خوفناک عمارت

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سارہ خان

محفلین
صفحہ نمبر 48 ۔۔۔ 49
کیپٹن فیاض کام میں مشغول تھا کہ اس کے پاس عمران کا پیغام پہنچا۔ اس نے اسے اس کے آفس کے قریب ہی ریستوران میں بلوا بھیجا تھا۔ فیاض نے وہاں تک پہنچنے میں دیر نہیں لگائی۔ عمران ایک خالی میز پر طبلہ بجا رہا تھا۔ فیاض کو دیکھ کر احمقوں کی طرح مسکرایا۔
“کوئی نئی بات؟“ فیاض نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
“میر تقی میر غالب تخلص کرتے تھے!“
“یہ اطلاع تم بذریعہ ڈاک بھی دے سکتے تھے۔“ فیاض چڑ کر بولا۔
“چودہ تاریخ کی رات کو وہ محبوبہ یک چشم کہاں تھی؟“
“تم آخر اس کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو؟“
“پتہ لگا کر بتاؤ!۔۔۔ اگر وہ کہے کہ اس نے اپنی وہ رات کسی خالہ کے ساتھ بسر کی تو تمہارا فرض ہے کہ اس خالہ سے اس بات کی تحقیق کرکے ہمدرد دواخانہ کو فوراً مطلع کردو، ورنہ خط و کتابت صیغہ راز میں نہ رکھی جائے گی۔“
“عمران میں بہت مشغول ہوں!“
“میں بھی دیکھ رہا ہوں! کیا آج کل تمہارے آفس میں مکھیوں کی کثرت ہو گئی ہے۔ کثرت سے یہ مراد نہیں کہ مکھیاں ڈنڈ پیلتی ہیں۔“
“میں جا رہا ہوں۔“ فیاض جنجھلا کر اٹھتا ہوا بولا۔
“ ارے کیا تمھاری ناک پر مکھیاں نہیں بیٹھتیں"۔ عمران نے اس کا ہاتھ پکڑ کے بیٹھاتے ہوئے کہا۔
فیاض اسے گھورتا ہوا بیٹھ گیا! وہ سچ مچ جھنجھلا گیا۔
" اوہ! یہ تو مجھے بھی یاد نہیں رہا ! ۔۔۔ میرے خیال سے شاید میں تم سے چاول کا بھاؤ پوچھنے آیا تھا۔۔۔ مگر تم کہو گے کہ میں کوئی ناچنے والی تو ہوں نہیں کہ بھاؤ بتاؤں۔۔۔ ویسے تمھیں یہ اطلاع دے سکتا ہوں کہ ان لاشوں کے سلسلے میں کہیں نہ کہیں محبوب یک چشم کا قدم ضرور ہے۔ میں نے کوئی غلط لفظ تو نہیں بولا۔۔۔ ہاں!"۔
" اس کا قدم کس طرح؟"۔ فیاض یک بیک چونک پڑا۔
" انسائیکلوپیڈیا میں یہی لکھا ہے"۔ عمران سے ہلا کر بولا۔ " بس یہ معلوم کرو کہ اس نے وہ رات کہاں بسر کی!"۔
" کیا تم سنجیدہ ہو؟"۔
" اُف فوہ! بیوقوف آدمی ہمیشہ سنجیدہ رہتے ہیں!"۔
" اچھا میں معلوم کروں گا"۔
"خدا تمہاری مادہ کو سلامت رکھے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ مجھے جج صاحب کے دوست ایاز کے مکمل حالات درکار ہیں، وہ کون تھا کہاں پیدا ہوا، کس خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ دوسرے عزیز کہاں رہتے ہیں! سب مر گئے یا ابھی کچھ زندہ ہیں"۔
