زندہ زمین ۔۔ حصہ اول ۔۔۔( عادل منہاج )

عادل

معطل
وہ جیپ آہستہ روی سے کچی سڑک پر لڑکھڑاتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی یہ ایک غیر آباد میدانی علاقہ تھا تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مٹی کے ٹیلے نظر آرہے تھے جابجا گڑھے تھے جن میں سے بعض خاصے گہرے تھے کچھ فاصلے پر دائیں طرف چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کا سلسلہ تھا یہ پہاڑیاں زیادہ تر مٹی اور پتھروں پر مشتمل تھیں سبزے کا نام و نشان بھی نہ تھا جیپ کا رخ بھی پہاڑیوں ہی کی طرف تھا کچھ دیر مزید لڑکھڑانے اور ڈگمگانے کے بعد جیپ ایک پہاڑی کے دامن سے کچھ فاصلے پر رک گئی پھر جیپ سے چند افراد نیچے اترے یہ تعداد میں پانچ تھےان میں ایک بوڑھا تھااس کے چہرے پر سفید داڑھی بھی تھی مگر جسمانی طور پر چاق و چوبند نظر آتا تھاایک غالبا ڈرائیور تھا جو جیپ کے دروازے سے لگا کھڑا تھاباقی تین درمیانی عمر کے تھےایک کے ہاتھ میں کیمرہ تھا اور ایک کے پاس بیگ تھا
’یہی وہ جگہ ہے جہاں پرسوں رات شہاب ثاقب کے ٹکڑے گرے تھے‘ ایک شخص بولا
’ہاں یہاں کافی تعداد میں پتھر کے ٹکڑے ادھر ادھر نظر تو آرہے ہیںشہاب صاقب زمین کی فضا میں داخل ہونے کے بعد کئی حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا اور اس کے ٹکڑے یکے بعد دیگرے زمین سے ٹکرائے تھے ہمیں اس کے بڑے ٹکڑے تلاش کرنے چاہیےں آؤ آگے چلتے ہیں‘ بوڑھا اور چاروں افراد آگے بڑھے ڈرائیور البتہ وہیں کھڑا رہا
’یہ تو شکر ہے کہ شہاب ثاقب اس غیر آباد جگہ گرا اگر آبادی پر گرا ہوتا تو اچھی خاصی تباہی مچادیتا‘ لمبے قد والا شخص بولا
’ہاں جب یہ خبر شایع ہوئی تھی تو پورے ملک میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا‘ دوسرا بولا
’قدرتی بات ہے مگر شہاب ثاقب زمین سے ٹکرانے سے پہلے ہی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو بالکل راکھ ہوجاتے ہیں اس لیے اتنا نقصان نہیں پہنچاتے‘ بوڑھا بولا
’ارے! وہ دیکھیے پروفیسر اس کھائی میں‘کیمرے والے شخص نے اشارہ کیا سب نے ادھر دیکھا یہ خاصی گہری کھائی تھی اور اس کے بیچوں بیچ ایک بہت بڑا کالا پتھر پڑا تھا
’اوہ! یہ تو شہاب ثاقب کا بہت بڑا ٹکڑا ہے‘
’تم ٹھیک کہتے ہو ندیم ہمیں کھائی میں اتر کر اس کا جائزہ لینا چاہیے‘بوڑھے پروفیسر نے کہا
’اس طرف سے اترنے کا راستہ ہے‘کیمرے والا بولا
’اف!!‘اسی وقت ندیم کے منہ سے نکلااس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا اچانک ہی اس کے جسم سے پسینہ پھوٹ نکلا اور پھر اس کے منہ سے عجیب سی آواز میں نکلا’خبر دار! تم میں سے کوئی اس پتھر کی طرف بڑھنے کی کوشش مت کرنا‘
سب نے حیران ہوکر اس کا جملہ سنا
’یہ یہ تم کیا کہ رہے ہو ندیم؟ اور یہ تمہاری آواز کو کیا ہوا؟‘پروفیسر نے حیرانگی سے کہا
’میں ندیم نہیں بلکہ زمین بول رہی ہوں‘ ندیم نے اسی طرح عجیب سی آواز میں کہا
’زمین بول رہی ہوںکیا مطلب!!‘لمبے قد والے کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا
’ہاں اس علاقے کی زمین کو زندگی مل گئی ہے میں نے اس شخص یعنی ندیم کے دماغ پر قبضہ کرلیا ہے اور اس کی زبان سے درحقیقت میں یعنی زمین بول رہی ہوں‘ ندیم نے کہا
’یہ تم کیا ڈرامہ کر رہے ہوختم کرو یہ مذاق‘ کیمرے والے کو غصہ آگیا
