دل کے برگد تلے

آتشیں زہر
رگ و پے میں ترے جاری ہے
جسم جلتا ہے ترا
سانس بھی رکتی ہے تیری
اور اس حبس کے جلتے ہوئے شعلوں کے گھنے جنگل میں
زہر آلودہ ہواؤں کی صدا آتی ہے
تیرے کانوں میں قیامت کی ندا آتی ہے
دل بکھر جاتا ہے دھنکی ہوئی روئی کی طرح

شہر میں نور کی بارش سے چمکتے چہرے
اپنی مہکی ہوئی سانسوں میں گلابی پیکر
وقت کی راہ پہ یوں جھومتے لہراتے ہیں
جیسے دریا کی پھسلتی ہوئی موجوں میں الجھتی موجیں
قہقہے، نرم، سنہری کرنیں
در و دیوار سے ٹکرا کے پلٹتے مڑتے
اس طرح پھیل رہے ہیں کہ مرے کانوں تک
گھنٹیاں بجنے لگیں نغموں کی
دل کے برگد پہ برسنے لگی شبنم جیسے
دھند میں لپٹا ہوا جسم ترا جنگل ہے
اپنی ہی آگ میں جلتا ہے کہ دربند ہیں آنکھوں کے ترے

ورنہ اس پار مرا شہر اگر دیکھے تو
نور میں ڈوباہوا شہر مرا
تیرے سینے میں چلے باد نسیم
حشر تھم جائے
ترے جسم کا جلتا جنگل
لہلہاتے ہوئے گلزار میں ڈھل جائے تو پھر
دل کے برگد تلے
گیان کی شبنمی بوندوں کا برسنا بھی سنے
اور پھر جھیل کے ٹھہرے ہوئے پانی میں کنول کی صورت
کھل اٹھے تیرا وجود

سعید الرحمن سعیدؔ
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین

فاتح

لائبریرین
واہ کیا کہنے سعید صاحب۔
بہت خوب سعید صاحب ! اچھی نظم ہے ۔ روانی ہے !
بس ذراایک نظر ان سطور کو دیکھ لیجئے۔ وزن توجہ چاہتا ہے ۔
میں نے ان دو سطور کو اکٹھا پڑھا اور وزن میں ہو گئیں۔
حشر تھم جائے، ترے جسم کا جلتا جنگل
اور شاید سعید صاحب بھی اسی طرح پڑھ رہے ہوں اور وزن میں لگ رہی ہوں دونوں سطور لیکن آپ کی بات بجا ہے کہ آزاد نظم میں جہاں جملہ مکمل ہوتا ہے اس کے بعد والے جملے کو الگ مصرع کے طور پر شروع کرنا زیادہ بہتر ہے۔

اور " دل کے برگد تلے" کو شاید "دل کے برگد کے تلے" لکھنا چاہ رہے ہوں گے سعید صاحب۔
 
آخری تدوین:
بہت خوب سعید صاحب ! اچھی نظم ہے ۔ روانی ہے !
بس ذراایک نظر ان سطور کو دیکھ لیجئے۔ وزن توجہ چاہتا ہے ۔
بہت خوب سعید صاحب ! اچھی نظم ہے ۔ روانی ہے !
بس ذراایک نظر ان سطور کو دیکھ لیجئے۔ وزن توجہ چاہتا ہے ۔
ظہیر بھائی آپکی توجہ اور وقت دینے کا شکریہ۔ گو کہ میری ناقص العلمی کے مطابق دونوں سطور ہی بحر میں ہیں۔ لیکن پھر بھی آپکی علمی راہنمائی کا طلبگار ہوں
پہلی کو پچھلی کے ساتھ تسلسل پڑھیں، "حشر تھم جائے، ترے جسم کا جلتا جنگل" اور دوسری نشاندھی میں دل کے برگد تلے 2۔1۔22 ۔۔ تلے 1۔1۔ اس بحر میں یہ دونوں صورتوں میں وزن میں ہو گا۔ دل کے برگد تلے ( 2212۔۔11) اور دل کے برگد کےتلے ( 2212۔۔211)
 
واہ کیا کہنے سعید صاحب۔

میں نے ان دو سطور کو اکٹھا پڑھا اور وزن میں ہو گئیں۔
حشر تھم جائے، ترے جسم کا جلتا جنگل
اور شاید سعید صاحب بھی اسی طرح پڑھ رہے ہوں اور وزن میں لگ رہی ہوں دونوں سطور لیکن آپ کی بات بجا ہے کہ آزاد نظم میں جہاں جملہ مکمل ہوتا ہے اس کے بعد والے جملے کو الگ مصرع کے طور پر شروع کرنا زیادہ بہتر ہے۔

