دریا کی کہانی

F@rzana

محفلین
کہنے والے کتھا کرتے ہیں کہ دور ہمالیہ کے پہاڑوں میں ’کن پھٹے‘ جوگیوں (جوگیوں میں ریاضت یا تپسیا کی بڑی منزل) نے ایک بہت بڑا سانپ پکڑا جو انکے ہاتھوں سے کھسک کر بھاگ نکلا۔
سانپ جہاں جہاں سے بھی بھاگتا گیا وہاں وہاں سے یہی سندھو دریا بہہ نکلا۔ آخر کار وہ سانپ جا کر ’سندھی سمندر‘ میں گم ہوگیا۔
سندھی سمندر، جسے اب عربی سمندر کہا جاتا ھے۔
دریائے سندھ کے کناروں عظیم و قدیم وید لکھے گئے جن میں اسی دریا کو ’سپت سندھو‘ بھی کہا گیا۔
شب برات کی رات جب پورا شہر ایک دیوالی کا سماں باندھ دیتا تب میں اور میرا دوست ذوالفقار شاہ گدو بندر کے دوسرے کنارے بہت سے لوگوں کیساتھ جاکر گندھے ہوئے آٹے کی گولیوں میں کاغذ کے چھوٹے سے پرزے پر اپنے اور اپنی ماں کے نام کیساتھ ’دریا شاہ‘ کو ’عریضی‘ بھیجا کرتے۔ میں اگر چہ ٹہرا ایک دہریہ لیکن اپنے دوست کے ساتھ ’من کی مراد‘ پوری کرنے کیلیے ’دریا شاہ‘ میں عریضی ضرور پھینکتا۔

وہ دن تھے جب ھم ہندی فلمی گیتوں کو بدل کر گاتے ’سندھو میا میں جب تک یہ پانی رہے، میرے سجناں تیری زندگانی رہے‘ یا مکیش کا وہ گیت ’ہم اس دیش کے باسی ہیں جس دیش میں سندھو بہتی ھے‘۔ اسی جگہ پو پھٹی میں ھم دیکھتے کہ کہیں کہیں آج بھی سندھو کے کنارے دنیا وما فیہا سے بےخبر ’جر پوجارے‘ یا ’جل پوجاری‘ اپنی تپسیا میں محو ہوتے۔ وہ دریا شاہ کی پوجا کرتے۔

اسی جگہ پو پھٹی میں ھم دیکھتے کہ کہیں کہیں آج بھی سندھو کے کنارے دنیا وما فیہا سے بےخبر ’جر پوجارے‘ یا ’جل پوجاری‘ اپنی تپسیا میں محو ہوتے۔ وہ دریا شاہ کی پوجا کرتے۔

اصل میں دریائے سندھ کے کناروں بسنے والے لوگ سبھی اندر سے ’جل پوجاری‘ یا پانی کی پرستش کرنے والے ہی نکلیں گے۔۔۔۔ اور نکلیں بھی کیوں نہ!
جل پوجاری، دھول دھیے، مہانے (مچھیرے) ، ماچھی، ملاح، میر بحر، کیل، جت، بلوچ ترکان، اور نہ جانے کس کس قبیل اور قماش کے لوگوں کا دانہ پانی دریا سے لکھا ھے۔

ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ اسماعیل خان اور کالا باغ سے بھی آگے ’دھول دھیے‘ سندھو کی ریت میں سونے کے ذرات تلاش کرنے کی کیمیاگری کرتے۔ سیوھن اور ٹھٹہ تک پنجابی کشتی ساز مشہور ہیں اور انکی کشتی کو کہتے ہی ’پنجابی کشتی‘ ہیں۔

ملاح جب سندھو میں اپنی نئی یا پہلی کشتی اتارتے ہیں تو اسے دلہن کی طرح سجاتے، منگنہار شہنائیاں بجاتے، ملاح مرد، عورتیں اور بچے ’جھومر‘ رقص کرتے۔ میٹھی روٹیاں پکا کر دریا شاہ کی نظر کرتے۔
’ادا مہانا بیڑی وارا لال تے تھی ونجاں‘ (بھائی مچھیرے کشتی والے میں لال پر ھوں چلی)۔ لال سے مراد قلندر شھباز ھے۔

