دھویں کا حصار۔۔۔ ص 90-109

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرحت کیانی

لائبریرین
ص90-93

اسٹیمر پاپ اِے ا۔ے تے کے ساحل سے جا لگا۔ چاروں طرف خوب چمکیلی دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ڈیڈلی فراگ کیبن کا دروازہ کھول کر عرشے پر نظر دوڑانے لگا۔۔۔۔
اس کی فطری جھلاہٹ اب پوری طرح بیدار ہو چکی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے سامنے پڑنے والے کو پھاڑ ہی کھائے گا۔۔۔۔لیکن وہ ایسا نہ کر سکا۔۔۔۔نہ جانے کیوں اس احمق اور بھولی بھالے آدمی پر اسے رحم آنے لگتا تھا۔
ٹالابوآ کے خادمِ خصوصی نے اسے جھک کر تعظیم دی۔
"اندر چلو۔" فراگ ایک طرف ہٹتا ہوا بولا۔ "میں کچھ دیر بعد اتروں گا۔"
"آپ مرضی کے مالک ہیں جناب۔" عمران نے مُسمسی صورت بنا کر کہا۔
"بیٹھ جاؤ۔" فراگ نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
"میں اس کی جرات کیسے کر سکتا ہوں جناب۔"
"میری اجازت سے۔" فراگ غرایا۔
وہ ایک سٹول پر اس طرح بیٹھ گیا جیسے موقع ملتے ہی بھاگ کھڑا ہو گا۔
"میرے بارے میں تمہیں کیا بتایا گیا ہے؟" فراگ نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
"یہی کہ آپ آنجہانی فرمانروا پومارے پنجم کے پوتے ہیں۔ میرے مالک شہزادے ہربنڈا کے دوست۔۔۔۔"
"ہوں۔۔۔۔" فراگ دم بخود رہ گیا۔ وہ لوپوکا کے بارے میں سوچنے لگا۔ دشمن ضرور تھا مگر۔۔۔محض اپنی مقصدبراری سے کام رکھتا ہے۔ کسی کی تذلیل کا خواہاں نہیں رہتا۔۔۔۔
"ڈھمپ لوپوکا کہاں ہے؟"
"یہ کیا چیز ہے عالی جاہ۔۔۔۔؟" عمران نے بڑے ادب سے پوچھا۔
"چیز نہیں آدمی ہے! میرے ساتھ تھا۔"
"میرے لیے یہ نام نیا ہے عالیجاہ۔۔۔۔"
فراگ نے اس کا حلیہ بیان کیا۔
"نہیں جناب!" عمران مایوسانہ انداز میں سر ہلا کر بولا۔ "میں نہیں جانتا۔ کبھی کوئی ایسا آدمی میری نظر سے نہیں گزرا۔"
"کیا تم فوری طور پر واپس جاؤ گے؟"
"جی ہاں۔۔۔۔" "کیا دو چار دن میرے ساتھ قیام نہیں کر سکتے۔۔۔۔؟"
"شہزادی کی اجازت کے بغیر ناممکن ہے۔ ویسے تاہیتی دیکھنے کی بڑی خواہش تھی۔ عالیجاہ! کاش دو ہی دن یہاں گزار سکتا۔"
"حیرت ہے! بنکاٹا میں رہتے ہو اور تم نے تاہیتی نہیں دیکھا۔"
"زر خرید غلام یونہی زندگی بسر کرتے ہیں عالیجاہ! شہزادی ٹالابوآ نے مجھے میرے مفلوک الحال باپ سے خریدا تھا۔"
"میں چاہتا ہوں کہ تم کچھ دن میرے ساتھ قیام کرو۔۔۔۔میں ٹالابوآ کو مطلع کر دوں گا۔۔۔۔وہ کچھ نہیں کہے گی۔"
"آپ مالک ہیں۔" عمران خوش ہو کر بولا۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک سی لہرائی تھی۔
"تم میرے ساتھ ہی اترو گے! یہاں اسٹیمر پر تو کسی کو جوابدہ نہیں۔۔۔۔!"
"نہیں عالیجاہ! میں صرف آپ کے رحم و کرم پر ہوں۔"
"ٹھیک ہے میں ٹالابوآ کو اطلاع بجھوا دوں گا۔"
"جیسا آپ فرمائیں۔" عمران نے ادب سے کہا۔

تھوڑی دیر بعد وہ اسٹیمر سے اترے تھے اور ایک ساحلی ہوٹل میں داخل ہو گئے تھے۔ فراگ نے کاؤنٹر سے کسی کو گاڑی کے لیے فون کیا۔۔۔۔ پھر اسی میز کی طرف پلٹ آیا اور عمران کی طرف دیکھے بغیر پوچھا۔ "کیا کھاؤ گے؟"
"جو مل جائے عالیجاہ۔"
"اچھا۔ اچھا میں خود ہی تمیارے لیے انتخاب کروں گا۔ اور دیکھو اب میں شہزادہ نہیں ایک تاجر ہوں۔"
"میں آپ کے خاندان کے افسوسناک حالات سے واقف ہوں۔" عمران نے مغموم لہجے میں کہا۔
"اوہو۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہاں اب بھی میری ہی حکومت ہے۔۔۔۔وہ تو میں اپنی اصل شکل میں نہیں ہوں۔ ورنہ ہوٹل کا عملہ سر کے بل کھڑا ہو جاتا۔۔۔ شام کو میں تمہیں دکھا دوں گا۔"
"آپ اپنی اصل شکل میں۔" عمران نے احمقانہ انداز میں پلکیں جھپکائیں۔۔۔
فراگ نے بلند آہنگ قہقہہ لگا کر کہا۔" ہاں۔ یہ میک اپ ہے! میں ہربنڈا کو بنکاٹا پہنچانے گیا تھا۔ اس کے کچھ نامعلوم دشمن نہیں چاہتے تھے کہ وہ بنکاٹا کے ساحل پر قدم رکھ سکے۔ اسی لیے میں میک اپ میں تھا کہ اس کے دشمنوں کا پتہ لگا سکوں۔"
"کس بادشاہ کے پوتے ہیں۔؟" عمران نے ستائشی لہجے میں کہا۔
"تم انگریزی سمجھ سکتے ہو؟"
"نہیں عالیجاہ! فرانسیسی اور ہسپانوی کے علاوہ اور کوئی زبان نہیں جانتا۔"
اشارے سے ایک ویٹرس کو بلا کر فراگ نے اپنا آرڈر پلیس کیا تھا۔
"اچھا یہ تو بتاؤ۔۔۔۔یہ ہربنڈا آیا کہاں سے ہے؟" فراگ نے کچھ دیر بعد پوچھا۔
"مجھے اس کا علم نہیں ہے جناب! بس اتنا جانتا ہوں کہ طویل مدت کی گمشدگی کے بعد تشریف لائے ہیں۔"
"اس کے باوجود بھی یقین نہیں کہ وہ شاہ بنکاٹا سے معافی مانگ لے۔"
"معافی!" عمران نے حیرت ظاہر کی۔" میں نہیں سمجھا۔"

