دھویں کا حصار۔۔۔صفحات 150-159

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرحت کیانی

لائبریرین
ص150-151

فراگ نے ساکاوا کو غور سے دیکھا اور اپنے دونوں ہاتھ آگے بڑھا دئیے لیکن جیسے ہی ایک آدمی ہتھکڑیاں لے کر اس کے قریب پہنچا اس نے پھرتی سے اس کے ہولسٹر پر ہاتھ ڈال دیا اور بائیں ہاتھ سے اس کے پیٹ پر زوردار مکا رسید کیا۔
"آنرایبل ڈرٹی ڈاگ۔۔۔۔!" وہ ریوالور کا رخ ساکاوا کی طرف کرتا ہوا غرایا۔" اگر کسی نے مجھے ہاتھ بھی لگایا تو تم کتے ہی کی موت مر جاؤ گے۔"
چوٹ کھانے والا اپنے ساتھیوں پر جا پڑا اور پھر ان میں سے دو کو اپنے ساتھ لیتا ہوا فرش پر ڈھیر ہو گیا۔
یہ سب کچھ چشمِ زدن میں ہوا تھا۔ ساکاوا نے اپنے ہاتھ اوپر اٹھا دئیے۔ اور آنے والوں سے بولا۔ "تم سب باہر جاؤ۔۔۔۔!"
"نہیں ٹھہرو! تم سب میرے ساتھ ہی باہر چلو گے، چلو مسٹر ساکاوا۔۔۔۔ان لوگوں کے پاس کھڑے ہو جاؤ۔ اے! تم سب بھی اپنے ہاتھ اوپر اٹھاؤ۔!"
انہوں نے بےچوں و چراں تعمیل کی! ساکاوا اپنے آدمیوں کے قریب جا کھڑا ہوا۔۔۔۔فراگ تیزی سے میز کی طرف بڑھا اور انسٹرومنٹس کے تار کھینچ کر الگ کر دئیے۔ پھر ریوالور کو جنبش دے کر بولا۔ "اب تم سب میز کے پاس آ جاؤ۔۔۔۔!"
ساکاوا دانت پیستا ہوا آگے بڑھا۔۔۔۔اس کے پیچھے وہ پانچوں بھی تھے۔
"بیٹھ جاؤ۔! لیکن تمہارے ہاتھ سروں پر ہونے چاہئیں۔" فراگ غرایا۔
خاموشی سے اس کی تنبیہہ کے مطابق تعمیل کی گئی۔ فراگ کی نظر ان پر تھی اور وہ بائیں ہاتھ سے اپنے کوٹ کا کالر ٹٹول رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے کالر سے سوئٹر بننے کی سلائی سے مشابہہ کوئی چیز کھینچ کر نکالی اور ان لوگوں کی طرف اچھال دی۔۔۔۔فرش پر گرتے ہی وہ ہلکی سی آواز کے ساتھ پھٹی تھی اور سرمئی رنگ کا غبار فضا میں بلند ہونے لگا تھا۔ فراگ تیزی سے باہر نکلا اور دروازہ بولٹ کر دیا۔ اندر سے ان کی کھانسیوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔
ریوالور والا ہاتھ اس نے پتلون کی جیب میں ڈالا اور نہایت اطمینان سے باہر نکلا چلا آیا۔
لوگوں نے اس دیکھا تو ، لیکن خصوصی توجہ کا شائبہ بھی ان کی آنکھوں میں نہیں تھا۔
احاطے میں وہ گاڑی موجود تھی جس پر وہ یہاں لایا گیا تھا۔ ڈرائیور بھی قریب ہی کھڑا نظر آیا۔ فراگ کو دیکھتے ہی وہ پچھلی نشست کی طرف جھپٹا تھا۔
دروازہ کھول کر ایک طرف ادب سے کھڑا ہو گیا۔ فراگ نے گاڑی پر بیٹھ کر سر کو جنبش دی۔ ڈرائیور دروازہ بند کر کے اگلی سیٹ پر جا بیٹھا۔ گاڑی اسٹارٹ ہو کر پھاٹک کی طرف بڑھ گئی۔
فراگ کے اطمینان میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا تھا۔ غالباً اسی بنا پر ڈرائیور اس کو اسی سمت لے چلا تھا۔جدھر سے لایا تھا۔
"پہلے مونی اوز کی طرف چلو۔" فراگ نے کچھ فاصلہ طے ہو جانے کے بعد کہا۔
"بہت بہتر جناب۔" ڈرائیور بولا۔
مونی اوز یہاں کی ایک ساحلی تفریح گاہ تھی۔
"ڈرائیور تیز چلو۔۔۔۔۔جلد ہی واپس بھی آنا ہے۔"
"بہت بہتر جناب۔"
"تم ایک مشتاق ڈرائیور معلوم ہوتے ہو۔" فراگ نے کچھ دیر بعد کہا۔
"شکریہ جناب۔۔۔۔آنرایبل پرائم منسٹر تیزرفتاری کے عاشق ہیں۔"
"میں جانتا ہوں! ہماری دوستی بیس سال پرانی ہے۔ آج میں بھی تمہاری مشاقی دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔کالے ٹیکرے پر چڑھا سکو گے۔۔۔۔؟"
"کوشش کروں گا جناب! اس سے پہلے کبھی اتفاق نہیں ہوا۔"
"کامیاب ہو گئے تو انعام دوں گا۔"
"شکریہ جناب!"
"میں اپنی بھاری جسامت کی بنا پر آج تک اوپر نہیں پہنچ سکا۔"
"میں ضرور لے چلوں گا جناب۔"
مونی اوز کی سب سے اونچی چٹان کالے ٹیکرے کے نام سے موسوم تھی اور اس تفریح گاہ کا یہ حصہ عموماً دور دور تک سنسان ہی پڑا رہتا تھا۔ کبھی کبھی صرف ایڈونچر کے شائق اس کی طرف توجہ دیتے تھے۔ چٹان کے اوپر پہنچنے میں سچ مچ ڈرائیور نے مشاقی کا ثبوت دیا۔
کئی بار ایسا محسوس ہوا تھا جیسے گاڑی پھسل کر کسی کھڈ میں جا پڑے گی۔ فراگ خود ہی دروازہ کھول کر گاڑی سے اترتا ہوا بولا۔ "واقعی تم باکمال آدمی ہو! تمہیں انعام بھی دوں گا اور تمہاری سفارش بھی کروں گا۔ میرے قریب آؤ۔"
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 152-153

