دل میرا لہو روئے

دل مضطر

محفلین
دل میرا لہو روئے​


ایک کمانڈو کی پرسوز داستان


سجاد علی ساجد


(میری اپنی تحریر ہے اسلئے جملہ حقوق بھی میرے ذاتی محفوظ ہیں۔ دلِ مضطر)​
 

دل مضطر

محفلین
مجھے آج بھی جب وہ باتیں یاد آتیں ہیں تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔’’میں چیخ مارنا چاہتا ہوں۔۔۔‘‘
پر میری حلق تو خشک ہے۔صدیوں سے پیاسے کی طرح۔پانی کے سمند ر بھی اسے تر نہیں کر سکے۔۔۔

میں زندہ ہوں پر ایک زندہ لاش کی طرح۔’’کاش میں بھی وہیں لاش بن جاتا‘‘

وہ سب کیا تھا؟۔۔’کیا بھیا نک خواب۔۔۔۔؟‘‘

نہیں وہ خواب نہیں تھا ۔ خواب زندگی اجل نہیں کرتے ۔ وہ تو ایک تلخ حقیقت تھی۔

میں رو رہا تھا۔۔ ۔لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن ۔۔

’’میں بزدل نہیں تھا۔۔ وہ میری بزدلی نہیں تھی‘‘

وہ تو ایک جزبہ تھا، ایک یاد، ایک محبت اور ایک شدید غم بھی۔

مجھے اپنے اُستا د نے کہا تھا ۔
’’بیٹا اس ملک کے بغیر ہم کچھ نہیں ہیں‘‘

’’ہم اگر خون کا ایک ایک قطرہ بھی اس ملک کے لئے بہا دیں تو کم ہے۔۔ ہم بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں‘‘

اور مجھے اپنے انسٹرکٹر کی بات بھی یاد ہے۔
’’میرے نوجوان زندگی کے آخری لمحے تک لڑنا۔ آخری دم تک لڑنا۔ اپنے ملک کی خاطر لڑنا۔ اور حالات سے کبھی نہ گھبرانا۔ زندگی خدائے ذولجلال کے پاس ہے‘‘

’’میرے نوجوان! تم ہی تو ہو ان سرحدوں کے پاسبان‘‘

لوگوں نے جب مجھے دیکھا تو افسوس کر دیا۔۔ ’’لیکن۔۔۔آہ!‘‘

اُنھیں کیا پتہ میرے دل پر کیا گزر رہی ہے۔ سب کچھ لُٹ چکا تھامیرا۔۔ سب کچھ۔۔۔۔۔۔

’’میں ، میری زندگی، میرے جانباز اور سب کچھ‘‘

’’کاش۔۔۔۔۔۔کاش‘‘

ooo​

میں نے اپنے آبائی قصبے سے مڈل کیا۔ میٹرک اور ایم اے میں نے پنڈی شہر سے کی۔ چونکہ میرے والد بھی فوج میں حوالدار رہے تھے۔ اسلئے مجھے شروع سے ہی فو ج میں جانے کا شوق تھا۔ تعلیم سے فارغ ہوکر میں نے پاک آرمی جائن کر لی۔
اچھی تعلیم اور شوق کی وجہ سے جلد ہی میں کیپٹن بن گیا۔ پھر مجھے B.S.F(بارڈر سیکیورٹی فورسز)میں بھیج دیا گیا۔ میں نے B.S.Fمیں ایک سال گزارا۔

ایک دن میں اپنے آفس میں بیٹھا ہوا تھا کہ فون کی گھنٹی بج اُٹھی۔ میں نے رسیور اُٹھایا۔

’’کیپٹن حسن میرے آفس میں آؤ‘‘ دوسری طرف سے کمانڈر کی آواز سنائی دی۔

’’یس سر‘‘ میں نے کہا ۔

اپنی کیپ وغیرہ درست کرکے کمانڈر کے کمرے کی طرف چل دیا۔کچھ دیر بعد میں کمانڈر کے آفس کے سامنے موجود تھا۔ اند ر داخل ہوکر سلیوٹ کیا اور کہا۔’’سر‘‘

’’بیٹھ جاؤ کیپٹن‘‘ کمانڈر نے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

’’تھینک یو سر‘‘ میں نے کہا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔

’’تمہیں پتہ ہے ملکی حالات بہت خراب ہیں۔ اسلئے سیکیورٹی مزید سخت کر دو‘‘ کمانڈر نے کہا۔

’’یس سر‘‘ میں نے کہا۔

’’ ’’ را‘‘ کے ایجنٹوں کے داخل ہونے کا خطرہ ہے۔ تم اپنی نگرانی میں سرحد پر کڑی نظر رکھو۔۔ رائیٹ‘‘ کمانڈر نے کہا۔

’’یس سر‘‘ میں نے کہا۔

’’اپنے ساتھ جتنی رجمنٹ لے جانا چاہو لے جاؤ۔ گشتی پارٹیوں کو سختی سے حکم دے دو کہ سرحد پر کڑی نظر رکھیں‘‘ کمانڈر نے کہا۔

’’ٹھیک ہے سر‘‘ میں نے کہا۔

’’او۔کے اب تم جاسکتے ہو‘‘ کمانڈر نے کہا ۔

میں سلیوٹ کر کے واپس اپنے کمرے میں آگیا۔ اپنی کرسی پر بیٹھتے ہی میں نے گھنٹی بجائی۔ کچھ دیر بعد چپڑاسی اندر داخل ہوا۔

’’یس سر‘‘ اُس نے سلیوٹ کرکے کہا۔

’’حوالدار اسلم کو بلاؤ‘‘ میں نے کہا۔چپڑاسی ’’یس سر‘‘ کہتا ہوا واپس مڑ گیا۔ اُسی لمحے فون کی گھنٹی بج اُٹھی۔

’’یس ‘‘ میں نے کہا۔

’’کرنل خان بول رہا ہوں‘‘دوسری طر ف سے کرنل خان کی آواز سنائی دی۔ کرنل خان مجھ پر نہایت مہربان تھے۔اُن کی شفقت کی وجہ سے مجھے آج یہ مقام حاصل تھا۔ وہ میرے والد صاحب کے محسن اور دوست تھے۔ اور والد صاحب کی وفات کے بعد اُنھیں کا سایہ میرے سر پر تھا۔آج اچانک اُن کا فون آنے کی وجہ سے میں حیران ہو گیا۔

’’یس سر‘‘ میں نے چونک کر کہا۔

’’ کیپٹن حسن تم نے مجھے ایک بار کہا تھاکہ تمہیں کمانڈو بننے کا شوق ہے‘‘ کرنل خان نے کہا۔

’’یس سر‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔

’’ہم نے بیس نوجوانوں کو کمانڈو ٹریننگ دینی ہے۔ جن میں سے ایک نام میں نے تمہارا سیلکٹ (Select)کیاہے۔مجھے تمہاری لگن اور محنت کا اچھی طرح پتہ ہے۔ مجھے اُمید ہے تم میرے معیار پر پورا اترو گے۔‘‘کرنل خان نے کہا۔

’’یس سر۔ تھینک یو سر‘‘ میں نے مسرت بھرے لہجے میں کہا۔

’’او۔کے۔ بہت جلد تمہیں آرڈرز مل جائیں گے۔ تم نے میرے آفس آنا ہوگا۔ وش یو گڈ لک‘‘ کرنل خان نے کہا اور اس کے ساتھ ہی رابطہ ختم ہوگیا۔

آج میری دیرینہ خواہش پوری ہونے جارہی تھی۔ خوشی و جزبات سے پُر لہجے میں،میں نے اﷲ کا شکر اداکیا۔اُسی وقت حوالدار اسلم اند ر داخل ہوا۔

’’یس سر‘‘ اُس نے سلیوٹ کرنے کے بعد کہا۔

’’بیٹھو‘‘ میں نے کہا تو حوالدار اسلم میز کے دوسری جانب رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گیا۔

میں نے کمانڈر صاحب کے احکامات حوالدار اسلم تک پہنچائے اور اُسے فوجی اِکٹھے کرنے کو کہا۔

’’سر آپ کے خیا ل میں کتنے فوجی ہونے چاہئیں‘‘ حوالدار اسلم نے کہا۔

’’پچاس فوجی جمع کر لو اور پانچ پانچ کی گشتی پارٹیاں بنا لو اور اُنھیں چوکس رہنے کا حکم دو ۔ میں ابھی آرہا ہوں‘‘ میں نے کہا۔

’’یس سر‘‘ حوالدار اسلم نے کہا اور سلیوٹ کر کے چلا گیا۔

ابھی میں باہر جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ کمانڈر نے ایک بار پھر مجھے اپنے کمرے میں بلایا۔ کچھ دیر بعد میں کمانڈر کے کمرے میں موجود تھا۔

’’ کیپٹن مبار ک ہو۔ تمہاری ٹرانسفر کمانڈو رجمنٹ میں ہوگئی ہے۔ ابھی مجھے کرنل خان کا فون آیا ہے۔ تحریری کاغذات بھی تمہیں اُنھیں کے آفس سے مل جائیں گے‘‘ کمانڈر نے کہا۔

’’تھینک یو سر‘‘ میں نے مسرت بھرے لہجے میں کہا۔

’’تم نے میرے ساتھ بہت اچھا وقت گزارا ہے۔ تمہارے اند ر کمانڈو بننے کی صلاحیتیں موجود ہیں۔ میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کمانڈر نے کہا۔