"پرنس ہربنڈا ضدی آدمی ہے اور شاہ بنکاٹا بہرحال اسی کا باپ پے۔ اگر ہربنڈا نے معافی نہ مانگی تو وہ بنکاٹا کو فرانس ہی کے حوالے کر دے گا۔"
"اوہ تو کیا شاہ اور ولی عہد کے درمیان کوئی جھگڑا ہے۔" عمران نے اپنی حیرت کو بدستور قائم رکھتے ہوئے پوچھا۔
"ہاں ۔ اور بات بہت معمولی تھی۔ ہربنڈا نے بھینس کا دودھ پینے سے انکار کر دیا تھا۔"
"اگر اجازت ہو تو میں اس بات پر ہنس لوں۔" عمران نے احمقانہ انداز میں پوچھا۔
اور فراگ کو سچ مچ ہنسی آ گئی۔
"باپ بیٹے دونوں سنکی ہیں۔" اس نے کہا۔
"آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی برابری کے ہیں۔"
"میں تمہیں پسند کرنے لگا ہوں۔"
کھانے کے دوران ہی میں ایک لمبی گاڑی ہوٹل کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔ اور فراگ نے سوچا تھا کہ ہوٹل کے باتھ روم ہی میں اس میک اپ سے پیچھا چھڑا لینا چاہئے۔ ورنہ اس کے آدمی کیا سوچیں گے۔ کیونکہ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ کنگ چانگ سے تعلق رکھنےوالے معمولی لوگ بھی کُھلم کُھلا سب کچھ کرتے پھرتے تھے۔ تو پھر بھلا وہ خود اس کے لیے کیا جواز رکھ سکتا تھا۔
پھر پندرہ منٹ کے اندر ہی اندر وہ اس میک اپ سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب ہو گیا جو ڈھمپ لوپوکا نے اس پر کیا تھا۔ لیکن جیسے ہی وہ باتھ روم سے برآمد ہوا پورے ہوٹل میں سنسنی پھیل گئی۔ باتھ روم جانے سے پہلے اس نے بل ادا کر دیا تھا اور عمران سے کہا تھا کہ وہ ڈائننگ ہال سے باہر نکل کر اس کا منتظر رہے۔ بہرحال گاڑی میں بیٹھتے وقت وہ ڈیڈلی فراگ تھا اور عمران اس کی شکل دیکھ دیکھ کر خوف زدگی ظاہر کئے جا رہا تھا۔
"ڈرو نہیں۔" فراگ اس کا شانہ تھپک کر آہستہ سے بولا۔ "تم مجھے اپنا دوست پاؤ گے۔ میں تمہیں پسند کرنے لگا ہوں۔"
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 94-96

"یہ بنکاٹا بھی بہت خوبصورت جزیرہ ہے۔" جیمسن نے ظفر سے کہا۔ وہ کھڑکی سے قریب کھڑا دور کی سر سبز پہاڑیوں کو گھورے جا رہا تھا۔
انہیں پرنس کے محل میں کچھ کمرے دیے گئے تھے۔ پچھلی سہ پہر کو وہ یہاں پہنچے تھے۔
شہزادے کی واپسی کی خوشی میں دارلحکومت کو شایانِ شان طریقے سے سجایا گیا تھا۔ لیکن نہ جانے کیوں خاص شاہی محل پر اداسی طاری تھی۔ پچھلی شب پرنس کا محل بھی بقعہءنور بنا ہوا تھا۔لیکن شاہی محل کی ظاہری حالت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔
"آخر آپ اتنے گم سم کیوں نظر آ رہے ہیں؟" جیمسن نے ظفر کی طرف مڑ کر کہا۔
"نہیں۔ایسی تو کوئی بات نہیں۔"
"لوئیسا تو یہاں پہنچنے کے بعد سے دکھائی ہی نہیں دی۔"
"جہنم میں جائے۔"
"ایسا نہ کہئے! اپنے بیان کے مطابق وہ یہاں واحد سفید فام لڑکی ہوگی۔"
"میرا موڈ ٹھیک نہیں ہے اس لیے بکواس بند کرو۔"
"موڈ خراب رکھنے کی چیز نہیں ہوتی یور ہائی نس۔۔۔۔ملی جلی نسلوں والی گندمی لڑکیاں بھی میں نے یہاں دیکھی ہیں۔ بڑی آنکھوں والیاں تو بس قیامت ہیں قیامت۔"
ظفر جھلا کر کچھ کہنے ہی والا تھا کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔
"آجاؤ۔" جیمسن اونچی آواز میں بولا۔
ایک سیاہ فام خادم نے کمرے میں داخل ہو کر ٹالابوآ کی طرف سے طلبی کا حکم سنایا۔
اور پھر وہی انہیں ٹالابوآ کی طرف لے چلا تھا۔
ٹالابوآ ایک بڑے کمرے میں ملی۔ لوئیسا بھی وہاں موجود تھی۔ جیمسن نے ٹالابوآ کی نظر بچا کر اسے آنکھ ماری اور وہ پھاڑ کھانے والے انداز میں گھور کر رہ گئی۔
"میں نے تمہیں ایک خاص کام کے لیے طلب کیا ہے۔" ٹالابوآ نے ظفر کو مخاطب کیا۔۔۔۔
"فرمائیے۔۔۔۔!"
"بیٹھ جاؤ۔۔۔۔!" اس نے سامنے والی کرسیوں کی طرف اشارہ کیا۔