اسٹیمر کی رفتار زیادہ تیز نہیں تھی۔ بالکل ایسا ہی لگتا تھا جیسے وہ کسی تفریحی سفر پر نکلا ہو۔
عمران اور اَم بینی ریڈیو روم میں تھے۔ اَم بینی وقفے وقفے سے فراگ کو کال کر رہی تھی لیکن ابھی تک جواب نہیں ملا تھا۔
"حیرت ہے۔" عمران سر ہلا کر بولا۔ "اتنی بڑی تنظیم ہے اور کسی کے کام پر جوں نہیں رینگتی۔۔۔۔!"
"یہ بات نہیں ہے! اگر خاص طور پر فراگ کو کال نہ کر رہی ہوتی تو کہیں نہ کہیں سے ضرور جواب ملتا۔"
"پرنس بہت خوش ہیں۔۔۔۔!" عمران کچھ دیر خاموش رہ کر بولا۔
"اوہ۔۔۔۔یہ تو بھول ہی گئی تھی۔۔۔۔یہ چواکواری کس قسم کی سزا ہوتی ہے۔"
"تم نہ سنو تو بہتر ہے! انتہائی غیررومانوی اور جمالیاتی حس کو ٹھیس پہنچانے والی سزا ہے۔ یا تو آدمی گڑگڑا کر معافی مانگ لیتا ہے۔ یا اٹھارہ گھنٹے بعد سفرِ آخرت اختیار کر لیتا ہے۔ بہرحال مجھے خوشی ہے کہ پرنس بنکاٹا بھاگ نکلے ورنہ چواکواری کا شکار ہو جاتے۔"
"واقعی بہت ضدی آدمی ہے۔" اَم بینی نے کہا، کچھ اور کہنے والی تھی کہ اچانک ٹرانسمیٹر پر اس کے نام کی کال سنائی دینے لگی۔
"اوہ۔۔۔۔فراگ!" اَم بینی اچھل پڑی۔ "وہ خود ہی بول رہا ہے۔"
"اَم بینی۔۔۔۔ا،م بینی۔۔۔۔فراگ کالنگ۔۔۔۔!"