میں ’’شکریہ‘‘ ادا کرکے واپس آگیا۔ میرا دل بلیوں سے اُچھل رہا تھا۔ کیونکہ میری دلی خواہش آج پوری ہو گئی تھی۔ میں اپنے تمام فوجی ساتھیوں سے ملا اور اب میرا ارداہ کرنل خان کی طرف جانے کا تھا۔


ooo​
 

دل مضطر

محفلین
فوجی جیپ مجھے چھاؤنی میں چھوڑ کر چلی گئی۔ میں کرنل خان کے آفس کی طرف جا رہا تھا کہ اچانک پیچھے سے مجھے آواز آئی۔’’حسن‘‘

میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو حیرت کا ایک جھٹکا مجھے لگا۔ پیچھے میراایک بہت اچھا دوست کھڑا تھا۔

کیپٹن زاہد میرا بچپن کا دوست تھا۔ کیپٹن زاہد اور میں نے گریجوئیشن اکٹھے کیا تھا۔گریجوئیشن کے بعد اُس کے والد کی ٹرانسفر پنڈی سے لاہور ہو گئی تھی۔ مجھے یہ تو پتہ تھا کہ زاہد بھی فوج میں ہے لیکن یہ پتہ نہ تھا کہ لاہور چھاؤنی میں ہے۔ آج اتنے عرصے بعد اُسے دیکھ کر مجھے حیر ت بھی ہوئی تھی اور خوشی بھی۔

’’زاہد تم‘‘ میں نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔

’’ہاں میں کیپٹن صاحب۔ راستے میں ایسے نظر انداز کر گئے جیسے پہچانتے ہی نہیں۔ ایک ہم ہیں کہ ہر ایرے غیرے سے بھی گپیں لگا لیتے ہیں‘‘ کیپٹن زاہد نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔

میں بھاگ کر گیا اور اپنے دوست سے لپٹ گیا۔کسی فوجی رول کا خیال نہیں رکھا تھا۔ اتنے دنوں کے بعد ملنے پر مجھے بہت مسرت ہوئی تھی۔ یہ تو شکر ہے کوئی اُس وقت اُدھر موجود نہیں تھا۔

’’کیا بات کرتے ہو یار۔۔ میں نے تمہیں راستے میں نہیں دیکھا‘‘میں نے کہا۔

’’ اچھا ٹھیک ہے۔۔۔۔ اوئے!۔۔ میری پسلیاں۔۔۔۔‘‘آخر میں کیپٹن زاہد نے چہرے پر تکلیف کے تاثرات لاتے ہوئے کہا۔’’ابھی کسی نے دیکھ لیا تو کرنل خان کے سامنے مرغا بن کے ٹھہرے ہوں گے‘‘

’’یعنی سکول میں مرغا بننا تمہیں آج بھی یاد ہے‘‘ میں نے کہا اور پھر ہم دونو ں ہی ہنس دیے۔

’’ مجھے تو پتہ بالکل نہیں تھا کہ تم لاہور چھاؤنی میں ہو ورنہ تمہیں ضرور فون کرلیا کرتا‘‘ میں نے کہا۔

’’تم کہاں ڈیوٹی دے رہے ہو؟‘‘ کیپٹن زاہد نے کہا۔’’اُس دن تمہیں جیب میں بیٹھے دیکھا تھا۔ لیکن قسمت کہ اُسی وقت ٹریفک لائیٹ جل اُٹھی اسلئے تمہارے پیچھے نہیں جا سکا‘‘

’’ہاں۔اُس دن کمانڈر کے کام سے یہاں شہر آیا ہوا تھا ۔ میری ڈیوٹی B.S.Fمیں تھی‘‘ میں نے کہا۔ ہم دونو ں ساتھ چلتے جا رہے تھے۔ اور چھاؤنی کے ایک خوبصورت باغ میں بینچ پر بیٹھ گئے۔

’’تھی کا کیا مطلب ہوا‘‘ کیپٹن زاہد نے چونک کر کہا۔

’’میری ٹرانسفر کمانڈو رجمنٹ میں ہو گئی ہے‘‘ میں نے کہا۔

’’ اوہ۔۔۔ بہت بہت مبارک ہو۔۔ اس کا مطلب ہے۔ اب کمانڈو بن گئے ہو۔ واہ بھئی واہ۔ اب تو دو دو مٹھائیاں کھاؤں گا‘‘کیپٹن زاہد نے کہا۔

’’زاہد کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ تم بھی کمانڈو رجمنٹ میں آجاؤ‘‘میں نے اُمید بھرے لہجے میں کہا۔

’’نہیں یا ر نہیں۔ مجھے تو معاف ہی رکھو۔ مجھ سے یہ کمانڈری وغیرہ نہیں ہوگی‘‘ کیپٹن زاہد نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔

’’اچھا چھوڑو اس بات کو ۔یہ بتاؤ کہ چچا جان کیسے ہیں اور چچی کیسی ہیں‘‘ میں نے بات کا رُخ موڑتے ہوئے کہا۔

’’بابا تو ٹھیک ہیں لیکن اماں کی طبیعت خراب رہتی ہے‘‘ کیپٹن زاہد نے کہا’’ اچھا میں اب چلتا ہوں ۔ میری ڈیوٹی کا وقت ہونے والا ہے۔ رات کو میرے گھر چلیں گے‘‘ اس نے گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے اجازت مانگی اور چل دیا۔

ooo​

میں اُٹھا اور سیدھا کرنل خان کے آفس کی گیا ۔ کرنل خان اپنے آفس میں موجود تھے۔ کرنل خان نے مجھے ایک بند لفافہ دیا اور کچھ ہدایا ت کے بعد اپنے نئے انسٹرکٹر سے ملنے کو کہا۔

’’ مجھے یقین ہے تم میرے اعتماد پر پورا اترو گے‘‘ کرنل خان نے کہا۔

’’یس سر۔ انشاء اﷲ میں آپ کے اعتماد پر پورا اتروں گا‘‘ میں نے کہا۔وہاں سے انسٹرکٹر کے آفس گیا۔

’’کیپٹن میں نے تمہاری رپورٹ پڑھ لی ہے۔ تمہاری کارکردگی بہت اچھی رہی ہے۔ تم میں ایک بہتر کمانڈو بننے کی صلاحیتیں موجود ہیں‘‘ انسٹرکٹر نے کہا۔

’’تھینک یو سر‘‘ میں نے کہا۔

’’کل سے تمہاری ٹریننگ شروع ہوجائے گی‘‘ انسٹرکٹر نے کہا۔

رات کو کھانا کھا کر میں زاہد کے گھر ہی میں سویا۔ صبح کو جب آنکھ کھلی تو زاہد کو اپنے سرہانے پایا۔

’’یا ر اب اُٹھ بھی جاؤ۔ آٹھ بج چکے ہیں۔ میں تو تمہارے لئے ٹھہر گیا تھا ورنہ کب کا چھاؤنی جاچکا ہوتا‘‘ زاہد نے کہا۔

’’آٹھ بج گئے‘‘ میں نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔

’’جی صاحب آٹھ بج گئے ہیں۔ ناشتہ کرلو ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ میں جا رہا ہوں۔ چھاؤنی میں ملاقات ہوگی‘‘زاہد نے کہا اور بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔

میں نے اُٹھتے ہی باتھ روم کا رُخ کیا۔ ہاتھ منہ دھو کر جب میں واپس آیا تو زاہد کی ماں کمرے میں موجود تھی۔

’’چچی جان آپ نے کیوں تکلیف کی ۔ مجھے بلا لیا ہوتا‘‘ میں نے کہا۔

’’کوئی بات نہیں بیٹا۔ تم ناشتہ کر لو۔ ٹھنڈا نہ ہوجائے۔‘‘چچی نے کہا۔

’’جی چچی جان‘‘ میں نے کہا اور کرسی پر بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگا۔

’’زاہد کہہ رہا تھاکہ تم کمانڈو بن گئے ہو‘‘ چچی نے کہا۔

’’ابھی نہیں بنا چچی۔ آج سے ٹریننگ شروع ہوگی۔ چھ ماہ ٹریننگ جاری رہے گی‘‘میں نے کہا۔

وہاں سے میں چھاؤنی گیا۔ زاہد سے ملنے کے بعد میں اپنے انسٹرکٹر کے پاس گیا۔ زاہد نے کچھ دن ٹھہر جانے کی بہت منت کی۔ لیکن یہ میرے ہاتھ میں نہ تھا۔

پھر ہماری انتہائی سخت ٹریننگ شروع ہوگئی۔ جب ٹریننگ ختم ہوئی تو میں ایک کمانڈو بن چکا تھا۔ اس سخت ٹریننگ سے میں نے بہت کچھ سیکھا تھا۔

ooo​

حالات انتہائی خراب تھے۔ جنگ کا شدید خطرہ تھا۔ ہمیں ایک مشن پر بھارت بھیجا جا رہا تھا۔ میرے ساتھ چار کمانڈو اور تھے۔ ہم سب نے اکٹھے ہی ٹریننگ حاصل کی تھی۔ اس وقت ہم ایک سرحدی علاقے میں موجود تھے۔ ہمارے ساتھ ہمارا انسٹرکٹربھی موجود تھااُنھوں نے ہمیں تمام نقشہ رٹایا۔تمام علاقے، راستے جہاں سے ہمیں گزر کر بھارت میں پہنچنا تھا۔ میرے ساتھ کیپٹن نور،کیپٹن فاروق،کیپٹن طاہر اور کیپٹن خالد تھا۔ ٹریننگ کے دوران ہم نے ایک ساتھ بہت اچھا وقت گزارا تھا۔

ابھی ہمیں اپنے گائیڈسے ملنا تھا۔ جس نے ہمیں سرحد پارکروانی تھی۔ کچھ دیر بعد ایک آدمی اند ر داخل ہوا۔

یہ اصغر تھا۔ ہماراگائیڈ۔۔۔۔

اُس نے سلام کیا اور انسٹرکٹر سے ہاتھ ملایا۔ ہم نے مسکرا کر آنکھوں سے ہی اُس کے سلام کا جواب دیا۔

