گرد کا ایک طوفان سا اٹھا می شنگ نے گرد چھٹنے کا انتظار کیا پھر جیپ سے اترا اور آگے قدم بڑھائےسامنے بھاری مشینری اور کرینیں وغیرہ نظر آرہی تھیں بہت سے لوگ کام میں مصروف تھے می شنگ کو آگے بڑھتا دیکھ کر ایک شخص چونکا اور تیزی سے اس کی طرف لپکا
’سر آپ اچانک یہاں!‘ وہ بولا
’ہاں زوباؤ یہ بتاؤ کام کی کیا رپورٹ ہے؟‘ می شنگ نے سنجیدگی سے پوچھا
’کام بالکل ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے سر جلد ہی آپ خوشخبری سنیں گے‘ زوباؤ اس کے ساتھ قدم اٹھاتا ہوا بولا
’خوشخبری؟‘ می شنگ کا لہجہ سوالیہ تھا
’جی ہاں تیل نکلنے کی خوشخبری‘ زوباؤ بولا اور می شنگ دھک سے رہ گیا اس کے ذہن میں ہزاروں سوالات سر اٹھانے لگے آخر چیانگ اس سے جھوٹ کیوں بول رہا تھااور یہ کیوں چاہتا تھا کہ وہ غلط رپورٹ دے کر یہاں سے واپس چلے جائیںکیا وہ کسی بڑی طاقت کا آلہ کار ہے جو نہیں چاہتے کہ یہاں تیل کی تلاش کا کام کیا جائے؟یا پھر وہ اس کی کمپنی کو بدنام کرنا چاہتا ہے مگر کیوں؟
’خیریت تو ہے سر؟آپ پریشان نظر آرہے ہیں‘ زوباؤ نے پوچھا
’ہاں نہیں ایسی کوئی بات نہیںیہ بتاؤ چیانگ نے تم سے کوئی بات تو نہیں کی؟‘ اس نے پوچھا
’کیسی بات سر؟ وہ تو کل اپنی رپورٹ لکھ کر یہاں سے چلے گئے تھے‘زوباؤ بولا
’تم جانتے ہو اس نے رپورٹ میں کیا لکھا ہے؟‘
’نہیں سر میں نہیں جانتا‘
’اس نے اس نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ‘می شنگ کے الفاظ درمیان میں ہی رہ گئے اسی وقت کوئی زور سے چلایا تھا’بچوووووو‘
دونوں نے چونک کر ادھر ادھر یکھاپھر جب سر اوپر اٹھایا تو دھک سے رہ گئےدراصل کرین کے ذریعے ایک بھاری مشین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جارہا تھا اس وقت وہ مشین عین ان کے سر کے اوپر سے گذر رہی تھی جب اچانک ہی کرین کو ایک زوردار جھٹکا سا لگااور کرین آپریٹر کا ہاتھ انجانے میں ایک بٹن پر جاپڑا جس کی وجہ سے وہ چرخی جس پر رسی لپٹی ہوئی تھی٬تیزی سے گھوم گئی اور اس سے لٹکی ہوئی بھاری مشین تیزی سے نیچے آئیآپریٹر نے بوکھلا کر بٹن آف کرنا چاہا مگر گھبراہٹ میں وہ بٹن صحیح طرح نہ دبا سکا جب تک می شنگ اور زوباؤ کو خطرے کا احساس ہوا ٬مشین عین ان کے سر پر پہنچ چکی تھیمی شنگ نے چھلانگ لگانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ٹنوں وزنی وہ مشین عین اس کے سر پر آگری وہاں بے شمار چیخیں گونج اٹھیں

فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی چیانگ تیزی سے غسل خانے سے نکلا اور ریسیور اٹھا کر بولا
’ہیلو ہاں میں چیانگ ہوں اوہ تو می شنگ اور زوباؤ مارے گئے ہوں سنو فورا کام روک دو اور سامان پیک کر دو ہم واپس جارہے ہیں جو میں کہ رہا ہوں وہ کرواب میں ہی تمہارا انچارج ہوںاسی وقت سے مشینری پیک کرنا شروع کردو‘اس نے زور سے ریسیور کریڈل میں پٹخ دیا