"شکریہ یور ہائی نس۔۔۔۔!"
وہ دونوں بیٹھ گئے۔
"اب تم دونوں ہی پرنس کے مزاج دان ہو۔۔۔۔! میرا ان پر کوئی اختیار نہیں رہا۔"
ظفر اور جیمسن سنبھل کر بیٹھ گئے۔
ٹالابوآ کہتی رہی۔۔"اپنی طویل گمشدگی سے پہلے وہ کم ازکم میری کوئی بات نہیں ٹالتے تھے۔۔۔بہرحال تم دونوں انہیں اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرو کہ وہ اپنے باپ سے معافی مانگ لیں۔"
"اوہ۔ تو کیا پرنس کو ابھی تک معاف نہیں کیا گیا۔ اتنی طویل گمشدگی کے بعد بھی نہیں۔"ظفر کے لہجے میں حیرت تھی۔
"وہ صرف باپ ہی نہیں، بنکاٹا کے بادشاہ بھی ہیں۔" ٹالا بوآ نے سرد لہجے میں کہا۔
"تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ بھینس کا دودھ اس حد تک مسئلہ بن جائے گا۔" جیمسن بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
"غیر ضروری باتوب سے اجتناب کرو۔" لوئیسا بول پڑی۔
"ٹھیک ہے۔" ٹالابوآ سر ہلا کر بولی۔ "ان باتوں میں کیا رکھا ہے۔ بہرحال تم پرنس کو آمادہ کرو۔۔۔۔تمہاری جیبیں سونے کے سکوں سے بھر دی جائیں گی۔"
"ہم کوشش کریں گے یور ہائی نس۔۔۔۔!"
"بس۔۔۔۔جاؤ۔"
وہ دونوں اٹھ گئے۔ ان کے ساتھ ہی لوئیسا بھی اٹھی تھی۔
"تمہاری موجودگی ضروری نہیں ہو گی۔" ظفر بولا۔
"کیوں؟"
"تمہیں دیکھ کر نہ جانے کیوں پرنس بھڑک اٹھتے ہیں۔"
"ہاں۔ہاں۔ تم یہیں ٹھہرو۔" ٹالابوآ نے لوئیسا سے کہا۔
"جیسی آپ کی مرضی، یور ہائی نس۔۔۔۔!"

وہ دونوں کمرے سے نکل کر جوزف کی خواب گاہ کی طرف چل پڑے۔ وہ ابھی تک خواب گاہ سے برآمد نہیں ہوا تھا۔ اس نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے طور پر وقت گزارے گا۔ شاہی اوقاتِ کار اس پر مسلط نہ کئے جائیں۔
"کیا ہم اندر آ سکتے ہیں؟یور ہائی نس۔" جیمسن دروازے پر پہنچ کر اونچی آواز میں بولا۔
"ضرور۔۔۔۔ضرور۔۔۔۔!" اندر سے جوزف کی چہکار سنائی دی۔
وہ دونوں پردہ ہٹا کر خواب گاہ میں داخل ہوئے۔ جوزف مسہری سے اٹھ گیا۔
"یہ ٹھاٹ ہیں بیٹے۔" جیمسن نے اردو میں کہا۔
"کیا بولٹا بھائی۔۔۔۔ہم پاگل ہو جائے گا۔ بیٹھو بیٹھو۔۔۔۔"
"آخر آپ اپنے باپ سے معافی کیوں نہیں مانگ لیتے۔ یور ہائی نس۔۔۔۔!" ظفر نے ادب سے کہا۔
"ہر گز نہیں!"‌جوزف دہاڑا۔" مجھے پرواہ نہیں ہے۔ باپ معاف کرے نہ کرے! میں اپنے ماموں کے پاس چلا جاؤں گا۔"
"کیا مطلب؟" جیمسن بوکھلا کر بولا۔ "یا تو سرے سے باپ ہی نہیں تھا یا اب کوئی ماموں بھی پیدا ہو گیا۔"
"ہاں۔۔۔۔بالکل۔۔۔۔اس محل میں قدم رکھتے ہی میری یادداشت واپس آ گئی ہے۔۔۔۔میں پرنس ہربنڈا ہوں۔۔۔۔اور میرا ماموں جزیرہ موکارو کا بادشاہ ہے۔۔۔۔میں موکارو چلا جاؤں گا۔۔۔۔اگر میرا باپ سیدھا نہ ہوگا۔"
"حضور آپ محض‌بھینس کی وجہ سے ناخلفی پر اتر آئے ہیں۔۔۔۔" ظفر نے کہا۔
جوزف ان کے قریب پہنچ کر آہستہ سے بولا۔ "باس نے یہی کہا تھا، مجھے پریشان مت کرو۔۔۔۔نہ میں نے اس باپ کی پہلے کبھی شکل دیکھی ہے اور نہ موکارو والے ماموں کی۔"
"اوہ۔" جیمسن برا سا منہ بنا کر رہ گیا۔
"لیکن اگر باپ نے غصے میں قتل کر دینے کا حکم صادر فرما دیا تو۔۔۔؟" ظفر نے پرتشویش لہجے میں پوچھا۔
"وہ اس کی ہمت نہیں کر سکتا۔ فرانس کا کٹھ پتلی ہے۔ باس نے یہ بھی بتایا تھا۔"
"پتا نہیں کیا چکر ہے۔۔۔۔؟"
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 97-99

"ہوگا کچھ۔" جوزف نے لاپرواہی سے شانوں کو جنبش دی! چند لمحے کچھ سوچ کر بولا۔
"لیکن میرے لیے یہاں خطرہ موجود ہے۔ تم دونوں اپنی آنکھیں کھلی رکھنا۔!
"کیسا خطرہ۔۔۔۔؟"
"مجھے قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔!"
"زیادہ چڑھ گئی ہے کیا؟" جیمسن بولا۔" ابھی تو کہہ رہے تھے کہ وہ اس کی ہمت نہیں کر سکتا۔"
"میں اپنے باپ کی بات نہیں کر رہا مسٹر! کچھ اور ہی لوگ میری زندگی کے خواہاں ہیں۔۔۔۔!"
"لیکن بنکاٹا میں تو تمہیں کوئی خطرہ نہ ہونا چاہئے!"
"اگر ہو بھی تو کیا فرق پڑتا ہے! میں جنگل کا بیٹا ہوں مسٹر۔۔۔۔خطرات میرا کھیل ہیں۔ میں نے تو باس کا پیغام تم تک پہنچایا ہے۔"
"اس سے زیادہ اور کچھ نہیں بتایا تھا۔۔۔۔؟"
"نہیں۔۔۔۔!"
"کیا وہ یہیں موجود ہیں۔۔۔۔؟"
"میں یہ بھی نہیں جانتا۔۔۔۔!"
"خیر۔۔۔۔خیر۔۔۔۔اپنے ماموں کے پاس کب جانے کا ارادہ ہے اور ہمیں بھی ساتھ لے چلو گے یا نہیں۔۔۔۔؟"
"دیکھو، کیا ہوتا ہے۔۔۔۔میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ویسے تم ٹالابوآ سے کہو کہ تم دونوں میرے ساتھ خواب گاہ ہی میں راتیں بسر کرو گے۔"
"یہ کیا بدمذاقی ہے۔" جیمسن اسے گھورتا ہوا بولا۔
"یہی مناسب ہے مسٹر! میں کہہ چکا ہوں کہ ایک سے زیادہ بیوی نہیں رکھ سکتا۔ صرف بوتل ہی میری بیوی ہے۔۔۔۔!"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​