ایک کمانڈو اور جاسوس کو سب سے پہلے یہی بات بتائی جاتی کہ بلا وجہ کوئی بات نہیں کرنی اور سب سے پہلے اپنے گائیڈ پر شک کرنا ہے۔ شاید وہ ڈبل ایجنٹ ہو۔

اصغر ایک منجھا ہوا گائیڈ تھا۔ اُسے معلوم تھا کہ نہ ہی اُس نے ہم سے کچھ پوچھنا ہے اور نہ ہی ہم اُسے سہی کچھ بتائیں گے۔
کچھ دیر بعد ہم سرحد کی طرف جاررہے تھے۔ عشاء کی نماز ہم نے سرحدی چیک پوسٹ پر ہی ادا کی تھی۔ایک تاریکی سی ماحول پر چھائی ہوئی تھی۔ہم آہستہ آہستہ آگے بڑھے چلے جارہے تھے۔ سامنے پاکستانی اور بھارت کی بارڈر دکھائی دے رہی تھی۔
میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اور میں دل ہی دل میں اﷲ کے نام کا ورد کر رہا تھا۔ میرے خیال میں میرے ساتھیوں کی حالت بھی کچھ مختلف نہ تھی۔کچھ دیر بعد ہم سرحد پار کر چکے تھے۔ سر حد پار کرنے کے بعد ہم تیزتیز چل رہے تھے۔ یہ بھارت کا ایک سرحدی علاقہ تھا۔

کمانڈو مشن مکمل ہوتے رہتے تھے۔ اسلئے ہمیں بھارتی زبان، ثقافت،رہن سہن، لباس اور اسطرح کی دوسری چیزوں کی مکمل ٹریننگ دی جاتی تھی۔ ہمارے لباسوں کی خفیہ جیبوں میں سلنسر لگے ریوالور اور بھارتی کرنسی موجود تھی۔ ابھی تک ہمیں کسی خطرے کا سامنا نہیں ہوا تھا۔ چونکہ اِس مشن کا اُنچارج میں تھا۔ اس لئے سب سے زیادہ ذمہ داری مجھ پر تھی۔ میری چھوٹی سے غلطی میرے باقی چار ساتھیوں کو بھی لے ڈوب سکتی تھی۔کافی دیر ہم چلتے رہے۔ اصغر ایک پرانا گائیڈ تھا۔ وہ ہمیں ایسے راستوں سے لے کر جارہاتھاجہاں پر آبادی اور فوج کا خطرہ کم تھا۔میں دل ہی دل میں دعا مانگ رہا تھا کہ کوئی گشتی پارٹی اس طرف نہ آئے۔ ہمیں چار گھنٹے ہو چکے تھے۔ چلتے ہوئے یہاں سے ایک کھیتوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا جس کی اُونچی اُونچی گھا س میں ہم چھپ کر رہ گئے تھے۔آسمان پر ستاروں کا وسیع سلسلہ رات کے اس بھیانک سناٹے میں ہمارا تعاقب کر رہا تھا۔یہ خزاں کا آغاز تھا۔ اُونچی اُنچی گھاس کے اس وسیع سلسلے میں ہم بہت آرام سے چل رہے تھے۔تاکہ کوئی آواز پیدا نہ ہو۔

تقریباً رات کا ایک بجنے والا تھا۔ گھا س کا وہ سلسلہ ہم بہت پیچھے چھوڑ آئے تھے۔اصغر کے مطابق مزید ایک گھنٹے میں ہم ایک گاؤں تک پہنچ جائیں گے۔اصغر کے جدا ہونے کا وقت آگیا تھا۔چاند کی انتہائی مدھم روشنی میں اُس کی آنکھ کا موتی تیرتا صاف نظر آرہا تھا۔

’’رب راکھا‘‘ کہہ کر وہ تیزی سے دوسری طرف چل دیا۔

اب آگے کا سفر ہم نے اکیلے طے کرنا تھااور یہ ہم سب کی اپنی صلاحیتوں پر منحصر تھا۔ اور یہی ہی وہ پوائنٹ تھا جہاں سے ہم سب نے بھی جدا ہونا تھا۔ میں اپنی اشک بھری نظروں کے ساتھ اپنے ساتھیوں سے بغلگیر ہوا۔ اب ہم نے ایک جگہ ملنا تھا۔

ooo​

رات کے تین بج رہے تھے ۔ ہمیں سفر شروع کئے تقریباً سات گھنٹے گزر چکے تھے۔ میں تقریباً بنجر زمین کے ساتھ ایک چھوٹی سی پکڈنڈی پر چل رہا تھا۔ مجھے اپنے ساتھیوں کی طر ف سے بہت فکر تھی۔ ہم نے لدھیانہ شہر میں ایک دوسرے سے ملنا تھا۔

یہ کھیتوں کا ایک وسیع سلسلہ تھا جو آگے جا کر لاشانی گاؤں سے مل جاتا تھا۔ میرا ارادہ اس گاؤں سے بس کے ذریعے کپور تھلہ کی طرف جانے کا تھا۔ جہاں سے آگے جالندھر اور پھر لدھیانہ جانے کا راستہ تھا۔سات گھنٹے سے مسلسل چلتے میری ٹانگوں میں شدید درد ہونے لگا تھا۔ تقریباً ڈیڑھ میل میں نے اور فاصلہ طے کیا تھا کہ پیچھے سے ’’ہالٹ‘‘ کی زور دار آواز سنائی دی۔ ایک سنسنی سے میرے جسم میں پھیلتی چلی گئی۔

میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ٹارچ کی روشنی میرے منہ پر پڑی۔ میری آنکھیں کچھ وقت کیلئے چُند ھیاں سی گئیں۔ فوجی مجھے اپنی طرف بڑھتے دکھائی دیے۔

’’کون ہوتم‘‘ اُن میں سے سب سے آگے والے نے کڑکدار لہجے میں کہا۔

’’آنند ہوں مہاراج‘‘میں نے بظاہر ڈرے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’کون آنند‘‘ اُس فوجی نے اگلا سوال کیا۔

’’مہاراج۔۔ اشوک ساند ر کا ملازم ہوں‘‘ میں نے کپور تھلہ کے مہا سبھا لیڈر کارٹا رٹایا نام دُھرا دیا۔

’’اشوک ساند ر کے ملاز م ہو‘‘ فوجی نے شکوک نے بھرے لہجے میں کہا۔

’’جی مہاراج‘‘ میں نے کہا۔

’’کدھر سے آرہے ہو‘‘ فوجی نے اگلا سوال کیا۔

’’مہاراج ڈیرہ بابانانک سے آرہا ہوں‘‘ میں نے قریبی گاؤں کا نام لیتے ہوئے کہا۔

’’کیا کرنے گئے تھے وہاں‘‘فوجی نے اگلا سوال پوچھا۔

’’مہاراج جی میرا بھائی وہاں رہتا ہے۔ جو بہت سخت بیمار ہے۔ ابھی اُس کی اچانک طبیعت خراب ہوگئی ہے۔ میں گاؤں لاشانی جا رہا تھا۔ وہاں سے کسی بس میں بیٹھ کر اشوک صاحب کے پاس جاؤں گاتاکہ دوائیوں کا بندو بست ہوسکے‘‘میں نے کہا۔

’’اُوئے سالے ۔جھوٹ بولتا ہے‘‘ فوجی نے انتہائی سخت لہجے میں کہا۔

’’نہیں مہاراج میں سچ کہہ رہا ہوں‘‘ میں نے گھگھیاتے ہوئے کہا۔

’’سالے تم دونو ں کیا میری شکل دیکھ رہے ہو۔ پکڑو اور لے جاؤ اسے کرنل شرما کے پاس۔ وہی اس سے تفصیل پوچھے گا‘‘اُس فوجی نے سخت لہجے میں اپنے پیچھے ٹھہرے دونوں فوجیوں سے کہا۔

’’شما کیجئے مہاراج۔۔۔ شما کیجئے۔ میں غریب ہوں مہاراج‘‘ میں نے عاجزی سے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔ کیوں کہ میں ابھی سے کھیل شروع نہیں کرنا چاہتا تھا۔

’’غریب ہوں۔ تیرے غریب کی ایسی کی تیسی۔ تیری غربت تو کرنل شرما نکالے گا‘‘ فوجی نے انتہائی سرد لہجے میں کہااور ساتھ مجھے ایسے لگا جیسے میرا پیٹ پھٹ گیا ہو۔ فو جی نے زور دار مکہ میرے پیٹ میں مارا تھا۔ پھر دوسرے فوجی نے آگے بڑھ کر میری ران پر لات ماری تو میں نیچے گر گیا۔پھر تو انھوں نے لاتوں کی بارش کردی۔ اچانک ایک زور دار لات میری پسلیوں پر پڑی تو مجھے ہوش آیا۔میں نے فوراً بے ہوش ہونے کی ایکٹنگ شروع کر دی۔

’’ہونہہ۔۔سالا بے ہوش ہوگیا اتنی جلدی۔۔۔‘ ‘ فوجی نے کہا ’’رامیش ۔۔اسے اُٹھا کر گاڑی میں پھینکو اور ہاں کرنل شرما سے کہنا یہ سرحد کی طرف سے آرہا تھا۔ ٹھیک ہے سمجھ گئے ہو نہ‘‘