لمبے قد کا وہ آدمی ایک عمارت سے باہر نکلا اپنے آپ میں مگن ایک ہاتھ کی انگلی پر چابیوں کا چھلا گھماتے ہوئے وہ پارکنگ میں داخل ہوا جلد ہی اس کی سرخ رنگ کی کار نمودار ہوئی اور سڑک پر دوڑنے لگی یہ عمارت آبادی سے خاصی دور تھی اور یہاں سے ایک سڑک سیدھی دور تک جاتی نظر آرہی تھی اس وقت سڑک پر صرف اس کی سرخ کار دوڑ رہی تھی کافی دور جاکر سڑک دائیں طرف مڑ گئی یہاں سڑک کے کنارے ایک نیلی کار کھڑی تھی جوں ہی سرخ کار نے موڑ کاٹا ٬نیلی کار بھی سٹارٹ ہوگئی اور سرخ کار کے پیچھے چلنے لگی لمبے قد والے نے بیک ویو آئینے میں ایک اچٹتی سی نظر نیلی کار پر ڈالی نیلی کار کی رفتار کچھ تیز ہوگئی اور وہ اس کی کار کے برابر میں آگئی پھر اچانک ہی نیلی کار والے نے سٹیرنگ گھمادیا اور نیلی کار سرخ کار سے بری طرح ٹکرائی لمبے قد والا بوکھلا گیا اس نے بڑی مشکل سے کار کو قابو میں کیا ورنہ وہ الٹ جاتی اس کی کار کچے میں لڑکھڑانے کے بعد رک گئی نیلی کار آگے نکل گئیلمبے قد والا حیرت سے نیلی کار کو دیکھ رہا تھاپھر اس نے غصے میں اپنی کار اسٹارٹ کی اور نیلی کار کے پیچھے دوڑادی جلد ہی اس نے نیلی کار کو جالیا ایک بار پھر سڑک پر دونوں کاریں برابر برابر دوڑ رہی تھیںلمبے قد والے نے نیلی کار کے ڈرائیور پر نگاہ ڈالی تو اسے الجھن سی محسوس ہوئینیلی کار والے نے بڑے بڑے کالے شیشوں والی عینک پہن رکھی تھیلمبے قد والے کو اس کا چہرہ جانا پہچانا سا لگا
’اے کون ہو تم اور تم نے میری کار کو ٹکر کیوں ماری تھی؟‘ لمبے قد والا چلایا یہ سنتے ہیں نیلی کار والے نے ایک بار پھر اس کی کار کو سائڈ دے ماریلمبے قد والے کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اس نے بڑی مشکل سے کار کو اپنے کنٹرول میں کیا
’یہ یہ تو شاید پاگل ہوگیا ہے‘ وہ بڑبڑایااور پھر اس نے کار کی رفتار بڑھادی اسے نکلتا دیکھ کر نیلی کار والے نے بھی رفتار بڑھادی اور پھر اس نے زور سے اسے پیچھے سے ٹکر ماریاس کی کار ہل کر رہ گئی
’اف میرے خدا ! کیا یہ مجھے مارنا چاہتا ہے؟مگر یہ ہے کون؟‘وہ خوف سے چلایا اور رفتار مزید بڑھادی
آگے پھر موڑ تھا اور یہاں سے شہری حدود شروع ہو رہی تھیںدونوں کاریں ادھر مڑ گئیںنیلی کار والا بدستور اس کے پیچھے تھااب سڑک پر دوسری گاڑیاں بھی گذر رہی تھیں اس لیے نیلی کار والے کو اس کے برابر آنے میں مشکل پیش آرہی تھیپھر بھی دوسری گاڑیوں کو اوور ٹیک کرتا ہوا وہ اس کے برابر پہنچ ہی گیاایک بار پھر اسے سائڈ مارنے کے لیے اس نے سٹیرنگ گھمایا مگر اس بار لمبے قد والا ہوشیار تھااس نے بھی تیزی سے سٹیرنگ گھمادیاوہ ٹکر سے تو بچ گیا مگر سامنے سے آنے والے موٹر سائیکل سے ٹکراتے ٹکراتے بچا موٹر سائیکل والے نے گھور کر اسے دیکھا مگر وہ تو آگے نکل چکے تھے
آگے چوراہا تھاوہ چوراہے سے ذرا دور تھے کہ لائٹ سرخ ہوگئی لمبے قد والے نے رفتار اور بڑھادی اور سرخ لائٹ کے باوجود کار نکال کر لے گیا دوسری طرف سے آنے والی گاڑیوں نے زور زور سے ہارن بجائے نیلی کار نے بھی نکلنے کی کوشش کی اور دائیں طرف سے آتی ہوئی کار سے بری طرح ٹکراگئی وہ کار گھوم کر سڑک سے نیچے جا اتری اور ایک درخت سے ٹکراگئی جب کہ نیلی کار والا نکلتا چلا گیا لمبے قد والا اب بدحواس ہوچکا تھا اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے نیلی کار پھر اس کے سر پر پہنچ چکی تھی اس نے سرخ کار کے برابر آنے کی کوشش کیاسی وقت سامنے سے آنے والے ٹرک نے بھی اوور ٹیکنگ کر کے نکلنے کی کوشش کی لمبے قد والے نے فورا سٹیرنگ بائیں طرف گھمایا اور اس کی کار ٹرک سے رگڑ کھاتی ہوئی نکل گئی مگر نیلی کار والا نہ بچ سکا اور وہ ٹرک سے ٹکراگیا ٹرک سے ٹکرا کر نیلی کار اچھلی اور قلابازیاں کھاتی ہوئی سڑک کے بیچ الٹ گئی
لمبے قد والے نے زور سے بریک لگائے اور مڑ کر دیکھا ٹرک والے نے ٹرک سائڈ پر لگا دیا تھا اور ٹرک سے اتر کر الٹی ہوئی کار کی طرف بڑھ رہا تھااسی وقت الٹی ہوئی نیلی کارکی کھڑکی سے ایک شخص نکلتا نظر آیا کھڑکی سے نکل کر وہ سیدھا ہوا اور اس نے دور کھڑی سرخ کار کو دیکھا پھر اس کا ہاتھ تیزی سے جیب میں گیا اور اگلے ہی لمحے اس کے ہاتھ میں پستول نظر آیا لمبے قد والے کو خطرے کا شدید احساس ہوا اس نے ایک دم ایکسیلیٹر پر دباؤ ڈالا اور کار تیزی سے آگے بڑھی ایک فائر کی آواز گونجی اور اس کی کار کا پچھلا شیشہ ٹوٹ گیا اس نے رفتار اور بڑھادی دو گولیاں اور چلیں مگر اب کار دور جا چکی تھی پھر لمبے قد والے نے مڑ کر نہ دیکھا اور نکلتا چلا گیا