’یہ مذاق نہیں ہے‘ ندیم تیز لہجے میں بولا’میں تم لوگوں کو وارننگ دیتی ہوں کہ اس ایک مربع میل کے علاقے سے دور نکل جاؤ اور یہاں سے شہاب ثاقب کا کوئی ٹکڑا اٹھانے کی کوشش مت کرنا‘
’تمہیں مزہ چکھانا ہی ہوگا‘کیمرے والا غصے میں ندیم کی طرف بڑھا
’خبردار! رک جاؤ ورنہ پچھتاؤ گے‘ ندیم دھاڑا مگر کیمرے والے کے قدم نہ رکے اسی وقت ایک زوردار گڑگڑاہٹ گونجی اور جہاں کیمرے والے کے قدم تھے وہاں سے زمین پھٹ گئی ایک گہری دراڑ نمودار ہوئی اور کیمرے والا دراڑ میں جاگرا اس کے گرتے ہی دراڑ بند ہوگئی اور کیمرے والا سینے تک زمین میں دھنس گیا
’مم مجھے بچاؤ پروفیسر‘کیمرے والا بھیانک آواز میں چلایا
پروفیسر اور لمبے قد والے کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں
’یہ یہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں پروفیسر کیا یہ کوئی خواب ہے؟‘
’خدا کے لیے مجھے یہاں سے نکالو‘ کیمرے والا چلا رہا تھا
’کیوں اب آیا یقینیہ میری پہلی وارننگ تھیلو میں اس بے وقوف شخص کو آزاد کر رہی ہوںفورا یہاں سے ایک میل دور چلے جاؤ ورنہ تم سب کو زندہ دفن کردوں گی‘ندیم نے کہا
ان الفاظ کے ساتھ ہی پھر گڑگڑاہٹ گونجی اور زمین پھٹ گئی کیمرے والا زور سے اچھلا جیسے کسی نادیدہ قوت نے اسے اچھال پھینکا ہودراڑ فورا بند ہوگئی اور کیمرے والا نیچے آگراپھر فورا ہی وہ اٹھا اور چیختا چلاتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا پروفیسر اور لمبے قد والے نے بھی اس کے پیچھے دوڑ لگادی اسی وقت ندیم کو اک جھٹکا سا لگا اس نے حیران ہوکر ان سب کو بھاگتے دیکھا پھر وہ چلایا’ کیا ہوا؟ آپ لوگ کہاں بھاگے جارہے ہیں؟‘ یہ کہ کر وہ بھی ان کے پیچھے دوڑا
جیپ کے ڈرائیور نے حیران ہوکر یہ منظر دیکھا
’خخ خیر تو ہے ؟‘اس کے منہ سے نکلا مگر اس کی بات کا جواب دیے بغیر سب جیپ میں بیٹھ گئے
’فورا واپس چلو‘ پروفیسر بولے
’آخر ہوا کیا ہے؟‘ اس نے پریشان ہوکر پوچھا
’میں نے کہا ہے فورا واپس چلو‘ پروفیسر غصے میں چلائےاور ڈرائیور نے پریشان ہوکر فورا جیپ سٹارٹ کردی اسی وقت ندیم چلایا’آپ لوگ مجھے چھوڑ کر کہاں جارہے ہیں؟‘
اس کے ساتھ ہی ایک دم ندیم اوپر اچھلا اور جیپ کے اندر آگراجیپ بغیر چھت کے تھیکیمرے والے نے بمشکل اسے سنبھالا وہ بے ہوش ہو چکا تھا

پروفیسر ادریس کا تعلق خلائی تحقیق کے ادارے سے تھا چند دن پہلے ادارے کی طرف سے یہ خبر شایع ہوئی تھی کہ ایک شہاب ثاقب کا رخ زمین کی طرف ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ وہ ان کے ملک پر گرے گا یہ خبر پڑھ کر پورے ملک میں خوف و ہراس پھیل گیا تھااگرچہ شہاب ثاقب تو وقتا فوقتا زمین پر گرتے ہی رہتے ہیں مگر جب وہ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہیں تو رگڑ کی وجہ سے جل جاتے ہیں اور راکھ کی صورت میں ممین پر گرتے ہیں اس لیے کوئی نقصان نہیں ہوتا مگر اس شہاب ثاقب کا سائز بہت بڑا تھا اور خطرہ تھا کہ یہ جلنے کے بعد بھی بڑے بڑے ٹکڑوں کی صورت میں گرے گاپھر شکر ہے کہ خطرہ ٹل گیا اور شہاب ثاقب کے ٹکڑے ملک کے شمالی صوبے کے ایک غیر آباد علاقے میں گرے پروفیسر ادریس اور ان کے ساتھی آج انہی ٹکڑوں کا جائزہ لینے یہاں آئے تھے کہ یہ عجیب و غریب واقعہ پیش آیا
قریبی شہر پہنچتے ہی انہوں نے بے ہوش ندیم کو ہسپتال میں داخل کیا اور ٹیلیفون پر ادارے کے چیئرمین کو ساری صورت حال بتائی اس کی حیرت کا کیا پوچھنا اس نے کہا کہ وہ پہلی فلائٹ سے یہاں پہنچ رہا ہے