عمران ابھی تک اندازہ نہیں کر پایا تھا کہ آخر فراگ اس سے کیا چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ آج یہ اس کا دوسرا دن تھا ۔ فراگ اسے اپنی اقامت گاہ میں لے گیا تھا جہاں سے اس نے اسے ٹالابوآ کے اسٹیمر تک پہنچایا تھا۔
فراگ کا رویہ اس کے ساتھ دوستانہ تھا۔۔۔۔ ٹالابوآ کے غلام کی حیثیت سے ٹریٹ نہیں کر رہا تھا۔۔۔۔اس کی سالِ رواں کی محبوبہ اَم بینی ایک ہی دن میں اس سے بے تکلف ہو گئی تھی۔ اس کی احمقانہ باتوں پر بچوں کی طرح خوش ہوتی۔ گویا ایک کھلونا ہاتھ آ یا تھا۔
"احمق نطر آنے کے باوجود بھی تم خوبصورت لگتے ہو۔" وہ بات بات پر کہتی اور عمران شرما کر سر جھکا لیتا۔ ا،م بینی کی یہ بے باکیاں فراگ کی موجودگی میں بھی جاری رہتیں۔ اور وہ بھی اپنی فطرت کے خلاف کبھی ہنس دیتا اور کبھی صرف مسکرا کر رہ جاتا۔
اس وقت بھی اَم بینی کی چھیڑ چھاڑ جاری تھی کہ دفعتاً فراگ نے سنجیدگی اختیار کر کے کہا۔ "اب تم جاؤ! ہم کچھ ضروری باتیں کریں گے۔"
"ضروری باتوں میں کیا رکھا ہے! میں تمہیں گیتار پر ایک گیت کیوں نہ سناؤں۔۔۔۔"
"جاؤ۔!" فراگ جھنجھلا کر بولا۔" میری مرضی کے خلاف کچھ کرتی ہو تو بندریا لگنے لگتی ہو۔"
وہ برا سا منہ بنائے وہاں سے چلی گئی۔
عمران سختی سے ہونٹ پر ہونٹ جمائے ٹھس بیٹھا رہا۔ فراگ نے اس سے کہا۔"یہ بڑی اچھی بات ہے کہ تم اسپینی سمجھ سکتے ہو۔"
"میری مادری زبان ہے جناب! فرانسیسی تو سیکھنی پڑی تھی۔ آپ تو جانتے ہیں کہ بنکاٹا کی دوسری زبان یہی ہے۔"
"میری بدقسمتی یہ ہے کہ مجھے اسپینی نہیں آتی۔"
"آپ سیکھ سکتے ہیں جناب!"
"وقت لگے گا اور میرے پاس وقت ہی تو نہیں ہے۔"
"میں آپ کو سکھا سکتا ہوں۔ بہت تھوڑے وقت میں، مگر اس کے لئے آپ کو بنکاٹا میں قیام کرنا پڑے گا۔"
"اوہ۔ پھر دیکھیں گے! فی الحال میری ایک بات سنو! آج رات ہم ایک میٹنگ میں چلیں گے۔ وہ لوگ یا تو انگریزی بول سکتے ہیں یا اسپینی! میں ان سے انگریزی میں گفتگو کروں گا۔ اگر وہ آپس میں میرے خلاف کوئی بات کرنا چاہیں گے تو اسپینی میں کریں گے۔ تم اس طرف دھیان رکھنا۔۔۔۔!"
"بہت بہتر جناب!" عمران خوش ہو کر بولا۔ "میں لومڑی کی طرح چوکنا رہوں گا۔ کیا وہ آپ کے دشمن ہیں جناب۔۔۔۔؟"
"میرے لیے شاید اتنے نہ ہوں جتنے ہربنڈا کے لیے ہیں۔"
"اوہ۔۔۔۔تب تو میں ان کی گردنیں توڑ دوں گا۔۔۔۔" عمران غصیلے لہجے میں بولا۔
"طیش میں آنے کی ضرورت نہیں! دماغ کو ٹھنڈا رکھ کر ان کی آپس کی گفتگو پر دھیان دینا۔"
"ایسا ہی ہو گا جنابِ عالی!"
"یہ کتنا عجیب اتفاق ہے کہ تم اسپینی جانتے ہو! میرے پاس ایسا کوئی آدمی نہیں تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ تم بھی مجھے پسند کرنے لگو تاکہ میں تمہیں ہربنڈا سے حاصل کر لوں۔۔۔۔؟"
" میری خوش قسمتی ہو گی جناب! کیونکہ آپ ایک زندہ دل مالک ہیں۔۔۔۔جوانی میں بڑھاپا مجھ پر طاری ہو گیا ہے۔ اس سے بھی نجات مل جائے گی۔"
"بنکاٹا کے لوگ خشک مزاج ہیں۔" فراگ مسکرا کر بولا۔ "ویسے تمہیں اسلحہ کے کھیل سے بھی کچھ دلچسپی ہے یا نہیں؟"
"تھوڑی بہت۔۔۔۔!"
"نشانہ کیسا ہے۔۔۔۔؟"
"میرا خیال ہے کہ برا نہیں ہے۔۔۔۔!"
"باڈی گارڈ کے فرائض انجام دے سکو گے۔۔۔۔؟"
"مجھے اس کا تجربہ ہے جناب! میں پرنسز کا باڈی گارڈ ہی ہوں۔"
"وہ رسمی چیز ہے! کسی ایسے آدمی کی باڈی گارڈ بننے کی بات تھی جس کی زندگی ہر آن خطرے میں ہو۔"
"کیا وہ میٹنگ ایسی ہی ہو گی جناب۔۔۔۔؟"
"میرا خیال ہے کہ ایسی ہی ہو گی اور میں اپنے ساتھ ایک سے زیادہ آدمی نہیں لے جا سکوں گا۔!"
"فکر نہ کیجئے! میں پہلے مروں گا! پھر آپ پر آنچ آئے گی۔۔۔۔"
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 100-102