’یہ تم نے کیسی خبر سنائی ہے میں تو پریشان ہوگیا ہوں‘ پٹرولیم کا وزیر پریشان ہوکر بولا
’سر جو کچھ ہوا اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں می شنگ اور زوباؤ دونوں حادثے کا شکار ہوئے ہیں اور اس واقعے کے وہاں موجود تمام مزدور گواہ ہیںجو کچھ ہوا وہ سب کرین آپریٹر کی غلطی سے ہوا ‘ اس کا سیکریٹری بولا
’ہاں یہ تو شکر ہے کہ اس واقعے میں کوئی ملکی شخص ملوث نہیں ورنہ سارا نزلہ ہم پر گرتا پھر بھی ہماری سرزمین پر دو چینیوں کی ہلاکت ہوئی ہے‘ وزیر فکرمند ہوکر بولا
’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا سر اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوگ واپس جارہے ہیں‘ سیکریٹری نے کہا
’وہ کیوں؟‘ وزیر نے چونک کر پوچھا
’مسٹر چیانگ کا کہنا ہے کہ وہاں تیل ملنے کی کوئی امید نہیں اس علاقے میں مزید تلاش فضول ہے‘سیکریٹری نے بتایا
’مگر انہوں نے ہی اس پورے صوبے کا سروے کرنے کے بعد اس علاقے کو منتخب کیا تھا اور کہا تھا کہ یہاں تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں ‘
’ہاں مگر اب چیانگ کا کہنا ہے کہ ان سے اندازے کی غلطی ہوئی ہے اس نے اپنی فائنل رپورٹ مجھے دے دی ہے اور کہا ہے کہ وہ اس ہفتے سامان سمیٹ کر واپس چلے جائیں گے‘
’خیر جاتے ہیں تو جائیں مجھے کیا تیل ملے نہ ملے‘ وزیر منہ بنا کر بولا
’بہر حال اگرچہ اس معاملے میں کوئی الجھاؤ نہیں پھر بھی میں نے ضابطے کی کاروائی اور تحقیقات کے لیے آئی جی سے کہ دیا ہے وہ اپنا کوئی بندہ بھیج دیں گے‘

انسپکٹر عمران اس وقت می شنگ کے دفتر میں موجود تھے اور مختلف چیزوں کا جائزہ لے رہے تھے ان کے ہاتھ میں ایک فائل تھی اور اسے پڑھتے ہوئے ان کے چہرے پر الجھن کے آثار تھےاسی وقت دروازہ کھلا اور چیانگ اندر داخل ہوا انسپکٹر عمران نے چونک کر سر اٹھایا اور بولے ’ تو آپ مسٹر چیانگ ہیں‘
’ہاں میں ہی چیانگ ہوں مگر میں نہیں جانتا کہ آپ یہاں کیا کھوجنے آئے ہیں یہ محض ایک حادثہ تھا‘ وہ سرسراتی آواز میں بولا
انسپکٹر عمران نے چونک کر اسے دیکھا اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہی انہیں ایک جھٹکا سا لگا نہ جانے کیوں خوف کی ایک لہر سی ان کی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ گئی
’یہ صرف ضابطے کی کاروائی ہے مسٹر چیانگ‘ وہ بولے پھر ذرا سا ٹھہر کر انہوں نے کہا ’ میں نے سنا ہے کہ آپ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ یہاں سے تیل ملنے کی کوئی امید نہیں لہذا آپ کی کمپنی واپس جارہی ہے‘
’ہاں یہی بات ہے‘ وہ بولا
’مگر ‘ انسپکٹر عمران نے اسے گھورا’ مجھے می شنگ کی میز کی دراز سے یہ فائل ملی ہے یہ آپ ہی کی لکھی ہوئی ایک ہفتے پہلے کی رپورٹ ہے جس کے مطابق اس علاقے میں تیل موجود ہےآپ نے باقاعدہ جگہوں کی نشاندہی بھی کی ہے جہاں کنویں کھودے جائیں گے اور اب آپ اس کے بالکل برعکس رپورٹ دے رہے ہیں ایسا کیوں ہے مسٹر چیانگ کیا آپ اس کی وضاحت کریں گے؟‘
چیانگ ان کی طرف کھاجانے والی نظروں سے دیکھتا رہا پھر وہ سانپ کیں طرح پھنکارا’ میں آپ کو وضاحتیں پیش کرنے کا پابند نہیں ہوں یہ میری فائنل رپورٹ ہے میری کمپی اپنا کام ختم کرکے جارہی ہے اب آپ جاسکتے ہیں‘
’آپ کو میرے ساتھ فیلڈ میں چلنا ہوگا مسٹر چیانگ میں اس علاقے کا معائنہ کرنا چاہتا ہوں اور عملے سے بات کرنا چاہتا ہوں‘
’آپ وہاں نہیں جاسکتے نہ میری کمپنی کے لوگوں سے پوچھ گچھ کرسکتے ہیںچیانگ غرایا
’آپ کو میرے ساتھ چلنا ہوگا مسٹر چیانگ‘ انسپکٹر عمران نے اس کی طرف قدم بڑھائےمگر اسی وقت چیانگ نے میز پر سے پیپر ویٹ اٹھا کر ان کے سر پر دے مارا انسپکٹر عمران نے بڑی مشکل سے خود کو بچایا اور چیانگ پر چھلانگ لگادیانہیں یوں لگا جیسے وہ کسی پتھر سے ٹکرائے ہوںوہ اس سے ٹکرا کر گرے تو چیانگ نے ایک ٹھوکر ان کی پسلیوں میں رسید کی انسپکٹر عمران کو اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی ساتھ ہیں چیانگ ان پر چڑھ گیا اور دونوں ہاتھوں سے ان کی گردن دبانے لگا انسپکٹر عمران نے دونوں ہاتھ اس کے بازوؤں پر جمادیے اور انہیں گردن سے الگ کرنے کی کوشش کرنے لگے مگر چیانگ تو لوہے کا آدمی لگ رہا تھا اپنی پوری قوت لگانے کے باوجود وہ اس کے ہاتھ گردن پر سے نہ ہٹاسکے اسی وقت ان کی نظر فرش پر گری ہوئی ایک کیل پر پڑی انہوں نے ایک ہاتھ اس کے بازو سے ہٹایا اور کیل اٹھانے کی کوشش کی مگر کیل ان کے ہاتھ سے ذرا سی دور تھی ان کا سانس رکتا جا رہا تھا انہوں نے ذرا سے کھسکنے کی کوشش کی تاکہ کیل سے قریب ہوجائیں یہ کام بھی انہیں بہت مشکل محسوس ہوا ادھر چیانگ پر تو گویا ان کا گلا دبانے کا بھوت سوار تھا اسے کچھ ہوش نہ تھا آخر دو منٹ کی مسلسل کوشش کے بعد وہ اپنا ہاتھ کیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے اور پھر انہوں نے تیزی سے کیل اٹھائی اور اس کی پشت میں گھونپ دی چیانگ کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور اس کی گردن پر گرفت ڈھیلی پڑ گئی انسپکٹر عمران کے لیے اتنا ہی موقع کافی تھا انہوں نے زور لگا کر اسے الٹ دیا اور تیزی سے کھڑے ہوتے ہی ایک ٹھوکر اس کی کنپٹی پر رسید کی چیانگ کے حلق سے گھٹی گھٹی چیخ نکلی انہوں نے ایک ٹھوکر اور دے ماری اور وہ بے ہوش ہوگیا
کچھ دیر انسپکٹر عمران اپنا سانس درست کرتے رہے پھر انہوں نے چینگ کو کندھے پر ڈالا اور دفتر سے نکل آئے جلد ہی وہ اسے اپنی جیپ میں ڈالے دارالحکومت کی طرف اڑے جارہے تھے