شام کا وقت تھا بہت سے لوگ اس شہر کے ایک ریسٹ ہاؤس میں جمع تھے ان میں سائنسدان٬ پریس رپورٹر علاقے کا کمشنر اور دوسرے ذمہ دار لوگ تھے
’آپ کا کیا خیال ہے پروفیسر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بے جان زمین زندہ ہوجائے؟‘چیئرمین نے پوچھا
’میرا خیال ہے کہ یہ اس شہاب ثاقب کے گرنے کی وجہ سے ہوا ہے‘ پروفیسر نے کہا
’کیا مطلب!‘ کمشنر کے منہ سے نکلا
’جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ بہت سے شہاب ثاقب کاربن٬ ہائیڈروجن اور دوسرے عناصر پر مشتمل ہوتے ہیں زندگی کے لیے سب سے ضروری چیز کاربن ہےجب کاربن کے ایٹم ایک خاص ترتیب سے جڑ جاتے ہیں تو ایک مرکب امائنو ایسڈ بناتے ہیں جو زندگی کی بنیاد ہے میرے خیال میں شہاب ثاقب کے ٹکرانے سے زمین میں کچھ تبدیلیاں پیدا ہوئیں اور کاربن کے ایٹم اس خاص ترتیب میں آگئے جس سے زمین میں زندگی نمودار ہوگئی‘
’عجیب الجھی ہوئی سی بات ہے مگر سوال یہ ہے کہ زندگی صرف ایک خاص حصے میں ہی کیوں پیدا ہوئیپوری زمین میں کیوں نہ ہوئی؟‘ ایک اخباری رپورٹر بولا
’ابھی میں یقین سے کچھ نہیں کہ سکتا ہوسکتا ہے کہ ابھی جہاں شہاب ثاقب ٹکرایا ہے وہاں کی زمین زندہ ہوگئی ہو اور یہ زندگی آہستہ آہستہ پھیلتی جائے جس طرح چھوٹا سا پودا بڑھ کر بھرپور درخت بن جاتا ہے اسی طرح اس چھوٹے سے علاقے کی زندگی پوری زمین میں بھی پھیل سکتی ہے مگر حتمی بات تو اس علاقے کی مٹی کا تجزیہ کر کے ہی بتائی جاسکتی ہے‘ پروفیسر نے کہا
’اوہ! مگر وہاں سے مٹی کس طرح حاصل کی جائے؟ وہاں تو جو بھی جائے گا زمین اسے اندر دھنسادے گی‘ لمبے قد والا گھبرا کر بولا
’ہاں مگر ہمیں ہر حالت میں وہاں سے مٹی کا نمونہ حاصل کرنا ہے ورنہ آہستہ آہستہ پوری زمین زندہ ہوگئی تو کیا ہوگا؟‘ پروفیسر دور خلاؤں میں گھورتے ہوئے بولے
’اوہ ایک طریقہ ہوسکتا ہے‘ کیمرے والا چونک کر بولا
’وہ کیا!!‘ کئی آوازیں بیک وقت ابھریں
’ہیلی کاپٹر ہمیں ہیلی کاپٹر استعمال کرنا چاہیے‘اس نے جواب دیا

ہیلی کاپٹر کے پر تیزی سے گھوم رہے تھے اور وہ ہواؤں کو چیرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا
’بس روک لو‘ پروفیسر ادریس چلائے’یہاں سے وہ علاقہ شروع ہوجاتا ہے‘
’ہمیں تھوڑا سا آگے بڑھنا چاہیے اور مٹی کا نمونہ ذرا آگے سے لینا چاہیے‘لمبے قد والا بولا
’ہاں مگر زیادہ آگے جانا بھی خطرناک ہوگا نہ جانے یہ زمین کیا کر بیٹھےخیر ذرا سا آگے چلو‘
ہیلی کاپٹر کچھ فاصلہ طے کرکے ہوا میں معلق ہوگیاپھر ایک شخص دروازے سے نکلتا نظر آیا اس کی کمر سے ایک باریک مگر مضبوط تار بندھا تھالمبے قد والا آہستہ آہستہ چرخی گھما رہا تھا اور لٹکا ہوا شخص نیچے ہوتا جارہا تھا یہ ندیم تھا کل رات اسے ہوش آگیا تھا اور ہوش میں آنے کے بعد جب ساری بات اسے بتائی گئی تو اسے قطعا یقین نہ آیا اس کا کہنا تھا کہ اسے بالکل یاد نہیں کہ زمین نے اس کے دماغ پر قبضہ جما کر کیا کچھ کہلوایا تھا
’بس اتنا کافی ہے‘ پروفیسر بولے اور لمبے قد والے نے چرخی گھمانا بند کردیندیم زمین سے ذرا سا اوپر لٹک رہا تھااس کے ایک ہاتھ میں چھوٹی سی کھرپی اور دوسرے میں پلاسٹک کی تھیلی تھیاس نے تیزی سے کھرپی زمین پر چلائی تاکہ ذرا سی مٹی کھود کر تھیلی میں ڈال لے مگر کھرپی جونہی زمین سے لگی پھر باہر نہ نکل سکیندیم نے پوری طاقت لگا کر اسے کھینچنا چاہا مگر زمین نے تو گویا اسے جکڑ لیا تھا