"اَم بینی۔۔۔۔میرے پیارے۔۔۔۔!" وہ چہکی۔
"کہاں سے بول رہی ہو۔۔۔۔؟ کودورڈ میں بتاؤ۔۔۔۔ رد کی کوڈ۔۔۔۔!"
اَم بینی نے سنبھل سنبھل کر بولنا شروع کیا۔۔۔۔لیکن عمران کو ایسا ہی لگ رہا تھا جیسے کوئی نفاست پسند اور شائستہ کتیا ٹھہر ٹھہر کر بھونک رہی ہو ایک بات بھی پلے نہ پڑ سکی۔ پھر دوسری طرف سے فراگ کی آواز سنائی دی۔۔۔۔وہ بھی اسی طرح کچھ کہہ رہا تھا۔
دو منٹ بعد آوازوں کا یہ تبادلہ ختم ہوا اور اَم بینی عمران کی طرف مڑ کر پرجوش انداز میں بولی۔"ہم خطرے میں ہیں۔ اس نے کہا ہے کہ جہاں بھی ہو وہیں سے اسٹیمر کا رخ جنوب مشرق کی طرف موڑ دو۔"
"وجہ۔۔۔۔؟"
"بحث نہ کرو۔۔۔۔پہلے کیپٹن کو ہدایت دو۔۔۔۔پھر سب کچھ بتاؤں گی۔۔۔۔جلدی کرو۔"
عمران ریڈیو روم سے نکل گیا۔۔۔۔اَم بینی مضطربانہ انداز میں ٹہلتی رہی "کنگ چانگ" سے اسے پہلے ہی ہدایت مل چکی تھی کہ وہ اس سے اپنی ملاقات فراگ پر منکشف نہ ہونے دے۔ اس پر بھی ظاہر کرتی رہے کہ اسکی بے اعتمادی کے باوجود وہ اسی کی وفادار رہی ہے۔ اسی کی ہدایات پر عمل کرتی رہی ہے۔
دفعتاً اس نے محسوس کیا کہ اسٹیمر سمت بدل رہا ہے۔ اطمینان کی جھلک اس کی آنکھوں میں دکھائی دی تھی۔ پھر عمران واپس آ گیا اور ہونقوں کی طرح اس کی شکل دیکھنے لگا۔
"بہت بڑا خطرہ۔۔۔۔! موکارہ کا پرائم منسٹر نہیں چاہتا کہ ہربنڈا موکارہ کے ساحل پر قدم رکھے۔۔۔۔ اس کے آدمی ہمیں گھیرنے کی کوشش کریں گے۔!"
"خود فراگ بھی تو یہی چاہتا تھا کہ پرنس تاہیتی سے آگے نہ بڑھ سکیں مجھے پرنسز نے بتایا تھا۔" عمران بولا۔
"تب اور بات تھی! اب موکارہ والوں سے ہماری کھٹک گئی ہے۔ فراگ اب پرنس کے تحفظ کا خواہاں ہے۔۔۔۔!"
"موکارہ کے بادشاہ کو کیا ہو گیا ہے۔۔۔۔کیا وہ اپنی بہن کے بیٹے سے دشمنی کرے گا۔۔۔۔ان خاندانوں کی یہ روایت تو نہیں رہی۔۔۔۔؟"
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 154-156

"میں اس سے متعلق کچھ نہیں جانتی۔"
"میرا خیال ہے کہ ہم واقعی کنگ چانگ کے چکر میں پڑ گئے ہیں۔" عمران طویل سانس لے کر بولا۔ "اب اسٹیمر کا عملہ بھی ہمارے کہنے کے مطابق کام کر رہا ہے جیسے ہی میں نے کپتان سے اسٹیمر کا رخ موڑنے کو کہا اس نے بے چون و چرا تعمیل کی۔"
"دیکھو! کیا ہوتا ہے؟" اَم بینی نے پرتشویش لہجے میں کہا۔
"فراگ آخر کہاں سے بول رہا تھا۔۔۔۔؟"
"اس نے یہ نہیں بتایا۔۔۔۔لیکن یہ ضرور کہا تھا کہ جلد ہی ملاقات ہو گی۔"
"اچھا ہے۔۔۔۔تم سے پیچھا تو چھوٹے۔"
اَم بینی یک بیک سنجیدہ نظر آنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں مایوسی صاف پڑھی جا سکتی تھی۔
"کیا میں تمہیں اتنی ہی بری لگتی ہوں۔۔۔۔؟" اس نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔
"نہیں تو۔۔۔۔اچھی خاصی لگتی ہو۔"
"تو پھر مجھ سے کیوں چھٹکارا پانا چاہتے ہو۔"
"واہ۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ ہر اچھی چیز گردن میں لٹکا لی جائے۔"
"تم نے دوسروں کو یہ کیوں بتایا ہے کہ میں تمہاری بیوی ہوں۔۔۔۔؟"
"اس کے بغیر تم محل میں قدم نہیں رکھ سکتیں! اور اب تو ہم کھلے سمندر میں ہیں لہٰذا بیوی غرق شد۔۔۔۔!"
"پتا نہیں تم سچ مچ احمق ہو یا حد درجہ کے سنگدل۔۔۔۔ عورتوں سے اس طرح گفتگو نہیں کی جاتی۔۔۔۔!"
"کبھی عورت ہونے کا اتفاق نہیں ہوا، اس لیے قابلِ معافی ہوں۔"
"نہیں۔۔۔۔میرا دل نہ دکھایا کرو۔"
"کیا واقعی تم فراگ سے میری گردن تڑواؤ گی۔" عمران اسے گھورتا ہوا بولا۔
اَم بینی کچھ نہ بولی۔ اسے اس طرح دیکھتی رہی جیسے اس سے رحم کی طالب ہو عمران بھی غبیوں کے سے انداز میں اس کا منہ تکتا رہا۔
اچانک پرنس ہربنڈا کے نام کال شروع ہوئی۔ عمران نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اَم بینی کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا

"پرنس ہربنڈا۔۔۔۔موکارو کالنگ۔۔۔۔پرنس ہربنڈا۔۔۔۔!"
عمران نے آگے بڑھ کر سوئچ آف کر دیا اور اَم بینی سے بولا۔ "میں اس کال کا جواب دوں گا۔ تم دخل اندازی مت کرنا۔۔۔۔ وہ غالباً اسٹیمر کا نام اور نشان معلوم کرنا چاہتے ہیں۔"
"کوئی اوٹ پٹانگ بات نہ کہہ دینا۔"
"اچھا تو تم اسی لیے میرے سر پر سوار ہو۔۔۔۔صرف عورتوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔ ویسے بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں۔۔۔۔تم اپنی چونچ بند رکھو۔"
اَم بینی ہنس پڑی اور اس کے چہرے کے قریب انگلی نچا کر بولی۔" بالکل روایتی شوہر معلوم ہو رہے ہو۔۔۔۔!"
عمران نے ٹرانسمیٹر کا سوئچ پھر آن کر دیا۔ کال برابر جاری تھی۔۔۔۔!
"کون مخاطب ہے؟۔۔۔۔ہیلو ہیلو۔۔۔۔پرنس کو کون کال کر رہا ہے۔۔۔۔؟"
"تم کون ہو؟" دوسری طرف سے آواز آئی۔
"پرنس کا معتمد خصوصی۔۔۔۔! تم کون ہو؟"
"جہاز کا نام اور نشان بتاؤ۔۔۔۔ ہز میجسٹی بطورِخاص استقبال کرنا چاہتے ہیں۔"
"سروانا آسٹرچ۔۔۔۔!"
"کتنے میل پر ہو۔۔۔۔؟"
"بندرگاہ سے پندرہ میل کے فاصلے پر۔"
"اوور۔۔۔۔"
عمران سوئچ آف کرنے ہی والا تھا کہ فراگ کی آواز سنائی دی۔۔۔۔شاید اشاراتی زبان استعمال کر رہا تھا۔ جواب میں اَم بینی بھی کچھ بولی تھی اور ٹرانسمیٹر کا سوئچ آف کر کے عمران کی طرف مڑی تھی۔
"فراگ کہہ رہا تھا کہ دشمنوں کو اطلاعات کیوں دی جا رہی ہیں جب کہ میں نے خطرے سے آگاہ کر دیا تھا۔" اس نے عمران کو گھورتے ہوئے کہا۔
"ارے وہ زندگی بھر مینڈک ہی رہے گا۔" عمران ہنس کر بولا۔ "ہمارا اسٹیمر موکارو سے چالیس میل کے فاصلے پر جنوب مشرق میں مڑ گیا تھا۔ اور اسٹیمر کا نام اور نشان بھی میں نے غلط بتایا تھا۔ مینڈک سے عقل زیادہ رکھتا ہوں۔۔۔۔آدمی ہوں۔۔۔۔!"


"میں خوامخواہ تمہارے لے فکرمند رہتی ہوں۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی مسکرائی۔ چند لمحے دیکھتی رہی پھر بولی۔ "اب میں اسے صحیح پوزیشن سے آگاہ کئے دیتی ہوں۔"
"ضروری نہیں۔۔۔۔!"
"کیا مطلب۔۔۔۔؟"
"اب میں کسی پر بھی اعتماد نہیں کر سکتا۔ پرنس ہربنڈا میری ذمہ داری ہے۔ پرنسز ٹالابوآ نے اس میرے سپرد کیا ہے۔"
"صرف تم سے یا پرنس کے باڈی گارڈز سے کیا ہو سکے گا۔ فراگ بہت طاقتور ہے۔"
"گدھا ہے اول درجے کا۔ اگر میں نہ ہوتا تو موکارو والے اسے کافی میں بیہوشی کی دوا دے کر اٹھا لے جاتے۔"
"وہ احمق نہیں ہے، صرف تمہارا امتحان کرنا چاہتا تھا۔"
"میرا امتحان۔۔۔۔!" میں تو اسکول لیونگ میں بھی فیل ہو گیا تھا۔"
"بہرحال! فضول بوتیں چھوڑو! میں اسے تمہاری حکمتِ عملی سے آگاہ کرنے جا رہی ہوں۔"
"گردن کٹواؤ گی میری!" عمران نے خوفزدگی کی اداکاری کرتے ہوئے کہا۔" وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا۔"
"مجھ پر اعتماد کرو۔"
"کیا یاد نہیں کیسی بےعزتی سے نکالی گئی تھیں۔۔۔۔؟"
اَم بینی ہنس پڑی، پھر بولی۔" میں تمہیں سب کچھ بتا دوں گی لیکن ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔۔۔۔ مجھ پر اعتماد کرو۔۔۔۔فراگ تمہارا دوست نہیں ہے۔۔۔۔!"
"تو پھر وہ سب کچھ۔۔۔۔؟"
"اسے بھول جاؤ۔ فراگ کی باتیں دیر سے سمجھ میں آتی ہیں۔ آخر کنگ چانگ کا نائب جو ٹھہرا۔!"
"اچھا۔۔۔۔!" عمران مردہ سی آواز میں بولا۔ "جو دل چاہے کرو۔۔۔۔!"
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 157-159