’’یس سر۔ بالکل سمجھ گیا‘‘ رامیش نے کہا۔

میں سمجھ گیا کہ یہ اپنی دانست میں مجھ پر جھوٹا کیس بنا کر پیش کرتے تاکہ ہیڈ کوارٹر کو رپورٹ ملے کہ یہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ لیکن اب مجھے ہر حال میں یہا ں سے نکلنا تھا۔ کیوں مجھے معلوم تھاکہ جب میری سنائی گئی تمام کہانی پر تفتیش ہوگی تو ان فوجیوں کی بات خود بخود سچی ہو جائے گی۔ مجھے اُٹھا کر کچھ دور ٹھہری جیپ کی پچھلی سیٹ کے درمیان پھینکا۔ میرا ہاتھ کر تے کی خفیہ جیب کی طرف رینگ گیا۔ اُن کا افسر اور رامیش آگے والی سیٹ پر بیٹھ گئے جبکہ ایک فوجی پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ میں نے آہستہ سے ہاتھ باہر نکالا اور سائیلنسر لگے ریوالور کا رُخ پچھلی سیٹ پر بیٹھے فوجی کی طرف کر دیا۔ فوجی بڑے اطمینان سے بیٹھا تھا۔ اُس کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ بات نہ تھی کہ میں ہوش میں ہوں۔ جیپ اب آہستہ آہستہ چلنا شروع ہوگئی تھی۔

’’ٹھک ‘‘کی آواز کے ساتھ ہی فوجی کی ہلکی سی چیخ سنائی دی۔

’’کیا ہوا‘‘ اگلی سیٹ پر بیٹھے دونوں فوجیوں نے بیک وقت کہا۔ فوجی نے جیپ کو بریک لگادی۔ جیسے ہی جیپ رُکی میں تیزی سے اُٹھا اورریوالور سیدھا کیا۔’’ٹھک ٹھک‘‘ کی آوازوں کے ساتھ ہی ایک گولی آفیسر کے سر میں لگی اور ایک رامیش کے۔ میرے سب نشانے بالکل ٹھیک لگے تھے۔ کچھ دیر بعد وہ بھی ٹھنڈے پڑ گئے۔ میرا ارادہ قطعاً انھیں مارنے کا نہیں تھا۔

لیکن کرتا بھی تو کیا۔ ان کے ساتھ جاتا تومشن کے آغاز ہی میں زندگی بھر کی جیلیں، تشدداور آخر میں ایک چھٹانگ سیسہ۔۔ اور بھاگنے پر شروع ہی سے اپنے خلاف مضبوط ثبوت۔۔۔
میں نے اُٹھ کر کھڑکی کھولی اور باہر آگیا۔ کچھ دور مجھے کھیتوں کا ایک سلسلہ نظر آیا۔ میں نے دونو ں لاشیں پچھلی سیٹ پر پھینکی اور جیپ سٹار ٹ کر کے اُسی سلسلے کی طر ف بڑھتا چلا گیا۔

ooo​
 

دل مضطر

محفلین
کیپٹن طاہر اپنے ساتھیوں سے علیحدہ ہوکر آگے بڑھا چلا جا رہا تھا۔ صبح تک وہ پیدل چلتا رہا اور کسی سے اُس کا ٹکراؤ نہیں ہوا۔ سورج نے آہستہ آہستہ زمین پر کرنیں پھیلانی شروع کر دیں تھیں۔ صبح ہوگئی تھی۔ اِن سب نے چونکہ مختلف علاقوں سے سفر کرنا تھا۔ اِسلئے کیپٹن طاہر کے راستے میں ڈیرہ بابانانک پڑتاتھا۔ اُس سے آگے فیروز پور ، موگا اور اُس سے آگے لدھیانہ زشہر پڑتا تھا۔کیپٹن طاہر صبح کے اُجالے میں ایک نزدیکی گاؤں گنڈی ناری پہنچ چکا تھا۔ گنڈی ناری ڈیرہ بابانانک کے بعد آتا تھا۔

صبح صبح کسان کھیتوں کی آجا رہے تھے۔ وہ اُن کے درمیان سے گزرتا گیا۔ جو بھی اُسے دیکھتا ’’مہاراج جی‘‘ کہتا ہوا آگے بڑھ جاتا۔ کیپٹن طاہر ایک صحیح برہمن اُس وقت لگ رہا تھا۔

ابھی وہ کچھ ہی آگے گیا تھا کہ اُسے فوج کا ایک پلانٹ نظر آیا۔ جس میں بھاری مشینری سیٹ کی جارہی تھی۔ کچھ ہی آگے گیا تو وہ حیران رہ گیا کیونکہ وہ بھاری مشینری دراصل ایک جدید گن تھی جو حال ہی میں ’’روس‘‘ نے ایجاد کی تھی۔ یہ کافی خطرناک گن تھی۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ کیسے معلومات حاصل کرے کہ ایک فوجی اُسے اپنی طرف آتا ہوا دکھائی دیا۔

’’کون ہو تم‘‘ اُس نے نزدیک آکر کہا۔

’’تم ہمیں نہیں جانتے ۔ ہم راجہ پرکاش ہیں۔ مہاراجہ ہری کاش کے بیٹے‘‘ کیپٹن طاہر نے باوقار لہجے میں کہا۔

’’مہاراجہ ہری کاش۔۔‘ ‘فوجی نے چونک کر کہا۔ ’’آپ کہاں کے رہنے والے ہیں‘‘
پہلی ہی بات میں وہ تم سے آپ پر آگیا تھا۔

’’ہم دلی میں رہتے ہیں۔ ہماری اپنی گارمنٹس کی فیکٹریز ہیں۔ اور ہمارے وزیر اعظم صاحب سے بھی تعلقات ہیں۔آج کل چونکہ جنگ کے خطرات ہیں اور ہمیں اپنی سینا (فوج) پر فخر ہے۔اسلئے ہم اپنی سینا کے انتظامات دیکھنے آئے ہیں‘‘کیپٹن طاہر نے کہا۔

’’اُوہ۔۔‘‘ وزیر اعظم سے تعلقات پر فوجی چونک پڑا۔اُس کی آنکھوں میں چمک اُبھر آئی۔

’’آئیے مہاراج۔آئیے تشریف لائیے۔ میں آپ کو اپنی سینا کے انتظامات دکھاتا ہوں اور کرنل صاحب سے بھی ملواتا ہوں،آئیے‘‘فوجی نے ایسے خوش ہوتے ہوئے کہا جیسے اُس کی کایا پلٹ گئی ہو۔

وہ دونوں ایک چھوٹی سی پکڈنڈی پر چلتے آگے بڑھے چلے جار ہے تھے۔

’’مہاراج ۔آپ میرا ایک چھوٹا سا کام کر دیں گے۔ میں ساری زندگی آپ کی سیوا کرتا رہوں گا‘‘ فوجی نے چلتے چلتے کہا۔

’’ہاں ہاں ۔ کہو‘‘کیپٹن طاہر نے کہا۔ اُسے پتہ چل گیا تھا کہ پہلی ہی بار کسی لوٹیے سے واسطہ پڑا ہے۔

’’مہاراج آپ میری ٹرانسفر یہاں سے دلی کروا دیں‘‘ فوجی نے اُمید بھرے لہجے میں کہا۔

’’کیوں‘‘کیپٹن طاہر نے حیرت سے کہا۔

’’مہاراج مجھے ماتا جی سے بے حد محبت ہے اور وہ مجھے یہاں بارڈر پر آنے ہی نہیں دے رہی تھی۔ لیکن مجھے اپنی سینا کیلئے کام بھی تو کرنا تھا اور سینا کا نام بھی روشن کرنا تھا۔ اسلئے میں یہاںB.S.F(بارڈر سیکیورٹی فورسز) میں آگیا۔ مجھے یہاں ڈیڑھ سال ہو گیا ہے اور مجھے صرف دو بار گھر جانے دیا گیا ہے۔ مجھے ماتا جی کی طرف سے خط بھی ملا ہے کہ وہ شدید بیمار ہیں اور مجھے بلا رہی ہیں۔لیکن میں نہیں جا سکتا‘‘آخری فقرے پر پہنچتے ہی اُس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔

’’اوہ ۔۔۔ اچھا۔۔ تمہاری ٹرانسفر ضرور ہوگی۔ میں جاتے ہی پِتا جی سے بات کروں گا‘‘ کیپٹن طاہر نے اپنی طرف سے تسلی دیتے ہوئے کہا۔

’’بھگوان آپ کا بھلا کرے مہاراج‘‘ فوجی نے کہا۔

’’نام کیا ہے تمہارا‘‘ کیپٹن طاہر نے کہا۔

’’راجیت کمار‘‘ فوجی نے کہا۔ چلتے چلتے وہ دونوں سنٹر کے قریب پہنچ چکے تھے۔ دل ہی دل میں کیپٹن طاہر خوشی سے پھولے نہیں سمارہا تھا۔

’’راجیت۔ یہ کس کو لے آئے ہو‘‘سنٹر کے قریب ایک فوجی نے کہا۔

’’وجے یہ راجہ پرکاش ہیں۔دلی میں رہتے ہیں۔ مہاراجہ ہری کاش کے بیٹے‘‘راجیت نے کیپٹن طاہر کا تعارف کراتے ہوئے کہا۔

’’کیپٹن طاہر کی نظریں تیزی سے گھوم رہی تھیں اور وہ اسلحے اور فوجیوں کی تعدادوغیرہ کو اپنے ذہن میں نقش کر رہا تھا۔

’’مہاراجہ ہری کاش‘‘ فوجی ، جسے وجے کے نام سے پکارا گیا تھا، نے چونک کر کہا۔

’’ہاں۔ مہاراجہ ہری کاش دلی کے بہت بڑے صنعت کار ہیں۔ اِن کی بڑی بڑی ملیں ہیں گارمنٹس کی اور وزیر اعظم سے بھی اِن کے تعلقات ہیں‘‘فوجی، کیپٹن طاہر کو خوش کرنے کیلئے خود ہی اُس کا تعارف بڑے زور سے کر رہا تھا۔