’کافی دیر ہوگئی ہے سر کیا آپ چلیں گے نہیں؟‘ کمرے کا دروازہ کھول کر ایک نوجوان بولا تو میز پر سر جھکائے ایک موٹی سی کتاب پڑھے ہوئے ڈاکٹر رفیع نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور بولے
’تم جاؤ انور میرا کام ابھی ختم نہیں ہوا میں یہ آرٹیکل ختم کرکے جاؤں گا‘
’اگر آپ کہیں تو میں بھی رک جاتا ہوں‘ انور بولا
’نہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں تم جاؤ‘ ڈاکٹر رفیع نے کہا اور انور دروازہ بند کرکے چلاگیا
ڈاکٹر رفیع دوبارہ کتاب میں کھو گئے بعض جگہ وہ پنسل سے نشانات لگاتے جارہے تھے اس دوران کمرے کا دروازہ آہستگی سے کھلا اور کوئی دبے پاؤں اندر داخل ہوا ڈاکٹر رفیع پڑھنے میں اتنا مگن تھے کہ انہیں خبر ہی نہ ہوئیاندر داخل ہونے والا آہستگی سے چلتا ہوا ڈاکٹر رفیع کی پشت پر رکھی ہوئی ایک الماری کی طرف بڑھا اور آہستہ سے الماری کھول دیاندر بے شمار مرتبان رکھے تھے اور ان میں سے کچھ مرتبانوں میں چھوٹے چھوٹے سانپ کلبلارہے تھےاس نے ایک مرتبان اٹھا کر دیکھا اور پھر واپس اپنی جگہ پر رکھ دیا مرتبان رکھتے ہوئے ہلکا سا کھٹکا ہوا تو ڈاکٹر رفیع نے چونک کر سر اٹھایا انہوں نے ادھر ادھر دیکھا پھر پیچھے نظر پڑی تو زور سے چونکے
’اے کون ہو تم اور اندر کیسے آئے؟‘ وہ پریشان ہوکر بولے
’تو آپ ہیں ڈاکٹر رفیع زہروں پر تحقیق کے ماہر آپ نے اسی لیے اتنے سانپ جمع کر رکھے ہیں شاید آج کل ان کے زہر پر تحقیق کر رہے ہیں ‘ اجنبی بولا
’میں نے پوچھا ہے کہ تم کون ہو اور چوکیدار نے تمہیں اندر کیسے آنے دیا؟‘وہ زور سے بولے
’میں پچھلی طرف سے آیا ہوں پائپ پر چڑھ کر چھت پر پہنچا اور وہاں سے ادھر آگیاسب لوگ جاچکے ہیں اور اس وقت عمارت میں صرف آپ ہیں‘ وہ عجیب سی آواز میں بولا
’کیا مطلب؟ تم کیا چاہتے ہو؟‘ ڈاکٹر رفیع گھبراگئے
اجنبی پراسرار انداز میں مسکرایا اور الماری سے سانپوں والا مرتبان اٹھالیا پھر وہ کمرے کے دروازے کی طرف بڑھا
’یہ یہ تم کیا کر رہے ہو؟‘ ڈاکٹر رفیع خوف کے عالم میں بولے
دروازے پر پہنچ کر وہ رکا اور مرتبان کا ڈھکن کھول دیا ڈاکٹر رفیع کا رنگ اڑ گیا
’یہ تم کیا کر رہے ہو ؟ سانپ بہت خطرناک ہیں‘ وہ کانپ کر بولے
’جانتا ہوں ڈاکٹر صاحب‘ وہ مسکرایا پھر اس کے چہرے پر وحشت کے آثار نمودار ہوئے اور وہ بولا’ گڈ بائی ڈاکٹر‘ اس کے ساتھ ہی اس نے کھلا ہوا مرتبان ڈاکٹر پر اچھال دیا اور وہاں سے بھاگ نکلا ڈاکٹر رفیع کے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکلی کئی سانپوں نے انہیں ڈس لیا تھا چیخ کی آواز سن کر چوکیدار دوڑتا ہوا ادھر آیا اور پھر کمرے کے دروازے پر ہی ٹھٹھک کر رک گیا اس کے منہ سے بھی چیخیں نکلیں اور وہ بھاگ کھڑ ہوا

