الف نظامی
لائبریرین
بار بار پوچھا گیا ، کیا پاکستان میں افلاس کا خاتمہ ممکن ہے؟ لیجئے ، بالآخر اس سوال کا ایک مطمئن کر دینے والا جواب موجود ہے۔ ہزاروں کو ڈاکٹر امجد ثاقب آباد کر چکے۔ چند لاکھ پاکستانی مددگار ہوں تو باقیوں کو وہ انشا ء اللہ کر دیں گے۔
بخدا اقبال نے سچ کہا تھا،جہاں کہیں دنیا میں روشنی ہے، وہ مصطفی ﷺ کے طفیل ہے یا ان کی تلاش میں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے ایک خیال کو سرکار کی حیات سے تھاما اور تھامے رکھا تو ایک چمن کھل اٹھا ۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ فروغ پذیر ۔ قرآن مجید کی اصطلاح میں ، تہہ در تہہ باغ۔ نو برس پہلے، دس ہزار روپے سے آغاز ہوا۔ 75ہزار خاندانوں کو بلا سود قرض دے کر اپنے پاؤں پر وہ کھڑا کر چکے۔ سیلاب میں سب سے زیادہ متاثر ،ضلع راجن پور کے دس ہزار خاندانوں کی ذمہ داری انہوں نے لی ہے۔ اقتصادیات کے ایک طالب علم نے کہا، جو انداز ڈاکٹر صاحب نے اختیار کیا ہے، بھوک اور اذیت کی ماری دنیا میں وہ ایک انقلاب برپا کرسکتا ہے۔
“یہ میرا خیال نہیں”ڈاکٹر امجد ثاقب نے کہا ، میثاقِ مدینہ کے ہنگام 73خاندانوں کو سرکار نے 73 خاندانوں کے سپرد کیا تھا۔ عالی مرتبت نے اسے” مواخاة” کہا تھا…بھائی چارہ۔ وہیں سے ہم نے “اخوت”کا نام تراشا۔ کوئی حکومت، کوئی این جی او ہماری پشت پر نہیں لیکن عطیات ہیں کہ چلے آتے ہیں۔ پھر یہ شعر پڑھا
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پر آئیں گے غم گسار چلے
اخوت کے پمفلٹ میں منیر نیازی کا ایک توصیفی جملہ درج ہے۔ انہی کا ایک شعر یہ ہے
فروغِ اسمِ محمد ہو ، بستیوں میں منیر
قدیم یاد نئے مسکنوں سے پیدا ہو
ڈاکٹر امجد ثاقب، سرکار کا ایک قول دہرایا کرتے ہیں ، صدقے کی دس نیکیاں ہیں اور قرضِ حسنہ کی اٹھارہ۔ صدقہ صرف ہو جاتا ہے لیکن قرض ذمہ داری کا احساس پیدا کرتا اورگاہے زندگی بدل ڈالتا ہے ۔ ایک حیران کن انکشاف انہوں نے یہ کیا کہ سال گزشتہ کے دوران ان غرباء نے ،جنہیں دس سے تیس ہزار کے قرض دیئے گئے، ادائیگی کے علاوہ دو کروڑ روپے کے عطیات دیئے۔
سلیم احمد رانجھا نے انکشاف کیا کہ گزشتہ برس وہ قاہرہ کی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں تھے۔ “اخوت” کے بارے میں انہوں نے بتایا تو اکثر کو یقین نہ آتا تھا۔ صلاح الدین ایوبی کے قلعے میں ٹہلتے ہوئے، تب ایک مصری نے اچانک یہ کہا، یہ قابل فہم تو نہیں کہ ہر سال ہزاروں لوگوں کو بلا سود قرضے دیئے جائیں اور وہ سب کے سب امانت داری کے ساتھ واپس کردیں۔ ایک بات مگر مجھے یقین دلاتی ہے۔ بچپن میں ، اپنے گاؤں میں ہم سنا کرتے کہ پاکستان نام کا ایک ملک وجود میں آیا ہے ، جس کے طفیل ، امت کا ادبار ختم ہو گا۔ دانشوروں سے پوچھئے۔ ابھی ابھی ان میں سے ایک عاصمہ جہانگیر کی فتح کا ڈنکا بجا رہا تھا۔ ایک جواں سال صحافی سے اس نے کہا تھا، تین باتیں یاد رکھنا ۔ ٹی وی اور اخبار میں اللہ، رسول کا نام کبھی نہ لینا۔ بھارت بہت طاقتور ہے اس کے سائے میں ہمیں جینا ہے اور افواجِ پاکستان سے بھلائی کی کبھی امید نہ رکھنا۔
منحصر مرنے پہ ہو، جس کی امید
نا امیدی، اس کی دیکھا چاہئے