" تو ایسا کرو! آج شام کی چائے میرے گھر پر پیئو"۔ فیاض بولا۔
" اور اس وقت کی چائے"۔ عمران نے بڑے بھولے پن سے پوچھا۔
فیاض نے ہنس کر ویٹر کو چائے کا آرڈر دیا۔۔۔ عمران الوؤں کی طرح دیدے پھرا رہا تھا اور کچھ دیر بعد بولا۔
" کیا تم مجھے جج سے ملاؤ گے؟"۔
"ہاں میں تمھاری موجودگی میں ہی ان سے اس کے متعلق گفتگو کروں گا"۔
" ہی۔۔۔۔ ہی۔۔۔۔ مجھے تو بڑی شرم آئے گی"۔ عمران دانتوں تلے انگلی دبا کر دہرا ہوگیا۔
" کیوں۔۔۔ کیوں بور کر رہے ہو۔۔۔ شرم کی کیا بات"۔
" نہیں میں والد صاحب کو بھیج دونگا"۔
" کیا بک رہا ہے"۔
" میں براہِ راست خود شادی نہیں طے کرنا چاہتا"۔
" خدا سمجھے! میں ایاز والی بات کر رہا تھا"۔
" لا حول ولا قوۃ"۔ عمران نے جھینپ جانے کی ایکٹنگ کی۔
" عمران آدمی بنو"۔
" اچھا!"۔ عمران نے بڑی سعادت مندی سے سر ہلایا۔
چائے آگئی تھی۔۔۔ فیاض کچھ سوچ رہا تھا! کبھی کبھی وہ عمران کی طرف بھی دیکھ لیتا تھا جو اپنے سامنے والی دیوار پر لگے ہوئے آئنیے میں دیکھ دیکھ کر منہ بنا رہا تھا۔ فیاض نے چائے بنا کر پیالی اس کے آگے کھسکا دی۔
"یار فیاض! ۔۔۔ وہ شہید مرد کی قبر والا مجاور بڑا گریٹ آدمی معلوم ہوتا ہے"۔ عمران بولا۔
" کیوں؟"۔
" اس نے ایک بڑی گریٹ بات کہی تھی"۔
"کیا ۔۔۔ ؟؟"۔
" یہی کہ پولیس والے گدھے ہیں"۔
" کیوں کہا تھا اس نے"۔ فیاض چونک کر بولا۔
" پتہ نہیں۔ پر اس نے بات بڑی پتے کی کہی تھی"۔
" تم خواہ مخواہ گالیاں دینے پر تلے ہوئے ہو"۔
" نہیں پیارے ! اچھا تم یہ بتاؤ! وہاں قبر کس نے بنائی تھی اور اس ایک کمرے کے پلاسٹر کے متعلق تمھارا کیا خیال ہے"۔
" میں فضولیات میں سر نہیں کھپاتا"۔ فیاض چڑ کر بولا۔ " اس معاملے سے ان کا کیا تعلق"۔
" تب تو کسی اجنبی کی لاش کا وہاں پایا جانا بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا"۔ عمران نے کہا۔
" آخر تم کہنا کیا چاہتے ہو"۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
" یہ کہ نیک بچے صبح اٹھ کر اپنے بڑوں کو سلام کرتے ہیں۔ پھر ہاتھ منہ دھو کر ناشتہ کرتے ہیں۔ پھر سکول چلے جاتے ہیں۔ کتاب کھول کر الف سے الّو! ب سے بندر ۔۔۔۔ پ سے پتنگ۔۔۔!"۔
" عمران خدا کے لیے"۔ فیاض ہاتھ اٹھا کر بولا۔
" اور خدا کو پر وقت یاد رکھتے ہیں"۔
" بکے جاؤ"۔
" چلو خاموش ہوگیا۔ ایک خاموشی پزار ٹلائیں بالتی ہیں۔۔۔۔ ہاہیں کیا ٹالیں۔۔۔ لا حول ولا قوّۃ۔۔۔ میں نے ابھی کیا کہا تھا؟"۔
" اپنا سر"۔‌‌
 