’یہ یہ تم کیسی کہانی سنا رہے ہو؟‘پروفیسر ادریس نے حیرت سے پلکیں جھپکائیں
’یہ کہانی نہیں پروفیسر صاحب حقیقت ہے کسی نے مجھے مارنے کی کوشش کی ہے ‘ لمبے قد والا بولا
’مگر کیوں؟ تمہاری کسی سے دشمنی ہے کیا؟‘ انہوں نے پوچھا
’نہیں میری کسی سے کوئی دشمنی نہیں میں خود حیران ہوں کہ وہ نیلی کار والا کون تھا یوں لگتا تھا جیسے وہ پاگل ہوگیا ہو‘ لمبے قد والا بولا
’حیرت ہے کسی کو ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی‘ پروفیسر بڑبڑائے
’ایک لمحے کو میری نظر اس کے چہرے پر پڑی تھی و مجھے اس کا چہرہ جانا پہچانا سا لگا تھا‘ لمبے قد والا سوچتا ہوا بولا
’اوہ کون تھا وہ؟‘ انہوں نے بے چین ہو کر پوچھا
’میں مسلسل ذہن پر زور دے رہا ہوں مگر یاد نہیں آرہایوں بھی میں اس کی صرف ایک جھلک ہی دیکھ سکا تھا‘اس نے کہا
’تم نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی؟‘انہوں نے پوچھا
’نہیں کل رات میں بہت ڈسٹرب تھا کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہورہا ہےآج سب سے پہلے آپ کو بتایا ہے‘وہ بولا
’تو پھر تم فورا پولیس اسٹیشن جاؤ اور رپورٹ درج کرواؤ یہ بہت ضروری ہے‘
’ٹھیک ہے میں رپورٹ درج کرواکر آتا ہوں‘ وہ بولا اور اٹھ کھڑا ہوا

’تمہیں چیانگ کو نہیں پکڑنا چاہیے تھا چین ہمارا دوست ملک ہے اور اس نے تیل کی تلاش کے لیے ٹیم بھیجی تھی اس طرح اس کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہوسکتے ہیں‘آئی جی بولے
’میں نے آپ کو بتایا نا سر کہ چیانگ کا کردار مشکوک ہےاس نے ایک ہفتے کے وقفے میں دو مختلف رپورٹیں لکھی ہیں مجھے تو می شنگ اور زوباؤ والے حادثے میں بھی شک ہے کہ اسی کا ہاتھ ہے‘ انسپکٹر عمران بولے
’نہیں بھئی حادثے کے وقت وہ اپنے دفتر میں تھا فیلڈ سے بہت دور‘ آئی جی بولے
’ہوسکتا ہے کرین آپریٹر اس کا ساتھی ہو اور اس کے اشارے پر ہی اس نے یہ سب کیا ہو‘
’وہ ہے کہاں؟‘ آئی جی نے پوچھا
’ہسپتال میں‘ انسپکٹر عمران نے بتایا
’ہسپتال میں وہ کیوں؟‘ آئی جی چونکے
’اسے دیکھ کر مجھے عجیب سا احساس ہوا تھااس کے بولنے کا انداز مشینی سا تھا اور اس کی آنکھوں میں یک نشہ سا تھا مجھے یوں محسوس ہوا تھا کہ وہ کسی کے زیر اثر ہے‘انسپکٹر عمران نے کہا
’کسی کے زیر اثر؟‘ آئی جی سوالیہ انداز میں بولے
’ہاں جیسے کسی نے اسے ہپناٹائز کیا ہومیرا تو یہی خیال ہے اسی لیے اسے ہسپتال میں داخل کیا گیا ہے دماغ کے ڈاکٹر اس کا معائنہ کر رہے ہیں‘
’اوہ خیر جو بھی کرو احتیاط سے کرنا کہیں ہمیں دوست ملک کی ناراضگی نہ مول لینا پڑے‘
’آپ بے فکر رہیں‘ اسی وقت انسپکٹر عمران کے موبائل کی گھنٹی بجی انہوں نے فورا جیب سے موبائل نکال کر کان سے لگایا ’ہیلو ہاں کیا رپورٹ ہے اوہ اچھا میں پہنچتا ہوں‘ انہوں نے موبائل بند کیا اور بولے ’ مجھے فورا ہسپتال پہنچنا ہے سر‘

’میں کہتا ہوں مجھے چھوڑ دو ورنہ تمہارا انجام بہت برا ہوگا‘ چیانگ بری طرح غرا رہا تھا وہ ہسپتال کے بیڈ پر لیٹا تھا اور اس کے دونوں ہاتھ اور پاؤں رسیوں سے بندھے ہوئے تھے
’اسے بے ہوش کرکے تمام ٹیسٹ کیے ہیں ورنہ اس پر قابو پانا بہت مشکل ہورہا تھا سر‘ انسپکٹر عمران کا اسسٹنٹ اشرف بولا
’ہوں تو ڈاکٹر کس نتیجے پر پہنچے؟‘ انسپکٹر عمران نے پوچھا
’آئیے ڈاکٹر کمال کے کمرے میں چلتے ہیںوہ دماغ کے بہت بڑے ڈاکٹر ہیں انہیں خاص طور پر یہاں بلوایا گیا ہے‘ اشرف بولا اور دونوں چیانگ کو چیختا چلاتا چھوڑ کر ڈاکٹر کمال کے کمرے میں آگئے
’سچی بات تو یہ ہے کہ میں کچھ صحیح طرح سمجھ نہیں سکا اس کے دماغ پر اثر تو ہے اور یہ یقینا کسی کے ٹرانس میں ہے مگر وہ اثر اس قسم کا ہے یہ سمجھ نہیں آیا‘ ڈاکٹر کمال بولے
’اس کی آنکھوں میں دیکھ کر میں بھی اسی نتیجے پر پہنچا تھا کہ اس پر ہپناٹائز کیا گیا ہے مگر کیا آپ اس کا توڑ نہیں کرسکتے‘ انہوں نے پوچھا
’جب ہم اسے سمجھ ہی نہیں سکے تو توڑ کس طرح کریں؟اس کے دماغ سے وہی اثر ختم کرسکتا ہے جس نے اسے ہپناٹائز کیا ہےاگر ہم نے ایسی کوشش کی تو اس کا دماغ الٹ بھی سکتا ہےیہ پاگل بھی ہوسکتا ہے‘ ڈاکٹر کمال نے کہا
’اوہ مسئلہ یہ ہے کہ یہ غیر ملکی ہے ہم اسے زیادہ دیر حراست میں نہیں رکھ سکتےخیر میں حکام بالا سے مشورہ کرتا ہوں آپ کو کوئی نئی بات پتہ چلے تو میرے موبائل پر خبر کر دیجیئے گا‘ انہوں نے کہا