"پھر بھی میں کس طرح یقین کر لوں۔۔۔۔"
"میرے پاس ریوالور نہیں ہے جناب۔۔۔۔!"
"اوہ۔ تو کیا تم ثبوت پیش کرنا چاہتے ہو؟ اچھا تو چلو پائیں باغ میں۔۔۔۔" فراگ اس پائیں باغ میں لایا اور ایک ریوالور سے کر بولا۔"دکھاؤ کیا دکھانا چاہتے ہو۔"
"آپ ایک سکہ اچھالئے، امین پر گرنے سے پہلے ہی اڑا دوں گا۔"
فراگ نے مضحکہ اڑانے کے سے انداز میں قہقہہ لگایا۔
"یقین کیجئے عالیجاہ۔۔۔۔"
"ایسا کرتے کسے دیکھا تھا؟"
"آپ سکہ اچھالئے جناب!" عمران نے کسی قدر جھلاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ "اگر پہلے ہی فائر میں نہ اڑا سکا تو دوسرا اپنی کنپٹی پر کروں گا۔"
"اوہ۔۔۔۔یہ بات ہے۔۔۔۔اچھا تو سنبھالو۔"
فراگ نے جیب سے سکہ نکال کر اچھالا اور جیسے وہ پھر نیچے کی طرف آنے لگا۔ فائر ہوا۔۔۔۔گولی سکے ہی پر پڑی تھی۔
فراگ حیرت سے منہ کھولے کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔
برآمدے سے اَم بینی کی آواز آئی۔" یہ کیا ہو رہا ہے؟"
"کچھ نہیں، بھاگ جاؤ۔" فراگ نے چونک کر کہا۔ پھر آگے بڑھ کر عمران کا شانہ تھپکتا ہوا بولا۔ "میں تمہیں کسی قیمت پر بھی اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دوں گا۔"
اَم بینی بھاگ جانے کی بجائے برآمدے سے اتر کر ان کی طرف بڑھی آ رہی تھی۔ لیکن فراگ اس وقت شائد بہت اچھے موڈ میں تھا اس لیے عمران سے بولا۔
"میں دوسرا سکہ اچھالتا ہوں۔ اسے بھی دکھاؤ۔"
سکہ پھر اچھالا گیا اور اس کا بھی وہی حشر ہوا جو پہلے کا ہوا تھا۔
"کمال ہے۔۔۔۔!" فراگ بڑبڑایا۔ "میں سمجھا تھا شاید دوسرا نشانہ چوک جائے۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ تمہارے اعصاب بھی فولادی ہیں۔ فوری ہیجان میں نہیں مبتلا ہوتے۔۔۔۔!"
"شکریہ جنابِ عالی!" عمران شرما کر بولا۔

"اور ایک سو سال پہلے کی لڑکیوں کی طرح شرمیلے بھی ہو۔" اَم بینی ہنس کر بولی۔
عمران کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
"ارے تم آخر ہو کیا چیز۔۔۔۔؟" فراگ اس کے شانے پر ہاتھ مار کر بولا۔
"کک۔۔۔۔کچھ نہیں جناب! جب کوئی میری تعریف کرتا ہے تو میں خود کو الو محسوس کرنے لگتا ہوں۔"
شام کو وہ اس نامعلوم مہم پر روانہ ہوئے جس کے لیے فراگ نے عمران کو اپنا ساتھی منتخب کیا تھا۔ عمران کے لیے تو وہ ایک نامعلوم ہی مہم تھی۔
گاڑی غالباً اسی سڑک پر جا رہی تھی جس پر ایک بار پہلے بھی فراگ ہی کے ساتھ سفر کر چکا تھا۔ لیکن وہ اس دن۔۔۔۔خوفناک شکل والا ڈھمپ لوپوکا تھا۔
سفر طویل ہی معلوم ہوتا تھا۔ کیونکہ اندھیرا پھیل جانے پر بھی اس کا اختتام نہ ہو سکا۔
قریباً ڈیڑھ گھنٹہ بعد ان کی گاڑی جسے فراگ خود ہی ڈرائیو کر رہا تھا ایک ساحلی گاؤں میں داخل ہوئی۔۔۔۔اور عمران کو ایسا محسوس ہوا جیسے خوشیوں کے خزانے میں داخل ہو گیا ہو۔۔۔۔بھانت بھانت کے پھولوں کی ملی جلی خوشبو فضا میں رقص کرتی پھر رہی تھی۔ خوشبوؤں کے ساتھ ہی ٹرمپٹ اور ڈرم کی آوازیں بھی تھیں۔۔۔۔عجیب سا نغماتی شور تھا۔
"یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔؟" عمران نے فراگ سے پوچھا۔
"پھولوں کا رقص! شاید پچھلی طرف میدان میں لڑکیاں ناچ رہی ہیں۔"
دفعتاً ایک جگہ فراگ نے گاڑی روک دی اور کچھ فاصلے سے آواز آئی۔
"کون ہے۔۔۔۔؟"
سوال انگریزی زبان میں کیا گیا تھا۔
"جس کے تم منتظر ہو۔۔۔۔" فراگ غرایا۔
پھر ان پر ٹارچ کی روشنی پڑی تھی اور فراگ دہاڑا تھا۔ " یہ کیا بیہودگی ہے۔۔۔۔؟"
اس کی آنکھیں چندھیا گئی تھیں، عمران نے فرانسیسی میں پوچھا۔ "کیا میں فائر کروں جناب عالی۔۔۔۔!"
"نہیں۔۔۔۔!"

ٹارچ کی روشنی ڈالنے والا تیزی سے ان کی طرف آیا تھا۔
"اوہو۔۔۔۔آؤ میرے ساتھ۔" اس نے قریب پہنچ کر کہا۔
عمران اور فراگ ٹارچ کی روشنی میں اس کے ساتھ ایک طرف چل پڑے۔ قریباً ڈیڑھ سو گز کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی عمارت کے سامنے پھر رکے۔
"اندر تشریف لے جائیے جناب۔۔۔۔!" اجنبی نے اس بار بڑے ادب سے کہا۔
وہ اس کی شکل نہیں دیکھ سکے تھے کیونکہ عمارت کے آس پاس بھی اندھیرا تھا۔
اندر پہنچ کر وہ ایک کمرے میں آئے جہاں کئی کیروسین لیمپ روشن تھے۔
ایک بڑی میز کے گرد کئی کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔ اجنبی نے ان سے بیٹھ جانے کی درخواست کی۔
پھر فراگ سے کہا۔"گفتگو شروع کرنے سے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ آیا آپ کا ساتھی بھی اس گفتگو میں شریک ہو گا۔۔۔۔؟"
"یہ فرانسیسی کے علاوہ اور کوئی زبان نہیں جانتا اس لیے اس کی موجودگی سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ایک آدمی ہر جگہ میرے ساتھ ہوتا ہے۔"
"ٹھیک ہے! مجھے کوئی اعتراض نہیں۔" اجنبی نے سر ہلا کر کہا۔
دفعتاً قدموں کی چاپ سنائی دی اور ایک آدمی کمرے میں داخل ہوا۔
"شام بخیر معززین۔۔۔۔" اس نے ان دونوں کی طرف دیکھ کر کہا۔
جواب میں فراگ نے صرف سر کو جنبش دی تھی۔
پھر وہ دونوں ان کے مقابل بیٹھ گئے اور نوارد نے فراگ سے پوچھا۔
"ہم اس معاملے کو سمجھنے سے قاصر ہیں آخر ہربنڈا بنکاٹا کیسے پہنچ گیا۔۔۔۔؟"
"میں کنگ چانگ کا نائب ہوں۔" فراگ غرایا۔ " اور یہ ضروری نہیں کہ باس اپنے کسی نائب کو اس حد تک آگاہ رکھے۔ پہلے اس نے حکم دیا تھا کہ ہربنڈا کو روکا جائے۔۔۔۔پھر اچانک حکم دیا کہ جانے دیا جائے۔۔۔۔!"
"تم ہربنڈا کے اسٹیمر پر خود موجود تھے۔" کسی قدر تلخ لیجے میں کہا گیا۔
"یہ بکواس ہے۔۔۔۔!"
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 103-104

