دنیا سرد ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔

زھرا علوی

محفلین
یہ بات بڑی عجیب لگی ہے کیوں کہ ایک طرف تو دنیا بھر کی حکومتیں اور لوگ ’عالمی تپش‘یا گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن دنیا ہے کہ بجائے گرم ہونے کے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔



سورج کی سطح پر کالے رنگ کے دھبے پائے جاتے ہیں جو گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں اور ان کی جسامت 80 ہزار کلومیٹر تک ہو سکتی ہے۔ ان دھبوں کو ’سن سپاٹ‘ کہاجاتا ہے۔

آج کل ایک دل چسپ اور عجیب بات یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ سورج کی سطح سے یہ تمام دھبے غائب ہو گئے ہیں، اور اس بات نے تمام ماہرینِ شمسیات کو حیرت میں ڈال رکھا ہے کیوں کہ کسی کو اس کی وجہ معلوم نہیں ہے۔

حال ہی میں دنیا بھر سے ایک سو سائنس دان امریکہ کی مونٹینا سٹیٹ یونی ورسٹی میں اس مسئلے پر غور و خوض کرنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے۔ اجلاس میں شامل جاپان کی قومی رصد گاہ کے پروگرام منیجر ساکُو سونیتا نےاخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سائنس دان سورج کی دھبوں کے غائب ہونے کی وجہ سے کسی حد تک تشویش کا شکار ہیں۔

سونیتا کہتے ہیں کہ ماضیِ قریب میں ایک دور ایسا آیا تھا جب سورج کے دھبے 50 سال کے لیے غائب ہو گئے تھے اور اس عرصے میں زمین پر ایک ’منی آئس ایج‘یعنی مختصر برفانی دور آ گیا تھا۔ یہ بات ہے 1650ء سے لے کر 1700ء تک کی۔اس عرصے میں یورپ بھر کے دریا جم گئے تھے اور کئی علاقوں میں بستیاں زیرِ برف آ گئی تھیں۔

اجلاس میں شریک آسٹریلیوی جیو فزسسٹ فل چیپ مین کہتے ہیں کہ خلا سے لی گئی تصاویر سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سورج کے دھبے غائب ہو گئے ہیں۔انھوں نے انکشاف کیا کہ اسی دوران گذشتہ جنوری سے لے کر اس جنوری تک دنیا کے درجہٴ حرارت میں 0.7 ڈگری سنٹی گریڈ کی کمی واقع ہوئی ہے:

’یہ ریکارڈ کمی ہے جس کی وجہ سے ہم دوبارہ اسی درجہٴ حرارت تک پہنچ گئے ہیں جو 1930ء کے عشرے میں تھا‘، ڈاکٹر چیپ مین نے خیال ظاہر کیا۔

یہ بات بڑی عجیب لگتی ہے کیوں کہ ایک طرف تو دنیا بھر کی حکومتیں اور لوگ ’عالمی تپش‘یا گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن دنیا ہے کہ بجائے گرم ہونے کے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔

ارضیاتی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر برفانی ادوار گزرتے رہے ہیں۔ آج سے 12 ہزار برس قبل بھی زمین ایک برفانی دور سے گزر چکی ہے جو یک لخت ہی شروع ہو گیا تھا اور اس کے دوران شمالی بحرِ اوقیانوس کا علاقہ پانچ ڈگری سنٹی گریڈ تک ٹھنڈا ہو گیا تھا۔

کانفرنس میں شریک ایک روسی ماہرِ شمسیات اولگ سوروختِن پریقین ہیں کہ سورج کی پوشیدگی کا مطلب اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ دنیا سرد ہو رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کی طرف سے ماحول یا زمین کے درجہٴ حرارت میں پیدا کی جانے والی تبدیلی قدرتی عوامل کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

تو کیا یہ اس بات کی علامت ہے کہ ایک اور برفانی دور شروع ہونے والا ہے، جس کی وجہ سے دنیا ایک بار پھر برف کی لپیٹ میں آ جائے گی؟ اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا، کیوں کہ ابھی تک یہی بات واضح نہیں ہے کہ سورج کے دھبوں کا زمین کے درجہٴ حرارت سے کیا تعلق ہے۔


http://www.voanews.com/urdu/2008-06-12-voa15.cfm
 

طالوت

محفلین
اچھی بات بتائی آپ نے زھرا لیکن میرے لیئے بڑی پریشانی کی بات ہے مجھے سرد موسم بالکل پسند نہیں اگر یہ آیس ایج دوبارہ آ گئی تو۔۔۔۔۔ وسلام
 