پروفیسر ادریس اخبار پڑھنے میں مصروف تھے کہ ان کے آفس کا دروازہ کھلا اور لمبے قد والا اندر داخل ہوا
’آؤ بھئی تم نے رپورٹ درج کروادی تھی‘ انہوں نے پوچھا
’جی ہاں کل ہی کروادی تھی مگر پولیس نے بھلا کیا کرنا ہےمیں تو اس کار کا نمبر بھی نوٹ نہیں کرسکا تھااب شہر میں تو بے شمار نیلی کاریں ہوں گی‘ لمبے قد والا بولا
’خیر چھوڑو تم اس واقعے کا اتنا اثر نہ لو ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی پاگل ہودوبارہ تو نہیں نظر آیا نا تمہیں‘
’جی نہیں ‘ وہ بولا
’بس تو پھر اطمینان سے اپنا کام کرو ارے!‘ اچانک وہ چونک اٹھے ان کی نظریں اخبار کی ایک خبر پر جم گئیں
’کیا ہوا پروفیسر؟‘ لمبے قد والے نے پوچھا
’ڈاکٹر رفیع ایک حادثے میں مارے گئے‘ وہ خبر پڑھتے ہوئے بولے
’اوہ ڈاکٹر رفیع تو وہی ہیں نا جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے اس زندہ ہوجانے والی زمین کو مارنے کے لیے زہر بنایا تھا‘ اس نے چونک کر کہا
’ہاں وہ زہروں کے بہت بڑے ماہر تھے زہروں پر تحقیق کے لیے ان کی لیب میں کئی زہریلے سانپ موجود تھے انہی کے کاٹنے سے وہ ہلاک ہوئے ہیں‘ پروفیسر نے بتایا
’وہ کس طرح؟‘
’خبر کے مطابق ان سے سانپوں والا مرتبان اٹھاتے ہوئے گر کر ٹوٹ گیا اور سانپوں نے انہیں ڈس لیا‘
’اوہ بہت افسوس ہوا یہ سن کر‘
’ہاں وہ اچھے آدمی تھے‘
’اچھا پروفیسر میں اپنے کمرے میں چلتا ہوں‘ لمبے قد والا اٹھ کھڑا ہوا
’ہاں ٹھیک ہے‘ وہ بولے اور لمبے قد والا چلا گیا
پروفیسر کچھ دیر بیٹھے سوچتے رہے اور پھر بڑبڑائے’مجھے تعزیت کے لیے ان کے گھر جانا چاہیے‘پھر وہ کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور انٹر کام کا بٹن دبا کر بولے’ ڈرائیور سے کہو گاڑی نکالے‘
اپنا کمرہ لاک کر کے وہ چل پڑے راہداری کا موڑ مڑ کر سیڑھیاں نیچے جارہی تھیں اور دوسری طرف سے اوپر جا رہی تھیں پروفیسر ادریس نے نیچے جانے والی سیڑھیوں پر قدم رکھا اسی وقت کوئی شخص اوپر سے آنے والی سیڑھییوں سے اترا اور اس نے پروفیسر ادریس کو زور سے دھکا دے دیا پروفیسر کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور وہ سیڑھیوں سے لڑھکتے ہوئے نیچے جاگرے دھکا دینے والا تیزی سے واپس اوپر چڑھ گیاپروفیسر بے حس و حرکت نیچے پڑے تھےکچھ دیر بعد دوسری طرف سے کوئی آتا نظر آیا پھر آنے والا چونکا’ ارے ! یہ کون پڑا ہے؟‘ وہ بولا اور تیزی سے آگے بڑھا پھر وہ زور سے چونکا ’پروفیسر صاحب‘ اس کے منہ سے نکلا پھر وہ زور سے چلایا’ گارڈ فورا ادھر آؤ پروفیسر صاحب سیڑھیوں سے گر پڑے ہیں‘

انسپکٹر عمران آئی جی کے دفتر میں داخل ہوئے
’بیٹھو عمران میں نے وزیر خارجہ کو ساری صورت حال بتادی تھی انہوں نے چین میں اپنے ہم منصب سے بات کی ہے چین کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کو چیانگ سمیت فورا واپس بھیج دیا جائےوہ خود چیانگ کا علاج کریں گے اور اس سے پوچھ گچھ کریں گے دوسرے وہ تیل کی تلاش کے لیے ایک اور ٹیم بھیج رہے ہیں تاکہ حقائق کا پتہ لگایا جاسکے‘ آئی جی نے تفصیل سے بتایا
’اوہ! تو اس کا مطلب ہے کہ میں چیانگ سے مزید تفتیش نہیں کرسکتامیں تو یہ پتہ چلانے کا خواہشمند تھا کہ چیانگ کو کس نے ہپناٹائز کیا ہے اور اس کا مقصد کیا ہے‘
’معاملہ دوست ملک کا ہے یوں بھی اب یہ تو ثابت ہوچکا ہے کہ چیانگ غلط بیانی کر رہا ہے دوسری ٹیم کے آنے سے معاملات خود بخود سلجھ جائیں گے‘
’ہوں ٹھیک ہے دیکھتے ہیں نئی ٹیم آکر کیا رپورٹ دیتی ہے‘ وہ سوچ میں گم لہجے میں بولے