"ہم نے آواز ریکارڈ کی تھی۔ تم اپنے آدمیوں کو احکامات دے رہے تھے کہ ہربنڈا کے اسٹیمر کو صحیح سلامت گزر جانے دیا جائے۔"
"یقیناً میں احکامات دے رہا تھا۔ لیکن یہ بکواس ہے کہ میں ہربنڈا کے اسٹیمر پر موجود تھا۔!"
"آخر کنگ چانگ کے اس طرح بدل جانے کی وجہ۔۔۔۔؟"
"مسٹر! میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ وہ مالک ہے اور ہم سب حکم کے پابند! کس کے منہ میں دانت ہیں کہ اس سے جرح کرے۔۔۔۔؟"
"ہم اس مسئلے پر اس سے براہِ راست گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔!"
"وہ براہِ راست کسی سے گفتگو نہیں کرتا۔"
"اس کے احکامات تمہارے پاس کس طرح پہنچتے ہیں۔۔۔۔؟"
"اپنی کھال میں رہو مسٹر۔۔۔۔!"
"کیا مطلب۔۔۔۔؟"
"اپنے کام سے کام رکھو! میں یہ کیوں بتاؤں کہ ہمارا طریقِ کار کیا ہے۔۔۔۔؟"
"اوہ۔۔۔۔اچھا، اچھا۔۔۔۔" وہ مسکرا کر بولا۔" واقعی میرا یہ سوال نا مناسب تھا۔ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔"
فراگ نے برا سا منہ بنا کر سر کو جنبش دی تھی اور نوارد دوسرے آدمی سے اسپینی میں کچھ کہنے لگا تھا۔
دوسرا آدمی اٹھ کر چلا گیا اور نوارد نے فراگ سے کہا۔" دراصل ہم الجھن میں پڑ گئے ہیں۔ اسی لیے میں تم سے کافی کے لیے بھی نہیں کہہ سکا تھا۔"
"شکریہ! میں خواہش نہیں محسوس کر رہا۔" فراگ خشک لہجے میں بولا۔
"بہرحال! ہم اپنی گفتگو دوستانہ ماحول میں جاری رکھیں گے۔۔۔۔!"
"کیسی۔۔۔۔؟ وہ تو ختم ہو چکی۔" فراگ غرایا۔
"قطعی نہیں! کنگ چانگ سے ہمارے تعلقات بہت پرانے ہیں۔ تمہیں علم ہے کہ وہ معقول معاوضے پر ہماری مدد کرتا رہا ہے۔"
"میں جانتا ہوں۔۔۔۔!"

"اس لیے ہمیں یہ معلوم ہونا ہی چاہئے کہ اس نے اس بار ہمارا کام کیوں نہیں کیا۔۔۔۔؟"
"تمہیں جلد ہی معلوم ہو جائے گا۔"
"وہ کس طرح۔۔۔۔؟"
"تم پھر ہمارے طریقِ کار کو زیرِ بحث لانے کی کوشش کر رہے ہو۔"
"اوہ۔ مجھے افسوس ہے۔ لیکن آخر کب تک ہمیں اس کی وجہ معلوم ہو سکے گی۔۔۔۔؟"
"وقت کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن زیادہ دیر نہیں لگے گی۔"
دوسرا آدمی پھر کمرے میں داخل ہوا ۔ اس بار اس کے ہاتھوں میں کافی کی ٹرے تھی۔
ترے میز پر رکھ کر وہ دو پیالوں میں کافی انڈیلنے لگا ۔ اور پھر یہ پیالیاں فراگ اور عمران کے آگے کھسکا دی گئیں۔
دفعتاً عمران اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کا ریوالور نکل آیا جس کا رخ میزبانوں کی طرف تھا۔
"اب تم دونوں ہی اس کافی کو پیو گے۔" اس نے کہا۔ اس نے انہیں اسپینی میں مخاطب کیا تھا۔ دونوں اچھل پڑے۔
"یہ کیا شروع کر دیا۔" فراگ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
"ابھی معلوم ہو جائے گا جناب!" عمران نے فرانسیسی میں کہا۔ "انہیں یہ کافی پینی ہی پڑے گی۔"
پھر اس نے ریوالور کو جنبش دے کر ان دونوں کو مخاطب کیا۔ "موت سے بہتر بیہوشی ہی رہے گی دوستو! پیالیاں اٹھاؤ اور پی جاؤ، ورنہ کھوپڑیوں میں سوراخ ہو جائیں گے۔۔۔۔"
"یہ۔۔۔۔یہ۔۔۔۔کیا ہو رہا ہے؟" فراگ کا مقابل ہکلایا۔
"میں اسپینی نہیں جانتا۔" فراگ نے لاپرواہی سے کندھوں کو جنبش دی۔ "جو کچھ کہہ رہا ہے وہی کرو، ورنہ۔۔۔۔؟"
دونوں نے بے بسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور ہاتھ بڑھا کر پیالیاں اٹھا لیں۔
"جلدی کرو۔۔۔۔" عمران نے سخت لہجے میں کہا۔
انہوں نے بوکھلائے ہوئے انداز میں پیالیاں خالی کر دی تھیں اور میز پر کہنیاں ٹیک کر ہانپنے لگے تھے۔ ان کی آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہوتی جا رہی تھیں اور پھر ان کے سر میز پر ڈھلک آئے۔ فراگ حیرت سے آنکھیں پھاڑے انہیں گھورے جا رہا تھا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 105-109

