دفاعی تعاون کی پرکشش چینی پیشکش اور ہمارا فرض

عوامی جمہوریہ چین کے صدر ہوجن تائو نے کہا ہے کہ پاکستان قومی سلامتی کے ایشوز پر جامع اور دیرپا حکمت عملی بنائے تو چین پاکستان کی بھرپور مدد کریگا۔ چین کے صدر نے یہ پیشکش وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے عظیم عوامی ہال میں ملاقات کے دوران کہی۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ صدر نے واضح طور پر یہ پیشکش کی ہے جبکہ سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر اور وفاقی سیکرٹری اطلاعات نے صحافیوں کو بتایا کہ دونوں ممالک نے دفاعی شعبوں میں تعاون بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
عوامی جمہوریہ چین پاکستان کا قابل اعتماد‘ آزمودہ اور مخلص دوست ہے‘ خطے میں دونوں کے مفادات بھی مشترکہ ہیں اور اتفاق سے دونوں کا مقابلہ بھی ایک ہی دشمن اور اس کے سرپرستوں سے ہے‘ اس لئے دونوں کو اپنے دفاع و سلامتی کیلئے مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہمیشہ محسوس ہوتی ہے اور چین نے اس ضمن میں نہ صرف اپنی سلامتی اور دفاع کیلئے اقدامات کئے ہیں بلکہ پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے میں پس و پیش سے کام نہیں لیا لیکن یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان کے مختلف حکمران دو کشتیوں کے سوار رہے ہیں‘ وہ پاک چین دوستی اور تعلق کو آگے بڑھانے کیلئے تو عوامی احساسات و جذبات اور وسیع تر قومی مفادات کی پاسداری کرتے ہیں مگر اپنے اقتدار کی طوالت اور جیبیں بھرنے کیلئے امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں جو پاکستان کو ہر بار اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتا ہے اور پھر مقروض معیشت اور حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ یہ کھیل پچاس کے عشرے سے جاری ہے اور ابھی تک ہمارے حکمران طبقے‘ سول و فوجی قیادت کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ امریکہ جیسے طوطا چشم‘ مفاد پرست اور بھارت و اسرائیل نواز ملک پر دفاعی و اقتصادی انحصار نے ہمیں اپنے قابل اعتماد دوستوں کے تعاون سے تعمیر و ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہونے سے روک رکھا ہے اور آزاد و خودمختار ریاست کے طور پر سلامتی کے ایشوز پر ایسی جامع حکمت عملی کی تشکیل میں مزاحم ہے جو نہ صرف ہماری سلامتی اور دفاع کیلئے ضروری ہے بلکہ آزاد خارجہ پالیسی اپنانے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی عظیم غلطی اور رات کے کسی کمزور لمحے میں سات شرائط مان لینے کی وجہ سے امریکہ افغانستان میں آکر بیٹھ گیا ہے اور اب پاکستان میں پنجے گاڑنے کیلئے سازش‘ دبائو اور دھمکی کا ہر حربہ استعمال کرر ہا ہے۔ امریکہ کی دیکھا دیکھی بھارت اور اسرائیل نے بھی دخل اندازی شروع کردی ہے اور وہ دونوں مل کر ’’را‘‘ اور ’’موساد‘‘ کے ذریعے نہ صرف ہمارے حساس مقامات‘ قومی مفادات اور ریاستی اداروں اور ان کے اراکین کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ بھارت نے حالیہ دنوں میں اپنی دفاعی صلاحیت بڑھائی ہے۔ بحری بیڑے میں ایٹمی آبدوزیں شامل کی ہیں‘ مشرقی سرحد پر فوجی دستوں‘ ہتھیاروں اور سرگرمیوں میں اضافہ کیا ہے اور بار بار سرجیکل سٹرائیکس کی دھمکیاں دے کر اپنے عزائم کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ بھارت کی پشت پر ہے اور دونوں مل کر پاکستان کے ساتھ چین کا گھیرا بھی تنگ کرنا چاہتے ہیں اس لئے ایسی جامع حکمت عملی کی تشکیل دونوں ممالک کی ضرورت ہے جس سے یہ دونوں دوست ممالک نہ صرف اپنی سلامتی کا تحفظ کر سکیں بلکہ خطے میں اپنے مفادات کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوں۔