اور " دل کے برگد تلے" کو شاید "دل کے برگد کے تلے" لکھنا چاہ رہے ہوں گے سعید صاحب۔
فاتح بھائی۔ آپکی علمی رہنمائی درکار ہے۔ میں نے " دل کے برگد " کو 2۔1۔22 ۔۔ اور تلے 1۔1۔ میں باندھا ہے ۔ ممیرے خیال میں اس بحر میں یہ دونوں صورتوں میں وزن میں ہو گا۔ دل کے برگد تلے ( 2212۔۔11) اور دل کے برگد کےتلے ( 2212۔۔211)۔
کیا میرا یہ موقف درست ہے؟
 

فاتح

لائبریرین
فاتح بھائی۔ آپکی علمی رہنمائی درکار ہے۔ میں نے " دل کے برگد " کو 2۔1۔22 ۔۔ اور تلے 1۔1۔ میں باندھا ہے ۔ ممیرے خیال میں اس بحر میں یہ دونوں صورتوں میں وزن میں ہو گا۔ دل کے برگد تلے ( 2212۔۔11) اور دل کے برگد کےتلے ( 2212۔۔211)۔
کیا میرا یہ موقف درست ہے؟
آپ کی اس نظم کی بحر رمل مخبون محذوف مسکن یعنی "فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن" ہے۔
غزل یا پابند نظم کے ہر مصرع میں ارکان کی تعداد ایک سی ہوتی ہے۔ لیکن آزاد نظم ہونے کی صورت میں آزادی صرف اتنی حاصل ہوتی ہے کہ غزل یا پابند نظم کے برعکس یہاں آپ ارکان کی تعداد ہر مصرع میں اپنی مرضی سے رکھ سکتے ہیں۔

آپ کی نظم کا مصرع ہے
دل کے برگد پہ برسنے لگی شبنم جیسے
دل کے برگد ۔ پہ برسنے ۔ لگی شبنم ۔ جیسے
2 1 2 2 ۔ ۔۔1 1 2 2 ۔۔1 1 2 2 ۔۔2 2
فاعلاتن ۔۔۔ فعِلاتن ۔۔۔ فعِلاتن ۔۔ فعلن

اس مصرع کا پہلا حصہ "دل کے برگد پہ برس" بطور کسوٹی لے لیں اور اس پر رکھ کے "دل کے برگد تلے" اور "دل کے برگد کے تلے" دونوں کو پرکھ لیں۔

دل کے برگد ۔ پِ برس
فاعلاتن ۔۔۔ فعِلن
2 1 2 2 ۔۔1 1 2
(آخری رکن فعلن 2 2 بھی ہو سکتا ہے اور فعِلن 1 1 2 بھی)

دل کے برگد ۔تلے
فاعلاتن ۔۔۔ ؟؟؟
2 1 2 2 ۔۔؟؟؟
اب "دل کے برگد" تو اوپر کے مصرع کی طرح فاعلاتن پر پورا اتر گیا۔ کیا یہاں آپ "تلے" کو "پہ برس" کی طرح فعِلن 1 1 2 کا ہم وزن قرار دے سکتے ہیں یا فعلن 2 2 کا؟ نہیں!
ہاں! اگر یہاں "کے تلے" ہو تو ے کو حرفَ علت ہونے کی وجہ سے گرا دیا جائے گا اور یوں "کے تلے" بر وزن فعِلن 1 1 2 ہو جائے گا۔

اگر آپ تلے کی ے کو حذف کر کے اسے فعِلاتن 1 1 2 2 یا فعِلن 1 1 2 رکن کا پہلا حصہ فعِ 1 1 بنانا چاہ رہے ہیں تو پھر اگلی سطر کو فاعلاتن شروع کرنے کی بجائے اسے فعِلاتن 1 1 2 2 یا فعِلن 1 1 2 رکن کا اگلا حصہ بنائیں جیسے
دل کے برگد تلے گیانی بیٹھے
وغیرہ
لیکن صرف فعِ 1 1 تو اس بحر میں مستعمل چار مختلف قسم کے ارکان فاعلاتن، فعِلاتن، فعِلن اور فعِلن میں سے ایک بھی نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
آپ کی اس نظم کی بحر رمل مخبون محذوف مسکن یعنی "فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن" ہے۔
غزل یا پابند نظم کے ہر مصرع میں ارکان کی تعداد ایک سی ہوتی ہے۔ لیکن آزاد نظم ہونے کی صورت میں آزادی صرف اتنی حاصل ہوتی ہے کہ غزل یا پابند نظم کے برعکس یہاں آپ ارکان کی تعداد ہر مصرع میں اپنی مرضی سے رکھ سکتے ہیں۔

آپ کی نظم کا مصرع ہے
دل کے برگد پہ برسنے لگی شبنم جیسے
دل کے برگد ۔ پہ برسنے ۔ لگی شبنم ۔ جیسے
2122 ۔ ۔۔1122۔۔1122۔۔22
فاعلاتن ۔۔۔ فعِلاتن ۔۔۔ فعِلاتن ۔۔ فعلن