’پروفیسرکھرپی زمین میں پھنس گئی ہےنکل نہیں رہی‘ وہ منہ اوپر کر کے چلایا
’اوہ! تو گویا یہ ہمیں مٹی نکالنے نہیں دے گی‘ ان کی پیشانی پر بل پڑگئے
اسی وقت زوردار گڑگڑاہٹ گونجی سب چونک اٹھے اور ادھر ادھر دیکھا پھر انہیں ایک عجیب منظر نظر آیاسامنے موجود پہاڑی بری طرح لرز رہی تھی پھر ایک دھماکہ ہوا اور کئی چھوٹے بڑے پتھر پہاڑی سے اڑتے ہوئے آئے اور ہیلی کاپٹر سے ٹکراگئےہیلی کاپٹر بری طرح ڈگمگایاکئی پتھر تار سے لٹکے ہوئے ندیم کے جسم پر بھی لگے اس کے منہ سے چیخ نکل گئی
’اف خدا! اس زمین نے تو پہاڑی کو اڑادیا ہےپائلٹ فورا واپس چلو اگر کوئی پتھر ہیلی کاپٹر کے پروں سے ٹکراگیا تو یہ تباہ ہوجائے گا ‘ پروفیر ادریس زور سے چلائےپائلٹ نے بوکھلا کر تیزی سے ہیلی کاپٹر کو موڑا تو لمبے قد والا لڑکھڑاگیا اور اس کا ہاتھ چرخی کے بٹن پر جاپڑا چرخی تیزی سے گھومی اور ندیم دھپ سے زمین پر جاگرا
’چرخی واپس گھماؤ بے وقوف‘ پروفیسر ادریس خوف زدہ انداز میں چلائے مگر انہیں دیر ہوچکی تھی
جونہی ندیم زمین پر گرا ایک گڑگڑاہٹ کے ساتھ زمین پھٹ گئی اور ندیم نمودار ہونے والی گہری دراڑ میں جا گرا فورا ہی دراڑ بند ہوگئی ندیم زمین میں زندہ دفن ہوچکا تھا اس کی کمر سے بندھی تار زمین سے نکلی نظر آرہی تھیادھر پائلٹ جو ہیلی کاپٹر کو اوپر اٹھارہا تھا اسے ایک زوردار جھٹکا لگا کیوں کہ چرخی پوری گھوم چکی تھی اور اس کا ایک سرا زمین میں دفن تھا
’یہ یہ کیا ہوا پرفیسر؟‘ لمبے قد والا بھرائی ہوئی آواز میں بولا
اسی وقت گڑگڑاہٹ پھر گونجی اور ایک بار پھر کئی پتھر پہاڑی سے اڑتے ہوئے ادھر آئے
’فورا تار کاٹ دو‘ پروفیسر چلائے
’مم مگر ندیم‘لمبے قد والے کے الفاظ درمیان میں ہی رہ گئے اور کئی پتھر زوردار انداز میں ہیلی کاپٹر ے ٹکرائے
’دیر مت کروتار کاٹ دوندیم اب ہم سے بچھڑ چکا ہے اگر ہم نے اور دیر کی تو ہمارا بھی یہی انجام ہوگا‘
اور لمبے قد والے نے ایک تیز دھار والے پلاس سے تار کاٹ دیتار لہراتی ہوئی نیچے جاگری اس کے ساتھ ہی پائلٹ نے تیزی سے ہیلی کاپٹر کو آگے بڑھایا اور اس کی رفتار بڑھاتا چلاگیا

وہ سب مغموم انداز میں ریسٹ ہاؤس کے ایک کمرے میں بیٹھے تھے
’یہ زمین تو بہت خطرناک ہوتی جارہی ہے اگر بقول پروفیسر ادریس یہ زمینی زندگی بڑھنا شروع ہوگئی اور اس کا اثر آبادی والے علاقوں تک پھیل گیا تو ‘چیئرمین کہتے کہتے رک گیا
’واقعی یہ بات خطرناک ہوگی ہمیں اس سے پہلے ہی کسی طرح زمین میں موجود زندگی کو ختم کرنا ہوگا‘
’ختم تو جب کریں گے جب ہمیں یہ پتہ چل جائے کہ یہ زندگی ہے کس قسم کی؟اور اس کے لیے مٹی کا معائنہ ضروری ہے ایک بار ہم اس جگہ کی مٹی کا تجزیہ کرلیں کہ اس میں زندگی کس طرح نمودار ہوئی اور اس کی ہیئت ترکیبی کیا ہے تو پھر ہی اس کا کوئی توڑ کیا جاسکتا ہے‘ ایک غیر ملکی سائنسدان بولا
آج صبح اخباروں میں اس واقعے کی اشاعت کے بعد پوری دنیا کے سائنسدان اس طرف متوجہ ہوگئے تھے اور بہت سے تو یہاں پہنچ بھی گئے تھے
’ایک طریقہ میرے ذہن میں آرہا ہے‘ایک اور غیر ملکی بولا
’وہ کیا؟‘ پروفیسر نے بے چین ہوکر پوچھا
’یہ بات تو ظاہر ہے کہ ہم اس زمین پر قدم نہیں رکھ سکتے اور نہ اسے کھود سکتے ہیںکیوں نہ اس پر بم برسائے جائیں اس طرح گرد و غبار کا ایک طوفان اٹھے گا اور ہمیں کسی طرح اس گرد کو کسی سلنڈر میں محفوظ کرلینا چاہیے‘
