سید شہزاد ناصر
محفلین
اب ہم اس مشترکہ تہذیب کا ذکر کریں گے، جس کے بطن سے دلی کی تہذیب نے جنم لیا۔ تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ مغلوں سے پہلے ملک کے اکثریتی طبقے اور ملکی و غیرملکی مسلمانوں کے درمیان اس قدر روابط اور ہم آہنگی نظر نہیں آتی، البتہ لشکر اور صوفیاکرام کی خانقاہوں اور مجلسوں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیرمسلم بھی شریک ہوتے۔ انہیں خانقاہوں میں اوران کے باہر مسلمانوں اور ہندوئوں کے اختلاط سے ایک نئی زبان کا خیمہ تیار ہوچکا تھا۔مغل بادشاہ جلالدین اکبرکی پالیسی ’’صلح کل‘‘، رواداری اور راجپوتوں سے قربت نے ہندومسلم اتحاد کی داغ بیل ڈالی اور یہیں سے مشترکہ تہذیب کے تانے بانے بنے جانے لگے۔ انقلاب 1857تک یہ گنگا جمنی تہذیب اپنے عروج پر تھی۔ 1648میں جب شاہ جہاں آگرہ سے دہلی کے لال قلعے میں منتقل ہوا تو قلعہ کے سامنے بڑے بازار اور جامع مسجد تک حویلیاں اور چھوٹے بڑے مکانات تعمیر ہونے لگے، نئے گلی کوچے وجود میں آئے۔ جیسے جیسے مکانات بن کر تیار ہوئے، مہرولی، تغلق آباد، کیلوکھڑی، غیاث پوراور اطراف کے باشندے اس نئے شہر میں آکر بسنے لگے اور دلی کا یہ حصہ پر رونق شاہجہان آباد بن گیا۔ یہ شاہجہاں کی فہم و فراست اور دوراندیشی تھی کہ اس نے مختلف پیشہ وروں (بلاتفریق مذہب وملت) کے لیے الگ الگ گلی کوچے اور محلے تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ تجارت پیشہ اور مختلف علوم وفنون سے وابستہ افراد ہندو اور مسلم ایک ساتھ پڑوس درپڑوس آباد ہوگئے۔ اس دور کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ مغلوں نے بہت سے ہندو رسم و رواج کو اپنا لیا تھا اور یہ آئین حکومت میںشامل ہوچکے تھے۔ ہولی، دیوالی، دسہرہ، جھروکہ درشن، ٹیکہ کی رسم وغیرہ۔
اٹھارویں اور انیسویں صدی تک یہ مشترکہ تہذیب ہندوئوں اور مسلمانوں کو بہت قریب لاچکی تھی۔ اس عہد میں ان کے لباس، طرز زندگی، وضع قطع، رہن سہن، میلون ٹھیلوں اور ادبی سرگرمیوں پر ایک نظر ڈالیے تو ہندو مسلمان دونوں یکساں طور پر اس مشترکہ تہذیب کے نمائندے نظر آتے ہیں۔ عربی کی ایک کہاوت ہے ’’الناس علیٰ دین ملوکہم‘‘ (عوام بادشاہ کے مذہب پر ہوتے ہیں) یعنی بادشاہ کے طور طریقے اپناتے ہیں۔ شاہجہاں کے دیوان عام سے شاہجہان آباد کے گلی کوچوں تک ہندومسلم، امیر غریب، عورت و مرد سب ہی ایک ایسے رنگ میں رنگ گئے کہ اس سے پیشتر اس کی دوسری مثال کہیں اور نظر نہیں آتی۔ اس مشترکہ تہذیب کے نمونے شمالی ہند کے دوسرے شہروں میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں، لیکن دلی میں یہ اپنی انتہا پر تھی، اس لیے اس گنگا جمنی تہذیب کو ’’دلی کی تہذیب‘‘ خاص طور پر کہاگیا۔ اب شاہجہان آباد صرف ہندو مسلم اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے علما، فضلا، ادبا اور رئوسا کا ہی شہر نہ تھا، بلکہ ہنرمندوں، دست کاروں اور فنکاروں کا ایسا مرکز تھا کہ ہندوستان کے کسی شہر میں ایسا اجتماع نظر نہ آیا۔ اس خصوصیت کی بنا پر پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفیؔ نے کہا تھا کہ ہندوستاتی کلچر کا عطر ’’دلی کی تہذیب‘‘ ہے۔رسالہ صدائے عام والے میر ناصر علی دہلوی نے اپنے ایک مضمون دہلی پایۂ تخت ہندوستان میں لکھا ہے کہ ’’انسان کے اعضائے رئیسہ میں اس کے دل و دماغ کی قدر زیادہ سمجھی جاتی ہے۔ دلی ہندوستان ہے، کم و بیش ہر جگہ پایا جائے گا اور جس کو ہندوستانی ہونے کا دعویٰ ہے، اس کو دلی کی سند پیش کرنی ضروری ہوتی ہے۔ جس طرح انسان کے حواس و تمنائوں کا مدار دل و دماغ پر ہے، اسی طرح تمام ہندوستان کی رگیں دلی میں آکر ملتی ہیں۔ دلی کا نام لیتے ہی دل و دماغ میں حرکت پیدا ہوجاتی ہے، گویا تمام بدن میں بجلی سی دوڑ گئی…‘‘کہنے والے اگر یہ کہتے ہیں تو غلط نہیں کہتے کہ ’’دلی ہندوستان کا دل ہے اوراس میں کوئی شک نہیں کہ یہ شہر اپنی تہذیبی روح، ثقافتی رنگا رنگی اور تاریخی کردار کے اعتبار سے ایک چھوٹا سا ہندوستان ہے!!‘‘’’دلی کی تہذیب‘‘ عبارت تھی باہمی خلوص و محبت، رواداری، انسان دوستی، ایثار، قربانی، عاجزی و انکساری، اپنے اور دوسرے دین دھرم کا احترام اور پیار، بڑے چھوٹے کا لحاظ، بلا تفریق مذہب و ملت ایک دوسرے کے ساتھ مروت، اخوت اور انسیت ۔ جو خواص اور اہل ثروت تھے، وہ عام آدمی کے ساتھ ایسا سکوک کرتے کہ وہ احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوتا۔ رئوسا کی زندگی میں شان وشوکت تھی تو عوام کی زندگی میں سادگی۔ دولت و سرمایہ کی کمی نے انہیں پژمردہ نہیں کیا تھا۔ سبھی فراخ دل سیلانی جیوڑے خوش مزاج وضع اور میلوں ٹھیلوں کے شوقین اپنی کھال میں مست توکل وقناعت کا مظہر ! شاہجہان آباد اعلیٰ اقدار، دیرینہ روایات، اخلاق و کردار سے معمور ایک پر کیف بستی تھی۔ یہاں کے ہر گلی کوچہ میں ایک اپنا ئیت کا احساس تھا۔ شاید اسی احساس اور سلوک کے باعث استاد ذوق نے کہا تھا:ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخنکون جائے ذوقؔ پر دلّی کی گلیاں چھوڑ کرفصیل بند شہر کے گلی کوچوں میں رہنے والے اس بات کا خاص خیال رکھتے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ پست سے پست طبقے یا حقیر پیشے سے وابستہ چھوٹے سے چھوٹے آدمی کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھا جاتا دل شکنی تو دور کی بات ہے، اسی لیے اس زمانے میں صفائی کر مچاری (گھر کا کوڑا کرکٹ اور فضلہ اٹھانے والے) کو بھی اسے پیشے کی مناسبت سے حلال خور اور مہتر (بڑا) جیسے نام دیے گئے تاکہ انہیں یہ احساس نہ ہو کہ اس معاشرہ میں ان کی کوئی جگہ اور حیثیت نہیں۔ دلّی سے باہر حلال خور کہنے کا رواج نہیں، اگر کسی نے کہا بھی تو وہ دلی میں رہ کر اور سن کر گیا۔ دلی کے شرفا کا قاعدہ تھا کہ وہ ’’مہتر‘‘ کو مہتر یا مہترانی کہہ کر نہیں پکارتے تھے، بلکہ ان کے گھریلوں ناموں سے بلایاجاتا، جیسے بھیم، منگلو، انارو، جیوتی، راجو کی ماں، بسنتی، شیلا وغیرہ۔ گھر میں کسی لڑکے بالے نے غلطی سے کہہ دیا کہ مہتر آیا ہے یا مہترانی تو اسے ڈانٹا جاتا اور تنبیہ کی جاتی کہ انہیں کبھی مہتریا مہترانی کہہ کر نہ بلانا۔ ہر گھر میں اسی طرح بچوں کی تربیت ہوتی۔ آج کی نئی نسل اس وقت کا تصور بھی نہیں کرسکتی کہ جب بیت الخلاء میں فلیش نہیں تھا، قد مچے تھے (جنہیں عرف عام میں کھڈی) کہاجاتاتھا۔ یہی نہیں، آج کی طرح گھروں میں پانی کی سپلائی بھی نہیں تھی۔ گلی کوچوں میں چھوٹے بڑے کنویں تھے، ان سے پانی لایا جاتا تھا، بعد میں جب برطانوی سرکار نے پانی کے نل لگوائے تو کچھ سہولت ہوئی۔ یہ صفائی کرمچاری (حلال خور/مہتر) اپنے سروں پر بڑے بڑے ٹوکروں میں کوڑا کرکٹ اور فضلہ بھر کر ڈلائو پر ڈال کر آتے۔ گھروں میں مرد حلال خور شاذ و نادر ہی آتے، مہتر انیاں ہی گھروں میں آتیں اور صفائی کاکام انجام دیتیں۔ یہ مہترانیاں عام طورپر شادی شدہ عورتیں ہوتیں، جن کے ساتھ پختہ عمر کی ایک مہترانی نگرانی کے لیے ساتھ ساتھ چلتی۔ یہی پختہ عمر کی مہترانی گھر کے دروازے پر آکر آواز لگاتی ’کمانے آئے ہیں‘‘۔ مسلمانوں کے گھروں کے دروازے پر عام طور پر پردے پڑے ہوتے تھے۔ آواز سن کر گھر کا کوئی فرد پردہ اٹھاکر دروازے کے کواڑ پر ڈال دیتا۔ پہلے بڑی مہترانی گھر میں ننگے پیر داخل ہوتی، جوتیاں ڈیوڑھی کے باہر اتار دیتی ۔ ’’اماں سلام‘‘ اور اس کے پیچھے چھوٹی مہترانی بھی اسی طرح سلام کرکے کوڑے دان سے کوڑا اٹھاتی اور پھر قد مچے صاف کرکے فضلہ کوڑے پر ڈالا جاتا۔ یہ کوڑا اور فضلہ ٹھیکرے میں جمع کرکے گھر سے باہر کھڑے مہتر کے بڑے ٹوکرے میں پلٹ دیا جاتا۔ ٹھیکرا عام طورپرمٹی کے بڑے مٹکے کا نچلا حصہ ہوتا۔ کچھ مہترانیوں کے پاس لوہے کے گہرے تسلے بھی ہوتے۔ جتنی دیر یہ کام انجام پاتا، بڑی مہترانی خبررساں ایجنسی کے فرائض انجام دیتی۔ اس گھر کی بات اس گھر میں، دوسرے کی تیسرے گھر میں۔ صبح سے دوپہر تک پورے محلے کو ایک دوسرے کی خیر خبر مل جاتی۔ پچاس برس پہلے تک مہتر اور مہترانیاں اسی طرح اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ جب دلی میں سرکاری طورپر گھر گھر فلیش لگوائے اور بیت الخلا میں پانی کے کنکشن بھی دیے گئے تو سروں پر غلاظت کے ٹوکرے اٹھانے اور ڈھونے کے اس مکروہ اور ناگوار عمل سے نجات ملی۔ان سطور کے قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ بات تو ’’دلی کی تہذیب‘‘ کی تھی، یہ مہتر اور مہترانیوں کا ذکر کیوں ہونے لگا۔ قارئین کرام! اس تحریر کا مقصد صرف اور صرف اتنا ہے کہ آج کی ’’برگر اور پزّا‘‘ کھانے والی نئی پود اور دیگر افراد جان لیں کہ دلی کی تہذیب نے اعلیٰ سے اعلیٰ اور ادنیٰ سے ادنیٰ طبقے پر کیا اثرات مرتب کیے۔ مہتر اور مہترانیاں اسی معاشرے کے فرد اور ایک اہم ضرورت ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتے تو آپ کے گلی کوچے اس قدر صاف ستھرے ہوتے؟ ہندوستان میں ایک ایسا دور بھی گزرا ہے، جب اس طبقے کو انتہائی نیچ اور حقیر سمجھا جاتا تھا۔ مندروں میں ان کے داخلے پر پابندی تھی۔ عام کنوؤں سے یہ پانی نہیں لے سکتے تھے۔ تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ کسی مندر یا پاٹھ شالہ میں بآواز بلند اشلوک پڑھے جاتے اور اُدھر سے کوئی مہتر گزرتا، کسی برہمن، پنڈت یا پجاری کو یہ معلوم ہو جاتا کہ اس مہتر نے اشلوک سنے ہیں، تو اسے سخت سے سخت سزا دی جاتی، بعض حالتوں میں پگھلا ہوا سیسہ اس کے کانوں میں ڈالا جاتا ۔ بعض علاقوں میں دستور تھا کہ مہتر اپنی کمر میں ایک جھاڑو اس طرح باندھے کہ سڑک پر چلتے ہوئے رگڑ سے آواز پیدا ہو، تاکہ راہگیر جان لیں کہ کوئی ’’شودر‘‘ آرہا ہے۔ اس طبقاتی تفریق نے شودروں میں اعلیٰ طبقے کے لیے نفرت کا جو جذبہ پیدا کیا، وہ صدیوں تک لاوے کی طرح پکتا رہا۔ آج بھی اس ترقی پذیر ملک کے بعض علاقوں میں اس طبقے کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے، پرنٹ اور سوشل میڈیا میں اس کی تشہیر ہوتی رہتی ہے۔ ان پر جو مظالم ہوتے ہیں، انہیں پڑھ اور سن کر ہر حساس دل خون کے آنسو روتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دن ہوئے پانچویں صدی عیسوی کے چینی سیاح فاہیان کا ایک بیان پڑھا۔ اس نے ہندوستان کا سفر کیا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’کوئی با عزت آدمی گوشت نہیں کھاتا اور گوشت خوری صرف نچلے طبقہ تک محدود ہے۔‘‘ ہمیں لگتا ہے کہ یہ بیان مبالغہ پر مبنی ہے، تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستان کی اکثریت سبزی خور تھی۔ اشوک کا عہد سبزی خوری کے رواج کو ترقی دینے میں اہم تسلیم کیا جاتا ہے، کیوں کہ اس نے جانوروں کی قربانی سرکاری طور پر ممنوع قرار دی تھی۔عہد وسطیٰ میں شکار اور گوشت خوری جنگجو طبقے میں مروج تھی۔ قدیم زمانے میں کھانا پکانے کی باقاعدگی کے ساتھ تربیت بھی دی جاتی تھی۔ قدیم عہد کے لوگ گوشت اور سبزی کا سالن تیار کرتے اور اسے روٹی یا چاول کے ساتھ کھاتے تھے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے گوشت خوری کا فروغ ہوا۔ حکمران ہی نہیں، ان کے ساتھ آنے والے فوجی اور دیگر افراد حلال جانوروں اور پرندوں کے گوشت کے سوا کچھ نہ کھاتے تھے۔ ترکی، ایرانی، تورانی اور افغانی سبھی بھنے ہوئے گوشت اور کباب روٹی یا چاول کے ساتھ کھاتے، دال ترکاری کو چھوتے بھی نہیں۔ جب مقامی باشندوں کے ساتھ روابط بڑھے تو یہ بیرونی لوگ ہندوستانی کھانوں سے واقف ہوئے اور دال سبزی پکانا اور کھانا سیکھ گئے۔غذا یا خوراک کا تعلق مذہب سے نہیں ہوتا۔ جغرافیائی حالات، موسم اور علاقائی پیداوار پر مبنی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کشمیر میں سرد موسم اور برف باری کے باعث کشمیر میں رہنے والے پنڈت گوشت کھاتے ہیں۔عہد اکبری میں مغل سلطنت کو استحکام ملا۔ جلال الدین اکبر کی صلح کل کی پالیسی، رواداری اور راجپوتوں سے تعلق استوار ہونے پر شمالی ہندوستان میں قدرے سکون ہوا اور اب مغل جاہ و جلال کا روپ نکھر کر سامنے آیا۔ جودھا بائی سے اکبر نے شادی کی اور ان کے محل میں آنے پر شاہی مطبخ (باورچی خانہ) میں دال اور سبزی بھی پکنے لگی اور اسی اختلاط نے مغل دسترخوان کو وسیع سے وسیع تر کر دیا۔ حالانکہ اب بھی اس دسترخوان پر گوشت سے پکے ہوئے کھانے بڑی تعداد اور مقدار میں نظر آتے۔محمد شاہ (1719-174) کے عہد میں ان کھانوں میں مزید اضافہ ہوا اور اس کی بڑی وجہ دلی کے رکاب داروں کی ہنرمندی تھی۔ علاوہ از ایں قلعہ معلی کی بیگمات اور شہزادیوں کے ساتھ دلی کے امراء اور رؤسا کی خواتین کا میل جول۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ ’’دسترخوان کا دوست، پکا دوست‘‘۔ آج جس طرح خواتین کٹی پارٹی (Kitty Party) کرتی ہیں، ایسی تقریب تو قلعے میں منعقد نہیں ہوتی تھی، لیکن امراء کی بیبیاں، قلعے کی بیگمات، سلاطین زادیوں اور شہزادیوں کی قربت اور تعلقات کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے اپنے رکاب داروں سے انواع و اقسام کے کھانے پکواتیں اور خود بھی نت نئے کھانے ایجاد کرتیں۔اورنگ زیب کی وفات (1707) کے بعد ملکی حالات جس قدر تیزی سے بدلے اور محمد شاہ کے تخت نشین ہونے تک جو افرا تفری رہی اور 1707 سے 1719 تک بارہ سال میں تین بادشاہ تخت نشین ہوئے اور محلاتی سازشوں نے سر اٹھایا، تاریخ کا مطالعہ کرنے والے ان سے بخوبی واقف ہیں۔ اسی دور میں مغل سلطنت مائل بہ زوال ہوئی، لیکن اسی بدحالی کے دور میں شاہی دسترخوان پہلے سے کہیں زیادہ خوش حال نظر آتا ہے۔ مغل سلطنت کے بانی ظہیرالدین بابر کے متعلق مشہور ہے کہ اس کے سامنے ایک بڑے طباق میں بھنا ہوا سالم بکرا پیش کیا جاتا اور وہ چھوٹی تلوار سے گوشت کاٹ کر کاٹ کر کھاتا۔ لیکن اولادِ بابر کے دسترخوان پر تلوار نہیں، سونے چاندی کے ظروف اور بلوری برتن نظر آتے۔ بادشاہِ وقت کے سامنے دسترخوان پر مہر بند خاصہ پیش کیا جاتا۔ اب قلعہ معلی میں توسیع سلطنت اور استحکام کے لیے منصوبہ بندی نہیں ہوتی تھی، بلکہ ’’بابر بعیش کوش عالم دوبارہ نیست‘‘ پیش نظر تھا۔شاہجہاں آباد کی تعمیر اور آباد ہونے پر مختلف علوم و فنون کے ماہرین دلی میں آکر بسنے لگے۔ ایسے ہی لوگوں میں ترکی، ایرانی اور افغانی کھانا پکانے والے تھے، جو اپنے قدردانوں کی بدولت قلعے میں داخل ہوئے۔ امراء اور رؤسا نے اس بات کی کوشش کی کہ ان کے ممتاز رکاب دار کسی نہ کسی طرح شاہی مطبخ میں پہنچ کر اپنے فن طباخی کا مظاہرہ کریں اور انہیں شاہ کا قرب حاصل ہو جائے۔ چنانچہ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں دلی میں ایسے متعدد رکاب دار تھے جو صرف امراء کے لیے کھانے پکاتے تھے اور مطبخ شاہی میں پکانے کے خواب دیکھتے تھے۔ نئے نئے کھانوں کی ایجاد اور تجربوں کے لیے جو لوازمات درکار تھے، اس کے لیے شاہی خزانے کے منھ کھلے ہوئے تھے۔خدا بھلا کرے منشی فیض الدین کا، جنہوں نے آخری دور کے قلعہ معلی کے حالات اور معاشرت پر قلم اٹھایا اور ایک مختصر سی کتاب ’’بزمِ آخر‘‘ کے عنوان سے تصنیف کی۔ اس کتاب کے مواد اور بیانات پر شاہ زادہ مرزا محمد سلیمان شاہ گورگانی نے مہر تصدیق و سند ثبت کی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’میں نے اس کتاب موسوم بہ بزم آخر کو، جس میں ہمارے دو آخری بزرگوں (اکبر شاہ ثانی اور بہادر شاہ ظفر) کا طریق معاشرت لکھا ہے، ملاحظہ کیا۔ چونکہ یہ کتاب ہمارے قدیم متوسل منشی فیض الدین نے، جو قلعے میں پرورش پاکر چھوٹے سے بڑے ہوئے اور نیز صاحب عالم بہادر یعنی حضرت والا مغفور کی خدمت میں ہمیشہ حاضر رہے، لکھی ہے۔ اس لیے میں تصدیق کرتا ہوں کہ جو کچھ اس میں لکھا گیا ہے، وہ ٹھیک اور درست ہے …‘‘ یہ کتاب 1890 سے پہلے شائع ہوئی تھی۔ سلطنتِ مغلیہ کے آخری دور اور قلعہ معلی کے حالات پر بیسویں صدی میں جن اصحاب نے قلم اٹھایا، اس کتاب سے استفادہ کیا۔ منشی فیض الدین نے کتاب کی ابتدا میں دو شعر تحریر کیے ہیں :چمن کے تخت پر جس دن شہ گل کا تجمل تھاہزاروں بلبلوں کی فوج تھی اک شور تھا غل تھاخزاں کے دن جو دیکھا کچھ نہ تھا جز خار گلشن میںبتاتا باغباں رو رو یہاں غنچہ یہاں گل تھاواقعہ یہ ہے کہ اگر یہ کتاب وجود میں نہ آتی تو نئی تانتی کو کیا بتاتے کہ قلعہ معلی میں شاہی دسترخوان پر خورد و نوش کا کیا اہتمام ہوتا تھا، کس طرح کھانا دسترخوان پر پیش کیا جاتا تھا اور کس طرح لوگ کھاتے تھے۔ دلی کے بچے کھچے قدیم گھرانوں میں شاہجہانی دیگ کی آخری کھرچن کے چند ذائقہ شناس ابھی باقی ہیں، چند دن جاتے ہیں کہ یہ بتانے والا بھی کوئی نہیں ہوگا کہ غنچہ کہاں تھا، گل کہاں تھا۔ نئی تانتی نے تو شاہی دسترخوان کے کھانوں کے نام تک نہیں سنے، وہ کیا بتائے گی کہ مزعفر اور متنجن میں کیا فرق ہے، دوغ اور دُلمہ کسے کہتے ہیں، باقر خانی اور شیرمال کا نام سنا، کھایا اور چکھا بھی، لیکن آج جو باقر خانی اور شیرمال کے نام پر روٹیاں ملتی ہیں، کیا ان کے وہی لوازمات ہیں، جو ایک صدی پہلے تھے۔بہرکیف، اکیسویں صدی میں پِزا اور برگر کھانے والوں کو اتنا تو بتا ہی دیا جائے کہ دہلی کے نانبائیوں اور رِکاب داروں نے کس قدر ہنر مندی کا ثبوت دیا۔ نئی نسل کو یہ بھی نہیں معلوم کہ رِکاب دار اور باورچی میں کیا فرق ہے۔ رکاب دار کھانے پکاتے تھے، لیکن چھوٹی چھوٹی دیگچیوں میں۔ یہی لوگ کھانے میں تجربے کرتے اور اپنے اپنے طور پر کھانے ایجاد کرتے۔ شاہی مطبخ کے علاوہ امراء اور رؤسا کے باورچی خانوں میں ان کے شوق اور ذوق کے مطابق کھانے پکاتے۔ باورچی بڑی بڑی دیگوں میں تقریبات کے لیے کھانے پکاتے تھے اور رکاب دار کے تجربوں سے فائدہ اٹھاتے۔ ان کے ساتھ ہی ان کے مددگار بھی ہوتے تھے جو دیگ شو کہلاتے تھے۔ ان کا کام استعمال شدہ دیگوں کی صفائی ستھرائی اور دیکھ بھال تھی۔ باورچی دیگ شو کو بتاتے تھے کہ کیسا اور کتنا کھانا پکے گا۔ وہ لوگ اس کے مطابق دیگیں منتخب کرکے صاف کرتے اور کھانا پکنے کے مقام تک پہنچاتے تھے۔ آج باورچی خود ہی دیگ دھوتے اور صاف کرتے ہیں۔ جن باورچیوں کے پاس کھانا پکانے کا کام زیادہ ہے، ان کے ہاں چند لڑکے ملازم ہیں، مگر انہیں کوئی دیگ شو نہیں کہتا۔ یہی لڑکے کھانے کے مطابق مصالحے کوٹتے اور پیستے ہیں۔ بڑے بڑے ریسٹورنٹ اور ہوٹلوں میں خانساماں یا باورچی (Chef) رکاب داروں کے متبادل ہیں۔ آج ہر طرح کے کھانے پکانے کا باقاعدہ کورس ہوتا ہے، لیکن پہلے دلی کے رکاب داروں کے پاس اپنے بزرگوں کے بتائے اور سکھائے ہوئے نسخے تھے، جو سینہ بہ سینہ چلے آتے تھے۔نانبائی تندور میں طرح طرح کی روٹیاں پکاتے تھے۔ ملک کی آزادی سے قبل فصیل بند شہر میں گنتی کے نانبائی تھے۔ ان میں سے چار چھ ہی سردی جاڑے میں علی الصبح نہاری بھی پکا لیتے۔ عام طور پر اکتوبر سے فروری تک ان کے یہاں نہاری پکتی تھی۔ نانبائیوں کی اپنی ایک برادری تھی، وہی لوگ یہ کام کرتے تھے۔ دکان کا مالک، نانبائی صاف ستھرے کپڑے پہنتا۔ تنور میں روٹیاں پکانے اور آٹا گوندھنے والے دوسرے لوگ ہوتے تھے۔ آج کی طرح گھر گھر تندوری روٹی نہیں جاتی تھی۔ غم و خوشی کے موقع پر جب دسترخوان وسیع ہوتا تو بازار سے تندوری یا خمیری روٹی آتی، ورنہ گھروں کی خواتین اور مامائیں چپاتیاں اور پرانٹھے پکایا کرتی تھیں۔گزشتہ چالیس پچاس برسوں میں دلی میں صنعت و حرفت اور تجارت کا جو فروغ ہوا تو روزگار کی تلاش میں دور دراز مقامات سے لوگ یہاں آکر بسنے لگے۔ مزدور اور کاریگر پیشہ افراد گھر بار چھوڑ کر یہاں تنہا آتے۔ چنانچہ ان کے خورد و نوش کے لیے چھوٹے بڑے ڈھابے اور ریسٹورنٹ ہر گلی کوچے میں نظر آنے لگے۔ پہلے عرفِ عام میں ہندوؤں کے مطبخ کو ’’ڈھابا‘‘ کہا جاتا تھا، جہاں صرف دال سبزی ہی پکائی جاتی تھی، آج معمولی درجے کا ریسٹورنٹ، جہاں ہر طرح کا کھانا ملتا ہے، ڈھابہ کہلاتا ہے اور اب دلی میں رہنے والے ان چھوٹے ریسٹورنٹ کو، جہاں کھانے کے ساتھ تندور بھی ہوتا ہے، بھٹیار خانہ بھی کہنے لگے ہیں اور نانبائیوں کو بھٹیارا، جب کہ دلی والے بھٹیارا ان لوگوں کو کہتے تھے، جو سرائے میں مسافروں کے لیے کھانا پکاتے اور ان کا رہائش کا بندوبست کرتے تھے۔ اس کام کے لیے بعض سراؤں میں عورتیں مامور ہوتی تھیں، جو بھٹیاری یا بھٹیارن کہلاتی تھیں۔ داستانوں اور قصوں میں بڑے دلچسپ انداز میں بھٹیارنوں کا ذکر ملتا ہے۔بیسویں صدی میں جب انگریزوں اور دوسرے لوگوں نے رہائشی ہوٹلوں کا کاروبار شروع کیا، نئی دلی کی تعمیر ہونے لگی تو رفتہ رفتہ سرائیں کم ہونے لگیں اور ان کے بھٹیاروں نے دوسرے پیشے اختیار کیے۔ جن کے پاس کچھ اثاثہ تھا، کھانے پینے کی دکانیں کھول لیں، کچھ نانبائی بن گئے، کچھ نہاری روٹی بیچنے لگے اور کچھ سبزی فروش ہوگئے۔ جو ہنر مند تھے، وہ ریسٹورنٹ اور رہائشی ہوٹلوں کے میس میں ملازم ہوگئے اور کوئی صاحب بہادر کا خانساماں بن گیا۔ 1857 کے ہنگامے میں شاہی رکاب دار قلعہ معلی چھوڑ ریاستوں اور رجواڑوں میں قسمت کا لکھا پورا کرنے لگے اور جب ملک کی آزادی کے بعد ریاستوں اور رجواڑوں کی ’’آزادانہ حیثیت‘‘ ختم ہوئی، تو ان رکاب داروں کا بھی زوال ہوا اور اب یہی رکاب دار باورچی بن گئے۔دلی میں چند سال پہلے تک ایسے باورچی موجود تھے، جن کے بزرگ قلعہ معلی میں شاہی رکاب دار تھے اور اب ان کی اولادیں دورِ جمہوریت میں دلی کے گلی کوچوں میں ’’عوامی خدمت‘‘ پر مامور تھیں۔ خیال رہے، دلی میں امراء اور رؤسا کے مردانے دسترخوان پر رکاب دار کھانے بھی پیش کرتے اور دسترخوان سجاتے تھے، جب کہ لال قلعہ میں رکاب دار صرف کھانا پکاتے تھے اور دسترخوان کو سجانے یا کھانے پیش کرنے کے لیے خواتین مامور تھیں، جو خاصے والیاں کہلاتی تھیں۔ ان کی نگراں عورت ’خاصے کی داروغہ‘ ہوتی تھی۔ وہ اپنے سامنے دسترخوان پر علاحدہ علاحدہ کھانے چنواتے اور بادشاہ کے حضور میں ان کا خاص خانہ پیش کرتی تھی، جو ایک خوان میں مہربند ہوتا تھا اور خاصے کی داروغہ بادشاہ سلامت کے سامنے اس خوان کی مہر توڑتی تھی اور یہ حفظ ما تقدم کے طور پر ہوتا تھا کہ کہیں کوئی بدخواہ اشیائے خورد و نوش میں زہر یا کوئی دوسری ضرر رساں شے نہ ملا دے۔ قلعہ معلی میں دسترخوان کا خاص اہتمام ہوتا تھا۔ منشی فیض الدین دہلوی کے مطابق، خاصے والیاں پہلے ایک سات گز لمبا تین گز چکلا چمڑا بچھایا، اوپر سفید دسترخوان بچھایا، بیچوں بیچ میں دو گز لمبی، ڈیڑھ گز چکلی چوکی لگائی جاتی اور اس پر کھانے چنے جاتے۔ دلی میں چالیس پچاس سال پہلے تک بڑے گھروں میں اسی طرح چوکیوں پر کھانا کھایا جاتا۔ چھوٹے گھروں میں دالان یا کمرے میں چوکیاں نہیں ہوتیں، چمڑے اور کپڑے کے دسترخوان بچھا کر کھانا کھاتے۔ غیر مسلموں میں دسترخوان کا رواج نہیں تھا، الگ الگ تھالیوں اور کٹوریوں میں کھانا کھاتے تھے۔ بعد ازاں جب ڈائننگ ٹیبل گھروں کی زینت بنی تو اس پر کھانا کھایا جانے لگا۔یہاں یہ وضاحت بھی کردی جائے کہ شمالی ہندوستان میں ایک عرصے تک ماہر باورچی ہی کو رکاب دار نہیں کہتے تھے، بلکہ اچار و مربے بنانے والے بھی رکاب دار کہلاتے تھے، کیوں کہ اس میں بھی مصالحوں کی آمیزش، پکانے اور گلانے کا عمل تھا۔
بشکریہ فیس بک
اٹھارویں اور انیسویں صدی تک یہ مشترکہ تہذیب ہندوئوں اور مسلمانوں کو بہت قریب لاچکی تھی۔ اس عہد میں ان کے لباس، طرز زندگی، وضع قطع، رہن سہن، میلون ٹھیلوں اور ادبی سرگرمیوں پر ایک نظر ڈالیے تو ہندو مسلمان دونوں یکساں طور پر اس مشترکہ تہذیب کے نمائندے نظر آتے ہیں۔ عربی کی ایک کہاوت ہے ’’الناس علیٰ دین ملوکہم‘‘ (عوام بادشاہ کے مذہب پر ہوتے ہیں) یعنی بادشاہ کے طور طریقے اپناتے ہیں۔ شاہجہاں کے دیوان عام سے شاہجہان آباد کے گلی کوچوں تک ہندومسلم، امیر غریب، عورت و مرد سب ہی ایک ایسے رنگ میں رنگ گئے کہ اس سے پیشتر اس کی دوسری مثال کہیں اور نظر نہیں آتی۔ اس مشترکہ تہذیب کے نمونے شمالی ہند کے دوسرے شہروں میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں، لیکن دلی میں یہ اپنی انتہا پر تھی، اس لیے اس گنگا جمنی تہذیب کو ’’دلی کی تہذیب‘‘ خاص طور پر کہاگیا۔ اب شاہجہان آباد صرف ہندو مسلم اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے علما، فضلا، ادبا اور رئوسا کا ہی شہر نہ تھا، بلکہ ہنرمندوں، دست کاروں اور فنکاروں کا ایسا مرکز تھا کہ ہندوستان کے کسی شہر میں ایسا اجتماع نظر نہ آیا۔ اس خصوصیت کی بنا پر پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفیؔ نے کہا تھا کہ ہندوستاتی کلچر کا عطر ’’دلی کی تہذیب‘‘ ہے۔رسالہ صدائے عام والے میر ناصر علی دہلوی نے اپنے ایک مضمون دہلی پایۂ تخت ہندوستان میں لکھا ہے کہ ’’انسان کے اعضائے رئیسہ میں اس کے دل و دماغ کی قدر زیادہ سمجھی جاتی ہے۔ دلی ہندوستان ہے، کم و بیش ہر جگہ پایا جائے گا اور جس کو ہندوستانی ہونے کا دعویٰ ہے، اس کو دلی کی سند پیش کرنی ضروری ہوتی ہے۔ جس طرح انسان کے حواس و تمنائوں کا مدار دل و دماغ پر ہے، اسی طرح تمام ہندوستان کی رگیں دلی میں آکر ملتی ہیں۔ دلی کا نام لیتے ہی دل و دماغ میں حرکت پیدا ہوجاتی ہے، گویا تمام بدن میں بجلی سی دوڑ گئی…‘‘کہنے والے اگر یہ کہتے ہیں تو غلط نہیں کہتے کہ ’’دلی ہندوستان کا دل ہے اوراس میں کوئی شک نہیں کہ یہ شہر اپنی تہذیبی روح، ثقافتی رنگا رنگی اور تاریخی کردار کے اعتبار سے ایک چھوٹا سا ہندوستان ہے!!‘‘’’دلی کی تہذیب‘‘ عبارت تھی باہمی خلوص و محبت، رواداری، انسان دوستی، ایثار، قربانی، عاجزی و انکساری، اپنے اور دوسرے دین دھرم کا احترام اور پیار، بڑے چھوٹے کا لحاظ، بلا تفریق مذہب و ملت ایک دوسرے کے ساتھ مروت، اخوت اور انسیت ۔ جو خواص اور اہل ثروت تھے، وہ عام آدمی کے ساتھ ایسا سکوک کرتے کہ وہ احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوتا۔ رئوسا کی زندگی میں شان وشوکت تھی تو عوام کی زندگی میں سادگی۔ دولت و سرمایہ کی کمی نے انہیں پژمردہ نہیں کیا تھا۔ سبھی فراخ دل سیلانی جیوڑے خوش مزاج وضع اور میلوں ٹھیلوں کے شوقین اپنی کھال میں مست توکل وقناعت کا مظہر ! شاہجہان آباد اعلیٰ اقدار، دیرینہ روایات، اخلاق و کردار سے معمور ایک پر کیف بستی تھی۔ یہاں کے ہر گلی کوچہ میں ایک اپنا ئیت کا احساس تھا۔ شاید اسی احساس اور سلوک کے باعث استاد ذوق نے کہا تھا:ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخنکون جائے ذوقؔ پر دلّی کی گلیاں چھوڑ کرفصیل بند شہر کے گلی کوچوں میں رہنے والے اس بات کا خاص خیال رکھتے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ پست سے پست طبقے یا حقیر پیشے سے وابستہ چھوٹے سے چھوٹے آدمی کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھا جاتا دل شکنی تو دور کی بات ہے، اسی لیے اس زمانے میں صفائی کر مچاری (گھر کا کوڑا کرکٹ اور فضلہ اٹھانے والے) کو بھی اسے پیشے کی مناسبت سے حلال خور اور مہتر (بڑا) جیسے نام دیے گئے تاکہ انہیں یہ احساس نہ ہو کہ اس معاشرہ میں ان کی کوئی جگہ اور حیثیت نہیں۔ دلّی سے باہر حلال خور کہنے کا رواج نہیں، اگر کسی نے کہا بھی تو وہ دلی میں رہ کر اور سن کر گیا۔ دلی کے شرفا کا قاعدہ تھا کہ وہ ’’مہتر‘‘ کو مہتر یا مہترانی کہہ کر نہیں پکارتے تھے، بلکہ ان کے گھریلوں ناموں سے بلایاجاتا، جیسے بھیم، منگلو، انارو، جیوتی، راجو کی ماں، بسنتی، شیلا وغیرہ۔ گھر میں کسی لڑکے بالے نے غلطی سے کہہ دیا کہ مہتر آیا ہے یا مہترانی تو اسے ڈانٹا جاتا اور تنبیہ کی جاتی کہ انہیں کبھی مہتریا مہترانی کہہ کر نہ بلانا۔ ہر گھر میں اسی طرح بچوں کی تربیت ہوتی۔ آج کی نئی نسل اس وقت کا تصور بھی نہیں کرسکتی کہ جب بیت الخلاء میں فلیش نہیں تھا، قد مچے تھے (جنہیں عرف عام میں کھڈی) کہاجاتاتھا۔ یہی نہیں، آج کی طرح گھروں میں پانی کی سپلائی بھی نہیں تھی۔ گلی کوچوں میں چھوٹے بڑے کنویں تھے، ان سے پانی لایا جاتا تھا، بعد میں جب برطانوی سرکار نے پانی کے نل لگوائے تو کچھ سہولت ہوئی۔ یہ صفائی کرمچاری (حلال خور/مہتر) اپنے سروں پر بڑے بڑے ٹوکروں میں کوڑا کرکٹ اور فضلہ بھر کر ڈلائو پر ڈال کر آتے۔ گھروں میں مرد حلال خور شاذ و نادر ہی آتے، مہتر انیاں ہی گھروں میں آتیں اور صفائی کاکام انجام دیتیں۔ یہ مہترانیاں عام طورپر شادی شدہ عورتیں ہوتیں، جن کے ساتھ پختہ عمر کی ایک مہترانی نگرانی کے لیے ساتھ ساتھ چلتی۔ یہی پختہ عمر کی مہترانی گھر کے دروازے پر آکر آواز لگاتی ’کمانے آئے ہیں‘‘۔ مسلمانوں کے گھروں کے دروازے پر عام طور پر پردے پڑے ہوتے تھے۔ آواز سن کر گھر کا کوئی فرد پردہ اٹھاکر دروازے کے کواڑ پر ڈال دیتا۔ پہلے بڑی مہترانی گھر میں ننگے پیر داخل ہوتی، جوتیاں ڈیوڑھی کے باہر اتار دیتی ۔ ’’اماں سلام‘‘ اور اس کے پیچھے چھوٹی مہترانی بھی اسی طرح سلام کرکے کوڑے دان سے کوڑا اٹھاتی اور پھر قد مچے صاف کرکے فضلہ کوڑے پر ڈالا جاتا۔ یہ کوڑا اور فضلہ ٹھیکرے میں جمع کرکے گھر سے باہر کھڑے مہتر کے بڑے ٹوکرے میں پلٹ دیا جاتا۔ ٹھیکرا عام طورپرمٹی کے بڑے مٹکے کا نچلا حصہ ہوتا۔ کچھ مہترانیوں کے پاس لوہے کے گہرے تسلے بھی ہوتے۔ جتنی دیر یہ کام انجام پاتا، بڑی مہترانی خبررساں ایجنسی کے فرائض انجام دیتی۔ اس گھر کی بات اس گھر میں، دوسرے کی تیسرے گھر میں۔ صبح سے دوپہر تک پورے محلے کو ایک دوسرے کی خیر خبر مل جاتی۔ پچاس برس پہلے تک مہتر اور مہترانیاں اسی طرح اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ جب دلی میں سرکاری طورپر گھر گھر فلیش لگوائے اور بیت الخلا میں پانی کے کنکشن بھی دیے گئے تو سروں پر غلاظت کے ٹوکرے اٹھانے اور ڈھونے کے اس مکروہ اور ناگوار عمل سے نجات ملی۔ان سطور کے قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ بات تو ’’دلی کی تہذیب‘‘ کی تھی، یہ مہتر اور مہترانیوں کا ذکر کیوں ہونے لگا۔ قارئین کرام! اس تحریر کا مقصد صرف اور صرف اتنا ہے کہ آج کی ’’برگر اور پزّا‘‘ کھانے والی نئی پود اور دیگر افراد جان لیں کہ دلی کی تہذیب نے اعلیٰ سے اعلیٰ اور ادنیٰ سے ادنیٰ طبقے پر کیا اثرات مرتب کیے۔ مہتر اور مہترانیاں اسی معاشرے کے فرد اور ایک اہم ضرورت ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتے تو آپ کے گلی کوچے اس قدر صاف ستھرے ہوتے؟ ہندوستان میں ایک ایسا دور بھی گزرا ہے، جب اس طبقے کو انتہائی نیچ اور حقیر سمجھا جاتا تھا۔ مندروں میں ان کے داخلے پر پابندی تھی۔ عام کنوؤں سے یہ پانی نہیں لے سکتے تھے۔ تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ کسی مندر یا پاٹھ شالہ میں بآواز بلند اشلوک پڑھے جاتے اور اُدھر سے کوئی مہتر گزرتا، کسی برہمن، پنڈت یا پجاری کو یہ معلوم ہو جاتا کہ اس مہتر نے اشلوک سنے ہیں، تو اسے سخت سے سخت سزا دی جاتی، بعض حالتوں میں پگھلا ہوا سیسہ اس کے کانوں میں ڈالا جاتا ۔ بعض علاقوں میں دستور تھا کہ مہتر اپنی کمر میں ایک جھاڑو اس طرح باندھے کہ سڑک پر چلتے ہوئے رگڑ سے آواز پیدا ہو، تاکہ راہگیر جان لیں کہ کوئی ’’شودر‘‘ آرہا ہے۔ اس طبقاتی تفریق نے شودروں میں اعلیٰ طبقے کے لیے نفرت کا جو جذبہ پیدا کیا، وہ صدیوں تک لاوے کی طرح پکتا رہا۔ آج بھی اس ترقی پذیر ملک کے بعض علاقوں میں اس طبقے کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے، پرنٹ اور سوشل میڈیا میں اس کی تشہیر ہوتی رہتی ہے۔ ان پر جو مظالم ہوتے ہیں، انہیں پڑھ اور سن کر ہر حساس دل خون کے آنسو روتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دن ہوئے پانچویں صدی عیسوی کے چینی سیاح فاہیان کا ایک بیان پڑھا۔ اس نے ہندوستان کا سفر کیا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’کوئی با عزت آدمی گوشت نہیں کھاتا اور گوشت خوری صرف نچلے طبقہ تک محدود ہے۔‘‘ ہمیں لگتا ہے کہ یہ بیان مبالغہ پر مبنی ہے، تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستان کی اکثریت سبزی خور تھی۔ اشوک کا عہد سبزی خوری کے رواج کو ترقی دینے میں اہم تسلیم کیا جاتا ہے، کیوں کہ اس نے جانوروں کی قربانی سرکاری طور پر ممنوع قرار دی تھی۔عہد وسطیٰ میں شکار اور گوشت خوری جنگجو طبقے میں مروج تھی۔ قدیم زمانے میں کھانا پکانے کی باقاعدگی کے ساتھ تربیت بھی دی جاتی تھی۔ قدیم عہد کے لوگ گوشت اور سبزی کا سالن تیار کرتے اور اسے روٹی یا چاول کے ساتھ کھاتے تھے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے گوشت خوری کا فروغ ہوا۔ حکمران ہی نہیں، ان کے ساتھ آنے والے فوجی اور دیگر افراد حلال جانوروں اور پرندوں کے گوشت کے سوا کچھ نہ کھاتے تھے۔ ترکی، ایرانی، تورانی اور افغانی سبھی بھنے ہوئے گوشت اور کباب روٹی یا چاول کے ساتھ کھاتے، دال ترکاری کو چھوتے بھی نہیں۔ جب مقامی باشندوں کے ساتھ روابط بڑھے تو یہ بیرونی لوگ ہندوستانی کھانوں سے واقف ہوئے اور دال سبزی پکانا اور کھانا سیکھ گئے۔غذا یا خوراک کا تعلق مذہب سے نہیں ہوتا۔ جغرافیائی حالات، موسم اور علاقائی پیداوار پر مبنی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کشمیر میں سرد موسم اور برف باری کے باعث کشمیر میں رہنے والے پنڈت گوشت کھاتے ہیں۔عہد اکبری میں مغل سلطنت کو استحکام ملا۔ جلال الدین اکبر کی صلح کل کی پالیسی، رواداری اور راجپوتوں سے تعلق استوار ہونے پر شمالی ہندوستان میں قدرے سکون ہوا اور اب مغل جاہ و جلال کا روپ نکھر کر سامنے آیا۔ جودھا بائی سے اکبر نے شادی کی اور ان کے محل میں آنے پر شاہی مطبخ (باورچی خانہ) میں دال اور سبزی بھی پکنے لگی اور اسی اختلاط نے مغل دسترخوان کو وسیع سے وسیع تر کر دیا۔ حالانکہ اب بھی اس دسترخوان پر گوشت سے پکے ہوئے کھانے بڑی تعداد اور مقدار میں نظر آتے۔محمد شاہ (1719-174) کے عہد میں ان کھانوں میں مزید اضافہ ہوا اور اس کی بڑی وجہ دلی کے رکاب داروں کی ہنرمندی تھی۔ علاوہ از ایں قلعہ معلی کی بیگمات اور شہزادیوں کے ساتھ دلی کے امراء اور رؤسا کی خواتین کا میل جول۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ ’’دسترخوان کا دوست، پکا دوست‘‘۔ آج جس طرح خواتین کٹی پارٹی (Kitty Party) کرتی ہیں، ایسی تقریب تو قلعے میں منعقد نہیں ہوتی تھی، لیکن امراء کی بیبیاں، قلعے کی بیگمات، سلاطین زادیوں اور شہزادیوں کی قربت اور تعلقات کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے اپنے رکاب داروں سے انواع و اقسام کے کھانے پکواتیں اور خود بھی نت نئے کھانے ایجاد کرتیں۔اورنگ زیب کی وفات (1707) کے بعد ملکی حالات جس قدر تیزی سے بدلے اور محمد شاہ کے تخت نشین ہونے تک جو افرا تفری رہی اور 1707 سے 1719 تک بارہ سال میں تین بادشاہ تخت نشین ہوئے اور محلاتی سازشوں نے سر اٹھایا، تاریخ کا مطالعہ کرنے والے ان سے بخوبی واقف ہیں۔ اسی دور میں مغل سلطنت مائل بہ زوال ہوئی، لیکن اسی بدحالی کے دور میں شاہی دسترخوان پہلے سے کہیں زیادہ خوش حال نظر آتا ہے۔ مغل سلطنت کے بانی ظہیرالدین بابر کے متعلق مشہور ہے کہ اس کے سامنے ایک بڑے طباق میں بھنا ہوا سالم بکرا پیش کیا جاتا اور وہ چھوٹی تلوار سے گوشت کاٹ کر کاٹ کر کھاتا۔ لیکن اولادِ بابر کے دسترخوان پر تلوار نہیں، سونے چاندی کے ظروف اور بلوری برتن نظر آتے۔ بادشاہِ وقت کے سامنے دسترخوان پر مہر بند خاصہ پیش کیا جاتا۔ اب قلعہ معلی میں توسیع سلطنت اور استحکام کے لیے منصوبہ بندی نہیں ہوتی تھی، بلکہ ’’بابر بعیش کوش عالم دوبارہ نیست‘‘ پیش نظر تھا۔شاہجہاں آباد کی تعمیر اور آباد ہونے پر مختلف علوم و فنون کے ماہرین دلی میں آکر بسنے لگے۔ ایسے ہی لوگوں میں ترکی، ایرانی اور افغانی کھانا پکانے والے تھے، جو اپنے قدردانوں کی بدولت قلعے میں داخل ہوئے۔ امراء اور رؤسا نے اس بات کی کوشش کی کہ ان کے ممتاز رکاب دار کسی نہ کسی طرح شاہی مطبخ میں پہنچ کر اپنے فن طباخی کا مظاہرہ کریں اور انہیں شاہ کا قرب حاصل ہو جائے۔ چنانچہ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں دلی میں ایسے متعدد رکاب دار تھے جو صرف امراء کے لیے کھانے پکاتے تھے اور مطبخ شاہی میں پکانے کے خواب دیکھتے تھے۔ نئے نئے کھانوں کی ایجاد اور تجربوں کے لیے جو لوازمات درکار تھے، اس کے لیے شاہی خزانے کے منھ کھلے ہوئے تھے۔خدا بھلا کرے منشی فیض الدین کا، جنہوں نے آخری دور کے قلعہ معلی کے حالات اور معاشرت پر قلم اٹھایا اور ایک مختصر سی کتاب ’’بزمِ آخر‘‘ کے عنوان سے تصنیف کی۔ اس کتاب کے مواد اور بیانات پر شاہ زادہ مرزا محمد سلیمان شاہ گورگانی نے مہر تصدیق و سند ثبت کی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’میں نے اس کتاب موسوم بہ بزم آخر کو، جس میں ہمارے دو آخری بزرگوں (اکبر شاہ ثانی اور بہادر شاہ ظفر) کا طریق معاشرت لکھا ہے، ملاحظہ کیا۔ چونکہ یہ کتاب ہمارے قدیم متوسل منشی فیض الدین نے، جو قلعے میں پرورش پاکر چھوٹے سے بڑے ہوئے اور نیز صاحب عالم بہادر یعنی حضرت والا مغفور کی خدمت میں ہمیشہ حاضر رہے، لکھی ہے۔ اس لیے میں تصدیق کرتا ہوں کہ جو کچھ اس میں لکھا گیا ہے، وہ ٹھیک اور درست ہے …‘‘ یہ کتاب 1890 سے پہلے شائع ہوئی تھی۔ سلطنتِ مغلیہ کے آخری دور اور قلعہ معلی کے حالات پر بیسویں صدی میں جن اصحاب نے قلم اٹھایا، اس کتاب سے استفادہ کیا۔ منشی فیض الدین نے کتاب کی ابتدا میں دو شعر تحریر کیے ہیں :چمن کے تخت پر جس دن شہ گل کا تجمل تھاہزاروں بلبلوں کی فوج تھی اک شور تھا غل تھاخزاں کے دن جو دیکھا کچھ نہ تھا جز خار گلشن میںبتاتا باغباں رو رو یہاں غنچہ یہاں گل تھاواقعہ یہ ہے کہ اگر یہ کتاب وجود میں نہ آتی تو نئی تانتی کو کیا بتاتے کہ قلعہ معلی میں شاہی دسترخوان پر خورد و نوش کا کیا اہتمام ہوتا تھا، کس طرح کھانا دسترخوان پر پیش کیا جاتا تھا اور کس طرح لوگ کھاتے تھے۔ دلی کے بچے کھچے قدیم گھرانوں میں شاہجہانی دیگ کی آخری کھرچن کے چند ذائقہ شناس ابھی باقی ہیں، چند دن جاتے ہیں کہ یہ بتانے والا بھی کوئی نہیں ہوگا کہ غنچہ کہاں تھا، گل کہاں تھا۔ نئی تانتی نے تو شاہی دسترخوان کے کھانوں کے نام تک نہیں سنے، وہ کیا بتائے گی کہ مزعفر اور متنجن میں کیا فرق ہے، دوغ اور دُلمہ کسے کہتے ہیں، باقر خانی اور شیرمال کا نام سنا، کھایا اور چکھا بھی، لیکن آج جو باقر خانی اور شیرمال کے نام پر روٹیاں ملتی ہیں، کیا ان کے وہی لوازمات ہیں، جو ایک صدی پہلے تھے۔بہرکیف، اکیسویں صدی میں پِزا اور برگر کھانے والوں کو اتنا تو بتا ہی دیا جائے کہ دہلی کے نانبائیوں اور رِکاب داروں نے کس قدر ہنر مندی کا ثبوت دیا۔ نئی نسل کو یہ بھی نہیں معلوم کہ رِکاب دار اور باورچی میں کیا فرق ہے۔ رکاب دار کھانے پکاتے تھے، لیکن چھوٹی چھوٹی دیگچیوں میں۔ یہی لوگ کھانے میں تجربے کرتے اور اپنے اپنے طور پر کھانے ایجاد کرتے۔ شاہی مطبخ کے علاوہ امراء اور رؤسا کے باورچی خانوں میں ان کے شوق اور ذوق کے مطابق کھانے پکاتے۔ باورچی بڑی بڑی دیگوں میں تقریبات کے لیے کھانے پکاتے تھے اور رکاب دار کے تجربوں سے فائدہ اٹھاتے۔ ان کے ساتھ ہی ان کے مددگار بھی ہوتے تھے جو دیگ شو کہلاتے تھے۔ ان کا کام استعمال شدہ دیگوں کی صفائی ستھرائی اور دیکھ بھال تھی۔ باورچی دیگ شو کو بتاتے تھے کہ کیسا اور کتنا کھانا پکے گا۔ وہ لوگ اس کے مطابق دیگیں منتخب کرکے صاف کرتے اور کھانا پکنے کے مقام تک پہنچاتے تھے۔ آج باورچی خود ہی دیگ دھوتے اور صاف کرتے ہیں۔ جن باورچیوں کے پاس کھانا پکانے کا کام زیادہ ہے، ان کے ہاں چند لڑکے ملازم ہیں، مگر انہیں کوئی دیگ شو نہیں کہتا۔ یہی لڑکے کھانے کے مطابق مصالحے کوٹتے اور پیستے ہیں۔ بڑے بڑے ریسٹورنٹ اور ہوٹلوں میں خانساماں یا باورچی (Chef) رکاب داروں کے متبادل ہیں۔ آج ہر طرح کے کھانے پکانے کا باقاعدہ کورس ہوتا ہے، لیکن پہلے دلی کے رکاب داروں کے پاس اپنے بزرگوں کے بتائے اور سکھائے ہوئے نسخے تھے، جو سینہ بہ سینہ چلے آتے تھے۔نانبائی تندور میں طرح طرح کی روٹیاں پکاتے تھے۔ ملک کی آزادی سے قبل فصیل بند شہر میں گنتی کے نانبائی تھے۔ ان میں سے چار چھ ہی سردی جاڑے میں علی الصبح نہاری بھی پکا لیتے۔ عام طور پر اکتوبر سے فروری تک ان کے یہاں نہاری پکتی تھی۔ نانبائیوں کی اپنی ایک برادری تھی، وہی لوگ یہ کام کرتے تھے۔ دکان کا مالک، نانبائی صاف ستھرے کپڑے پہنتا۔ تنور میں روٹیاں پکانے اور آٹا گوندھنے والے دوسرے لوگ ہوتے تھے۔ آج کی طرح گھر گھر تندوری روٹی نہیں جاتی تھی۔ غم و خوشی کے موقع پر جب دسترخوان وسیع ہوتا تو بازار سے تندوری یا خمیری روٹی آتی، ورنہ گھروں کی خواتین اور مامائیں چپاتیاں اور پرانٹھے پکایا کرتی تھیں۔گزشتہ چالیس پچاس برسوں میں دلی میں صنعت و حرفت اور تجارت کا جو فروغ ہوا تو روزگار کی تلاش میں دور دراز مقامات سے لوگ یہاں آکر بسنے لگے۔ مزدور اور کاریگر پیشہ افراد گھر بار چھوڑ کر یہاں تنہا آتے۔ چنانچہ ان کے خورد و نوش کے لیے چھوٹے بڑے ڈھابے اور ریسٹورنٹ ہر گلی کوچے میں نظر آنے لگے۔ پہلے عرفِ عام میں ہندوؤں کے مطبخ کو ’’ڈھابا‘‘ کہا جاتا تھا، جہاں صرف دال سبزی ہی پکائی جاتی تھی، آج معمولی درجے کا ریسٹورنٹ، جہاں ہر طرح کا کھانا ملتا ہے، ڈھابہ کہلاتا ہے اور اب دلی میں رہنے والے ان چھوٹے ریسٹورنٹ کو، جہاں کھانے کے ساتھ تندور بھی ہوتا ہے، بھٹیار خانہ بھی کہنے لگے ہیں اور نانبائیوں کو بھٹیارا، جب کہ دلی والے بھٹیارا ان لوگوں کو کہتے تھے، جو سرائے میں مسافروں کے لیے کھانا پکاتے اور ان کا رہائش کا بندوبست کرتے تھے۔ اس کام کے لیے بعض سراؤں میں عورتیں مامور ہوتی تھیں، جو بھٹیاری یا بھٹیارن کہلاتی تھیں۔ داستانوں اور قصوں میں بڑے دلچسپ انداز میں بھٹیارنوں کا ذکر ملتا ہے۔بیسویں صدی میں جب انگریزوں اور دوسرے لوگوں نے رہائشی ہوٹلوں کا کاروبار شروع کیا، نئی دلی کی تعمیر ہونے لگی تو رفتہ رفتہ سرائیں کم ہونے لگیں اور ان کے بھٹیاروں نے دوسرے پیشے اختیار کیے۔ جن کے پاس کچھ اثاثہ تھا، کھانے پینے کی دکانیں کھول لیں، کچھ نانبائی بن گئے، کچھ نہاری روٹی بیچنے لگے اور کچھ سبزی فروش ہوگئے۔ جو ہنر مند تھے، وہ ریسٹورنٹ اور رہائشی ہوٹلوں کے میس میں ملازم ہوگئے اور کوئی صاحب بہادر کا خانساماں بن گیا۔ 1857 کے ہنگامے میں شاہی رکاب دار قلعہ معلی چھوڑ ریاستوں اور رجواڑوں میں قسمت کا لکھا پورا کرنے لگے اور جب ملک کی آزادی کے بعد ریاستوں اور رجواڑوں کی ’’آزادانہ حیثیت‘‘ ختم ہوئی، تو ان رکاب داروں کا بھی زوال ہوا اور اب یہی رکاب دار باورچی بن گئے۔دلی میں چند سال پہلے تک ایسے باورچی موجود تھے، جن کے بزرگ قلعہ معلی میں شاہی رکاب دار تھے اور اب ان کی اولادیں دورِ جمہوریت میں دلی کے گلی کوچوں میں ’’عوامی خدمت‘‘ پر مامور تھیں۔ خیال رہے، دلی میں امراء اور رؤسا کے مردانے دسترخوان پر رکاب دار کھانے بھی پیش کرتے اور دسترخوان سجاتے تھے، جب کہ لال قلعہ میں رکاب دار صرف کھانا پکاتے تھے اور دسترخوان کو سجانے یا کھانے پیش کرنے کے لیے خواتین مامور تھیں، جو خاصے والیاں کہلاتی تھیں۔ ان کی نگراں عورت ’خاصے کی داروغہ‘ ہوتی تھی۔ وہ اپنے سامنے دسترخوان پر علاحدہ علاحدہ کھانے چنواتے اور بادشاہ کے حضور میں ان کا خاص خانہ پیش کرتی تھی، جو ایک خوان میں مہربند ہوتا تھا اور خاصے کی داروغہ بادشاہ سلامت کے سامنے اس خوان کی مہر توڑتی تھی اور یہ حفظ ما تقدم کے طور پر ہوتا تھا کہ کہیں کوئی بدخواہ اشیائے خورد و نوش میں زہر یا کوئی دوسری ضرر رساں شے نہ ملا دے۔ قلعہ معلی میں دسترخوان کا خاص اہتمام ہوتا تھا۔ منشی فیض الدین دہلوی کے مطابق، خاصے والیاں پہلے ایک سات گز لمبا تین گز چکلا چمڑا بچھایا، اوپر سفید دسترخوان بچھایا، بیچوں بیچ میں دو گز لمبی، ڈیڑھ گز چکلی چوکی لگائی جاتی اور اس پر کھانے چنے جاتے۔ دلی میں چالیس پچاس سال پہلے تک بڑے گھروں میں اسی طرح چوکیوں پر کھانا کھایا جاتا۔ چھوٹے گھروں میں دالان یا کمرے میں چوکیاں نہیں ہوتیں، چمڑے اور کپڑے کے دسترخوان بچھا کر کھانا کھاتے۔ غیر مسلموں میں دسترخوان کا رواج نہیں تھا، الگ الگ تھالیوں اور کٹوریوں میں کھانا کھاتے تھے۔ بعد ازاں جب ڈائننگ ٹیبل گھروں کی زینت بنی تو اس پر کھانا کھایا جانے لگا۔یہاں یہ وضاحت بھی کردی جائے کہ شمالی ہندوستان میں ایک عرصے تک ماہر باورچی ہی کو رکاب دار نہیں کہتے تھے، بلکہ اچار و مربے بنانے والے بھی رکاب دار کہلاتے تھے، کیوں کہ اس میں بھی مصالحوں کی آمیزش، پکانے اور گلانے کا عمل تھا۔
بشکریہ فیس بک