"آپ انہیں دیکھئے۔" عمران نے فراگ سے کہا۔"میں اندر جا کر دیکھتا ہوں کوئی اور بھی تو موجود نہیں ہے۔"
"تت۔۔۔۔تم تو کمال کے آدمی نکلے۔۔۔۔جاؤ دیکھو۔"
اندر کوئی بھی نہیں تھا۔ عمارت میں صرف یہی دو آدمی تھے، عمران پھر اسی کمرے میں واپس آ گیا۔
"غالباً ہمیں بیہوش کر کے یہ کہیں لے جانا چاہتے تھے، اسپینی میں اس نے اسے ہدایت دی تھی کہ کافی میں خواب آور دوا ملائی جائے۔" عمران نے بیہوش آدمیوں کو پُرتشویش نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"پرواہ مت کرو۔۔۔۔اب یہ ہمارے ساتھ جائیں گے۔" فراگ نے اس کا شانہ تھپک کر کہا۔
وہ انہیں اٹھا کر گاڑی تک لائے تھے اور پچھلی نشست پر بٹھا کر ان کے ہاتھ پیر باندی دیئے تھے۔
واپسی کے سفر کے دوران فراگ خاموش ہی رہا۔۔۔۔لیکن واپسی اس عمارت میں نہیں ہوئی تھی جہاں فراگ مقیم تھا۔۔۔۔بلکہ یہ عمارت وہی عمارت تھی جہاں ظفر، جیمسن اور لوئیسا کو لے جایا گیا تھا۔
"میرے ساتھ آؤ۔" فراگ گاڑی سے اترتا ہوا بولا۔ "میرے آدمی انہیں سنبھال لیں گے۔"
عمران اس کے پیچھے چل پڑا۔ وہ ایک کمرے میں آئے جہاں ان دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔
فراگ نے فون کا ریسیور اٹھا کر ایک نمبر ڈائیل کیا اور پھر کسی کو ان بیہوش آدمیوں سے متعلق ہدایات دینے لگا۔
عمران اس کے پیچھے مؤدب کھڑا ہوا تھا۔ دفعتاً فراگ ریسیور رکھ کر اس کی طرف مڑا۔
"بیٹھ جاؤ۔" اس نے نرم لہجے میں کہا اور عمران اس کا شکریہ ادا کر کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ فراگ خاموشی سے اسے گھورے جا رہا تھا، عمران کے چہرے پر اس وقت بلا کی حماقت طاری تھی۔۔۔۔!


"تم میری توقعات سے بڑھ کر نکلے۔۔۔۔بلا کی قوتِ فیصلہ رکھتے ہو۔ کوئی دوسرا ہوتا تو مجھے موقع کی نزاکت سے آگاہ کرتا اور اس کے بعد میرے مشورے کا انتطار کرتا۔"
"کک کیا مجھ سے حماقت سر زد ہوئی ہے جنابِ عالی۔۔۔۔!" عمران خوفزدہ انداز میں ہکلایا۔
"ہر گز نہیں! تم نے وہی کیا ہے جو ایسے حالات میں خود میں بھی کرتا۔"
"شکریہ جناب۔"
"پھر دوسری خصوصیت یہ ظاہر ہوتی ہے کہ تم نے ابھی مجھ سے اس معاملے کے متعلق کچھ بھی نہیں پوچھا۔"
"میں صرف اپنے کام سے کام رکھتا ہوں جناب، آپ نے مجھ سے جس کے بارے میں کہا تھا میں نے صرف اسی پر نظر رکھی تھی۔"
"انمول چیز ہو، اگر میرے ساتھ رہنا منظور کرو تو تمہیں تاہیتی کا شہزادہ بنا دوں گا۔۔۔۔!"
"مجھے تو منظور ہے جناب! لیکن میں پرنسز ٹالابوآ کا زرخرید بھی ہوں۔۔۔۔"
"جتنے میں اس نے تمہیں خریدا تھا اس کی دس گنا رقم میں اسے ادا کر سکتا ہوں۔۔۔۔!"
"بس تو پھر آپ ہی طے کر لیجئے! مجھے تو تاہیتی پسند آیا ہے! بنکاٹا میں بڑی گھٹن تھی۔۔۔۔!"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔​

رات کے دس بجے ظفر اور جیمسن جوزف کی خوابگاہ میں رمی کھیل رہے تھے خود جوزف کو تاش کے کھیلوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی لہٰذا وہ دور بیٹھا ایک ایک گھونٹ کر کے بوتل ہی سے پی رہا تھا۔
ٹالابوآ کی وجہ سے وہ دوسروں کے سامنے گلاس یا جام استعمال کر لیتا تھا۔ اس جیسے بلانوش کے لیے تو بیرل ہی سے منہ لگا دینا بھی پوری آسودگی کا باعث نہ بن سکتا۔
"تم لوگ زندگی میں یکسانیت کا رونا رویا کرتے تھے۔" دفعتاً جوزف بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
"ہاں! یورہائی نس۔۔۔۔!" جیمسن نے پتوں پر سے نظر ہٹائے بغیر کہا۔
"اب بتاؤ! کیسی رہی۔۔۔۔؟"
"ٹھیک ہی رہی سوائے اس کے کہ چاروں طرف آپ ہی کی شکل کی عورتیں دکھائی دیتی ہیں۔۔۔۔!"
جوزف کچھ کہنے ہی والا تھا کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔
"آجاؤ۔" جوزف غرایا۔ وہ جانتا تھا کہ ٹالابوآ کے علاوہ اور کوئی دروازہ بجانے کی جرات نہیں کر سکتا۔
اندازہ غلط نہیں تھا۔ دوسرے ہی لمحے ٹالابوآ اندر داخل ہوئی اور دروازے کے قریب ہی رک کر جیمسن اور ظفر کو گھورنے لگی جو تاش کے پتے ہاتھوں سے رکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
"تم دونوں اس وقت یہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔۔؟" وہ بالآخر ناخوشگوار لہجے میں بولی۔
"ہز ہائی نس کا اصرار ہے کہ اسی کمرے میں رات بسر کریں۔"
"کیا یہ مناسب ہو گا۔۔۔۔؟" ٹالابوآ جوزف سے مخاطب ہوئی۔
"اس سے زیادہ مناسب اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔" جوزف نے لاپرواہی سے کہا۔ "دیکھو مجھے بہت زیادہ پریشان مت کرو میری یادداشت واپس آ گئی ہے اور مجھے سب کچھ جانا پہچانا لگ رہا ہے۔!"
"اوہ۔۔۔۔نہیں۔!" ٹالابوآ خوش ہو کر بولی۔
"یقین کرو۔ اگر تم لوگ مجھے زیادہ پریشان کرو گے تو میں اپنے ماموں کے پاس چلا جاؤں گا۔"
"نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔!"
"میں نے تہیہ کر لیا ہے۔ اگر مجھے باپ سے معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا تو میں موکارہ چلا جاؤں گا۔"
"تم بالکل نہیں بدلے ہربنڈا۔۔۔!"
"بس جاؤ۔ اگر بنکاٹا کا تاج و تخت سلامت رکھنا چاہتی ہو تو مجھ سے مت الجھو۔"
ٹالابوآ نے بے بسی سے ظفر اور جیمسن کی طرف دیکھا۔
"ہم بھی سمجھاتے ہیں یورہائی نس!" ظفر جلدی سے بولا۔
"دیکھو ہربنڈا ڈیئر!" وہ بے حد نرم لہجے میں بولی۔ "میرا خیال ہے کہ تم تکالیف سے بھرپور اتنا طویل عرصہ گزارنے کے باوجود بھی نہیں بدلے۔"
"اب تو میں اور بھی زیادہ سخت ہو گیا ہوں۔۔۔۔!"
"ایسی صورت میں تمہارا ماموں بھی تمہیں برداشت نہ کر سکے گا۔۔۔۔!"
"میں اسے بھی دیکھ لوں گا۔"

