دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

سیما علی

لائبریرین
اب کون سے موسم سے کوئی آس لگائے
برسات میں بھی یاد نہ جب اُن کو ہم آئے
مٹّی کی مہک سانس کی خوشبو میں اُتر کر
بھیگے ہوئے سبزے کی ترائی میں بُلائے
دریا کی طرح موج میں آئی ہُوئی برکھا
زردائی ہُوئی رُت کو ہرا رنگ پلائے
بوندوں کی چھما چھم سے بدن کانپ رہا ہے
اور مست ہوا رقص کی لَے تیز کیے جائے

پروین شاکر

رُت
دیکھو دیکھو آگئی پھربہار کی رت
چھا گئی گلوں پہ نکھار کی رت

بیت گئے بدگمانیوں کے موسم کیسے
دل آنگن میں مہک رہی ہے اعتبار کی رت

آنگن
 
دیکھو دیکھو آگئی پھربہار کی رت
چھا گئی گلوں پہ نکھار کی رت

بیت گئے بدگمانیوں کے موسم کیسے
دل آنگن میں مہک رہی ہے اعتبار کی رت

آنگن
مکاں کی تنگیوں میں وسعتوں کی روشنی آئے
ہٹاؤ بھی ذرا یہ پردہ دیوار آنگن سے
آفتاب اقبال

روشنی
 

سیما علی

لائبریرین
اندھیرا مانگنے آیا تھا روشنی کی بھیک
ہم اپنا گھر نہ جلاتے تو اور کیا کرتے
نذیر بنارسی

بھیک
انقلاب چمن معاذاﷲ
پھول کانٹوں سے مانگتے ہیں بھیک

اے شب غم ترا خیال ہے کیا
سن رہے ہیں کہ ہے سحر نزدیک
باقی صد یقی

شب
غم
 

سیما علی

لائبریرین
ٹپکتے ہیں شب غم دل کے ٹکڑے دیدۂ تر سے
سحر کو کیسے کیسے پھول چنتا ہوں میں بستر سے
جلیل مانک پوری

دیدۂ تر
طوفاں میں تا بہ حد نظر کچھ نہیں بچا
اب دیکھنے کو دیدۂ تر، کچھ نہیں بچا

کچھ خاک تھی سو وقت کی آندھی میں اُڑ گئی
آخر نشان سوز جگر کچھ نہیں بچا
عرفان ستار

سوز جگر
 

صاد الف

محفلین
یہ قطرۂ شبنم نہیں اے سوز جگر آج
ڈوبی ہوئی آئی ہے پسینوں میں سحر آج

وہ آئے عیادت کو تو آئی ہے قضا بھی
مہماں ہوئے اک وقت میں دو دو مرے گھر آج
راج بہادر اوج

قضا
 

سیما علی

لائبریرین
یہ قطرۂ شبنم نہیں اے سوز جگر آج
ڈوبی ہوئی آئی ہے پسینوں میں سحر آج

وہ آئے عیادت کو تو آئی ہے قضا بھی
مہماں ہوئے اک وقت میں دو دو مرے گھر آج
راج بہادر اوج

قضا
کیا کہیے کہ اب اس کی صدا تک نہیں آتی
اُونچی ہوں فصیلیں تو ہَوا تک نہیں آتی

شاید ہی کوئی آسکے اس موڑ سے آگے
اس موڑ سے آگے تو قضا تک نہیں آتی
شیکب جلالی

موڑ
 
کیا کہیے کہ اب اس کی صدا تک نہیں آتی
اُونچی ہوں فصیلیں تو ہَوا تک نہیں آتی

شاید ہی کوئی آسکے اس موڑ سے آگے
اس موڑ سے آگے تو قضا تک نہیں آتی
شیکب جلالی

موڑ
ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا کرو
بشیر بدر

بھولنے ،بھولنا
 

سیما علی

لائبریرین
ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا کرو
بشیر بدر

بھولنے ،بھولنا
منصور ہمیں بھولنا ممکن ہی نہیں ہے
ہم زخم میں اترے ہوئے خنجر کی طرح ہیں
منصور آفاق

زخم​

 

سیما علی

لائبریرین
منصور ہمیں بھولنا ممکن ہی نہیں ہے
ہم زخم میں اترے ہوئے خنجر کی طرح ہیں
منصور آفاق

زخم​

زخم دل ہم دکھا نہیں سکتے
دل کسی کا دکھا نہیں سکتے

وہ یہاں تک جو آ نہیں سکتے
کیا مجھے بھی بلا نہیں سکتے
آسی غازی پوری

دکھا
 

سیما علی

لائبریرین
وفا کریں گے نبھائیں گے بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا

داغ دہلوی

کلام

بے زباں ہم کلام ہوتے ہیں
خامشی میں پیام ہوتے ہیں

راز داں مل کے لوٹ لیتے ہیں
اجنبیوں کے نام ہوتے ہیں
شیکب جلالی
راز داں
 
بے زباں ہم کلام ہوتے ہیں
خامشی میں پیام ہوتے ہیں

راز داں مل کے لوٹ لیتے ہیں
اجنبیوں کے نام ہوتے ہیں
شیکب جلالی
راز داں
بے زباں ہم کلام ہوتے ہیں
خامشی میں پیام ہوتے ہیں

راز داں مل کے لوٹ لیتے ہیں
اجنبیوں کے نام ہوتے ہیں
ہم سخن کوئی نہیں ہے رازداں کوئی نہیں
ہو شریک آگہی جو وہ یہاں کوئی نہیں
دل کسے تو ڈھونڈتا وقت کی پرچھائی میں
ساعتیں نوحہ کناں ہیں رفتگاں کوئی نہیں
ساعتیں ،ساعت
 
روشنی دل کے دریچوں میں بھی لہرانے دے
اس کو احساس کے آنگن میں اتر جانے دے
حبس بڑھ جائے تو بینائی چلی جاتی ہے
کھڑکیاں کھول کے رکھ، تازہ ہوا آنے دے

بینائی
ٹھہرے تو کہاں ٹھہرے آخر میری بینائی
ہر شخص تماشا ہے ہر شخص تمشائی
یہ حسن کا دھوکہ بھی دل کے لئے کافی تھا
چھونے کے لئے کب تھی مہتاب کی اونچائی
اسرار الحق

تماشا
 
Top