زلف تراش سے سبزی خریدنا

یوسف-2

محفلین
p11_06.jpg
 

فلک شیر

محفلین
یوسف-2 بھائی....یہ حافظ یوسف سراج صاحب کس اخبار میں لکھنے لگے؟؟
پہلے تو ایک معروف دینی جماعت کے ہفت روزہ آرگن میں لکھتے تھے.....اچھا لکھتے ہیں.....
خوب صورت شئیرنگ.....
 

یوسف-2

محفلین
یوسف-2 بھائی....یہ حافظ یوسف سراج صاحب کس اخبار میں لکھنے لگے؟؟
پہلے تو ایک معروف دینی جماعت کے ہفت روزہ آرگن میں لکھتے تھے.....اچھا لکھتے ہیں.....
خوب صورت شئیرنگ.....
روزنامہ نئی بات میں کالم لکھتے ہیں اور کیا خوب لکھتے ہیں۔ شکریہ
 

یوسف-2

محفلین
یوسف بھائی کیا بات ہے، آجکل تصویری مراسلوں پر زور دے رکھا ہے۔
سوری سر جی! بس دھیان نہیں رہا۔ آئندہ خیال رکھوں گا۔ اگر ممکن ہو تو اوپر کے تصویری مراسلہ کو ذیل کے یونی کوڈ سے بدل دیجئے۔ پیشگی شکریہ