"تو پھر ہم نے اتنی مصیبت خومخواہ جھیلی ہے۔" ٹالابوآ نے پرتفکر لہجے میں کہا۔ پھر چونک کر بولی۔"ہاں! وہ کہاں گیا جسے تم اپنا باس کہتے ہو۔۔۔۔؟"
"میں نہیں جانتا! مرضی کے مالک ہیں جہاں جی چاہے گا جائیں گے۔۔۔۔!"
"یہ نہیں ہو سکتا۔ اسے ہمیں اپنی نقل و حرکت سے آگاہ رکھنا پڑے گا۔"
"اگر اب کبھی تمہارے ہاتھ لگ سکے تو ضرور آگاہ رکھیں گے۔" جوزف خشک لہجے میں بولا۔
"اسی میں اس کی عافیت ہے اور تم دونوں بھی سن لو۔" ٹالابوآ نے ظفر اور جیمسن کی طرف دیکھ کر کہا۔ "میرے علم میں لائے بغیر تم بھی محلات کی حدود سے باہر قدم نہیں رکھو گے۔ یہ جزائر اجنبیوں کے لیے بسااوقات جہنم بن جاتے ہیں۔"
"ایسا ہی ہو گا۔۔۔۔یورہائی نس۔۔۔۔ہم آپ کی اجازت حاصل کئے بغیر کچھ نہ کریں گے۔"
"اچھا اب تم جا کر آرام کرو۔" جوزف ٹالابوآ کو مخاطب کر کے ہاتھ ہلاتا ہوا بولا۔ "تمہیں بھی آرام کی ضرورت ہے، بہت تھک گئی ہو۔"
"میں جا رہی ہوں۔" ٹالابوآ نے ناخوشگوار لہجے میں کہا اور پھر ظفر سے بولی۔" تم میرے ساتھ آؤ۔۔۔۔!"
ظفر احتراماً جھکا اور اس کے پیچھے چلنے لگا۔ خوابگاہ سے باہر نکل کر وہ اس کی طرف مڑی، ظفر رک گیا۔
"اب میں تمہیں اپنے اعتماد میں لینا چاہتی ہوں۔"
"عزت افزائی کا شکریہ! یورہائی نس۔۔۔۔!"
"آؤ۔۔۔۔" کہتی ہوئی وہ پھر آگے بڑھ گئی۔
کچھ دیر بعد وہ محل کے ایک دورافتادہ کمرے میں بیٹھے گفتگو کر رہے تھے۔
"تم لوگوں کے ساتھ پرنس کا رویہ کیسا ہے۔۔۔۔؟" ٹالابوآ نے ظفر سے پوچھا۔
"بہت اچھا ہے یورہائی نس۔۔۔۔!"
"میں یہاں کی بات نہیں کر رہی، اپنے ملک کی بات کرو۔"
"وہاں بھی مناسب ہی تھا۔۔۔۔!"
"کیا وہ تم لوگوں کے ساتھ شرارتیں نہیں کرتا تھا۔۔۔۔؟"

"ہر گز نہیں! پرنس بیحد سنجیدہ تھے! بےضرورت زبان تک نہیں ہلاتے تھے۔"
"ہوں! تو اب سنو! بھینس کے دودھ والی بات میں صداقت نہیں تھی۔"
"میں نہیں سمجھا یورہائی نس۔۔۔۔!"
"شاہ بنکاٹا کسی اور وجہ سے ناراض ہوئے تھے اور وہ بگڑ کر روپوش ہو گیا تھا۔۔۔۔"
"کیا وجہ تھی۔۔۔۔؟"
"میں تمہیں اس لیے بتا رہی ہوں کہ تم اس پر نظر رکھو اور اسے بہکنے نہ دو، میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ تم دونوں سے نہیں الجھتا۔"
"ہاں! وہ کسی حد تک ہماری بات مان لیتے ہیں۔۔۔۔!"
"تم یہ تو جانتے ہی ہو گے کہ شاہ بنکاٹا فرانس کے زیردست ہیں اور بشرطِ وفاداری یہ بادشاہت قائم رہے گی۔"
"مجھے علم ہے یورہائی نس۔۔۔۔!"
"یہ اس وقت کی بات ہے جب ہربنڈا روپوش ہوا تھا۔ یہاں سیاسی بیداری کی ابتداء ہوئی تھی۔ بنکاٹا کے عوام فرانس کے تسلط سے پیچھا چھڑانا چاہتے تھے۔ ظاہر ہے کہ شاہی خاندان کے لیے یہ چیز خطرناک تھی، یہاں آئے دن مظاہرے ہونے لگے۔ احتجاجی جلوسوں کی بھرمار ہو گئی۔ پھر کچھ لوگ لاقانونیت پر بھی اتر آئے۔ توڑپھوڑ مچاتے، پولیس گولیاں چلاتی، جیل جاتے اور کچھ دنوں کے لیے سکون ہو جاتا۔۔۔۔پھر اچانک ایک دن ایک بالکل نئے قسم کا احتجاجی مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ لوگ سارے کپڑے اتار کر بالکل ننگ دھڑنگ گھروں سے نکل آئے اور جلوس کی شکل میں شاہی محل کی طرف بڑھنے لگے۔ پولیس بوکھلا گئی۔ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ وہ بالکل خاموش تھے نہ انہوں نے توڑ پھوڑ مچائی اور نہ ہی کسی قسم کا ہنگامہ برپا کیا۔ہمارے تعزیری قوانین کے مطابق کسی پبلک مقام پر برہنہ ہو جانے کی سزا ایک ہفتے سے زیادہ نہیں۔ اس کے بعد ایک دن یہ دیکھنے میں آیا کہ لوگ شہر کی سب سے بارونق شاہراہوں پر بیٹھے رفع حاجت کر رہے ہیں۔ یہ بھی احتجاجی مظاہرہ ہی تھا۔ جس پر معمولی جرمانے کے علاوہ کوئی سزا نہیں دی جاتی۔" ٹالابوآ خاموش ہو کر دوسری طرف دیکھنے لگی اور ظفر بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ "واقعی حکومت بڑی دشواریوں میں پڑ گئی ہو گی۔"



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​

دھویں کا حصار​

اختتام​
ص 90-109​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top