’’اچھا تو تم ان کو یہاں کیوں لائے ہو‘‘وجے نے کہا۔

’’یہ سینا کے انتظامات دیکھنے آئے ہیں‘‘ راجیت نے کہا۔

’’لیکن یہ سب تو سیکرٹ ہے‘‘ وجے نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔

’’انھوں نے وزیر اعظم صاحب سے خصوصی اجازت لی ہے‘‘ راجیت نے کہا ۔ وہ اب مکمل طور پر کیپٹن طاہر کے ساتھ ہوگیا تھا۔ یا تو یہاں جنگ کے خطرے کی وجہ سے وہ اپنی ٹرانسفر دلی کروانا چاہتا تھا۔ یا پھر جو کہانی اُس نے سنائی تھی۔وہ واقعی سچ تھی۔

’’کہاں ہے اجازت نامہ‘‘ وجے نے کہا۔ شاید وہ شک میں مبتلا ہو گیا تھا یا پھر وہ ایک فرض شناس فوجی تھا اور پہلے اپنی تسلی کرنا چاہتا تھا۔ وجے کے اس سوال سے راجیت بوکھلا گیا۔ اُس نے تو اپنی ٹرانسفر کے لئے جھوٹ بولا تھا۔ لیکن چونکہ کیپٹن طاہر وزیر اعظم کا ذکر کرنے اور سوالوں کے جوابوں کی تیاری کرکے آیا تھا۔ اسلئے اُس نے فوراً جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک کاغذ نکال کر وجے کی طرف بڑھا دیا۔یہ ایک نقلی اجازت نامہ تھا۔ راجیت نے جب اجازت نامہ دیکھا تو وہ حیران رہ گیا کیونکہ اُس نے تو جھوٹ بولا تھا۔ اب اُس کے چہرے پر پہلے سے زیادہ مرعوبانہ تاثرات پیدا ہوگئے۔

’’آئیے مہاراج ۔ تشریف لائیے۔ اصل میں اپنی تسلی کر رہا تھا کیونکہ پاکستانی جوسوسوں کا خطرہ ہوتا ہے‘‘ وجے نے اس بار مطمئین لہجے میں کہا۔

’’کوئی بات نہیں ہمیں اپنی سینا پر فخر ہے‘‘ کیپٹن طاہر نے اُسی طرح با وقار لہجے میں کہا۔

پھر وہ دونوں اُس کی عزت کرتے ہوئے کرنل کے آفس تک لے گئے۔ راستے میں کیپٹن طاہر نے انجان بن کر تمام اسلحے کی معلومات حاصل کر لی تھیں۔وِجے بانسبت راجیت کے ہوشیار اور ذہین تھا۔ کرنل کے آفس تک کیپٹن طاہر کو اُس کی طرف سے خطرہ رہا۔دونوں اندر داخل ہوئے اور کیپٹن طاہر اُن دونو ں کے پیچھے اندر داخل ہوا۔ دونوں نے کرنل کو سلیوٹ کیا۔

’’نمسکار‘‘ کیپٹن طاہر نے ہاتھ جوڑ کر کرنل کو کہا۔

’’نمسکار‘‘ کرنل نے حیران ہو کر کہا’’کون ہیں آپ‘‘اور پھر دونوں فوجیوں کی طرف حیرت سے دیکھنے لگا۔

’’سر یہ دلی سے تشریف لائے ہیں۔ راجہ پرکاش ، مہاراجہ ہری کاش کے بیٹے‘‘ وجے نے کہا’’انھوں نے وزیر اعظم صاحب سے خصوصی اجازت لی ہے۔ سینا کے انتظامات دیکھنے کی‘‘اور ساتھ ہی اجازت نامہ نکال کر دے دیا۔

’’ آپ دلی میں کہاں رہتے ہیں ۔میںنے مہاراجہ ہری کاش کا کبھی نام نہیں سُنا‘‘کرنل نے اجازت نامہ دیکھتے ہوئے شکوک بھرے لہجے میں کہا۔

کیپٹن طاہر کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک سنسنی سی پیدا ہوتی چلی گئی۔

’’ہم راج ٹاؤن میں رہتے ہیں‘‘ کیپٹن طاہر نے کہا۔

’’راج ٹاؤن میں‘‘ کرنل نے چونک کر کہا اور کیپٹن طاہر دل ہی دل میں خوش ہوگیا۔ کیونکہ راج ٹاؤن دلی کے اُمراء کی کالونی تھی۔

’’ہونہہ۔۔۔‘‘ کرنل نے طویل سانس لیا۔

’’گرفتار کرلو اِسے‘‘اچانک ہی کرنل نے زور سے کہا اور اپنا ہاتھ ہولسٹر کی طرف لے گیا۔ دونو ں فوجی ہکا بکا رہ گئے۔اُن کے تو خواب و خیا ل میں بھی نہیں تھا کہ کرنل یہ حکم دے گا۔

کیپٹن طاہر کے شروع ہی سے اعصاب تنے ہوئے تھے۔ کرنل کی یہ بات سنتے ہی اُس نے اپنے ساتھ ٹھرے راجیت کو کرنل کے سامنے دھکیل دیااور خود اُس نے دروازے سے باہر چھلانگ لگا دی اور جلدی سے دروازہ بند کرکے باہر سے کنڈی لگا دی۔ قسمت اچھی تھی کہ راہداری میں اُس وقت کوئی موجود نہیں تھا۔

کیپٹن طاہر نے جلدی سے خفیہ جیب میں موجود سائیلنسر لگاریوالور نکال لیا۔ اب اُس کو یہاں سے کسی بھی طرح نکلنے کی فکر لگ گئی کیونکہ اُس معلوم تھاکہ اگر وہ ایک مرتبہ اِن کے ہاتھ آگیا تو پھر بچ نکلنا مشکل تھا ۔ اب دروازہ زور زور سے کھٹکھٹا یا جارہا تھا۔ کیپٹن طاہر بھاگ کر راہداری کے آخری کونے میں پہنچا اور چھُپ کر باہر کی طرف دیکھا تو تین فوجی اُسے بھاگتے اپنی طرف آتے ہوئے دکھائی دیے۔ شاید وہ دروازے کی طرف آواز سن کر آرہے تھے۔ اب دروازے پر زور زور سے ٹکریں مارنے کی آوازیں آرہی تھیں اور دروازہ کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا تھا۔کیپٹن طاہر تھوڑا سا پیچھے کو ہوا اور راہداری میں داخل ہونے والے راستے کی طرف رایوالور کا رُخ کر دیا۔کچھ ہی دیر بعد تینوں فوجی بیک وقت اندر داخل ہوئے اور ’’ٹھک ٹھک ‘‘ کی آواز کے ساتھ ہی دو فوجی زمین پر گر گئے۔ جب کے تیسرے نے جلدی سے کاندھے سے لٹکتی ہوئی مشین گن اُتارنی چاہی لیکن ’’ٹھک‘‘ کی آواز کے ساتھ ہی گولی اُس کے سینے میں داخل ہوتی چلی گئی۔کیپٹن طاہر نے بھاگ کر فوجی کے کاندھے سے مشین گن اُتاری اور باہر نکل آیا۔ پیچھے سے اُس کو زور دار آواز سنائی دی۔ شاید وہ دروازہ ٹوٹنے کی تھی۔ کیپٹن طاہر اتنی تیزی سے بھاگا کہ شاید ہی اپنی زندگی میں وہ اِس سے تیز بھاگا ہو۔مشین گن اُس کے ہاتھ میں تھی ۔ راہداری سے نکل کر وہ دائیں طرف بھاگا تھا۔ یہاں بھارتی فوج نے باقائدہ سڑک بنا رکھی تھی۔ سڑک کی ایک سائیڈ پر بڑے بڑے درخت تھے اور دوسری راہداری والی سائیڈ پر گیراج تھے۔ کیپٹن طاہر ابھی تھوڑی ہی دور گیا ہوگا کہ اُسے دو فوجی ٹکرائے۔ وہ بڑے اطمینان سے چلتے ہوئے آرہے تھے۔ کیپٹن طاہر نے کاشنکوف کا رُخ اُن دونو ں کی طرف کیا۔ وہ ابھی سنبھلتے ہی کہ’’تڑ تڑ‘‘ کی آواز کے ساتھ ہی دونوں زمین بوس ہوگئے۔

کیپٹن طاہر تقریباً چھ سات گیراج پار کر چکاتھا تو گیراج کے ساتھ اُسے ایک چھوٹی کوچہ نما گلی نظر آئی۔ یہ شاید دوسری طرف جانے کیلئے چھوٹا سا راستہ تھا۔کیپٹن طاہر اُس گلی میں تیزی سے مڑ گیا۔آگے گیراج نہیں بلکہ سٹورز تھے کیونکہ اُن کی بناوٹ اور دروازہ بتا رہا تھا کہ یہ سٹورز ہیں۔ دو سٹوروں کے بعد آگے سڑک درختوں والی سائیڈ کو مڑ رہی تھی۔اِسی ترتیب سے پانچ چھ سٹورز تھے۔ کیپٹن طاہر گلی میں ٹھہر کر رُک گیا۔ اُس کا چہر ہ پسینے سے شرابور ہو رہا تھا۔ کچھ دیر وہ سانس برابر کرتا رہا۔ پھر وہ آگے بڑھا اور گلی کے کونے سے آنکھ لگا کر پہلے پیچھے کی جانب دیکھا۔ جس طرف سے وہ آیا تھا۔ وہ فوجی جیپ حاصل کرنا چاہتا تھا اور گلی کے دوسری طرف وہ اِس لئے نہیں گیا تھاکہ اُسے وہاں کے حالات کا پتہ نہیں تھا۔