ترا زلف تراش سے سبزی خریدنا
صبح تڑکے جاگ اٹھنا بھی قیامت ہے ۔ہوا یہ کہ قسمت مارا میں صبح ہی صبح بیدار ہوگیا، سوچا چائے پی جائے۔ فریج نے دودھ نہ دیا اور گوالے کے آنے میں دیر تھی سو سیدھاچھیدے سبزی والے کی دکان سے دودھ لینے جاپہنچا، جو بند پڑی تھی، سوچا فرصت ہے تو کیوں نہ بال ہی بنوا لیے جائیں مگر پھرناکامی ہوئی کہ نگوڑے بشیر دودھ فروش کی بنددکان بھی گاہکوں کا منہ چڑا رہی تھی۔ ان دو ہی ذہنی جھٹکوں سے منہ کچھ ٹیڑھا ہوامگر یہ بہت مہنگا پڑا،کہ بائیں داڑھ کا درد جاگ اٹھا، بڑے دنوں سے اس نے بھی بے حال کر رکھا ہے سوچاچلو اسی کا کچھ معالجہ کروا لیا جائے، گلی کی نکڑ کی طرف بڑھے تاکہ ’نانبائی‘ سے کچھ مرمت دنداں کرالی جائے، مگر وہ حضرت بھی غائب، مزید غصہ یہ دیکھ کر آیا کہ ساتھ میں ’العلاج ڈینٹل ہسپتال‘ کا باوردی عملہ اور دانتوں کے سپیشلسٹ کئی ڈاکٹر کسی مریض کی تلاش میں للچائی ہوئی نظروں سے شفاف شیشے کے پار تک رہے تھے ۔ ناچار صبر و شکر کر کے لوٹ آئے۔
یہاں تک پہنچ کرمحسوس ہوتاہے کہ آپ یا تو مجھ پر ہنس رہے ہیںیا میرے اس ’عاقلانہ پن‘ پر ہنسنے کی تیاری کر چکے ہیں۔ اگر چہ میں اپنی پردے میں پڑی حماقتوں کے ذریعے بھی اس کارِخیرمیں آپ کی مدد کر سکتا ہوں مگرکم ازکم آج میں ایسا نہ ہونے دوں گا۔ہو سکتا ہے آپ میری طرح چائے خانے سے سبزی، شِیر فروش سے جوتے، زلف تراش سے علاجِ دنداں، پھل فروش سے میڈیسن اورکپڑے کی دکان سے خربوزے نہ خریدتے ہوں، کہ اس سپیشلائزیشن کے عہدمیں پروفیشنل اور سپیشلسٹ کے سواکسی پرکوئی اعتماد نہیں کرتا، مگر اس عہدِ لکلِ فنِ رجال (ہر فن کے لیے مخصوص لوگ ہوتے ہیں) میں بھی، میں دیکھتا ہوں کہ ہم دین کے بارے ٹھیک ایسے ہی نابالغ رویے کا شکار ہیں، سادہ لوحوں کو چھوڑئیے اچھے بھلوں کا حال بھی مختلف نہیں،بڑی حد تک میڈیائی جبہ و دستار ہی ہمارا دینی حاجت روا اور مشکل کشا بن گیاہے۔ اسی میڈیا پر وہ کہ جن کو اکبر الہ آبادی سے سبق سیکھ کر اپنی عقلوں سے پردہ اتارنا چاہئے تھا وہ خواتین کا پردہ اٹھوانے چلے ہیں۔ وہ کبھی بنتِ انگور کے فضائل کے لیے بھی وقت نکالتے ہیں،بقول ان کے کہ اپنے سوابھلا یہ شرابی کسی کو کیا نقصان پہنچاتے ہیں،میڈیا کی آڑ میں کیا کیاگل کھلائے جاتے ہیں ؟
اس موقع پر مجھے ایک دینی پروگرام کے صاحبِ لیاقت میزبان یاد آگئے۔ رمضان میں وہ ایک معروف ٹی وی چینل پر بڑے پرسوزلہجے اور رقت انگیز لفظوں سے ہمارا جذبۂ ایمان گرماتے رہے۔ پھر ان کے اخبار نے بتایا کہ نیویارک ٹائمز نے انھیں رمضان المبارک میں ایشیا کا مقبول ترین میزبان قرار دیا ہے۔ دل خوش ہو گیا یہ جان کر کہ اس عہدِ بے مروت میں اگر کوئی دین کے نام پر اتنی توجہ حاصل کر لے تو یقیناًدین پسندوں پر سجدۂ شکر واجب ہوتا ہے۔ پھر انہی کے بارے یہ خبر چھپی کہ امامِ کعبہ نے خصوصی مراسلے کے ذریعے دعا کرنے کی التجاکی ہے۔ بات اگرچہ معناً بعید از قیاس نہیں،درست ہے کہ کوئی افضل شخص بھی کسی کم درجے والے سے دعا کروا سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مسافر ہوتے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا، یا اخی لا تنسانافا فی دعاء ک’’ اپنی دعاؤں میں ہمیں فراموش نہ کرنا‘‘ مگر کچھ واقعاتی شہادتیں، عصری شعور اور شخصیات کی نفسیات بھی آپ کوبہت کچھ سمجھاجاتی ہیں ۔سو پڑھتے ہی چونک اٹھا،تحقیق کی جستجو ہوئی لیکن زیادہ دقت نہ اٹھانا پڑی، خبر کی تفصیل ہی سے ماہرانہ Angling اور چابکدستی سے تراشا گیا مفہوم سب اصلیت کہہ گیا۔ بات صرف اتنی تھی کہ حال ہی میں امام کعبہ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس حرمین کمیٹی کے سربراہ بنے ہیں ، رسمِ دنیا تھی ، موقع بھی تھا اور دستور بھی ،چنانچہ ہمارے اس ہونہار اینکر نے مبارکباد کا خط لکھ ڈالا، امام صاحب نے شکریہ کی رسید دی، جس کے آخر میں رسماً محتاجِ دعا، یا طالب الدعوات کے الفاظ عموماً درج ہوتے ہیں۔ یہی الفاظ امام موصوف کوبہت مہنگے پڑے ۔اتنے کہ امام صاحب سستے ہو گئے ۔ شاید یہ سارا کچھ امام صاحب کا مقدس نام اخبار میں چھاپنے کی نیتِ ثواب سے کیا گیا ہو۔ اس کا دھوکے ،دجل اور شہرت طلبی سے کیا تعلق؟ بیچارے امام صاحب کو پتا چلے کہ ان کے کریمانہ اخلاق کو پاکستانی محبوں نے کس طرح سرِ بازار نشیب میں لاکھڑا کیا ہے تو کیا عجب وہ آئندہ خط کا جواب نہ دینے سے ہی گھبرا اٹھیں۔