’اوہ! طریقہ تو اچھا ہے مگر اس میں خطرہ بہت ہے آپ سن ہی چکے ہیں کہ اس زمین نے ہیلی کاپٹر پر پتھر برسائے تھے‘
’ہاں مگر رسک لیے بغیر تو کچھ نہیں کیا جاسکتا‘ اس کا جملہ ختم ہوتے ہی کمرہ بری طرح لرزنے لگا جیسے زلزلہ آگیا ہو
’بھاگوزلزلہ آرہا ہے‘ کوئی چلایا
سب تیزی سے اٹھےاسی وقت کمرے کی ایک دیوار اور چھت کا کچھ حصہ دھڑام سے گر پڑاسب افراتفری کے عالم میں باہر دوڑےزمین پر بار بار جھٹکے لگ رہے تھے وہ ایک دوسرے کے اوپر گرتے پڑتے ٬ چیختے چلاتے ریسٹ ہاؤس سے باہر نکلے ان کے نکلتے ہی پورا ریسٹ ہاؤس ایک دھماکے سے زمین بوس ہوگیا وہ سب دھک سے رہ گئے اگر انہیں نکلنے میں ایک سیکنڈ کی دیر ہوجاتی تو وہ بھی اس ملبے تلے دفن ہوچکے ہوتے ابھی وہ اس صدمے سے سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ زور دار گڑگڑاہٹ کے ساتھ سڑک دو حصوں میں تقسیم ہوگئی وہ غیر ملکی جس نے زمین پر بم برسانے کی تجویز پیش کی تھی وہ دراڑ میں جاگرا
ایک بھیانک چیخ اس کے حلق سے نکلی اور زمین کے دونوں سرے آپس میں مل گئے
’اف میرے خدا یہ زلزلہ نہیں تھا بلکہ وہ زمینی زندگی یہاں تک پہنچ گئی ہے‘ لمبے قد والا حلق پھاڑ کر چلایا اور سب پاگلوں کی طرح بھاگ کھڑے ہوئے
بادلوں کے گرجنے کی سی آواز گونجی اور ریسٹ ہاؤس کے ملبے سے اینٹیں اور پتھر اڑاڑ کر ان لوگوں پر برسنے لگے پتھروں کی بارش سی ہونے لگیبہت سے لوگ شدید زخمی ہوگئے کچھ گر کر تڑپنے لگے مگر اس وقت کسی کو کسی کی پروا نہ تھی سب اندھادھند بھاگے جا رہے تھے نہ جانے وہ کتنی دیر تک بھاگتے رہے آخر بے دم ہوکر گر پڑے
’شش شاید ہم محفوظ جگہ تک پہنچ چکے ہیں یہاں کی زمین زندہ نہیں‘پروفیسر بری طرح ہانپتے ہوئے بولے
’یہ شہر اس غیر آباد علاقے سے چند میل کے فاصلے پر ہے اور وہ ریسٹ ہاؤس شہر کے بالکل سرے پر ہے اس کا مطلب ہے کہ زندگی شہر کے کنارے تک پہنچ چکی ہے اور ایک دو دن میں پورے شہر کی زمین زندہ ہوجائے گی اف میرے خدا ! اس شہر کے لوگ تو سخت خطرے میں ہیں‘
’میرا خیال ہے شہر کو فورا خالی کروالینا چاہیے‘
’ہاں آپ ٹھیک کہتے ہیں میں ابھی حکام سے بات کرتا ہوں‘ کمشنر بولا اور کھڑا ہوگیا

کل تک جو شہر لوگوں سے بھرا پڑا تھاہر طرف چہل پہل تھیوہ آج سنسان نظر آرہا تھاکل سارا دن بار بار ریڈیو اور ٹی وی پر اعلان کیا گیا کہ اس شہر کے لوگ فورا شہر خالی کردیں اور اس علاقے سے دور کسی محفوظ مقام پر چلے جائیں ریسٹ ہاؤس میں پیش آنے والے واقعے کی تفصیل سن کر سب لوگ خوفزدہ ہوگئے اور اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگ نکلےہر کوئی خوفزدہ تھا کہ کہیں زمین اسے بھی نہ نگل لے یا اس کا گھر بھی توڑ پھوڑ نہ ڈالے
پورے ملک میں شور مچ چکا تھالوگ مطالبہ کر رہے تھے کہ فورا اس فتنے کا سدباب کیا جائے ورنہ تو آہستہ آہستہ یہ زمینی زندگی پورے ملک میں پھیل جائے گی اور پھر دوسرے ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آجائیں گےکئی ملکوں کے سائنسدان پہلے ہی یہاں پہنچ چکے تھے مگر وہ اس وقت تک کچھ نہیں کرسکتے تھے جب تک اس زندہ زمین سے تھوڑی سی مٹی نکال کر اس کا تجزیہ نہ کر لیا جائے اور آج پھر ایک ہیلی کاپٹر اسی مقصد کے لیے اس پراسرار علاقے کی طرف محو پرواز تھا
’ہیلی کاپٹر روک لیں یہی وہ پراسرار زمین ہے جہاں شہاب ثاقب گرا تھا اور جہاں سب سے پہلے زندگی نمودار ہوئی‘ لمبے قد والا بولا ہیلی کاپٹر فضا میں رک گیا