جیسے ہی اُس نے دیکھا تو اُسے چھ سات فوجی بڑی تیزی سے اپنی طرف بڑھتے دکھائی دیے۔ کیپٹن طاہر نے آہستہ سے کلاشنکوف کا دھانہ باہر نکالا کیونکہ اُن سب نے کلاشنکوفیں ہاتھ میں لے رکھی تھیں۔

’’تڑ تڑ‘‘ کی زور دار آواز پورے پلانٹ میں گونج اُٹھی اور کچھ ہی دیر میں سارے فوجی زمین پر پڑے تڑپ رہے تھے۔ کیپٹن طاہر تیزی سے باہر نکلا اور پہلی گراج کا دھانہ تیزی سے اُوپر اُٹھانہ چاہا لیکن ابھی دروازہ تھوڑا ہی سا اُوپر کو اُٹھا تھا کہ اُسے سٹورز والی سائیڈ پر قدموں کی آواز سنائی دی۔ وہ تیزی سے پلٹا اور ’’سائیں‘‘ کی آواز کے ساتھ ہی گولی اُس کے سینے کے بالکل نزدیک سے گزرتی چلی گئی۔ کیپٹن طاہر نے فوراً گلی میں چھلانگ لگا دی۔ اور دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کرنے کیا کہ اگر وہ ایک سیکنڈ پہلے تیزی سے نہ پلٹتا تو گولی اُس کے سینے میں داخل ہوجاتی۔ وہ تیزی سے اُٹھا اور دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا اور جیب سے سائیلنسرلگا ریوالور نکال لیا۔ کچھ دیر دیوار کے ساتھ کھڑا رہنے کے بعدوہ جمپ مار کر باہر نکلا۔
شاید وہ اِن سٹورز کا پہرے دار تھا۔ وہ دیوار کے ساتھ لگ کر آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔

’’ہینڈز اَپ‘‘ کیپٹن طاہر نے زور دار آواز سے کہا۔ پہرے دار کے ہاتھ لاشعوری طور پر اُوپر کو اُٹھ گئے۔

’’کیا ہے اِن سٹورز کے اندر بتاؤ ورنہ گولی مار دوں گا‘‘ کیپٹن طاہر نے گرجدار آواز میں کہا۔

’’اسلحہ ہے‘‘ پہرے دار نے ڈرے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’ٹھک ‘‘ کی آواز کے ساتھ ہی گولی اُس کے سر کے آر پار ہوگئی۔کیپٹن طاہر نے بھاگ کر سٹور کے اُوپر لگی ہوئی کنڈی کھولی اور پہرے دار کو بازو سے پکڑ کر اندر اُچھال دیااور خود بھی اندر داخل ہوگیا۔ اب پورے پلانٹ میں زور دار سائرنوں کی آواز گونجنے لگی اور کیپٹن طاہر کو یوں لگا جیسے ابھی اُس کا دل حلق سے ہوتا باہر آگرے گا۔

ooo​
 

دل مضطر

محفلین
میں نے جیپ کافی تیزی سے چلائی اور جلد ہی کھیتوں کے کچے پکے راستے پر پہنچ گیا۔ جیپ میں نے روک کر جلدی سے تینوں لاشیں باہر نکالیں اور کھیتوں کے درمیان لے گیا۔آفیسر کی وردی میں نے وہیں اُتار کر پہن لی۔ میں بھاگ کر جیپ تک پہنچا اور جیپ سٹارٹ کرکے تیزی سے چلاتا ہوا آگے بڑھتا چلاگیا۔ اب مجھے اِ ن کپڑوں اور جیپ سے جلد چھُٹکارا حاصل کرنا تھا۔کیونکہ کسی بھی وقت لاشیں برآمد ہو سکتی تھیں۔ جیپ کچے راستے پر اُچھلتی ہوئی آگے بڑھی چلی جارہی تھی۔ کافی آگے آکر ایک اور کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ اُس کھیتوں کے سلسلے کے اختتام پر ایک کسان ٹریکٹر چلا رہا تھا۔ میں نے جیپ اُس کی طرف موڑ دی۔ مجھے کسان نے اپنی طرف آتے دیکھ کر ٹریکٹر روک دیا۔

’’اُوئے ۔۔ ادھر آؤ‘‘میں نے سخت لہجے میں کہا۔کسان ٹریکٹر سے نیچے اُترا اور بھاگتا ہوا میری طرف آیا۔

صبح کے تقریباً چھ بجنے والے تھے۔ہر طرف سے پرندوں کے چہکنے کی آوازیں آرہی تھیں۔

’’جی مہاراج ۔ ۔ حکم مہاراج‘‘ کسان نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔

’’یہاں تم نے کسی کو دیکھا ہے؟۔۔‘‘ میں نے اُس پر سوال کیا۔

’’نہیں مہارج ۔مجھے یہاں آدھا گھنٹہ ہوا ہے میں نے آپ کے آنے سے پہلے کسی کو یہاں نہیں دیکھا مہاراج‘‘ کسان نے کہا۔

’’سنو! ایک پاکستانی ایجنٹ بھاگ کر آیا ہے۔ یہاں قریب کو ئی ریلوے اسٹیشن یا بس کا اڈہ ہے تو مجھے بتاؤ۔ میری کلکتہ سے کل ادھر ٹرانسفر ہوئی ہے‘‘میں نے کہا۔

’’مہاراج ریلوے اسٹیشن تو آگے کپور تھلہ میں ہے۔ مہاراج یہاں سے بسیں گزرتی ہیں۔ ساڑھے چھ پونے سات بجے۔ بس کپور تھلہ جاتی ہے‘‘ کسان نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔

’’اچھا یہ بتاؤ ۔یہاں نہروغیرہ ہے۔ میں نے منہ ہاتھ دھونے ہیں اور ہاں بس سٹاپ کدھر ہے‘‘ میں نے کہا۔

’’مہاراج نہر تو یہاں نزدیک اس طرف ہے‘‘ کسان نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔’’ اور بس اسٹاپ اس طرف ہے مہاراج‘‘ کسان نے نہر والی سائیڈ کے دائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

’’اور ہاں کوئی مشکوک ادھر سے گزرے تو سینا کو اطلاع ضرور دینی ہے‘‘ میں نے کسان سے کہا۔

’’جو حکم مہاراج۔ ہم تو اپنی سینا کے غلام ہیں‘‘کسان نے کہا۔
میں نے جیپ اسٹارٹ کی اور شمال کی طرف بڑھ گیا۔ جس طرف اُس نے نہر بتائی تھی۔

ooo​

نہر سے میں نے منہ ہاتھ دھویے، وضو کیا اور اِ ن کپڑوں سے چھٹکارا حاصل کیا۔ فوجی وردی کے اندر پتھر رکھ کرمیں نے نہر میں پھینک دی اور جیپ بھی اسٹارٹ کرکے نہر میں پھینک دی۔ نہر کافی چوڑی اور گہری تھی۔ دوسرے پرانے کپڑوں کو بھی نہر کی نظر کر دیا۔جس کے نیچے برہمنوں والے کپڑے زیب تن تھے۔ایک سائیڈ پر نماز ادا کی اور اللہ کے حضور مشن کی کامیابی اور اپنے ساتھیوں کی خیریت کیلئے دعا مانگی۔اور ایک لمبا چکر کاٹ کر بس اسٹاپ کی طرف بڑھ گیا۔ بس اسٹاپ پر دس بارہ افراد ٹھہرے تھے۔ میں بھی ایک سائیڈ پر بنے بینچ پر بیٹھ گیا۔

میرا دل زور زور سے ’’دھک دھک‘‘ کر رہاتھا۔کیونکہ لاشیں کسی بھی وقت دریافت ہوسکتی تھیں۔ تقریباً دس منٹ بعدبس آتی دکھائی دی۔لیکن یہ دس منٹ دس صدیوں پر محیط لگے تھے۔بس قریب آکر رُکی اور میں اندر داخل ہوگیا۔ اور ایک سائیڈ پر بیٹھ گیا۔کنڈیکٹر سے کپور تھلہ کی ٹکٹ حاصل کی۔ دو گھنٹہ بعدمیں کپور تھلہ میں اُتر گیا۔ کپور تھلہ میں بس سٹاپ سے کچھ دور ایک ہوٹل نظر آیا۔ مجھے زور دار بھوک لگ رہی تھی۔ اسلئے میز پر جاکر بیٹھ گیا۔ میری پسلیاں کافی درد کر رہی تھیں۔ کمبختوں نے بہت زور زور سے لاتیں ماری تھیں۔ شکر خدا کا کہ کپڑے پھٹنے سے بچ گئے تھے۔ کچھ دیر بعد ایک ویٹر میرے پاس آیا۔

’’جی صاب‘‘ویٹر نے دیہاتی لہجے میں کہا۔

’’چار پوریاں‘‘ میں نے کہا۔ کچھ دیر بعد اُس نے چار پوریا رکھ دیں اور ساتھ حلوہ بھی۔ میں نے ناشتہ کیا۔ کچھ دیر بعد ویٹر نے برتن اُٹھائے اور چائے آکر رکھ دی۔چائے پی کر میں اُو پر گدی پر بیٹھے ہوئے سکھ کے پاس گیا۔

’’بہت بڑیا ناشتہ دیا ہے ۔سردار جی‘‘ میں نے سکھ سے کہا۔

’’ آپ کی سیوا کرنا تو ہمارا فرج(فرض) ہے مہاراج‘‘ سکھ نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔

’’کتنے پیسے ہوتے ہیں‘‘ میں نے پوچھا۔

’’اٹھارہ روپے ہوتے ہیں مہاراج‘‘ سکھ نے کہا۔میں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر بیس روپے نکالے اور اُس کی طرف بڑھا دیے۔