اَم بینی نے دوبارہ ٹرانسمیٹر کا سوئچ آن کیا اور فراگ کو کال کر کے کوڈورڈز میں صورتِ حال سے آگاہ کرنے لگی۔۔۔۔عمران سر جھکائے کھڑا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس نے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہو۔
گفتگو ختم کر کے اَم بینی نے ٹرانسمیٹر بند کر دیا اور عمران کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتی ہوئی عرشے کی طرف چلی۔ "تم خواہ مخواہ ڈرے جا رہے ہو۔" وہ اس سے کہہ رہی تھی۔ "فراگ تم سے بہت خوش ہے! ابھی ابھی اس نے کہا ہے کہ تمہاری غلط فہمی دور کر دے گا۔"
"واقعی۔۔۔۔؟" عمران چہکا۔"تو تم میری غلط فہمی ہو۔"
"اچھا۔۔۔۔اچھا ستا لو۔۔۔۔ایک دن تمہیں بھی ٹھیک کر دوں گی۔"
وہ ریلنگ کے پاس آ کھڑے ہوئے۔ حدِ نظر تک چمکیلا سمندر پھیلا ہواتھا۔ سورج غروب ہونے میں ابھی دو ڈھائی گھنٹے کی دیر تھی۔ عمران نے گلے میں لٹکی ہوئی دوربین اٹھائی اور اطراف و جوانب میں نظر دوڑانے لگا۔
دفعتاً پشت سے جیمسن کی آواز آئی۔ "ہم بھی آ جائیں جناب!"
"یہاں کیا رکھا ہے۔" عمران نے مڑ کر جھلاہٹ کا مظاہرہ کیا۔
"پرنس تشویش میں مبتلا ہیں، ان کے پاس صرف آدھی بوتل رہ گئی ہے۔"
"اٹھا کر پھینک دو سمندر میں مردود کو۔" عمران نے اردو میں کہا۔
"وہ آپ کی شادی پر بیحد خوش ہیں۔"
"فاقے کرے گا۔۔۔۔ ہر وقت پائی پائی کا حساب لیتی رہتی ہے۔"
"ذرا دوربین مجھے دینا۔" دفعتاً اَم بینی بولی۔
"فکر نہ کرو۔۔۔۔میں پہلے ہی دیکھ چکا ہوں۔۔۔۔تین لانچیں ہیں۔۔۔۔!"
"اگر دشمن کی ہوئیں تو۔۔۔۔؟"
"تب بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔" عمران نے کہا اور جیمسن سے بولا۔ "تم کیبن میں جاؤ، جوزف پر نظر رکھنا۔"
وہ چلا گیا۔۔۔۔سامنے سے آنے والی لانچیں اب دوربین کے بغیر بھی دکھائی دینے لگیں تھیں۔ دوربین اَم بینی کے ہاتھ میں تھی اور وہ انہیں دیکھے جا رہی تھی۔ دفعتاً پرمسرت لہجے میں چیخی۔"اپنی ہی کشتیاں ہیں۔"
"کیسے معلوم ہوا۔۔۔۔؟"
"ایک پر جھنڈا بھی موجود ہے میں ریڈیو روم میں جا رہی ہوں۔"
"ارے۔۔۔۔ارے۔۔۔۔مجھے یہاں تنہا نہ چھوڑو۔۔۔۔!" عمران اس کے پیچھے دوڑتا ہوا بولا۔ لیکن وہ ریڈیو روم میں جانے کی بجائے کیپٹن کے کیبن کی طرف بڑھ گیا۔
کیپٹن اسے دیکھ کر اٹھ گیا۔
"بیٹھو۔۔۔۔بیٹھو۔۔۔۔" عمران ہاتھ ہلا کر بولا۔ اور جیبی ٹرانسمیٹر نکال کر اس کا سوئچ آن کیا۔ اَم بینی کی آواز سنائی دی۔ وہ آنے والی لانچوں سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ "یہلو کے سی۔۔۔۔ہیلو کے سی۔۔۔۔!"
کے سی شاید کنگ چانگ کا مخفف تھا۔ پھر اس نے وہی کوڈورڈز والی زبان سنی اور دوسری طرف سے ملنے والا جواب بھی سنا۔ ایک بھاری مردانہ آواز تھی۔
ٹرانسمیٹر جیب میں رکھ کر وہ آہستہ آہستہ کیپٹن کو کچھ ہدایت دینے لگا۔ ٹھیک اسی وقت اَم بینی کیبن میں داخل ہوئی۔ عمران نے اسے گھور کر دیکھا۔ شاید یہاں اس کی موجودگی پسند نہیں کرتا تھا۔ لیکن اَم بینی اسے نظر انداز کر کے بولی۔ "وہ کہہ رہے ہیں کہ متعلقہ افراد لانچوں میں منتقل ہو جائیں۔"
"اس سے کیا ہو گا۔۔۔۔؟" عمران مسمسی صورت بنا کر بولا۔
"موکارو کی کشتیاں اپنی حدود سے نکل کر اسٹیمرز کو گھیر رہی ہیں۔ ان میں ایسی کشتیاں بھی موجود ہیں جن پر توپیں نصب ہیں۔"
"تب تو میں بھی یہی مشورہ دوں گا جناب۔" کیپٹن نے عمران سے کہا۔ "پرنس گر اسٹیمر پر نہ ہوئے تو کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ لیکن آپ یہ نہ سمجھئے گا کہ اسٹیمر یہاں سے واپس بھی ہو سکتا ہے۔ ہم ان لانچوں پر نظر رکھیں گے۔"
عمران کی آنکھوں میں گہری تشویش کے آثار تھے۔۔۔۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا۔"اچھی بات ہے۔۔۔۔کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہے۔"