مغزل

محفلین
یہ بات بڑی عجیب لگی ہے کیوں کہ ایک طرف تو دنیا بھر کی حکومتیں اور لوگ ’عالمی تپش‘یا گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن دنیا ہے کہ بجائے گرم ہونے کے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔



سورج کی سطح پر کالے رنگ کے دھبے پائے جاتے ہیں جو گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں اور ان کی جسامت 80 ہزار کلومیٹر تک ہو سکتی ہے۔ ان دھبوں کو ’سن سپاٹ‘ کہاجاتا ہے۔

آج کل ایک دل چسپ اور عجیب بات یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ سورج کی سطح سے یہ تمام دھبے غائب ہو گئے ہیں، اور اس بات نے تمام ماہرینِ شمسیات کو حیرت میں ڈال رکھا ہے کیوں کہ کسی کو اس کی وجہ معلوم نہیں ہے۔

حال ہی میں دنیا بھر سے ایک سو سائنس دان امریکہ کی مونٹینا سٹیٹ یونی ورسٹی میں اس مسئلے پر غور و خوض کرنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے۔ اجلاس میں شامل جاپان کی قومی رصد گاہ کے پروگرام منیجر ساکُو سونیتا نےاخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سائنس دان سورج کی دھبوں کے غائب ہونے کی وجہ سے کسی حد تک تشویش کا شکار ہیں۔

سونیتا کہتے ہیں کہ ماضیِ قریب میں ایک دور ایسا آیا تھا جب سورج کے دھبے 50 سال کے لیے غائب ہو گئے تھے اور اس عرصے میں زمین پر ایک ’منی آئس ایج‘یعنی مختصر برفانی دور آ گیا تھا۔ یہ بات ہے 1650ء سے لے کر 1700ء تک کی۔اس عرصے میں یورپ بھر کے دریا جم گئے تھے اور کئی علاقوں میں بستیاں زیرِ برف آ گئی تھیں۔

اجلاس میں شریک آسٹریلیوی جیو فزسسٹ فل چیپ مین کہتے ہیں کہ خلا سے لی گئی تصاویر سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سورج کے دھبے غائب ہو گئے ہیں۔انھوں نے انکشاف کیا کہ اسی دوران گذشتہ جنوری سے لے کر اس جنوری تک دنیا کے درجہٴ حرارت میں 0.7 ڈگری سنٹی گریڈ کی کمی واقع ہوئی ہے:

’یہ ریکارڈ کمی ہے جس کی وجہ سے ہم دوبارہ اسی درجہٴ حرارت تک پہنچ گئے ہیں جو 1930ء کے عشرے میں تھا‘، ڈاکٹر چیپ مین نے خیال ظاہر کیا۔

یہ بات بڑی عجیب لگتی ہے کیوں کہ ایک طرف تو دنیا بھر کی حکومتیں اور لوگ ’عالمی تپش‘یا گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن دنیا ہے کہ بجائے گرم ہونے کے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔

ارضیاتی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر برفانی ادوار گزرتے رہے ہیں۔ آج سے 12 ہزار برس قبل بھی زمین ایک برفانی دور سے گزر چکی ہے جو یک لخت ہی شروع ہو گیا تھا اور اس کے دوران شمالی بحرِ اوقیانوس کا علاقہ پانچ ڈگری سنٹی گریڈ تک ٹھنڈا ہو گیا تھا۔

کانفرنس میں شریک ایک روسی ماہرِ شمسیات اولگ سوروختِن پریقین ہیں کہ سورج کی پوشیدگی کا مطلب اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ دنیا سرد ہو رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کی طرف سے ماحول یا زمین کے درجہٴ حرارت میں پیدا کی جانے والی تبدیلی قدرتی عوامل کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

تو کیا یہ اس بات کی علامت ہے کہ ایک اور برفانی دور شروع ہونے والا ہے، جس کی وجہ سے دنیا ایک بار پھر برف کی لپیٹ میں آ جائے گی؟ اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا، کیوں کہ ابھی تک یہی بات واضح نہیں ہے کہ سورج کے دھبوں کا زمین کے درجہٴ حرارت سے کیا تعلق ہے۔


http://www.voanews.com/urdu/2008-06-12-voa15.cfm

واہ میرے مالک ۔۔ سبحان تیری قدرت

زھرا جی پیش کرنے کو شکریہ۔
والسلام
 
Top