’’ باقی تمہارے ہوں سردار جی۔ تم بھی کیا یاد کرو گے‘‘ میں نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے کہا۔

’’بھگوان آپ کو کھوش(خوش) رکھے مہاراج۔ کوئی اور کھدمت ہو تو بتائیں‘‘سکھ نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔

’’میں یہاں آج ہی آیا ہوں۔ ریلوے اسٹیشن کس طرف ہے‘‘ میںنے سکھ سے کہا۔

’’ریلوے اسٹیشن مہاراج۔یہ رکشے چلتے ہیں نہ دو روپے والے۔یہ آپ کو ریلوے اسٹیشن چھوڑ دیں گے۔۔ ایک منٹ۔ اُوئے شامی، اُوئے شامی‘‘میرے ساتھ بات کرتے ہوئے اُس نے دوسری طرف چارپائی پر بیٹھے ہوئے شخص سے کہا اور وہ نوجوان تیزی سے اُٹھ کر سکھ کے پاس آیا۔

’’جی سردار جی‘‘ جسے شامی کے نام سے پکارا گیا تھا،نے قریب آکر کہا۔

’’مہاراج کو ریلوے اسٹیشن تک چھوڑ آ‘‘ سکھ نے اُس سے کہا۔

’’آئیے مہاراج جی آئیے۔میرا رکشہ بس ساتھ ہی کھڑا ہے‘‘شامی نے جلدی سے کہا اور پھر مجھے وہ رکشے تک لے گیا۔میں رکشے کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔

’’کدھر کے رہنے والے ہو‘‘ میں نے اُس سے سوال کیا۔

’’گنڈی ناری میں رہتا ہوں مہاراج۔ صبح نو بجے تک یہاں پہنچ جاتا ہوں۔ ابھی ابھی پہنچا ہوں‘‘ شامی نے کہا۔ میرے ایک سوال پر اُس نے تین جواب دیے تھے۔

’’رکشہ کدھر ٹھہراتے ہو‘‘میں نے ٹائم پاس کرنے کے لئے کہا۔

’’مہاراج ۔سردار جی کے پاس جگہ ہے۔ جہاں سب رکشے ٹھہراتے ہیں۔ یہ ہم سے مہینہ پیسے وصول کرتا ہے‘‘ شامی نے کہا۔

’’گنڈی ناری میں اپنی سینا موجود ہے نہ‘‘ میں نے کہا۔

’’بس کچھ نہ پوچھیں مہاراج۔ خوامخواہ پاکستان سے جنگ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ہماری جان پر بنی رہتی ہے ہر وقت۔کبھی بھی جنگ ہوئی سب سے پہلے تو ہم پر بنے گی اور سینا کی کارکردگی دیکھیں، ایک جاسوس تو اِن سے پکڑا نہیں جاتا۔ صبح صبح آٹھ سوا آٹھ بجے جب میں ادھر آرہاتھا تو سینا کے پورے پلانٹ میں سائرن بج رہے تھے۔ میں نے ایک فوجی سے پوچھاکہ کیا ہوا ہے تو اُس نے بتایا کہ ایک پاکستانی جاسوس گھُس آیا ہے اور کئی فوجیوں کو مار ڈالا ہے لیکن ابھی تک پکڑا نہیں جاسکا‘‘شامی بہت باتونی تھا اور شاید فوج سے تنگ بھی۔ پاکستانی جوسوس کا سُن کر میرا ماتھا ٹھنکا اور میرے ذہن میں کیپٹن طاہر کا نام گونجنے لگا۔

’’میرے پرورد گار میرے ساتھیوں کو اپنی اَمان میں رکھنا‘‘میں نے دل ہی دل میں اﷲ تعالی سے دعا مانگی۔

’’گنڈی ناری پہنچنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔

’’آدھا گھنٹہ لگتا ہے مہاراج‘‘ شامی نے کہا۔

’’ریلوے اسٹیشن کتنی دور ہے اب‘‘میں نے کہا۔

’’بس پہنچنے ہی والے ہیں مہاراج‘‘ شامی نے کہا۔کچھ دیر بعد ہم ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔ میں نے شامی کوکرایہ دیا۔ جب وہ چلا گیا تومیں ایک اور رکشے والے کے پاس گیا۔

’’گنڈی ناری جانے والی بسیں کہاں سے چلتی ہیں‘‘ میں نے رکشے والے سے کہا۔

’’مہاراج اُن کا تو اپنا اسٹاپ ہے‘‘رکشے والے نے کہا۔

’’کتنی دور ہے‘‘ میں نے کہا۔

’’کچھ دور ہے‘‘ رکشے والے نے کہا۔

’’اچھا وہا ں لے چلو‘‘میں نے کہا اور رکشے کے پیچھے سیٹ پر بیٹھ گیا۔

’’بس کب جاتی ہے گنڈی ناری؟‘‘میں نے سوال کیا۔

’’ہر آدھے گھنٹے بعد جاتی ہے مہاراج۔ لوگ گنڈی ناری سے سبزیاں وغیرہ لینے جاتے ہیں اور پھر یہاں بیچتے ہیں‘‘رکشے والے نے کہا۔

اُس نے مجھے بس اسٹاپ پر اُتارا۔ میں نے اُسے کرایہ دیا اوربس کے جانے کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد بس مسافروں سے تقریباً آدھی بھر گئی۔مجھے اندر ہی اندر سے خوف لگا ہوا تھا کہ کہیں یہ پاکستانی ایجنٹ کیپٹن طاہر نہ ہو۔ وہ فوج کی اتنی بڑی رجمنٹ کا اکیلا مقابلہ کیسے کرے گا۔ بس تیزی سے اپنی منزل کی طرف بڑھی چلی جارہی تھی۔ مگر بس کی تیزی سے زیادہ میری دھڑکنوں کی رفتار تھی۔

ooo​

کیپٹن طاہر نے جلدی سے دروازے کواندر سے بند کردیا اور پہرے دار کی وردی اُتار کر پہن لی۔اندر بڑی بڑی پیٹیاں پڑی ہوئی تھیں۔ کیپٹن طاہر نے جلدی سے ایک پیٹی کو کھولا تووہ حیران رہ گیا۔اس میں خطرناک بم پڑے ہوئے تھے۔ اسی طرح مختلف پیٹیوں میں مختلف قسم کا اسلحہ تھا۔ اُسے اب باہر سے بھاگنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ سائرن بجنا اب بند ہوگیا تھا۔ایک پیٹی میں خطرناک ڈائنامیٹ اسٹکس پڑی ہوئی تھیں۔ کیپٹن طاہر نے چار اسٹکس نکالیں اور اُن کے چارجرز بھی نکالے۔ پھر اُس نے مختلف اسلحے سے اپنی جیبیں بھر لیں اور ڈائنامیٹ اسٹکس اُس نے ایک ایک کر کے خطرناک ترین اسلحے کے اُوپر نصب کر دیں۔ یہ اسٹکس اُس نے بالکل نیچے کے حصے پر لگائی تھیں۔ اسلئے بغو ر دیکھے بغیر نظر نہیں آسکتی تھیں۔پسٹل کے دو چار میگزین اُٹھا کر دروازے کی طرف بڑھا۔اب باہر سے آوازیں آنا بند ہوگیئں تھیں۔ شاید اُن کو خیال بھی نہیں آیا ہوگا کہ اتنا خطرناک مجرم جس نے تن تنہا اتنی بڑی فوج سے ٹکر لے لی ہے ۔اَب چھُپ کر بیٹھا ہوگا۔ کیپٹن طاہر نے آہستہ سے دروازہ کھولا۔ وہ اب یہاں سے نکلنا چاہتا تھا کہ کوئی بھی کسی وقت یہاں آسکتا تھا۔

دروازہ کھول کر اُس نے پہلے درختوں اور سٹورز کے درمیان سڑک کے موڑ کی طرف دیکھا۔ وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔ پھر اُس نے کرنل کے آفس کی جانب جانے والی سڑک کی طرف دیکھا۔اُس طرف بھی کوئی نہیں تھا۔ کیپٹن طاہر نے اتنی تیزی سے سڑک کراس کی کہ اگر وہ شاید ورلڈ ریس میں ہوتا تو پہلا نمبر لیتا۔ درختوں کے جھنڈ میں داخل ہو کر وہ تیزی سے آگے کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ابھی اُس نے چالیس پچاس میٹر کا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ اُسے دائیں طرف سے گولی کی آواز سنائی دی۔ سائیلنسر لگا ریوالور اُس کے ہاتھ میں تھا۔وہ تیزی سے دائیں طرف مڑا ۔اُسے یوں لگا جیسے ایک دھکتی ہوئی سلاخ اُس کے بازو میں اُتر گئی ہو۔ اِتنی تکلیف کی شدت کے باوجود اُس نے درخت کے پیچھے چھلانگ لگا دی۔درخت کے پیچھے پہنچ کر تکلیف کی شد ت سے اُس کا چہرہ مسخ ہوگیا لیکن اُس نے اپنے آپ کو جلد ہی قابو کر لیا۔گولی اُس کو بائیں بازو پرلگی تھی۔اُس نے درخت سے آنکھ لگا کر پیچھے کو دیکھا تو اُسے تین فوجی مختلف سمتوں سے اپنی طرف بڑھتے دکھائی دیے۔کیپٹن طاہر نے جلدی سے اپنا دایا ں ہاتھ باہر نکالا اور دائیں طرف سے آنے والے فوجی کی طرف پسٹل کا رُخ کر دیا۔’’ٹھک ‘‘ کی آواز کے ساتھ ہی گولی اُس کے سر کے آر پار ہوگئی اور وہ چیخ نکالے بغیر وہیں ڈھیر ہوگیا۔