’ہوں ٹھیک ہے تو پھر سب تیار ہوجائیں‘ پائلٹ بولافوجیوں نے شیشے کے سلنڈر ہاتھوں میں لے لیے اور چہروں پر ہیلمٹ چڑھالیے
’ایک دو تین‘ پائلٹ بولا اور اس کے ساتھ ہی ہیلی کاپٹر نے ایک جھٹکے سے نیچے کی طرف غوطہ لگایا ہیلی کاپٹر سے کئی طاقتور بم تیر کی طرح نکلے اور زمین پر جاگرے ایک زبردست دھماکہ ہوا اور جس جگہ بم پھٹے وہاں سے گرد کا ایک بگولہ سا اٹھا اور سانپ کی چھتری نما گرد و غبار کا یہ بگولہ بلند ہونے لگاہیلی کاپٹر کمان سے نکلے تیر کی طرح اس بگولے میں جا گھسا فوجیوں نے سلنڈر کھڑکیوں سے باہر نکالے اور مٹی ٬ دھول اور گرد دھڑا دھڑ سلنڈروں میں گھسنے لگی پورا ہیلی کاپٹر بھی گرد آلود ہوگیابس چند سیکنڈ میں سب کچھ ہوگیا اور ہیلی کاپٹر دوبارہ تیزی سے فضا میں بلند ہوتا چلا گیا
اسی وقت گڑگڑاہٹ کی زوردار آواز گونجی اور پہاڑی پھر لرزنے لگی اور ایک دھماکے سے پھٹیچھوٹے بڑے بے شمار پتھر اچھلے مگر ہیلی کاپٹر اب بہت اونچائی پر پہنچ چکا تھاوہ تیزی سے اس علاقے سے دور ہوتا جا رہا تھاکوئی بھی پتھر اسے نہ لگ سکاوہ اپنا مشن پورا کر کے صاف بچ نکلا تھا
پھر گویا اس علاقے میں زلزلہ سا آگیا زمین اوپر نیچے ہونے لگیاس علاقے سے ملحقہ شہر بری طری لرزنے لگا شہر کی ساری عمارتیں کانپ رہی تھیںجیسے انہیں جاڑے کے بخار نے آلیا ہواور پھر عمارتیں دھڑادھڑ گرنے لگیںشہر ملبے کا ڈھیر بنتا چلا گیازمین غصے میں عمارتوں کے گرنے والے ملبے کو اچھال رہی تھی اینٹیں٬ پتھر٬کھڑکیاں٬دروازے اچھل اچھل کر اوپر جاتے اور پھر بارش کی صورت میں واپس نیچے آگرتے انسان کی کامیابی پر زمین کو بے حد غصہ آگیا تھا وہ تو شکر تھا کہ لوگ شہر خالی کر کے پہلے ہی جاچکے تھے ورنہ آج قیامت کا دن ہوتا

پراسرار زمین سے بہت دور ایک شہر میں ایک اہم میٹنگ ہورہی تھیمیٹنگ میں ملک کے اعلی عہدیدار ٬ سائنسدان ٬ ڈاکٹر اور دوسرے لوگ شریک تھےاس علاقے سے حاصل کی جانے والی مٹی کا تجزیہ ملک اور دنیا بھر سے آئے ہوئے بہترین ڈاکٹروں نے کیا تھا اور اب ڈاکٹر رفیع اس کی تفصیل بتا رہے تھے
’جیسا کہ آپ لوگوں کو پتہ ہے کہ کاربن کے ایٹموں کا ایک خاص ترتیب میں جڑجانا زندگی کا باعث ہوتا ہےکاربن کے ایٹموں کے مختلف انداز میں جڑنے سے مختلف قسم کی زندگی نمودار ہوتی ہے مثلا انسان کے خلیے میں کاربن کے ایٹموں کی ترتیب مختلف ہے اور درخت یا پودے کے خلیے میں یہ ترتیب دوسری طرح ہوتی ہے اس بار جب شہاب ثاقب زمین سے ٹکرایا تو زمین میں کیمیائی تبدیلیاں آگئیں اور اس علاقے کی زمین میں کاربن کے ایٹم ایک بالکل نئی ترتیب میں آگئے اور یوں زمین میں ایک نئی قسم کی زندگی نمودار ہوگئیزندگی کی یہ قسم ہمارے لیے بالکل نئی ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ زمین زندہ ہوچکی ہے‘
’اور یہ زمینی زندگی پھیلتی بھی تو جارہی ہے‘ پروفیسر ادریس بولے
’اوہ ! یہ تو بہت خطرناک بات ہے کیا کسی طرح اس زندگی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا؟‘ایک عہدیدار نے پریشان ہوکر پوچھا
’ہوسکتا ہے بالکل اسی طرح جیسے انسانی زندگی کا خاتمہ ہوسکتا ہے‘ ڈاکٹر رفیع بولے
’یعنی؟‘ ایک غیر ملکی نے سوالیہ انداز میں کہا
’اگر انسان کو زہر دیا جائے تو وہ مر جاتا ہے اسی طرح زمین کو بھی زہر دینا ہوگا ایسا زہر جو کاربن کے ایٹموں کی ترتیب توڑ دے اور زمین مرجائےہم ایک ایسا زہر تیار کریں گے جو اس زندگی کا خاتمہ کردے‘ ڈاکٹر رفیع نے کہا