پروفیسر ادریس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھول دیں
’شکر ہے پروفیسر صاحب آپ کو ہوش تو آیا‘ ان کے بیڈ کے قریب کھڑا لمبے قد والا خوش ہوکر بولا
’مم مجھے کیا ہوا ہے؟‘ پروفیسر پریشان ہوکر بولے
’آپ سیڑھیوں سے پھسل کر گر گئے تھے مگر فکر نہ کریں کوئی سیریس چوٹ نہیں لگی‘
’اوہ ہاں مجھے یاد آگیا کسی نے مجھے دھکا دیا تھا‘ پروفیسر چونک کر بولے
’دھکا!‘ لمبے قد والا حیران ہوکر بولا’ ہم تو سمجھے تھے کہ آپ سیڑھیاں اترتے ہوئے پھسل کر گر پڑے‘
’نہیں میں سیڑھیاں اتر رہا تھا تو کسی نے مجھے پیچھے سے دھکا دے دیا تھا‘پروفیسر نے بتایا
’اوہ! کیا آپ کو یقین ہے پروفیسر کہ کسی نے آپ کو دھکا دیا تھا؟‘لمبے قد والا الجھن کے عالم میں بولا
’ہاںاس میں بے یقینی والی کون سی بات ہے‘ وہ پرزور لہجے میں بولے
’مگر ایسا کس نے کیا؟ کسی کو آپ کو دھکا دینے کی کیا ضرورت تھی؟‘ لمبے قد والا سوچ میں گم بولا
’یہ تو میں نہیں جانتا‘ پروفیسر بے بسی سے بولے
’پروفیسر صاحب حالات کچھ عجیب سے ہیں ابھی ایک دن پہلے کسی نے مجھے ہلاک کرنے کی کوشش کی اور آج آپ کو دھکا دے کر گرایا گیا نہیں پروفیسر یہ سب اتفاق نہیں ہوسکتا یہ یہ ضرور کوئی سازش ہے ‘ لمبے قد والا بولا
’سازش کیسی سازش بھلا ہمیں مار کر کسی کو کیا ملے گا؟‘
’یہی تو سمجھ نہیں آرہا پہلے تو میں اس نیلی کار والے کو پاگل سمجھا تھا مگر وہ پاگل نہیں تھا اس نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مجھے مارنا چاہااور اور میرا خیال ہے کہ آپ کو دھکا دینے والا بھی وہی ہے‘
’مگر وہ ہے کون؟‘ پروفیسر زور سے بولے
’یہ معاملہ ہم سے نہیں سلجھے گا مجھے انسپکٹر عمران سے ملنا ہوگا‘ وہ بولا
’انسپکٹر عمران!‘ پروفیسر چونک کر بولے
’ہاں وہ انٹیلی جنس کے انسپکٹر ہیں اور خاصے ذہین آفیسر ہیں میں ان سے بات کرتا ہوں یہ عام پولیس والے تو کچھ نہیں کریں گے‘

انسپکٹر عمران گہری سوچ میں گم تھے
’تو آپ کو اس نیلی کار والے کا چہرہ جانا پہچانا لگا تھا‘ انہوں نے پوچھا
’جی ہاں اگر میں غور سے اسے دیکھتا تو شاید پہچان لیتا‘ لمبے قد والا بولا
’اور پروفیسر صاحب بھی دھکا دینے والے کو نہیں دیکھ سکے‘وہ بولے
’نہیں انہیں اتنا موقع ہی کہاں ملا تھا کہ وہ مڑ کر دیکھتے وہ تو ایک دم نیچے جا گرے تھے‘
’آپ دونوں آج کل کسی اہم پراجیکٹ پر تو کام نہیں کر رہے؟‘
’نہیں بس روٹین کے کام ہیں ہیں‘
’کبھی کسی شخص کا آپ سے یا پروفیسر سے کوئی جھگڑا ہوا ہو؟‘ وہ اسے بغور دیکھتے ہوئے بولے
’جی نہیں میں خود ان خطوط پر بہت سوچتا رہا ہوں ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں‘
’ہوں معاملہ کافی الجھا ہوا ہے اگر آپ کو کار والے کی شکل یاد آجاتی تو کافی آسانی ہوجاتی اب تو یہی طریقہ ہے کہ اسے تلاش کیا جائے‘
’مگر کیسے؟ شہر میں تو نہ جانے کتنی نیلی کاریں ہوں گی مجھے تو اس کا نمبر بھی پتہ نہیں‘
’کام مشکل ضرور ہے مگر کرنا ہوگا میں شہر میں موجود تمام نیلی کاروں کا ریکارڈ اکٹھا کرتا ہوں شاید ان میں آپ کو کوئی جانا پہچانا نام نظر آجائے‘ انہوں نے کہا پھر فون کا ریسیور اٹھا کر بولے’ اشرف تمہیں ایک کام کرنا ہے شہر میں موجود تمام نیلی کاروں کا ریکارڈ جمع کرو‘