دونوں فوجی’’ ٹھک‘‘ کی آواز سے چونک کر رُک گئے ۔ یہی چونکنا کیپٹن طاہر کیلئے خوش قسمتی بن گیا اور اُس نے جلدی سے ہاتھ کا رُخ پھیرا اور ’’ٹھک ‘‘ کی آواز کے ساتھ ہی گولی نے دوسرے فوجی کو بھی چاٹ لیا۔ ایک چیخ سی اُس فوجی کے منہ سے نکلی۔کیپٹن طاہر نے پسٹل کا رُخ تیسرے فوجی کی طر ف کیا لیکن اُس نے پھرتی سے درخت کی آڑ لے لی۔کیپٹن طاہر نے جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک ہینڈ گرنیڈ نکال لیا ۔ اُس نے ہینڈ گرنیڈ کی پن کھینچی اور گرنیڈ کو درختوں کی طر ف اُچھال کر تیزی سے بھاگا اور بھاگتا ہی چلا گیا۔ابھی وہ بھاگا ہی تھا کہ اُسے اپنے پیچھے ایک زور دار دھماکے کی آواز سنائی دی۔وہ تیزی سے اسلئے بھاگا تھا کہ ابھی اس ایرئیے کو فوج نے گھیر لینا تھا۔تقریباً پانچ چھ منٹ وہ اسی رفتار سے بھاگتا رہا۔ پھر اُس نے ایک سب سے اُونچے درخت کا انتخاب کیا۔ درخت کے گھنے حصے میں ایک دو شاخے پر چڑھ کر وہ بیٹھ گیا۔کچھ دیر تک وہ سانسیں برابر کرتا رہا۔ اُسے دور سے فوجیوں کے بھاگنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ تھوڑا سا سکون حاصل ہونے کی وجہ سے اُسنے اپنے بازو میں شدید ٹیسیں اُٹھتی محسوس کیں۔پانچ چھ منٹ وہ اُوپر بیٹھا رہا۔ پھر وہ تیزی سے نیچے اُتر آیا کیونکہ فوجی کسی بھی وقت اِس طرف آسکتے تھے۔ نیچے اُتر کر وہ پھر تیزی سے بھاگنے لگا۔ پانچ چھ منٹ ہی مزید وہ بھاگا تھا کہ اُسے سڑک نظر آنے لگ گئی۔ یہ سڑک اُسی موڑ کی وجہ سے آگے کو آنکلی تھی۔سڑک کے قریب پہنچ کر اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا تو اُسے کافی دور فوجی بھاگتے ہوئے نظر آئے۔وہ بھاگ کر سٹور اور گراجوں والی طرف جارہے تھے اسلئے اس طرف اُن کی پیٹھ تھی۔کیپٹن طاہر نے بھاگ کر سڑک کراس کی اور دوسری طرف اسی طرح درختوں کے جھُند میں پہنچ گیا۔ایک درخت کے پیچھے ٹھہر کر اُس نے چارجر ز نکالے اور پہلے ایک بٹن آن کیا تو سُرخ بتی جل اُٹھی۔ دل ہی دل میں اُس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔اُس نے چاروں چارجرز کے بٹن آن کئے تو سب پر سرُخ بتیاں جل اُٹھیں۔ یہ اس بات کا سگنل تھا کہ ڈائنامیٹ صحیح کام کررہے ہیں۔ پھر اُس نے چاروں چارجرز کو ترتیب سے زمین پر رکھااور دو پر اُنگلیاں ایک ہاتھ سے اور دو پر دوسرے ہاتھ سے رکھ کرچاروں کو بیک وقت آن کر دیا۔پہلے سُرخ سے پیلی اور پھر سبز بتیاں جل اُٹھیں اور اس کے ساتھ ہی گڑگڑاہٹ کی زور دار آواز سنائی دی اور پھر ایک کان پھاڑ دھماکہ ہوا اور کیپٹن طاہر جو دوزانوں بیٹھا تھا آگے کی طرف گرا لیکن جلدی سے اُسنے اپنے دونوں ہاتھ درخت پر رکھ دیے اور اُس کے بائیں ہاتھ میں شدید ٹیسیں اُٹھیں کہ تکلیف کے مارے اُس کے چہرے کا رنگ مسخ ہوگیا۔ دھماکوں کی آوازیں اتنی زور سے ابھی تک آرہی تھیں کہ زمین بھی ہل رہی تھی۔

کیپٹن طاہر آہستہ آہستہ اُٹھا اور سڑک کی طرف بڑھنے لگا۔ اب اُسے اتنا خطر ہ نہیں تھا کیونکہ فوجیوں کو تو اپنی جان کی پڑ گئی ہوگی۔ اب اُس نے کوئی جیپ گاڑی وغیرہ حاصل کرنی تھی۔کیپٹن طاہر کا ایک بازو بے جان ہو کر لٹک رہا تھا۔ سڑک کے کنارے پہنچ کر ایک جھاڑی کے پیچھے وہ بیٹھ گیا۔دور سے آگ کے شولے آتش فشاں لاوے کی طرح نظر آرہے تھے۔ہر کسی کو اپنی فکر تھی۔ اِسی اَ ثنا میں ایک فوجی گاڑی نے تیزی سے موڑ کاٹاتو اُسے بریکیں لگانی پڑیں۔ ’’چیں‘‘ کی آواز کے ساتھ ہی وہ گاڑی سڑک کے درمیان میں رُکی۔ اُس میں ایک نوجوان فوجی بیٹھا تھا۔ جس کا چہرہ خوف سے فک ہو رہا تھا۔ابھی وہ گاڑی آگے بڑھاتا کہ ’’ٹھک‘‘ کی آواز کے ساتھ ہی گولی اُس کے سر کے آر پار ہوگئی۔کیپٹن طاہر کا نشانہ قابل داد تھا۔کیپٹن طاہر جلدی سے اُٹھا اور بھاگتا ہوا جیپ کی طرف گیا۔اُ س نے جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھول کر فوجی کو باہر پھینکا اور خود تیزی سے بیٹھ کر آگے بڑھتا چلا گیا۔ سڑک اختتام اُس جگہ ہوتا تھا۔ جس جگہ پر وہی خطرناک گنیں اور توپیں وغیرہ نصب تھیں۔کیپٹن طاہر تیزی سے جیپ دوڑاتا ہوا اختتام پر پہنچا اور بریک لگادی۔گاڑی سڑک کے درمیان رُک گئی۔ابھی تک دھماکوں کی کچھ آوازیں آرہی تھیں۔ کافی خطرناک اسلحہ اور بم بیک وقت پھٹ گئے تھے۔بازو سے بہت خون بہہ جانے کی وجہ سے کیپٹن طاہر کا چہرہ زرد ہورہا تھا۔

کیپٹن طاہر نے جیپ رُکتے ہی جیب سے تین چار خاص نوعیت کے بم نکالے اور انھیں آن کر کے گنوں اور توپوں کی طرف پھینکا اور جیپ آگے بڑھا تا چلا گیا۔ابھی اُ س نے تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تھاکہ ’’تڑ تڑ‘‘کی زور دار آواز کے ساتھ ہی گاڑی کو ایک جھٹکا لگااور تیزی سے چلتی ہوئی گاڑی گھوم کر اُلٹتے اُلٹتے بچ گئی۔کیپٹن طاہر نے جلدی سے دروازہ کھول کر باہر چھلانگ لگادی اور قلبازیاں کھا تا ہواسڑک سے نیچے گر گیا اور جھاڑیوں میں اَٹک کر رُ ک گیا۔اُس کا دماغ چکر کھا نے لگ گیا تھا اور بازو سے شدید ٹیسیں اُٹھ رہی تھیں۔ بازو سے پھر خون بہنے لگ گیا تھا۔

’’نہیں ابھی میں نے نہیں مرنا۔۔۔ ابھی میں اِن کافروں کو ایسا سبق سکھاؤں گا کہ یہ ساری زندگی یاد کریں گے‘‘کیپٹن طاہر نے بڑبڑاتے ہوئے کہا اور جلدی سے اُٹھ بیٹھ کر جیب سے ہینڈ گرنیڈ نکال لیا۔ ابھی وہ پن ہی کھینچنے کیلئے ہینڈ گرنیڈ منہ تک لایا تھا کہ دو تین سلاخیں اُس کو اپنے کاندھے میں اُترتی محسوس ہوئیں اور وہ زمین پر گر گیا۔ تکلیف کی شد ت سے اُس کے چہرے کا رنگ فک ہو رہا تھالیکن پھر بھی اُس نے گرنیڈ کو اپنے ساتھ رکھ کر جیب سے تین چارجر نکالے ۔ یہ اُن بموں کے چارجر تھے جو اُس نے خاص گنوں اور توپوں وغیرہ کی طرف پھینکے تھے۔اُس نے جلدی سے اُن کو زمین پر رکھا۔ اور تمام بٹن دبا دیے۔تینوں کی سُر خ لائٹیں جل اُٹھیں۔ ابھی وہ دوسرے بٹن دباتا کہ اُسے یوں محسوس ہوا جیسے تین اور گرم سلاخیں اُس کے پہلو میں اُتر گئی ہوں اور وہ زمین پر گر گیا۔ اُس کا چہرہ مٹی سے اَٹ گیا تھا۔اُس نے جلدی سے پہلے ایک بٹن دبادیا تو پہلے پیلی لائیٹ جلی اور پھر سبزہوگئی۔ اُس کو اپنے ذہن پر بار بار تاریکی آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اور پھر اُس کے تمام احساسات فِنا ہو کر رہ گئے۔آخری جو اَحساس اُس کے ذہن میں اُبھرا تھا وہ دور سے زور دار دھماکے کی آواز تھی۔

ooo​
 
Top