’لیکن زمین کو زہر کس طرح دیا جائے گا؟‘ کسی نے سوال کیا
’سیدھی سی بات ہے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس پورے علاقے پر زہر کا چھڑکاؤ کردیا جائے گا‘

ٹھیک تین دن بعد ایک ہیلی کاپٹر اس زندہ زمین کے علاقے پر پرواز کر رہا تھا ان تین دنوں میں ڈاکٹر ایسا زہر تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے جو اس زمینی زندگی کا خاتمہ کرسکے ملبے کا ڈھیر بنے ہوئے شہر پر سے ہوتا ہوا وہ میدانی علاقے پر پہنچ گیا پھر وہ ذرا سا نیچے ہوا اور اس نے زمین پر چھڑکاؤ کرنا شروع کردیاہیلی کاپٹر کے نچلے حصے سے ایک پھوار کی صورت میں زہر زمین پر برس رہا تھا پھر اچانک ہیلی کاپٹر مزید نیچے ہوگیاہیلی کاپٹر میں بیٹھا فضائیہ کا ایک پائلٹ گھبراگیا اس نے ہیلی کاپٹر کو اوپر اٹھانا چاہا مگر ناکام رہا اس نے پریشان ہوکر کنٹرول روم سے رابطہ کیا
’ہیلو سر ہیلی کاپٹر میرے کنٹرول میں نہیں رہا یہ زمین کی طرف کھنچا جا رہا ہے‘
’ہیلی کاپٹر اوپر اٹھانے کی کوشش کرو شاباش ہمت کرو گھبراؤ مت‘ دوسری طرف سے کہا گیا
’نن نہیں یہ مسلسل نیچے جارہا ہے‘ پائلٹ چلایااس نے اپنی پوری قوت صرف کردی اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے کوئی نادیدہ قوت ہیلی کاپٹر کو نیچے کھینچ رہی ہے اور پھر ہیلی کاپٹر تیر کی طرح نیچے جاگرا اور ایک دھماکے سے پھٹ گیا پائلٹ نے اس کے گرنے سے پہلے ہی چھلانگ لگادی تھی مگر زمین پر گرتے ہی اسے بادلوں کے گرنے کی آواز آئی اس نے چونک کر دیکھا سامنے موجود ٹوٹی پھوٹی پہاڑی کانپ رہی تھی پھر زلزلہ سا آگیا اور پہاڑی سے کئی پتھر اچھلے اور پائلٹ کی طرف آئے پائلٹ خوفزدہ انداز میں دوڑا اسی وقت ایک گڑگڑاہٹ کے ساتھ زمین پھٹ گئی اور پائلٹ دوڑتا ہوا دراڑ میں جاگرا دراڑ فورا ہی بند ہوگئی زمین اپنے تیسرے شکار کو ہڑپ کر چکی تھی

’یہ یہ سب کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟‘فضائیہ کے سربراہ حیرت سے پوچھ رہے تھے
’میں خود حیران ہوں میرا خیال ہے کہ اس علاقے کی زمین کی کشش ثقل کی قوت بہت بڑھ گئی ہے اور زمین نے کشش ثقل کی قوت کے ذریعے ہیلی کاپٹر کو نیچے کھینچ لیا‘پروفیسر ادریس بولے
’اوہ! پھر اب کیا ہوگا؟ اس طرح تو اس زمین پر فضائی راستے سے بھی کوئی کاروائی کرنا ناممکن ہوگیا ہے‘ ایک فوجی عہدیدار پریشان ہوکر بولے
’میرا خیال ہے کہ وہ ہیلی کاپٹر کچھ نیچی پرواز کررہا تھا اسی لیے زمین اسے کھینچنے میں کامیاب ہوگئی ہمیں ایک بار پھر کاروائی کرنا چاہیے اور اس بار جہازوں کو استعمال کرنا چاہیے جہاز ایک تو خاصی اونچی پرواز کریں گے دوسرے ان کی رفتار تیز ہوگی لہذا زمین انہیں کشش ثقل کے ذریعے نہیں کھینچ سکے گی‘ پروفیسر ادریس نے کہا
’لیکن اتنی اونچائی اور تیز رفتار پروازوں کے ذریعے تو زہر کا اسپرے صحیح طرح نہیں ہوسکتا‘ایک صاحب نے اعتراض کیا
’ہاں بات تو ٹھیک ہے‘ پروفیسر ادریس نے سر ہلایا
’میری ایک تجویز ہے کہ زہر اسپرے کرنے کی بجائے کیوں نہ زہر کے کیپسول بنائے جائیں اور انہیں خولوں میں بند کر کے گولیوں کی طرح زمین پر برسایا جائے اس طرح کیپسول زمین میں دھنس کر پھٹ جائیں گے اور زہر زمین میں مل جائے گا‘ ڈاکٹر رفیع نے کہا