مہانے دریا اور زبان کے بادشاہ ہوتے ہیں۔ ’کہاں گئی تھی کیا کروانے؟‘ میں نے جامشورو میں ایک مہانے مرد کو اپنی بیوی سے پوچھتے سنا۔ مہانی خاتون نے کہا ’ٹھیکیدار کے پاس گئی تھی کام کے پیسے لینے؟‘ ’پھر دیئے اس نے؟‘ مرد نے پوچھا۔ ’تیرے والا ٹکا کے دیا نہ!‘ عورت نے کہا۔

سندھو دریا میں کل تک کشتیوں پر گاؤں ہوا کرتے تھے اور کہیں کہیں (سکھر سمیت) اب بھی ہیں۔ ان میں ایسے بھی ملاح مرد اور عورتیں ہیں جنھوں نے بس خشکی تب ہی دیکھی جب کسی کو قبرستان میں دفن کرنے یا خود دفن ھونے کے لیے گئے۔ وہ پیدا ہی کشتی پر ہوتے ہیں، چند سالوں میں دریا میں تیرنا سیکھ جاتے ہیں اور کچھ بڑے ہوکر مچھلیاں پکڑنے اور جال یا رچھ ڈالنے کے بھی قابل ہوجاتے ھیں۔ ’ھماری کھیتی باڑی بھی دریا اور مچھلی ھے‘ مجھ سے ایک مچھیرے نے کہا تھا۔

ان میں ایسے بھی ملاح مرد اور عورتیں ہیں جنھوں نے بس خشکی تب ہی دیکھی جب کسی کو قبرستان میں دفن کرنے یا خود دفن ھونے کے لیے گئے۔

سندھو دریا جب ہزاروں میل طے کرکے سندھ میں داخل ہوتا ھے تو اسکی لہریں اپنے ساتھ وہ مٹی کی زرخیز لٹ بھی لاتی ھے جس سے اسکے دونوں کناروں کچے کا علاقہ آباد ہوتا ہے۔ سندھ کا کچہ ایک عجیب ملک تھا، اب جہاں ڈاکو ہیں، وڈیرے ہیں اور جنگلی سؤر ہیں۔ سندھ میں ڈاکوؤں نے مچھیروں کے عذابوں میں بھی اضافہ کیا۔ انکی لڑکیاں اور لڑکے اٹھاکر لے جاتے۔ پولیس اور وڈیرے مچھیروں کی عورتوں پر ایسا ظلم کرتے جسیا پھولن دیوی پر بننے والی فلم ’بینڈیٹ کوئین‘ میں ہے۔ اگرچہ کچھ میر بحر بھی جاکر ڈاکو بنے۔ گر میربحروں کے قبیلے سے سندھ کے وزیر اعلٰی ، سی ایس ایس افسر، اساتذہ، سیاسی اور سماجی کارکن بھی بنے ہیں۔ ان میں مقابلے کے امتحان میں پوزیشن لینے والا اب لاڑکانہ کا ڈی پی اور سائیں رکھیو میرانی بھی ہے تو آفتاب شعبان میرانی بھی۔

اگر یہ بات زیادہ اسٹیریو ٹائيپ نہں ھے تو مہنی کے چلنے کا انداز ممبئی فیشن شو کی، بقول ھمارے ایک دوست کے ، کیٹ واک کو بھی شرما جائے۔

اب تو سندھو میں اتنی مچھلی بھی اسکے جال میں نہں آتی جو شام کو وہ اپنے بچوں کیلیے آٹا اور اپنے لیے چرس لیکر گھر کو لوٹے۔ میرے ایک اور دوست نے ایسے مہانے کو ’کھل نائیک‘ کا نام دیا مگر سب سے بڑے کھل نائیک تو وہ رینجرز والے ہیں جنکو حال ہی میں سندھ میں دریا پر مچھلی کے ٹھیکے دیئے گئے۔ اس سے پہلے ایسے ٹھیکے زرداریوں کو دیئے گئے‌ تھے۔

سندھو کے کناروں پر زندگی کبھی ایسی تھی اور ہے جیسے امریکی جنوب میں مسسی سپی پر۔ میں ایک دفعہ مسی سپی کو دیکھ کر سندھو کی پانیوں کو یاد کرکے رو دیا تھا:
’شاہ جو دریا تھا قید ہے کیا گیا اور اسی کی موج موج فوج نے فنا ھے کی‘،
میں نے اس دن اپنی ایک نظم میں لکھا تھا۔ اسی دریا کو ’دادلا‘ یعنی لاڈلا بھی کہا گیا لیکن جب سے اس نے سوہنی ڈبوئی شاہ لطیف بھٹائی نے اسے ’دھشتگرد‘ بھی کہا۔ شاہ لطیف نے اپنے سُر سوھنی میں ایک شعر میں کہا

’دریا ! میں قیامت کے دن تجھ پر فریاد کروں گا کہ کسطرح تونے میرا بازو (سوھنی ) ڈبو دیا‘۔ سندھی عورت کو بازو کہتے ہیں اور بہت سے اسکو ’ کاری‘ بھی کرتے ہیں!