جواد احمد بہت ماہر پائلٹ تھا اسے جہاز سے کرتب دکھانے کا بھی بہت شوق تھا اس یوم دفاع کے موقع پر بھی وہ اس ٹیم میں شامل تھا جن کے جہازوں نے فضا میں کرتب دکھانے تھےآج بھی وہ اسی سلسلے میں اپنے چھوٹے جہاز میں پریکٹس میں مصروف تھا
اس کا جہاز تیر کی طرح سیدھا جاتا پھر ایک دم قلا بازیاں کھاتا ہوا دائیں یا بائیں مڑ جاتا اس وقت وہ ایک سنسان علاقے پر پرواز میں مصروف تھاایک بار اپنے جہاز کا کافی نیچائی پر لا کر جب اس نے پھر اوپر اٹھانا چاہا تو اس کی آنکھوں میں حیرت دوڑ گئیجہاز اوپر نہیں اٹھ رہا تھا پھر ایک دم وہ بائیں جانب کو جھک گیاجواد گھبراگیا اس نے جہاز کو سیدھا کرنے کی کوشش کی مگر یوں لگتا تھا جیسے سارے آلات جام ہوگئے ہوں جہاز اس کے کنٹرول میں نہیں رہا تھا اس کی پیشانی سے پسینہ پھوٹ نکلا اس نے ہر طریقہ آزمالیا مگر جہاز اپنی مرضی سے اڑ رہا تھا
اور پھر اس کی آنکھوں میں خوف دوڑ گیا سامنے پہاڑ تھا اور جہاز بہت نیچی پرواز کر رہا تھا اگر وہ اسے بروقت اوپر نہ اٹھاتا تو وہ یقینا پہاڑ سے ٹکرا جاتا جواد نے لیور پر اپنا سارا زور صرف کردیا مگر جہاز تیزی سے پہاڑ کی طرف بڑھتا رہا اور پھر ایک زوردار دھماکہ ہوا جہاز کے پرخچے اڑ گئے

لمبے قد والا گہری سوچ میں گم کار چلا رہا تھا اس کے دماغ میں خیالات کی ایک بھرمار تھی
’کیا کیا واقعی ایسا ہوچکا ہے؟‘ وہ کپکپا اٹھا’کیا یہ سب محض اتفاقات ہیں؟ نہیں میرا دل نہیں مانتا‘ وہ بڑبڑارہا تھا
پھر جلد ہی اس کی کار ایک کوٹھی کے سامنے رکیدروازے پر پروفیسر ادریس کے نام کی تختی لگی تھی وہ کل رات ہسپتال سے گھر آگئے تھےتاہم آج اپنے دفتر نہیں گئے تھے بلکہ گھر پر آرام کر رہے تھے اسی لیے لمبے قد والا یہاں آیا تھا اس نے کال بیل پر انگلی رکھی تو اندر ڈنگ ڈونگ کی آواز ابھری جلد ہی ملازم نے دروازہ کھولا وہ اسے پہچانتا تھا لہذا ڈرائینگ روم میں لے آیا
قدموں کی آواز ابھری اور پروفیسر ادریس اندر داخل ہوئے
’خیر تو ہے تم صبح ہی صبح یہاں ‘ پروفیسر صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولے
’آپ نے یہ خبر پڑھی پروفیسر‘ لمبے قد والے نے اخبار کا ایک صفحہ ان کے سامنے کردیا پروفیسر نے اخبار اس سے لے لیا اور وہ خبر پڑھنے لگے جس پر لمبے قد والے نے نشان لگا رکھا تھا
’یہ تو کسی جواد احمد کے بارے میں ہے جس کا جہاز کل پہاڑ سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا‘وہ خبر پڑھ کر بولے
’آپ شاید جواد احمد کوبھول گئے ‘لمبے قد والا بولا
’کون ہے یہ؟‘ انہوں نے چونک کر پوچھا
’کچھ عرصہ قبل جب شہاب ثاقب کے گرنے سے شمالی صوبے کے ایک حصے کی زمین زندہ ہوگئی تھی تو اسے مارنے کے لیے زہر کے کیپسول فائر کیے گئے تھے جن تین جہازوں نے اس مشن میں حصہ لیا تھا ان میں سے ایک کا پائلٹ جواد احمد تھا‘ لمبے قد والے نے بتایا
’اوہ ہاں مجھے یاد آگیا تو یہ بے چارہ حادثے میں مارا گیا‘ پروفیسر افسوس سے بولے
’جی ہاں اور ایک دن قبل ہی اس زہر کو بنانے والے ڈاکٹر رفیع بھی حادثے میں مارے جا چکے ہیں مجھے کار کے ذریعے ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی اور آپ کو سیڑھیوں سے دھکا دے کر‘لمبے قد والا سنجیدگی سے بولا
’تم تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘ پروفیسر کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں
’یہی پروفیسر کہ کیا یہ محض ایک اتفاق ہے کہ اس زمین کو مارنے کی مہم میں حصہ لینے والے تمام لوگ ایک ایک کر کے حادثات میں مارے جا رہے ہیں اگر خدانخواستہ آپ مارے جاتے تو اسے بھی حادثہ کہا جاتا مجھے کار ایکسیڈنٹ میں مارنے کی کوشش کی گئی وہ تو آخری لمحات میں کار والے نے غصے میں مجھ پر فائر کر ڈالے ورنہ وہ اسے کار کا حادثہ ہی بنانا چاہتا تھا‘ لمبے قد والا بولا
’مگر یہ سب کون کر رہا ہے؟‘ پروفیسر نے خوفزدہ انداز میں پوچھا
’میں نہیں جانتا مگر نیلی کار والے کا چہرہ مجھے جانا پہچانا لگا تھا یہ جو کوئی بھی ہے ہمارا واقف کار ہے اور اس زمین کی زندگی ختم کرنے والوں کو حادثوں کا شکار بنا رہا ہے‘
’اف خدا! لگتا ہے کہ تم سچ کہ رہے ہو مگر اس زمینی زندگی کے خاتمے سے تو سب خوش تھے پھر یہ کون ہے جو ہم سے اس زمین کا انتقام لے رہا ہے‘
’انتقام ہاں پروفیسر یہ انتقام ہی ہے اور اور میرا خیال ہے کہ‘ لمبے قد والا کہتے کہتے رک گیا
’کہوتم رک کیوں گئے‘ پروفیسر بے چین ہوکر بولے
’میرا خیال ہے پروفیسر کہ وہ زمین پھر زندہ ہوچکی ہے اور وہی ہم سب سے انتقام لے رہی ہے‘ لمبے قد والا بولا اور پروفیسر سناٹے میں آگئے
 
Top