کچھ دیر بعد وہ اسی لانچ میں تھے جس پر جھنڈا نصب تھا۔ لانچ کا عملہ جوزف کے لیے تعظیماً جھکا تھا۔
عمران نے ظفر ، جیمسن اور جوزف کو تاکید کر دی تھی کہ وہ اپنی زبانیں بند رکھیں، ہر معاملے کو وہ خود ہی دیکھے گا۔ اَم بینی لانچ کے عملے سے گھل مل کر باتیں کر رہی تھی۔ عمران نے محسوس کیا کہ وہ لوگ اَم بینی سے بھی احترام کے ساتھ پیش آ رہے ہیں۔ خود اسے کسی نے گھاس بھی نہیں ڈالی تھی۔ اَم بینی نے بھی شاید اسے محسوس کیا تھا، پہلی ہی فرصت میں اس کی تشفی خاطر کی کوشش کی تھی۔
"میں نے مصلحتاً انہیں تمہاری اہمیت سے آگاہ نہیں کیا۔۔۔۔؟"
"مم۔۔۔۔۔میری۔۔۔۔اہمیت۔۔۔۔؟" عمران نے معصومیت سے کہا۔
"ہاں۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔یہی کہ میں تمہیں کتنا چاہتی ہوں۔"
"اب تو میں خود ہی آگاہ کر دوں گا۔" عمران نے غصیلے لہجے میں کہا۔ اور وہ ہنستی ہوئی پھر وہاں سے چلی گئی۔
اب تینوں لانچوں پر جھنڈے نظر آ ریے تھے۔ لیکن یہ اس جھنڈے سے مختلف تھے جو ایک لانچ پر پہلے نظر آ رہا تھا۔
اَم بینی نے بعد میں بتایا کہ وہ موکارو کے جھنڈے تھے اور مصلحتاً لگائے گئے تھے۔
سورج غروب ہو چکا تھا۔ لانچوں کی تیز رفتاری سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ جلد سے جلد کہیں پہنچنا چاہتے ہیں۔ پھر اندھیرا پھیلنے لگا۔ لیکن جلد ہی چاند نے افق سے سر ابھارا تھا۔ اور پھر بہت دور سے روشنیاں دکھائی دی تھیں۔ اَم بینی ایک بار پھر عمران کے پاس آئی۔
"ہم پونیاری میں اتریں گے۔" اس نے کہا۔
"یہ کیا چیز ہے۔۔۔۔؟"
"ایک چھوٹا سا جزیرہ! بس یہ سمجھ لو کہ یہاں کنگ چانگ ہی کی حکومت ہے۔"
"آخر یہ کنگ چانگ ہے کیا چیز۔۔۔۔ کم از کم اس کا ذریعہ معاش ہی بتا دو۔"
"تم نہیں جانتے۔۔۔۔؟"
"میں کیا جانوں۔۔۔۔"
"چلو یہ بھی معلوم ہو جائے گا۔۔۔۔خود ہی دیکھ لو گے۔!"