لیکن سندھو اور سندھیوں سے بھی زیادہ جو چیز مظلوم ہے وہ سندھو میں ’ڈولفن‘ مچھلی ہے۔ اب نہیں معلوم کہ پورے سندھو میں اب کتنی ڈولفن جاکر بچی ہے لیکن چند سال قبل تک اسکی تعداد شاید پچاس بھی نہیں ہوگي۔ جامشورو سے کشمور تک انڈس ڈولفن اندھی ڈولفن یا عام طور پر ’بلھن‘ کہلانے والی مچھلی سے لوگوں نے دشمنی، دوستی اور اسکینڈلز وابستہ کیے ہو‌ئے ہیں۔ مظہر زیدی اور فرجاد نبی کو یاد ہوگا کہ ہم نے کیسے ٹھٹہ ضلعے کے بنوں میں دریائے سندھ میں کشتی کھیتے بڑی عمر کی مچھیروں سے انکی جوانی میں ڈولفن پر ’جنسی مہم جوئی‘ کے قصے سنے تھے۔ لوگوں میں ایک متھ یہ بنی ہوئی ہے کہ ’بلھن‘ کے جسم کے نچلے حصے سے اپنی کسی جنسی پارٹنر کی طرح سیکس کر سکتے ہیں۔ ’بلہن کو مارتے ھیں کیونکہ وہ ایک نجس مخلوق ھے‘ ایک مولوی ٹائیپ ملاح نے کہا۔

ڈولفن کے ساتھ اب تو اچھی خاصی تعداد میں سندھ کی پلا مچھلی بھی کمیاب ہوتی جارہی ہے۔ سندھو ندی کے میٹھے پانی میں پیدا ہونیوالی یہ پلہ مچھلی اب بیراجوں ، مشینریوں اور پلاسٹک کی جال سے مرنے لگی ہے۔ اسی پلے کیلیے کہتے تھے کہ یہ کوٹری اپ سٹریم سے ڈاؤن سٹریم کی طرف سکھر تک اپنا سفر طے کرکے بزرگ ’صدر الدین شاہ بادشاہ‘ کی درگاہ کی سلامی بھرنے آتی ہے۔

اب وہ سندھو کی لہروں کے تھپیڑے کھاتا ھوا ’فتح مبارک‘ نامی جہاز کا ڈھانچہ بھی کوٹری کے پاس ریت میں ریت بنا جس پر چڑھ کر چارلس نیپیئر نے سندھ فتح کرنے کا گناہ کیا تھا۔ اسکے جہاز کو اسی سندھ کی فتح سے منسوب ’فتح مبارک‘ کا نام دیا گیا۔ چارلس نیپیئر نے ملکہ برطانیہ کو سندھ فتح کرنے کا جو پیغام بھیجا تھا، اس میں اس نے اطالوی زبان میں یہ ذو معنی جملہ لکھا تھا جسکا مؤرخ کہتے ہیں ترجمہ کچھ یوں تھا :
’آئی ھیو سِنڈ‘ (’میں نےگناہ کیا ھے یا سندھ میرے قبضے میں ہے۔

سندھ فتح کرنا انگریز حکمرانوں کی فرسٹریشن تھی۔ انیسویں صدی میں جب افغانستان میں جنگجو پٹھانوں کے ھاتھوں انکی فوجوں کے کشتوں کے پشتے لگنے لگے تو انھوں نے اپنی جھینپ اور تشفی کے لیے سندھ فتح کرنے کی ٹھانی۔ اس سندھ کے تاریخی گنہگار (چارلس نیپیئر) نے جو سب سے اچھا کام کیا وہ سندھ میں عورتوں کو’ کاری‘ قرار دیکر قتل کرنے کے خلاف سخت سزاؤں کا اعلان تھا۔ سندھیوں نے کہا چارلس نیپئیر کے آنے سے بہت سوں کے ازار بند سے تلوار کا خوف ختم ھوا مگر اب یہ چارلس نیپير دیسی یا ولایتی کی دیسی اولادیں ہیں جو ہر روز وشب سندھ فتح کرنے کا گناہ کرتے ہیں۔ کل میں نے ایک سندھی اخبار میں کسی بزرگ کالم نگار کا نقل کیا ھوا شعر پڑھ رھا تھا:

’ڈیم بنانے والے مجھ کو اتنا تو بتا،ڈھاکہ میں ھم کتنے پانی ہار گئے‘۔

سندھو ندی میں پانی کے شدید قلت اور ڈاؤن اسٹریم میں میٹھے پانی کی مطلوبہ مقدار نہ چھوڑے جانے کی وجہ سے زمینوں اور دریا کی طرف سمندر آنے لگا ھے۔ ہزاروں مچھیرے اور کاشتکار ملک کے دوسرے حصوں میں نقل مکانی کرکے گئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے مچھیرے تو ایران افغانستان کے سرحدوں پر تافتان کی جھیلوں تک بھی چلے گئے ہیں۔ کوٹری سے یہانتک کہ کیٹی بندر میں اب مچھیرے مچھلی پکڑنے کے بجائے سانپ پکڑ کر گزارہ کرنے لگے ہیں۔ کیٹی بندر، جسکی یونین کاؤنسل کبھی اتنی امیر تھی کہ اس نے کراچي میونسپلٹی کو اپنا خسارہ پورا کرنے کیلیے قرضہ دیا تھا۔

کوٹری سے یہانتک کہ کیٹی بندر میں اب مچھیرے مچھلی پکڑنے کے بجائے سانپ پکڑ کر گزارہ کرنے لگے ہیں۔ کیٹی بندر، جسکی یونین کاؤنسل کبھی اتنی امیر تھی کہ اس نے کراچي میونسپلٹی کو اپنا خسارہ پورا کرنے کیلیے قرضہ دیا تھا۔

کیا آپ نے کیٹی بندر پر شام میں اترتی کونجوں اور سورج ڈھلنے کا نظارہ کیا ہے؟
یہاں سے تھوڑی دور سندھو دریا کا ملن سمندر سے ہوتا ہے۔ کھارو چھان پر یہ بنارس کی صبحوں اور اودھ کی شاموں کو بھی شرمادیں۔ یہیں پر ایک شام میں نے کہا تھا:

’روپہلی شام سندھو پر اترے اسطرح جیسے وحی اترے محمد پر‘۔

کوٹری سے کھارو چھان تک مچھلی کی تقریبًا ایک سو میانیاں یا ھاربر بند ھوئے ہیں۔ بدین میں شیخانی گھاڑی اور دوسرے علاقوں میں مچھلی کے ٹھیکے حکومت نے رینجرز کو عطا کیے، سندھو کی ڈیلٹائی علاقوں میں وہ جنہیں ’نارے کا نواب‘ کہا جاتا تھا اور جو ساٹھ اور سو ایکڑ زمین کے مالک ہوا کرتے تھے، اب جلانے کی لکڑیاں بیچ کر گزارہ کرنے لگے ہیں۔ کہتے ھیں کہ سمندری پانی آنے کی وجہ سے بدین میں دودو سومرو اور اسکے ساتھیوں کے مزار اور اسکی تخت گاہ ’روپاہ ماڑی‘ بھی خطرے سے خالی نہیں۔ سندء میں علاؤالدین خلجی کے ساتھ جنگ کرکے مرجانے والے دودو سومرو کو وہ اھمیت ھے جو جنوبی ہندوستان میں ٹیپو سلطان کی ہے۔ دودو سومرو کی موت کے بعد صدیوں تک اسکے سوگ میں خانہ بدوش ریباری لوگ سیاہ پوش بنے۔ ریباری تھر اور راجھستان میں آج بھی ملتے ہیں اور ڈھٹ اور بھٹ فقیر دودو سومرو اور اسکے لشکر کی بہادری کے رزمیہ قصے گاتے ہیں۔