پاکستان نے امریکہ و مغرب پر انحصار کی وجہ سے بہت نقصان اٹھایا ہے‘ یہ ایک مقروض ریاست ہے جسے ناکام ریاست میں بدلنے کیلئے امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل پر مشتمل شیطانی اتحاد ثلاثہ ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے۔ امریکہ بھارت کو نہ صرف اسلحہ فراہم کر رہا ہے بلکہ اس نے سول نیوکلیئر تعاون فراہم کرکے بھارت کو جوہری کلب کا رکن بنا دیا ہے۔ وہ بھارت کو چین کے مقابلے میں اقتصادی اور فوجی طاقت بنانے کیلئے کوشاں ہیں‘ اس لئے دونوں دوست ممالک کی طرف سے ایسی دفاعی و اقتصادی حکمت عملی کی تشکیل ازبس ضروری ہے جس سے خطے میں طویل عرصہ تک قیام کی امریکی حکمت عملی کو بھی ناکام بنایا جا سکے اور بھارت کے بالادستی پر مبنی عزائم کا مقابلہ کرنا بھی ممکن ہو۔ چین اگرچہ امریکہ اور بھارت دونوں کا ہدف ہے لیکن وہ مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہے‘ اگرچہ اس مقصد کیلئے اسے پاکستان کا تعاون درکار ہے لیکن ہماری سلامتی اور اقتدار اعلیٰ کو درپیش خطرات زیادہ شدید اور سنگین ہیں اس لئے ہمیں چینی پیشکش فوراً قبول کرکے قدم آگے بڑھانا چاہئے۔ چین نے میزائل پروگرام کے علاوہ فضائیہ کو تھنڈر ایف17 سولہ طیاروں سے لیس کرنے اور دیگر دفاعی شعبوں میں تعاون کرنے کی عمدہ مثال قائم کی ہے لیکن جب تک ہم اسے یہ احساس نہیں دلائیں گے کہ ہم نے امریکہ پر انحصار ختم یا کم کر دیا ہے اور اب ہم جامع حکمت عملی ترتیب دے کر اسکے ساتھ چلنا چاہتے ہیں‘ ایک محتاط ریاست کے طور پر چین کوئی معاہدہ نہیں کریگا‘ ہم چین سے صنعت و زراعت‘ توانائی اور دیگر شعبوں میں بھی تعاون حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن سب سے اہم ضرورت دفاع اور سلامتی کے حوالے سے چین کے تعاون کی ہے‘ چینی صدر ہوجن تائو نے جامع اور دیرپا حکمت عملی وضع کرنے کی جو فرمائش کی ہے‘ اسے پورا کرکے ہم موقع سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ ورنہ بھارت امریکہ کی سرپرستی میں ہمیں عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے آگے بڑھتا رہے گا۔ اس نے جہاد کشمیر کیخلاف دہشت گردی کا پروپیگنڈہ کرکے پاکستان کو اس حد تک پیچھے دھکیل دیا ہے کہ کیری لوگر بل میں عملاً پاکستان کو ایک دہشت گرد ریاست کے طور پر پیش کیا گیا ہے جبکہ موقع ملنے پر امریکہ ہمارے ساتھ وہی سلوک کریگا جو ساٹھ اور 80 اور 90 کے عشرے میں کر چکا ہے۔ وزیراعظم گیلانی دورہ چین ختم کرنے سے قبل ہی کوئی پائیدار معاہدہ کرکے قوم کو خوشخبری سنائیں۔
ملازمین کو مستقل کرنیکا احسن فیصلہ
وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف نے پنجاب میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد گریڈ ایک سے پندرہ تک کے کنٹریکٹ ملازمین مستقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان میں 34 ہزار ایجوکیٹرز بھی شامل ہیں۔ وزیراعلیٰ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان غیر مستقل ملازمین کے بارے میں بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ میرٹ پر بھرتی نہیں ہوئے مگر ماضی میں بھرتی ان افراد کو فارغ کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا اور انہیں بھی مستقل کر دیا گیا توقع ہے وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں بہتر طور پر ادا کرینگے۔ پنجاب ہی نہیں‘ ملک بھر میں کنٹریکٹ یا ڈیلی ویجز پر کام کرنیوالے سرکاری ملازمین جس عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں‘ وہ انکی کارکردگی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اور انہیں بدعنوانی کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ مزدور خوشدل کند کار بیش کے مصداق سرکاری ملازمین کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے انہیں ملازمت کا تحفظ اور دیگر مستقل ملازمین کی طرح مراعات کی فراہمی ازبس ضروری ہے جس کا اہتمام وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کیا ہے۔ نونہالان قوم کو وطن کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل بنانے میں اساتذہ کا اہم کردار ہے۔ جب انکو خود اپنی نوکری اور روزگار کے لالے پڑے رہینگے تو وہ درس و تدریس کا فریضہ یکسوئی اور لگن سے ادا کرنے سے قاصر رہینگے۔ کنٹریکٹ ملازمین اور اساتذہ کے سر پر وقت بے روزگاری کی تلوار لٹکتی رہتی تھی۔ اب انکی اس اذیت سے جان چھوٹ گئی ہے۔ انکا مستقبل محفوظ ہو گیا۔ اب وہ پنشن اور دیگر فنڈز سمیت ہر اس سہولت کے حقدار ہو گئے ہیں جو پکے ملازمین کو حاصل ہیں۔ حکومت نے ملازمین کو ریگولر کرکے اپنا فرض ادا کردیا‘ اب انکی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری دیانتداری‘ یکسوئی اور لگن سے ادا کریں۔ بتایا گیا ہے کہ حکومت پنجاب نے ایسے اساتذہ کو بھی ریگولر کیا ہے جو میرٹ پر بھرتی نہیں ہوئے تھے۔ حکومت کا یہ اقدام نیک نیتی پر مبنی ہے تاہم اس کیٹیگری میں آنیوالے اساتذہ کو محنت کرکے خود کو اہل ثابت کرنا ہو گا۔ ڈیڑھ لاکھ سے زائد ملازمین کو ریگولر کرنا وزیراعلیٰ شہباز شریف کا مستحسن فیصلہ ہے۔ اساتذہ سمیت دیگر اداروں کے ملازمین کو گذشتہ دور میں فارغ کیا گیا تھا۔ وزیراعلیٰ انسانی ہمدردی کی بنا پر انکے معاملات پر بھی توجہ دیں اور اب بھی کئی شعبوں میں ملازمین کنٹریکٹ پر ہیں انکے سر سے بھی بیروزگاری کے خطرے کی تلوار ہٹا دیں تاکہ یہ لوگ بھی فکر معاش سے خلاصی پا کر پوری توجہ سے اپنے فرائض ادا کریں۔
کیری لوگر بل کی شرائط پر وزیر خزانہ کے اعتراضات
وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ کیری لوگر بل میں موجود کئی شرائط پر انہیں اعتراض ہے‘ ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بل میں ایک شق ایسی بھی موجود ہے جس کے تحت تسلیم کرنا ہو گا کہ پاکستان دہشت گرد ریاست ہے جبکہ انہیں اس بل کے تحت پاکستان میں امریکی انسپکٹر جنرل کی تعیناتی پر بھی اعتراض ہے۔ ان کے بقول ہمیں ایک باشعور قوم کی طرح کیری لوگر بل کی قابل قبول اور ناقابل قبول شرائط پر غور کرنا چاہئے۔
کیری لوگر بل میں موجود شرائط کے حوالے سے وزیر خزانہ شوکت ترین کے موقف کو اس لئے بھی سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے کہ اس بل کی بنیاد پر پاکستان کو ملنے والی امداد وفاقی وزارت خزانہ کے ذریعے ہی استعمال ہونی ہے اس لئے وزیر خزانہ کو یہ بہتر علم ہے کہ اس امداد کی مانیٹرنگ کیلئے پاکستان میں امریکی انسپکٹر جنرل کی تعنیاتی کے کیا مضمرات ہو سکتے ہیں جبکہ اس امداد کے عوض اگر ہم خود کو دہشت گرد ریاست تسلیم کرلیں تو پھر ہمارے دشمن بھارت کی جہاد کشمیر پر دہشت گردی کا لیبل لگوانے کی دیرینہ خواہش بھی پوری ہو جائیگی اور ہماری سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کے علاوہ زمینی فوجی کارروائی کا جواز بھی نکل آئیگا۔ یہ صورتحال قومی غیرت ہی نہیں‘ قومی سلامتی کے تقاضوں کے بھی منافی ہے اس لئے اگر کیری لوگر بل کے تحت وصول ہونے والی امریکی امداد کو بروئے کار لانے والی وزارت کے نگران وزیر ہی اس بل کی شرائط پر معترض ہیں تو حکمران پیپلز پارٹی کے عہدیدداران اور خود وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اس بل کی امریکی ایوان نمائندگان سے منظوری کو کس بنیاد پر پاکستان کی کامیابی قرار دے رہے ہیں جبکہ کیری لوگر بل کی شرائط پر پوری قوم مضطرب ہے اس بل پر اٹھنے والے اعتراضات پر وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے بعض وزراء کی جانب سے بیانات دیئے گئے کہ کیری لوگر بل کا مطالعہ کئے بغیر اس پر اعتراضات کئے جا رہے ہیں‘ جبکہ اب وفاقی حکومت کے ایک اہم اور ذمہ دار رکن کی جانب سے ہمارے ملکی و قومی مفادات کے حوالے سے کیری لوگر بل کی قابل اعتراض شقوں کی نشاندہی کی گئی ہے اس لئے قومی مفادات کا یہی تقاضہ ہے کہ متذکرہ بل میں موجود شرائط کے تحت امریکی امداد ہرگز قبول نہ کی جائے اور ان شراط کے حوالے سے اوبامہ انتظامیہ کو قومی جذبات سے آگاہ کرکے یہ شرائط واپس لینے پر مجبور کیا جائے۔ سینٹر کیری نے کہا ہے کہ بل تبدیل نہیں ہو سکتا‘ شرائط بھی وہی رہیں گی البتہ متنازعہ الفاظ تبدیل کئے جا سکتے ہیں‘ اس صورت میں ملک و قوم کو امریکی غلامی کے شکنجے میں جکڑنے والی شرائط کی بنیاد پر کوئی امریکی امداد قوم کو بہرصورت قبول نہیں ہو سکتی۔
بلدیاتی اداروں کا مستقبل
ناظمین کی آئینی مدت پوری ہونے میں اب صرف ایک دن کا فاصلہ باقی رہ گیا ہے مگر حکومت کی جانب سے اب تک کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آسکی کہ لوکل باڈیز کا موجودہ نظام برقرار رکھا جائیگا‘ پرانا نظام بحال کیا جائیگا یا کوئی نیا نظام لایا جائیگا جبکہ ناظمین کی مدت پوری ہونے پر انکی جگہ ایڈمنسٹریٹرز کی تعیناتی کا معاملہ بھی ابھی تک فیصلہ طلب پڑا ہے اور اگر ایڈمنسٹریٹر تعینات نہیں ہوتے تو کیا ناظمین کی آئینی مدت میں توسیع کی جائیگی۔ اس بارے بھی اب تک ناظمین سمیت کسی بھی ذمہ دار ادارے کو کچھ علم نہیں۔ سوائے اسکے کہ اب تک حکومت کی جانب سے مشرف کے لائے گئے موجودہ بلدیاتی نظام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پرانے بلدیاتی اور مجسٹریٹی نظام کو بحال کرنے کا عندیہ ہی دیا جاتا رہا ہے اور اس پر بھی بالخصوص سندھ میں حکومتی اتحادیوں کے ایک دوسرے کیساتھ اختلافات کی بنیاد پر اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ حکومت کی اس گومگو کی پالیسی کی بنیاد پر جہاں ناظمین اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں وہاں ترقیاتی کام رکنے کے باعث لوگوں کی پریشانیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور بیورو کریسی میں بھی بے چینی کی فضا پیدا ہو چکی ہے کہ اس نے پرانے مجسٹریٹی نظام کے تحت کام کرنا ہے یا ناظمین کے موجودہ نظام میں ہی خود کو ایڈجسٹ کرنا ہے۔ اگر کسی نظام سے براہ راست عوام کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور انکے مسائل انکے گھروں کی دہلیز پر حل ہو رہے ہیں تو اس نظام کو محض اس لئے مسترد کرنا کوئی دانشمندی نہیں کہ یہ ایک فوجی آمر کا لایا ہوا نظام ہے اگر اس نظام میں کسی قسم کی قباحتیں موجود ہیں تو انہیں قانونی اور آئینی طریقے سے درست کیا جا سکتا ہے مگر موجودہ بلدیاتی نظام کے بارے میں حکومتی گومگو کی پالیسی نے اس نظام کے وابستگان میں ہی نہیں‘ عوام میں بھی مایوسی کی فضا پیدا کر رکھی ہے‘ اس لئے حکومت بلدیاتی نظام کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی اختیار کرے اور عوامی فلاح و بہبود کے ضامن ان اداروں کو اختلاف برائے اختلاف والی سیاست کی نذر نہیں ہونے دینا چاہئے۔


یہ خبر نواے وقت کے پرنٹ پیپر میں شائع کی گئی ہے ا
 
Top