دنیا پرستی کا بھیانک انجام

میر انیس

لائبریرین
ایک شخص نے حضرت عیسٰی(ع) سے جنگل و صحرا کی سیر کیلئے ساتھ جانے کی درخواست کی تو (ع)نے قبول فرمالیا اور دونوں وہاں سے روانہ ہوکر ایک بڑے دریا کے کنارے پہنچ گئے۔ دونوں نے دریا کے کنارے بیٹھ کر دستر خوان بچھایااور کھانا کھانے لگ گئے۔ انکے پاس تین روٹیاں تھیں۔دونوں نے دو روٹیاں کھالیں اور ایک باقی بچ گئی۔حضرت عیسٰی(ع)ٌ نے دریا پر جاکر پانی پیا اور واپس آگئے۔ آپ نے درسترخوان کی طرف دیکھا تو اس پر باقی ماندہ روٹی موجود نہیں تھی۔ اپ نے اپنے ہمسفر سے پوچھا کہ باقی بچ جانے والی روٹی کہا گئی اسنے کہا مجھے نہیں معلوم۔
اس واقعہ کے بعد دونوں وہاں سے اٹھے اور آگے روانہ ہوگئے کچھ فاصلہ پر حضرت (ع)نے جنگل میں ایک ہرنی کو دیکھا جسکے ہمراہ اسکے دو بچے تھےحضرت عیسٰی(ع) نے ہرنی کے ایک بچے کو اپنی جانب بلایا وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے اسکو زبح فرمایا اور اسکا گوشت بھون کر اپنے ہمراہی کے ساتھ تناول فرمایا۔ کھانے کے بعد آپ نے ہرنی کے بچے کو حکم دیا کہ اللہ کے حکم سے اٹھکر کھڑا ہوجا !تو وہ زندہ ہوگیا اور اپنی ماں کے پاس چلا گیا اس موقع پر آپ نے اپنے ہمسفر سے فرمایا تمہیں اُس ہستی کی قسم جس نے تم کو یہ معجزہ دکھایا مجھے بتائو وہ باقی ماندہ روٹی کہاں گئی اسنے ایک بار پھر جھوٹ بولا کہ مجھے نہیں معلوم۔
حضرت عیسٰی(ع) نے اسکے ساتھ سفر جاری رکھا اور دونوں ایک بہت بڑے دریا کے کنارے پنہچ گئےحضرت عیسٰی(ع) نے اپنے ہمراہی کا ہاتھ پکڑا اور سطحِ آب پر چل کر دریا پار کرلیا۔ اس موقع پر ایک بار پھر آپ نے اپنے ہم سفر سے پوچھا کہ تمہیں اس خدا کی قسم جسنے تم کو یہ معجزہ دکھایا بتائو وہ روٹی کہاں گئی۔ اسنے پھر وہی جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم۔
دونوں اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے ایک جنگل و بیاباں میں پنہچ گئے حضرت عیسٰی اپنے ساتھی کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئے اور وہاں سے کچھ مٹی جمع کرکے اس سے فرمایا اللہ کے حکم سے سونا بن جا جس پر وہ مٹی سونے میں تبدیل ہوگئی۔ حضرت (ع)نے اس سونے کو تین برابر کے حصوں میں تقسیم کیا اور اپنے ساتھ سے کہا کہ اس میں سے ایک میرا ہے ایک تمہارا اور ایک حصہ اس شخص کا ہے جسنے وہ باقی ماندہ روٹی کھائی تھی۔ وہ ہمسفر فوراََ بولا وہ روٹی تو میں نے ہی کھائی تھی۔حضرت عیسٰی(ع) نے فرمایا کہ تم یہ سارا سونا رکھ لو تم ایک دنیا دار شخص ہو، تم میری مصاحبت کے لائق نہیں ہو۔یہ فرماکر وہاں سے تشریف لے گئے
اس شخص نے اس جنگل میںاچانک دو آدمیوں کو اپنی جانب آتے دیکھا۔انہوں نے دیکھا کہ اسکے پاس تو بہت سا سونا ہے لہٰذا اسے قتل کرکے دونوں یہ سونا حاصل کرلیتے ہیں اسنے یہ التجا کی کہ اسے قتل نہ کریں ہم اس سونے کو تین حصوں میں تقسیم کرلیتے ہیں انہوں نے اسکی یہ پیشکش قبول کر لی۔کچھ دیر بعد انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو شہر سے کھانا لانے کیلیئے بھیجا اسنے راستے میں جاتے ہوئے خود سے کہا مجھے کھانے میں زہر ملادینا چاہئے تاکہ دونوں کھانا کھاتے ہی مرجائیں اور میں اکیلا اس سونے کا مالک بن جائوں ادھر ان دونوں نے سونے کے پاس بیٹھ کر آپس میں منصوبہ بنایا کہ جب انکا وہ ساتھی کھانا لے کر واپس پنہچے تو اسے قتل کرکے سونے کو آپس میں آدھا آدھا بانٹ لیں جیسے ہی انکا ساتھی کھانا لے کر واپس پنہچا تو دونوں نے مل کر اسے قتل کردیا پھر آرام سے بیٹھ کر کھانا کھانے میں مصروف ہو گئے مگر کچھ ہی دیر بعد زہر نے اپنا اثر دکھایا اور دونوں ہلاک ہوگئے۔ حضرت عیسٰی(ع) جب سفر سے واپس آئے تو دیکھا کہ سونے کے قریب تین لاشیں پڑی ہیں آپ(ع) نے اپنے حواریوں کو مخاطب کرکے فرمایا۔
''یہ ہے دنیا !اس سے ہوشیار رہو تاکہ یہ تمہیں دھوکا نہ دے۔''
کتاب : گناہگاروں کا بھیانک انجام صفحہ 158
 

arifkarim

معطل
خیر یہ تو محض‌ایک سبق آموز کہانی ہے۔ حقیقی واقعات کو کچھ زیادہ ہی "ٹچ" دیکر پیش کیا جاتا ہے!
 

میر انیس

لائبریرین
خیر یہ تو محض‌ایک سبق آموز کہانی ہے۔ حقیقی واقعات کو کچھ زیادہ ہی "ٹچ" دیکر پیش کیا جاتا ہے!

میں آپکا مطلب نہیں سمجھ پایا ذرا کھل کر بات کریں ۔ مجھکو اس واقعہ کو کہانی کہنے پر بھی اعتراض ہے پر ہوسکتا ہے یہ بےجا ہو
 
Top