سندھو میں موت سے بھی سندھ کے بہت سے پڑھے لکھے لوگوں نے رومانس کیا ہے۔ بقول شخصے جو بھی سندھی دانشور یا شاعر گھر سے ناراض ہو وہ سندھو ندی میں خودکشی کرلیتا ھے۔یہ کہنا زیادہ مبالغہ خیز نہیں ہوگا کہ جامشورو پل کا ایکتالیسواں دروازہ یا المظر ہوٹل زندگی سے بغاوت کرنے والے اہل ھوش و خرد سندھیوں کی آتم ھتیا کا سٹیشن بن چکا ہے بالکل ایسے جیسے ہندی شاعر ودیا پتی کی منزل ہندوستنانی دریا ٹہرا تھا۔

انیس سو سڑسٹھ میں جامشورو سے بہت ہی بڑے سکالر اور سندھ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر علامہ آئي آئي قاضی نے خود کو سندھو کی لہروں کے حوالے کرکے خودکشی کی۔ نوجوان سندھی شاعر ماٹیہنو اوٹھو نے بھی اسی جگہ پر خود کشی کی۔ پھر پڑھے لکھے نوجون احمد علی ڈاھر نے یہی کیا اور چار آگست انیس سو اکانوے کو نوجوان شاعر اور خوبرو قوم پرست کارکن عرفان مہدی نے:

’دریا آج تکا کرتا ھے لہروں کو، کشتی کھینے والا لڑکا ڈوب گیا‘۔

جامشورو میں خودکشی یا خود کشی کرنے کی کوشش کرنیوالوں میں نوجوان لڑکوں اور خاص طور لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جو گمنام ہوتی ہیں۔

بشکریہ: بی بی سی
 

F@rzana

محفلین
دریائے سندھ سے میری وابستگی

مجھے اپنے بچپن کی یادیں اب دریائے سندھ کی حالت زار پر رلا دیتی ہیں، اس بارے میں سوچتے ہوئے میرا دل کٹ جاتا ہے۔ ۔ ۔

یہ دریا جہاں اب ریت اڑتی ہے،اپنی روانی میں یکتا تھا، کبھی شور مچاتی لہریں کسی ڈوبتے گھڑے کی یاد دلاتی تھیں تو کبھی پرسکوت دریا عشق کی لوک داستانوں میں روانی سے بہتا نظر آتا تھا۔ ۔ ۔ ۔

اب حیدر آباد جاتے ہوئے جب آپ دریا پار کرنے والے راستے کی جانب جا نکلیں تو دھول کے بگولے اڑتے دکھائی دیتے ہیں،

جب میں نے پہلی بار یہ اجڑا ہوا دریا دیکھا تھا تو میری آنکھیں نیر بہانے لگیں، میں واقعتا چیخ پڑی تھی کہ یہ کیا ہوا اور کیسے ہوا!

دریا کی کہانیاں اور دریا سے متعلق گیت، سندھ کی تہذیب اور دریا کنارے طلوع و غروب آفتاب کے دلکش و حسین مناظر، سب کے سب آنکھوں میں ایک فلم کی طرح چلنے لگے تھے۔

میں ان دنوں اسکول میں پڑھتی تھی، دریا کے پاس جب بھی گئی عجیب پراسراریت محسوس کی،مجھے ہمیشہ ایک ماورائی دنیا اپنی جانب کھینچ لیتی تھی جسے لفظوں کا روپ دینا مجھے آج بھی مشکل نظر آتا ہے۔ ۔ ۔ ۔

ہم ‘پلا مچھلی‘ کھانے خاص طور پر کراچی سے کوٹری جایا کرتے تھے اور برج کے کنارے اس دریا کے سحر میں ڈوبے رہتے۔ ۔ ۔

پلا مچھلی‘ سندھ کی خاص الخاص مچھلی ہے، اب بھی سندھی گھرانوں میں کسی مہمان کو بہت عزت افزائی دی جائے اور کھانے پینے کے لوازمات میں تکلفات شامل کرنے ہوں تو ‘ پلا مچھلی‘ پکائی جاتی ہے، اب یہ مچھلی بھی بہت کمیاب ہوگئی ہے اور اگر مل جائے تو خاصی مہنگی بھی ہوتی ہے۔

چار سال قبل جب ہم سندھ گئے تو ‘ ناشتے میں‘ پراٹھوں کے ساتھ خاص مصالحے میں تلی ہوئی ‘پلا‘ کھائی تھی، اس میں چھوٹے چھوٹے بہت سے کانٹے ہوتے ہیں مگر مچھلی کا ذائقہ بے انتہا لذیذ ہے۔

