دن کچھ کر دکھانے کا۔۔۔۔۔۔۔ ندیم ایف پراچہ


السٹریشن — خدا بخش ابڑو –.

آج کے دن دو قوتیں پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کرنے جائیں گی : ایک ووٹ کے ذریعہ ، دوسری بم کے ذریعہ- تاریخ یقیناً ان کے ساتھ ہوگی جن کے پاس ووٹ ہونگے، اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں-
اس سے فرق نہیں پڑتا کے کوئی جس کو بھی ووٹ دے، ہر وہ فرد اور جماعت جو کہ جمہوریت پہ ایمان رکھتا ہے اور انتخابات میں حصّہ لے رہا ہے خراج تحسین کا حقدار ہے- یہی وہ واحد نظام ہے جو کہ ملک کو زوال کی طرف گردش کرنے سے روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے-​
اسی حوالے سے پاکستانی افواج کے چیف جنرل پرویز کیانی بھی تعریف و تحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے واضح طور پر بار بار جمہوریت کے قیام کے لئے فوج کی حمایت پر زور دیا-​
بہرحال پاکستان کے چار میں سے تین صوبے اس وقت خوف کی گرفت میں ہیں – سندھ اور خیبر پختون خواہ میں اسلامسٹ اور فرقہ پرست گروہوں جب کہ بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کی طرف سے جماعتوں کے رہنما اور کارکنان پر بے رحمانہ حملے ہوئے ہیں-​
اگر آج نگران حکومت، فوج، رینجر اور پولیس، دلوں میں فتنہ انگیز نفرت اور ہاتھوں میں بم تھامے ان قوتوں کو نہ روک پائے تو 1970 کے بعد سے پہلی بار قومی سیاست کی تاریخ میں آنے والے اس عہد ساز موقع کے مقام کی حفاظت یہ ہم انتخابات شاید نہ کر پائیں-​
ذرا سوچیں: کیا ہوگا اگر پر امن انتخابات فقط پنجاب میں ہوں گے؟ اس بات کا قرین اندیشہ ہے کہ وہ صوبے جن کے ووٹر اس فتنہ انگیز تشدد سے متاثر ہووے ہیں وو کسی صورت بھی انتخابی نتائج قبول کرنے سے انکار کر دیں گے-​
تو پھر کس بنیاد پر جیتنے والی جماعت حکومت قائم کرنے کا دعویٰ کر سکے گی؟ اور اگر انہوں نے حکومت قائم کر بھی لی تو وہ ایک کمزور اور غیر مستحکم نظام ہوگا جس کو سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے لاکھوں لوگوں نے مسترد کر دیا ہوگا کیوں کہ فتنہ پروروں نے انہیں انتخاب کے دن گھروں میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا تھا-​
امید ہے کے ایسا نہیں ہوگا- امید ہے کہ حکومت کی طرف سے تعینات کے گئے لوگ پر امن انتخابات کی حفاظت کرنے اور فتنہ پروروں کو روکنے میں بڑی حد تک کامیاب رہیں گے-​
یہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے حکام اور فاتح جماعت انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی برہمگی اور شکایات کو کم سے کم رکھ سکیں گے اور پاکستان میں پہلی بار اقتدار کی منتقلی جمہوری طریقے سے ہو پائے گی-​
ہم سب جانتے ہیں کہ انتخابی مہم میں سب کچھ تھا سوائے آزادی کے- تین صوبوں میں فتنہ پروروں نے غضبناک تشدد اور خوف کی فضا قائم کر کے حالت میدان جنگ جیسی بنا دی جب کہ پنجاب میں دیکھا اور محسوس کیا گیا کہ ماحول بلکل کسی میلے جیسا ہے -​
اگر آج بھی ایسا ہی ہوا تو مجھے ڈر ہے کہ پنجاب مخالف جذبات جو کہ ہمیشہ سے سندھ، بلوچستان اور کسی حد تک خیبر پختون خواہ کی سیاست میں موجود رہے ہیں، وہ ان صوبوں میں وفاق دشمن عناصر کو دوبارہ ہوا دیں گے اور وہ سندھی، مہاجر، بلوچ اور پشتون پاکستانی جن کا ایمان ہمیشہ سے متحدہ وفاق میں رہا ہے اسکی لپیٹ میں آجائیں گے-​
اس لئے یہ ضروری ہے کہ حکومت اور وہ جماعتیں بھی جن کا اہم ووٹ بینک پنجاب میں ہے، اس بات کو یقینی بنائیں کہ انتخابی مہم کے برعکس ان تین صوبوں میں انتخابات کا فیصلہ خوف و ہراس اور بم سے نہ ہو-​
ابھی تک اس بات کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکا کہ سندھ (خصوصاً کراچی)، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں کتنے لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لئے جانا چاہتے ہیں- ان دھمکیوں کا خوف بالکل حقیقی ہے اور خفیہ اداروں کی یہ رپورٹ ہے کہ فتنہ پرور طاقتیں انتخابات کو بری طرح سبوتاژ کرنے کے منصوبے بنا رہی ہیں خاص طور سے ان صوبوں کے اھم شہری مراکز میں-​
لیکن پھر یہی رپورٹ پنجاب میں بھی ممکنہ دہشتگردی کا بتاتی ہے- مجھے یقین ہے کہ فوج اور حکومت اس خطرے کے بارے میں خبردار ہیں – لیکن پچھلی دہائی سے فتنہ پرور دہشتگردی کے ہتھکنڈے کچھ اس طرح کے ہو گئے ہیں کہ حکام کے لئے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہو گیا ہے کہ دہشتگرد کس قسم کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں -​
دوسرے لفظوں میں میں یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ حملہ ہوگا لیکن کس قسم کا ہوگا اس کا تعین کرنا مشکل ہے-​
ہوسکتا ہے شاید یہ دہشتگرد اس بات کا انتظار کر رہے ہوں کہ انکی نا پسندیدہ جماعتیں اپنے اوپر ہونے والے حملوں کے بعد انتخابات کا بائیکاٹ کر دیں- لیکن شاباش ہے ان جماعتوں کے اتحاد اور جمہوریت کے ساتھ وابستگی کی کہ ایسا نہیں ہوا-​
لیکن آج کچھ بھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ بھی نہ ہو- آئیں امید رکھیں اور دعا کریں کے کچھ بھی نہ ہو- خیر جو بھی ہو میں نے اپنے بہترین ہتھیار ‘ووٹ’ کے ساتھ باہر جانا ہے- اور مجھے امید ہے آپ بھی ایسا ہی کریں گے-​
تحریر:ندیم ایف پراچہ​
بہ شکریہ ڈان اردو
 
Top