راولپنڈی میں اخوت کے نگراں کرنل امان اللہ نے بتایا کہ اس ضلع میں ساڑھے آٹھ کروڑ کے قرضے جاری کئے گئے اور ان میں سے چھ کروڑ واپس آچکے۔ دھان پان سی ایک برطانوی لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ تقریب میں شامل تھی۔ خاتون کا تجسّس اسے کھینچ لایا تھا کہ آخر یہ کس طرح ممکن ہے۔ اس ملک میں ، شب و روز دنیا بھر میں جسے بدنام کیا جاتا ہے، ایسے ایثار کیش قرض خواہ اور ایسے امانت دار مقروض۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی حال ہی میں مسلمان ہونے والی خواہرِ نسبتی کی ایک قریبی رشتہ دار پچھلے دنوں اسی تجسس میں لاہور آئیں۔ حیرت زدہ اور مبہوت، وہ دو سو پاؤنڈ کا عطیہ دے کر گئیں۔ ووٹ بٹورنے کے لالچ میں شروع کئے گئے ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور پنجاب حکومت کے منصوبوں پر اٹھنے والے ایک سو ارب روپے ، اگر” اخوت” کو دے دیئے جائیں؟
شعبدہ باز ، ابن الوقت اور مفاد پرست سیاستدان لیکن یہ کیسے کریں۔ قوم کو وہ توقعات دلاتے، خود ترحمی میں مبتلا کرتے اور بھکاری بناتے ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے تب اپنی ہمیشہ کی سادگی سے بتایا کہ میاں محمد نواز شریف اور شہباز شریف ان سے رابطے میں رہتے اور کچھ اعانت کیا کرتے ہیں۔پھر ایک اور چونکا دینے والی بات، اخوت کا ایک منصوبہ ہے، گردنیں چھڑانے کا Liberation loans۔ جو سودی قرضوں میں جکڑے گئے اور عبرت کی مثال بن گئے۔ ایک صاحب نے 1995ء میں 80ہزار لئے تھے اور 2004ء تک ساڑھے چار لاکھ ادا کرنے کے باوجود مقروض تھے، بے شمار دوسرے بھی ۔ ان میں سے کچھ کہانیاں مرتب کر لی گئی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اچانک مجھے مخاطب کیا اورکہا، آپ اس کتاب کا دیباچہ لکھئے۔ “دیباچہ؟”میں نے سوچا، یہ پوری کتاب ہی مجھے لکھنی چاہئے تھی کہ اس بے مصرف زندگی کے کچھ ایّام شاید با معنی ہو جاتے۔ بتایا کہ اب تک ایسے دو ہزار خاندانوں کو رہائی دلائی جا چکی ۔ ایک اور منصوبہ خصوصی شہریوں کی خدمت سے مخصوص ہے۔ جن کے قلب و جگر سلامت ہیں، اگرچہ ہاتھ پاؤں میں نقص ہو۔ اس طرح کے 972/افراد کو غیر سودی قرضے دے کر برسرِ روزگار کر دیا گیا۔ ان میں سے بعض اب عطیہ دہندگان میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب ایک اور طرح کے آدمی ہیں۔ جوشِ خطابت ، نہ کوئی دعویٰ۔ بہت منکسر لہجہ۔ نرمی ، عاجزی اور رسان سے وہ بات کرتے اور دل میں گھر بنا لیتے ہیں۔
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اتر جانے کے بعد
اس گلی میں دوسری جانب کوئی رستہ نہیں
بنگلہ دیش کے ڈاکٹر یونس کا ذکر بہت ہوتا ہے کہ لاکھوں خاندانوں کو قرض دے کر برسرِ روزگار کیا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کا کارنامہ کہیں بڑا ہے۔ وہ 39فیصد تک سود لیتے ہیں، یہ بلاسود۔ کام کاج بیشتر رضاکاروں کے ذمّے۔ نوبل پرائز؟ اورنگ زیب عالمگیر کا ایک رفیق یاد آیا۔ جاگیر عطا ہوئی تو شاہی فرمان پر اس نے لکھا “کم ہے” دو گنا، پھر چوگنا مگر انکار بادشاہ نے پوچھا،کسقدر درکار ہے؟ “بہشتِ بریں”اس نے کہا”بادشاہ سلامت، میں اخروی نجات کا طالب ہوں، اگر آپ وعدہ کر سکیں”سچی خدمت کا اجر بے حساب ہے۔ اللہ کو عطا کرنا ہے اور اس سے بڑھ کر کون عطا کرنے والا ہے ۔ بہت سے لوگ باربار پتہ مجھ سے پوچھتے تھے، لیجئے ، میں لکھ لایا ہوں “Akhuwat awami pool”
Account no:0222-0100172932 Meezan bank.
Swift code: Meznpkkaxxx
ڈاکٹر صاحب کا ذاتی فون نمبر یہ ہے :0300-8420495 ۔کیا پاکستان سے افلاس کا خاتمہ ممکن ہے ؟ آج بالآخر اس سوال کا جواب موجود ہے ۔ دس لاکھ ثروت مند پاکستانی دس لاکھ کو آباد کر سکتے ہیں۔ اگلے دو تین عشروں میں یہ رقم تین چار کروڑ خاندانوں کو بحال کر سکتی ہے کہ قابلِ واپسی ہے۔ بس اتنا ہی چیلنج ہے ۔ رہے سیاست کار تو ان شعبدہ بازوں سے کیا امید؟ ڈاکٹر بابر اعوان اور “ڈاکٹر” پرویز الٰہی سے کیا امید؟