ساری دلکشی، پراسراریت، اور داستانیں ایسے اجڑ سکتی ہیں یقین نہیں آتا تھا۔ ۔ ۔میرے کانوں میں شاہ لطیف‘ کی کافیوں کی گونج سنائی دینے لگی۔ ۔ ۔ میں سچ مچ بہت اداس ہوگئی تھی اور مجھے یاد ہے کہ اس دن سفر میں پھر میں نے کسی سے بات نہیں کی، خاموشی ہی خاموشی تھی، اداسی ہی اداسی۔ ۔ ۔ ۔ !

سندھ پر رائے گھرانے کی حکومت تھی،جو بدھ مت کے پیروکار تھے،
‘الور‘ ان کا پایہ تخت تھا اور سلطنت کی سرحدیں مارواڑ، گجرات، کشمیر اور دریائے ‘ہلمند‘ تک پھیلی ہوئی تھیں، رائے گھرانے کے دور میں سندھ کی سرکاری زبان ‘پالی‘ تھی لیکن عوامی زبان ‘ اکرت‘ تھی،
رائے گھرانے کے آخری حکمران رائے سہاسی کے دور حکومت میں اس کے ایک چالاک وزیر چچ سین نے اسے قتل کرکے تخت پر قبضہ کر لیا تھا، چچ سین چونکہ پنڈت تھا اس لئے راجپوت قبیلوں نے اسے اپنا حاکم ماننے سے انکار کر دیا اور بہت سے قبیلوں نے بغاوتیں کر دیں،

چچ سین بہت چالاک برہمن تھا، اس نے لالچ، دولت اور طاقت سے راجپوتوں کی بغاوتوں پر قابو پایا ،کشمیر کے شمال اور دریائے ہلمند کی سرحدوں پر درخت لگا کر اپنی سرحدوں کو مضبوط کیا۔

چچ سین کے بیٹے ‘ڈاہر سین کے دور حکومت میں عربوں نے 712عیسوی میں سندھ فتح کیا تھا،

عرب اور سندھی ثقافت کے ملاپ سے ایک نئی ثقافت نے جنم لیا۔
عرب عالموں نے کلام پاک کا سندھی زبان میں ترجمہ کیا اور بہت سے سندھی علماء نے علم حدیث اور علم تفسیر میں کمال حاصل کیا۔

( شاہ لطیف اور سندھی شاعری پر جلد ہی کچھ لکھوں گی اس وقت میں پھر سے اداس ہوگئی ہوں۔)
نیناں
۔
 

شمشاد

لائبریرین
فرزانہ جی یہاں سعودی عرب میں اردو ادب مفقود ہے اور پاکستان سے منگوانا بہت مشکل ہے جن کا آپ اندازہ بھی نہیں کر سکتیں۔

آپ کے تحریریں خاصی حد تک میرے نشے کا مداوہ کر دیتی ہیں۔

اللہ کرئے زورِ قلم اور زیادہ۔
 

F@rzana

محفلین
شکریہ شمشاد بھائی، آپ بے انتہا ادب پرور و بازوق شخصیت ہیں،
آپ کی ‘نہلے پہ دہلا والی شرارتی پوسٹ‘ کے علاوہ جو سنجیدہ پوسٹ ہیں ان سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
:lol:
۔
 

شمشاد

لائبریرین
اپنے متعلق آپ کے تاثرات پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ شکریہ ادا کرتا ہوں۔
 

F@rzana

محفلین
تاثرات کی کیا بات کہہ دی آپ نے،
ماشاء اللہ آپ اور اس محفل کے تمام اراکین کے بارے میں میرا تاثر ڈھیر سارے خوش کن رنگوں جیسا ہے جو طبیعت کو خوشگوار کرتے ہیں، اک دم فرحت بخش۔
اسی لیئے تو اس محفل میں شمولیت اختیار کرنی پڑی۔ :roll: :lol:

میں خاصی سنجیدگی اوڑھے رہتی ہوں،،،،

یہاں پہنچی تو مسکانوں کی ٹولی نے استقبال کیا۔ ۔ ۔
اور۔ ۔ ۔ بس۔ ۔ ۔ ۔
میرے اندر کی شرارتی لڑکی باہر نکل کر ان میں شامل ہوگئی۔ ۔ ۔