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اختتام​


دھویں کا حصار​
صفحات 150-159​
 

قیصرانی

لائبریرین
صفحہ نمبر 157-159

اَم بینی نے دوبارہ ٹرانسمیٹر کا سوئچ آن کیا اور فراگ کو کال کر کے کوڈورڈز میں صورتِ حال سے آگاہ کرنے لگی۔۔۔۔عمران سر جھکائے کھڑا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس نے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہو۔
گفتگو ختم کر کے اَم بینی نے ٹرانسمیٹر بند کر دیا اور عمران کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتی ہوئی عرشے کی طرف چلی۔ "تم خواہ مخواہ ڈرے جا رہے ہو۔" وہ اس سے کہہ رہی تھی۔ "فراگ تم سے بہت خوش ہے! ابھی ابھی اس نے کہا ہے کہ تمہاری غلط فہمی دور کر دے گا۔"
"واقعی۔۔۔۔؟" عمران چہکا۔"تو تم میری غلط فہمی ہو۔"
"اچھا۔۔۔۔اچھا ستا لو۔۔۔۔ایک دن تمہیں بھی ٹھیک کر دوں گی۔"
وہ ریلنگ کے پاس آ کھڑے ہوئے۔ حدِ نظر تک چمکیلا سمندر پھیلا ہواتھا۔ سورج غروب ہونے میں ابھی دو ڈھائی گھنٹے کی دیر تھی۔ عمران نے گلے میں لٹکی ہوئی دوربین اٹھائی اور اطراف و جوانب میں نظر دوڑانے لگا۔
دفعتاً پشت سے جیمسن کی آواز آئی۔ "ہم بھی آ جائیں جناب!"
"یہاں کیا رکھا ہے۔" عمران نے مڑ کر جھلاہٹ کا مظاہرہ کیا۔
"پرنس تشویش میں مبتلا ہیں، ان کے پاس صرف آدھی بوتل رہ گئی ہے۔"
"اٹھا کر پھینک دو سمندر میں مردود کو۔" عمران نے اردو میں کہا۔
"وہ آپ کی شادی پر بیحد خوش ہیں۔"
"فاقے کرے گا۔۔۔۔ ہر وقت پائی پائی کا حساب لیتی رہتی ہے۔"
"ذرا دوربین مجھے دینا۔" دفعتاً اَم بینی بولی۔
"فکر نہ کرو۔۔۔۔میں پہلے ہی دیکھ چکا ہوں۔۔۔۔تین لانچیں ہیں۔۔۔۔!"
"اگر دشمن کی ہوئیں تو۔۔۔۔؟"
"تب بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔" عمران نے کہا اور جیمسن سے بولا۔ "تم کیبن میں جاؤ، جوزف پر نظر رکھنا۔"
وہ چلا گیا۔۔۔۔سامنے سے آنے والی لانچیں اب دوربین کے بغیر بھی دکھائی دینے لگیں تھیں۔ دوربین اَم بینی کے ہاتھ میں تھی اور وہ انہیں دیکھے جا رہی تھی۔ دفعتاً پرمسرت لہجے میں چیخی۔"اپنی ہی کشتیاں ہیں۔"
"کیسے معلوم ہوا۔۔۔۔؟"
"ایک پر جھنڈا بھی موجود ہے میں ریڈیو روم میں جا رہی ہوں۔"
"ارے۔۔۔۔ارے۔۔۔۔مجھے یہاں تنہا نہ چھوڑو۔۔۔۔!" عمران اس کے پیچھے دوڑتا ہوا بولا۔ لیکن وہ ریڈیو روم میں جانے کی بجائے کیپٹن کے کیبن کی طرف بڑھ گیا۔
کیپٹن اسے دیکھ کر اٹھ گیا۔
"بیٹھو۔۔۔۔بیٹھو۔۔۔۔" عمران ہاتھ ہلا کر بولا۔ اور جیبی ٹرانسمیٹر نکال کر اس کا سوئچ آن کیا۔ اَم بینی کی آواز سنائی دی۔ وہ آنے والی لانچوں سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ "یہلو کے سی۔۔۔۔ہیلو کے سی۔۔۔۔!"
کے سی شاید کنگ چانگ کا مخفف تھا۔ پھر اس نے وہی کوڈورڈز والی زبان سنی اور دوسری طرف سے ملنے والا جواب بھی سنا۔ ایک بھاری مردانہ آواز تھی۔
ٹرانسمیٹر جیب میں رکھ کر وہ آہستہ آہستہ کیپٹن کو کچھ ہدایت دینے لگا۔ ٹھیک اسی وقت اَم بینی کیبن میں داخل ہوئی۔ عمران نے اسے گھور کر دیکھا۔ شاید یہاں اس کی موجودگی پسند نہیں کرتا تھا۔ لیکن اَم بینی اسے نظر انداز کر کے بولی۔ "وہ کہہ رہے ہیں کہ متعلقہ افراد لانچوں میں منتقل ہو جائیں۔"
"اس سے کیا ہو گا۔۔۔۔؟" عمران مسمسی صورت بنا کر بولا۔
"موکارو کی کشتیاں اپنی حدود سے نکل کر اسٹیمرز کو گھیر رہی ہیں۔ ان میں ایسی کشتیاں بھی موجود ہیں جن پر توپیں نصب ہیں۔"
"تب تو میں بھی یہی مشورہ دوں گا جناب۔" کیپٹن نے عمران سے کہا۔ "پرنس گر اسٹیمر پر نہ ہوئے تو کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ لیکن آپ یہ نہ سمجھئے گا کہ اسٹیمر یہاں سے واپس بھی ہو سکتا ہے۔ ہم ان لانچوں پر نظر رکھیں گے۔"
عمران کی آنکھوں میں گہری تشویش کے آثار تھے۔۔۔۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا۔"اچھی بات ہے۔۔۔۔کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہے۔"