میڈیاکی اپنی مجبوریاں ہیں ۔ وہ سکالر زجو میڈیا کے ہاں اس لیے روا ہیں کہ وہ ایسی زبان میں گفتگو کر سکتے ہیں جو عوام کی بھی سمجھ میں آ جائے ادھر زیادہ تر ثقہ علماء ایسی زبان بولتے ہیں، موٹی اصطلاحات سے سابقہ پڑتا ہے۔ اسی کمزوری سے فائدہ اٹھا کے ایسے ایسے لوگ ہمیں دین سکھانے آجاتے ہیں کہ اگر انھیں آپ قرآنِ مجید یا حدیثِ رسول کی کتاب تھما دیں تو وہ آپ کو متعلقہ آیت یا حدیث تک نکال کے نہ دے سکیں،کوئی اورڈھونڈ دے تو درست تلفظ تک نہ پڑھ سکیں، اہلیت کچھ ایسی ہی ہوتی ہے ،لیکن چونکہ میڈیا کی چمکتی سکرین پر کچھ وقت میسر آجاتاہے سو علامہ کہلانے میں کیا حرج ہے؟
ایک بہت منافع بخش یا شاید گھاٹا بخش ٹی وی پر کاروبارِاستخارہ بھی ہے۔ آپ کال ملاتے ہیں اور ادھر ٹی وی پر جبہ و دستار کے گیٹ اپ میں ایک شخص فوراً استخارہ و اشارہ کے ذریعے آپ کوبتا تا ہے کہ فلاں کام آپ کو کرنا چاہیے یا نہیں؟زلف تراش سے سبزی خریدتا مجھ ایسا ناخواندہ یہاں چلا اٹھتا ہے ، یا خدا! یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں کہ یہاں سلطانی ہی نہیں درویشی بھی نری عیاری ہوگئی۔
سبھی مسالک کے ممتاز و مستند علماء سے جاپوچھئے کیا ایسے استخارے کا دین سے کوئی دور کا بھی رشتہ و پیوند ہے؟ استخارہ اللہ سے مشورہ طلب کرناہے اور اگر اللہ تھوڑا سا وقت اور توفیق عنایت کر دے تو استخارہ کی دعا کا ترجمہ دیکھنا چاہئے ، بخداصاحب ذوق جھوم اٹھتا ہے ، اس سے بہتر اس معاملے میں کوئی اور رہنمائی نہیں ہو سکتی، کیا خود سپردگی ہے رب کے حضور، اور کیا عاجزی اور بندگی ہے اس دعا میں۔ جس میں بندے کا یہ اعتراف ہے کہ بندہ خود اپنا اتنا فائدہ نہیں کر سکتا جتنا پروردگار اس کا کر سکتا ہے،کہ وہ سب جانتا ہے اور بندہ کچھ نہیں، سو اے اللہ فلاں کام اگر بندے کی دنیا و دین اور عاقبت کے لیے بہتر ہو تو رکاوٹیں ہٹا اورآسانیاں لٹا دیجیے اور اگر ان تینوں میں سے کسی ایک کے لیے بھی نقصان کا اندیشہ ہو تو اسے عطا کیا کرنالوحِ حافظہ ہی سے مٹا دیجیے ، بشیر بدر کو گوارا کیجئے
ہمیں ایسی دنیا نہیں چاہیے
جہاں سے مدینہ دکھائی نہ دے
مدینہ شریعت کا سمبل ہے اور رب تک پہنچنے کا راستہ، سو اگر یہی محبوب آستاں چھٹے تو خواہش ہی کیا، جس دل میں ایسی خواہش آئے وہ بھی مٹے تواہلِ ایماں کو پروا نہیں۔ رسول اللہ ﷺ دو رکعتیں پڑھ کے یہ دعا پڑھتے، پھر جدھر اللہ دل و دماغ لگا دے بندہ خوش دلی سے طبیعت کو راہ دیتا جائے۔
یہ تھا استخارہ جو اب ٹی وی پر دس ہزار سے پچاس ہزار تک بٹورنے کے کام آتا ہے۔ بارش میں کپڑے سکھانے اور کیکر سے انگور کے گچھے زخمانے والے مجھ نادان کو تو خیر ذرا خود کو ہدفِ استہزابننے سے بچانا تھامگرکیا میڈیا نہیں جانتا کہ ایسے لوگوں کو بطور عالمِ دین متعارف کروانے سے دینِ اسلام کیا دینِ عیسوی کو بھی کوئی فائدہ پہنچنے کااحتمال نہیں جواتنے’ قوی‘ ہیں کہ وینا ملک کو ’’میری بہن اللہ نے آپ کو حسن دے رکھا ہے‘‘ کہہ دیتے ہیں اور جب وہ کہتی ہے آپ نے میرا حسنِ نہاں کب دیکھا؟ تو ان کا علم لاجواب یا شاید لذت یاب ہواٹھتا ہے۔ تو صاحب جب تک آپ اپنے دین کو نااہلوں سے پٹواتے رہیں گے مجھے بھی نانبائیوں سے دوائیاں خریدنے دیجیے۔میں یقین دلاتا ہوں میرا دنیاوی نقصان آپ کے دینی نقصان سے کم ہی رہے گا۔
(کالم نویس: حافظ یوسف سراج بحوالہ روزنامہ نئی دنیا، 9 دسمبر 2012 ء)
 

یوسف-2

محفلین
درست فرمایا آپ نے.....اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
آمین ثم آمین۔
ہمارے ہاں ایسے مثبت خیال والے اچھے قلمکاروں کی شدید قلت ہے۔ جو اچھے اور بہترین قلمکار ہیں، وہ مثبت خیال والے نہیں ہیں اور جو مثبت خیال والے ہیں، وہ اچھے قلمکار نہیں۔:)
 
Top