اس مصرع کا پہلا حصہ "دل کے برگد پہ برس" بطور کسوٹی لے لیں اور اس پر رکھ کے "دل کے برگد تلے" اور "دل کے برگد کے تلے" دونوں کو پرکھ لیں۔

دل کے برگد ۔ پِ برس
فاعلاتن ۔۔۔ فعِلن

دل کے برگد ۔تلے
فاعلاتن ۔۔۔ ؟؟؟

اب "دل کے برگد" تو اوپر کے مصرع کی طرح فاعلاتن پر پورا اتر گیا۔ کیا یہاں آپ "تلے" کو "پہ برس" کی طرح فعِلن کا ہم وزن قرار دے سکتے ہیں؟ نہیں!
ہاں! اگر یہاں "کے تلے" ہو تو ے کو حرفَ علت ہونے کی وجہ سے گرا دیا جائے گا اور یوں "کے تلے" بر وزن "فعِلن" ہو جائے گا۔

یہ شاعری کی سائنس تو قدرتی سائنس سے بھی زیادہ مشکل لگ رہی ہے :(
 

الف عین

لائبریرین
عزییزی arifkarim @ آج کل شاعری کے دھاگوں میں نظر آ رہے ہیں، یا حیرت!!!واقعی آدمی کو بگڑتے دیر نہیں لگتی۔
سعید میاں سے معذرت کہ ان کی نظم کی تعریف کی جگہ بات عارف سے شروع کی!!!
آزاد نظموں میں اکثر ایسی مثالیں مل جاتی ہیں جہاں کسی بحر کے باقی ماندہ ارکان چھوڑ دئے جائیں، اور اگلا مصرع کسی نصف رکن سے شروع ہو۔ ایسے مصرعے سننے میں اچھے نہ لگتے ہوں، لیکن انہیں مکمل غلط نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں، بہتر یہ ہے کہ روانی کی خاطر مصرعے پورے پورے افاعیل میں ہوں۔
 
جیسے دریا کی پھسلتی ہوئی موجوں میں الجھتی موجیں
قہقہے، نرم، سنہری کرنیں
در و دیوار سے ٹکرا کے پلٹتے مڑتے
اس طرح پھیل رہے ہیں کہ مرے کانوں تک
گھنٹیاں بجنے لگیں نغموں کی
دل کے برگد پہ برسنے لگی شبنم جیسے
دھند میں لپٹا ہوا جسم ترا جنگل ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واہ واہ واہ ۔۔۔ بھرپور داد
 
عزییزی arifkarim @ آج کل شاعری کے دھاگوں میں نظر آ رہے ہیں، یا حیرت!!!واقعی آدمی کو بگڑتے دیر نہیں لگتی۔
سعید میاں سے معذرت کہ ان کی نظم کی تعریف کی جگہ بات عارف سے شروع کی!!!
آزاد نظموں میں اکثر ایسی مثالیں مل جاتی ہیں جہاں کسی بحر کے باقی ماندہ ارکان چھوڑ دئے جائیں، اور اگلا مصرع کسی نصف رکن سے شروع ہو۔ ایسے مصرعے سننے میں اچھے نہ لگتے ہوں، لیکن انہیں مکمل غلط نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں، بہتر یہ ہے کہ روانی کی خاطر مصرعے پورے پورے افاعیل میں ہوں۔
قبلہ الف عین صاحب۔ آپکی اصلاح، بے لاگ تبصرے اور شفقت درحقیقت کسی بھی سخنور اور خصوصاً مجھ جیسے کسی مبتدی کیلیے نعمت خداوندی سے کم نہیں۔ آپ مجھے ہمیشہ اپنا مودب برخودار اور احسانمند پائیں گے۔ آپکی صحت اور سلامتی کیلیے ہزاروں دلی دعائیں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی آپکی توجہ اور وقت دینے کا شکریہ۔ گو کہ میری ناقص العلمی کے مطابق دونوں سطور ہی بحر میں ہیں۔ لیکن پھر بھی آپکی علمی راہنمائی کا طلبگار ہوں
پہلی کو پچھلی کے ساتھ تسلسل پڑھیں، "حشر تھم جائے، ترے جسم کا جلتا جنگل" اور دوسری نشاندھی میں دل کے برگد تلے 2۔1۔22 ۔۔ تلے 1۔1۔ اس بحر میں یہ دونوں صورتوں میں وزن میں ہو گا۔ دل کے برگد تلے ( 2212۔۔11) اور دل کے برگد کےتلے ( 2212۔۔211)

سعید بھائی ، تاخیر سے جواب دینے کی معذرت! برادرم فاتح اور محترمی اعجاز صاحب پہلے ہی ان نکات کی وضاحت فرما چکے ہیں۔ تلے کے وزن پر بھی بات ہوچکی ہے۔ تلے بروز فعِل ہے ۔ اس کی ے کا اسقاط نہیں کیا جاسکتا ۔ سعید بھائی امید ہے وضاحت ہوگئی ہوگی۔
 
Top