بس اتنی سی ہے کہانی :wink:
 

رضوان

محفلین
شمشاد نے کہا:
بس تو پھر اتنا کیجیئے گا کہ یہ شرارتی لڑکی باہر ہی رہے :wink:
اور محفل میں بی بی فرزانہ خاتون کو بھیج دیجیے :lol: ( ش سے شمشاد، ش سے۔۔۔ :wink: ر سے تو بس رحمان، رحیم وغیرہ بنتے ہیں شریر نہیں بنتا)
 

شمشاد

لائبریرین
آپ نے ضرور خاتون بنانا ہے، خاتون سے منہ سر چادر سے لپیٹے ہوئے تصور میں آتی ہے، لیکن آپ بھی کیا کریں عمر کا تقاضا ہے :wink:
 

قیصرانی

لائبریرین
ہمم۔ کیا یاد دلا دیا فرزانہ آپ نے۔ دریائے سندھ ہمارے شہر ڈیرہ غازی خان سے 18 کلومیٹر پر بہتا ہے۔ اور اپنے جوبن پر بہتا ہے۔ گرمیوں‌میں غازی گھاٹ کے پل پر اس کی چوڑائی تقریباً ایک کلو میٹر ہوتی ہے۔ میری عادت کئی سال تک یہی رہی تھی کہ میں‌اتوار کو چپکے سے بائک نکال کر دریائے سندھ چلا جایا کرتا تھا۔ وہاں گھنٹوں تک پانی میں ٹانگیں ڈال کر بیٹھا رہتا تھا۔ کبھی دوستوں کو اکٹھا کر کے کھانے کی دعوت دینا، اور دریائے سندھ پر بیٹھ کر کھانا کھانا۔ اسی طرح ایک وقت تھا کہ ہم دوستوں نے مل کر ایک ادبی تنظیم بنائی تھی، نام تھا “آس نراس“۔ ہر اتوار کو اجلاس ہوتا تھا۔ میری دعوت پر ہم سب دوست سردیوں اور گرمیوں ‌میں اجلاس کے لئے دریائے سندھ پر جاتے تھے۔ وہاں دریا کے بیچ میں خشکی کے ٹکڑے پر بیٹھ کر“آس نراس“ کی کاروائی چلتی۔ کبھی شعر و شاعری اور کبھی افسانہ کہنا۔ فارغ ہوکر دریا کی سیر، مطلب کہ دریا میں سردیوں کے دنوں‌میں‌چلنا، جب پانی کندھوں تک پہنچے تو واپس لوٹ آنا۔ گرمیوں میں‌بھی یہی حال۔ ایک خواب سا خواب ہے۔ خود کشی والی بات سے یاد آیا، میرا بھی اپنے دوست یاسر سے اسی دریا کے حوالے سے ایک وعدہ ہے۔کبھی کبھار اس میں اندھی ڈالفن دیکھنا۔ مچھلی جو کنارے پر بیچی جاتی تھی وہ کسی فارم کی پکڑی ہوتی تھی۔ مگر اس کا ذائقہ،کیا بات ہے۔
بےبی ہاتھی
 
اس پوسٹ کو تاریخ کے زمرے میں نہیں ہونا چاہیے کیا؟

بہت عمدہ پوسٹ ہے یہ لکھنے کی ضرورت تو نہیں مگر لکھے بغیر دل بھی نہیں مانتا :)
 

شمشاد

لائبریرین
دریا کی کہانی عنوان ہے اس دھاگے کا، ادھر ہی رہنے دیں۔ آپ کیوں اس کو تاریخ کے آئینے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
 
کیونکہ شمشاد یہ تاریخ سے ہی جڑی ہے اور اسے وہیں ہونا چاہیے۔ ابھی تو یہ پوسٹ تازہ ہے مگر ایک دو سال میں اسے ڈھونڈنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ نئے آنے والے ارکان اسے تلاش نہ کرپائیں شاید۔
 

F@rzana

محفلین
تحریر واقعی تاریخ کو زندہ کرتی ہے محب،

آپ چاہیں تو اسے اسی زمرے میں لے جائے، مجھے بھلا کیا اعتراض :lol:

شمشاد بھائی فکر مت کیجئے یہ لڑکی ٹوپی والا برقعہ کبھی نہیں پہنے گی :lol:
۔
 
Top