کچھ دیر بعد وہ اسی لانچ میں تھے جس پر جھنڈا نصب تھا۔ لانچ کا عملہ جوزف کے لیے تعظیماً جھکا تھا۔
عمران نے ظفر ، جیمسن اور جوزف کو تاکید کر دی تھی کہ وہ اپنی زبانیں بند رکھیں، ہر معاملے کو وہ خود ہی دیکھے گا۔ اَم بینی لانچ کے عملے سے گھل مل کر باتیں کر رہی تھی۔ عمران نے محسوس کیا کہ وہ لوگ اَم بینی سے بھی احترام کے ساتھ پیش آ رہے ہیں۔ خود اسے کسی نے گھاس بھی نہیں ڈالی تھی۔ اَم بینی نے بھی شاید اسے محسوس کیا تھا، پہلی ہی فرصت میں اس کی تشفی خاطر کی کوشش کی تھی۔
"میں نے مصلحتاً انہیں تمہاری اہمیت سے آگاہ نہیں کیا۔۔۔۔؟"
"مم۔۔۔۔۔میری۔۔۔۔اہمیت۔۔۔۔؟" عمران نے معصومیت سے کہا۔
"ہاں۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔یہی کہ میں تمہیں کتنا چاہتی ہوں۔"
"اب تو میں خود ہی آگاہ کر دوں گا۔" عمران نے غصیلے لہجے میں کہا۔ اور وہ ہنستی ہوئی پھر وہاں سے چلی گئی۔
اب تینوں لانچوں پر جھنڈے نظر آ ریے تھے۔ لیکن یہ اس جھنڈے سے مختلف تھے جو ایک لانچ پر پہلے نظر آ رہا تھا۔
اَم بینی نے بعد میں بتایا کہ وہ موکارو کے جھنڈے تھے اور مصلحتاً لگائے گئے تھے۔
سورج غروب ہو چکا تھا۔ لانچوں کی تیز رفتاری سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ جلد سے جلد کہیں پہنچنا چاہتے ہیں۔ پھر اندھیرا پھیلنے لگا۔ لیکن جلد ہی چاند نے افق سے سر ابھارا تھا۔ اور پھر بہت دور سے روشنیاں دکھائی دی تھیں۔ اَم بینی ایک بار پھر عمران کے پاس آئی۔
"ہم پونیاری میں اتریں گے۔" اس نے کہا۔
"یہ کیا چیز ہے۔۔۔۔؟"
"ایک چھوٹا سا جزیرہ! بس یہ سمجھ لو کہ یہاں کنگ چانگ ہی کی حکومت ہے۔"
"آخر یہ کنگ چانگ ہے کیا چیز۔۔۔۔ کم از کم اس کا ذریعہ معاش ہی بتا دو۔"
"تم نہیں جانتے۔۔۔۔؟"
"میں کیا جانوں۔۔۔۔"
"چلو یہ بھی معلوم ہو جائے گا۔۔۔۔خود ہی دیکھ لو گے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top