اس بار بیک وقت تین طیارے اس علاقے پر حملہ آور ہوئے اور زندہ زمین پر پہنچتے ہی انہوں نے فائرنگ شروع کردی تڑاتڑ گولیاں برسنے لگیں ان گولیوں میں زہریلے کیپسول تھے جو زمین میں دھنس کر پھٹ جاتےاس وقت جہاز تباہ شدہ شہر پر گولیاں برسارہے تھے ایک دم شہر زلزلے کی مد میں آگیا اور ایک بار پھر عمارتوں کا گرا ہوا ملبہ ٬ اینٹیں اور پتھر اوپر اچھلنے لگےزمین ان جہازوں کو نشانہ بنانا چاہتی تھی مگر جہاز خاصی اونچائی پر تھے لہذا پتھر وہاں تک نہ پہنچ سکے اور اچھل اچھل کر واپس آگرتےادھر جہاز گولیاں برساتے ہوئے آگے نکل گئےجہاز تیزی سے نیچے کو آتے تڑاتڑ فائرنگ کرتے اور اگلے ہی لمحے پھر اوپر اٹھ جاتےلہذا زمین ان پر کشش ثقل کی قوت لگانے میں ناکام رہی فائرنگ کرتے ہوئے وہ غیر آباد میدانی علاقے اور پہاڑی علاقے پر آگئے زمین ایک بار پھر پہاڑی سے پتھر اچھالنے لگی مگر اس بار اسے اپنے ہر وار میں ناکامی ہورہی تھیجہاز بڑی کامیابی سے فائرنگ کرتے ہوئے دور نکل جاتےپھر مڑ کر واپس آتے اور فائرنگ کرتے ہوئے دوسری طرف نکل جاتے فائرنگ کا یہ کھیل کئی گھنٹے تک جاری رہا ارد گرد کے تمام علاقے پر گولیاں برسائی گئیں اور بے تحاشہ برسائی گئیں یہاں تک کہ ساری گولیاں ختم ہوگئیںجہاز اپنا مشن مکمل کر کے واپس لوٹ گئے

’اب یہ کیسے پتہ چلے کہ زمین زندہ ہے یا مرچکی ہے‘لمبے قد والا بولا
وہ پروفیسر ادریس اور چند دوسرے لوگ اس وقت ہیلی کاپٹر میں بیٹھے تھے اور ہیلی کاپٹر اس پراسرار زمین سے کافی بلندی پر فضا میں معلق تھا
’یہ تو مٹی کا دوبارہ تجزیہ کر کے ہی بتایا جاسکتا ہے‘ پروفیسر ادریس بولے
’میرا خیال ہے کہ میں مٹی کھودنے کی کوشش کرتا ہوں‘ لمبے قد والا بولا
’مگر اس میں تو خطرہ ہے ہوسکتا ہے کہ زمین ابھی زندہ ہو‘
’رسک تو لینا پڑے گا‘
پھر لمبے قد والے کی کمر سے تار باندھی گئی اور اسے ہیلی کاپٹر سے نیچے لٹکایا گیا چرخی گھمائی جانے لگی اور وہ آہستہ آہستہ نیچے ہونے لگا
زمین کے کافی قریب پہنچ کر اس نے اشارہ کیا اور چرخی گھومنا رک گئیاس نے ڈرتے ڈرتے کھرپی زمین پر چلائی جب ندیم نے ایسا کیا تھا تو زمین نے کھرپی جکڑ لی تھی اور وہ واپس نہ نکل سکی تھیمگر اس بار ایسا نہ ہوا اور لمبے قد والے نے آسانی سے ذرا سی مٹی کھود کر تھیلی میں ڈال لی اب اسے واپس اوپر کھینچا گیا اور وہ ہیلی کاپٹر میں پہنچ گیا
’مبارک ہو میں مٹی لانے میں کامیاب ہوگیا ہوں اس کا مطلب ہے کہ زمین واقعی مر چکی ہے ورنہ وہ اتنی آسانی سے مٹی نہ لینے دیتی‘ لمبے قد والا خوش ہوکر بولا
آخر وہ واپس ہوئے اور مٹی ڈاکٹر رفیع کے حوالے کی گئی انہوں نے مٹی کا تجزیہ کرنے کے بعد بتایا کہ اس میں کسی قسم کی زندگی کے آثار نہیں ہیں زمین واقعی مر چکی ہے
یہ سن کر سب میں خوشی کی لہر دوڑ گئی
یہاں سب خوش ہورہے تھے اور وہاں اس پراسرار علاقے میں اس گہرے گڑھے میں گرا ہوا شہاب ثاقب کا ٹکڑا آہستہ آہستہ تھرتھرا رہا تھااور سوچ رہاتھا کہ انسان نے مجھے ختم کرنے کی پوری کوشش کرڈالی مگر شکر ہے کہ میری طرف ان کا دھیان نہیں گیااب میں اس گڑھے سے اپنی زندگی کا دوبارہ آغاز کروں گا اور انسانوں سے اپنی بربادی کا انتقام لوں گامگر مجھے انتظار کرنا ہوگا اس وقت تک جب تک کہ میں اچھے خاصے علاقے کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لوں اور اپنی طاقت نہ بڑھالوںوہ وقت اب دور نہیں جب ساری دنیا کے انسان میرے غلام ہوں گے
 
Top