سارہ خان

محفلین
صفحہ نمبر 50۔۔۔۔۔51
" ہاں۔۔۔ شکریہ! میرا سر بڑا مضبوط ہے۔۔۔ ایک بار اتنا مضبوط ہوگیا تھا کہ میں اسے بینگن کا بھرتہ کہا کرتا تھا"۔
" چائے ختم کرکے دفع ہو جائیے"۔ فیاض بولا۔ " مجھے ابھی بہت کام ہے شام کو گھر ضرور آنا۔“

۸​


اسی شام کو عمران اور فیاض جج صاحب کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ان کا انتظار کر رہے تھے، جج صاحب کی لڑکی بھی موجود تھی اور اس نے اُس وقت بھی سیاہ رنگ کی عینک لگا رکھی تھی۔ عمران بار بار اس کی طرف دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھر رہا تھا! فیاض کبھی کبھی رابعہ سے نظر بچا کر اسے گھورنے لگتا۔
تھوڑی دیر بعد جج صاحب آگئے اور رابعہ اُٹھ کر چلی گئی۔
" بڑی تکلیف ہوئی آپ کو!"۔ فیاض بولا۔
" کوئی بات نہیں فرمائیے"۔
" بات یہ ہے کہ میں ایاز کے متعلق مزید معلومات چاہتا ہوں"۔
" میرا خیال ہے کہ میں آپ کو سب کچھ بتا چکا ہوں"۔
" میں اس کے خاندانی حالات معلوم کرنا چاہتا ہوں تاکہ اس کے اعزہ سے مل سکوں"۔
" افسوس کہ میں اس کی بابت کچھ نہ بتا سکوں گا"۔ جج صاحب نے کہا۔ " بات آپ کو عجیب معلوم ہوگی لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں اسکے متعلق کچھ نہیں جانتا حالانکہ ہم گہرے دوست تھے"۔
" کیا آپ یہ بھی نہ بتا سکیں گے وہ باشندہ کہاں کا تھا؟"۔
" افسوس میں یہ بھی نہیں جانتا"۔
" بڑی عجیب بات ہے۔ اچھا پہلی ملاقات کہاں پہ ہوئی تھی؟"۔
" انگلینڈ میں"۔
فیاض بےاختیار چونک پڑا۔۔۔ لیکن عمران بالکل ٹھس بیٹھا رہا۔ اس کی حالت میں ذّرہ بھر بھی کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔
" کب کی بات ہے؟"۔ فیاض نے پوچھا۔
" تیس سال پہلے کی! اور یہ ملاقات بڑے عجیب حالات میں ہوئی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں آکسفورڈ میں قانون پڑھ رہا تھا۔ ایک بار ایک ہنگامے میں پھنس گیا۔ جس کی وجہ سو فیصد غلط فہمی تھی۔ اب سے تیس سال پہلے کا لندن نفرت انگیز تھا، انتہائی نفرت انگیز۔۔۔ اسی سے اندازہ لگائیے کہ وہاں کے ایک ہوٹل پر ایک ایسا سائن بورڈ تھا جس پر تحریر تھا۔' ہندوستانیوں اور کّتوں کا داخلہ ممنوع ہے۔۔۔!'۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ اب بھی ہے یا نہیں۔۔۔۔
بہرحال ایسے ماحول میں اگر کسی ہندوستانی اور انگریز کے درمیان میں کوئی غلط فہمی پیدا ہوجائے تو انجام ظاہر ہے۔ وہ ایک ریستوران تھا جہاں میرا ایک انگریز سے جھگڑا ہوگیا۔ علاقہ ایسٹ اینڈ کا تھا جہاں زیادہ تو جنگلی ہی رہا کرتے تھے! آج بھی جنگلی ہی رہتے ہیں! انتہائی غیر مہذب لوگ جو جانوروں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں! اوہ۔۔۔ میں خواہ مخواہ بات کو طوالت دے رہا ہوں! مطلب یہ کہ جھگڑا بڑھ گیا۔ سچی بات یہ ہے کہ میں خود ہی جان بچا کر نکل جانا چاہتا تھا!۔۔۔ اچانک ایک آدمی بھیڑ کو چیرتا ہوا میرے پاس پہنچ گیا۔ وہ ایاز تھا۔ اسی دن میں نے اسے پہلے پہل دیکھا۔۔۔ اور اس روپ میں دیکھ کر آج تک متحیر ہوں۔۔۔ وہ مجمع جو مجھے مار ڈالنے پر تُل گیا تھا ایاز کی شکل دیکھتے ہی تتر بتر ہوگیا!۔ ایسا معلوم ہوا جیسے بھیڑوں کے گلے میں کوئی بھیڑیا گھس آیا ہو۔۔۔ بعد کو معلوم ہوا کہ ایاز اس جگہ کے بااثر لوگوں میں سے تھا۔۔۔ ایسا کیوں تھا مجھے آج تک معلوم نہ ہوسکا۔ وہ ہندوستانی ہی تھا لیکن مجھے یہاں تک بھی نہیں معلوم ہو سکا کہ وہ کس شہر یا صوبے کا باشندہ تھا"۔
جج صاحب نے خاموش ہوکر سگار کیس اس کی طرف بڑھا دیا۔عمران خاموش بیٹھا چھت کی طرف گھور رہا تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے فیاض زبردستی کسی بیوقوف کو پکڑ لایا ہو! بیوقوف ہی نہیں بلکہ ایسے آدمی کو جو ان کی گفتگو ہی سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو! فیاض نے اسے کئی بار کنکھیوں سے دیکھا بھی لیکن خاموش رہا۔
" شکریہ"۔ فیاض نے سگار لیتے ہوئے کہا اور پھر عمران کی طرف دیکھ کر بولا۔ " جی یہ نہیں پیتے"۔
اس پر بھی عمران نے چھت پر سے اپنی نظریں نہ ہٹائیں، ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ خود کو تنہا محسوس کر رہا ہو! جج صاحب نے بھی عجیب نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ لیکن کچھ نہ بولے۔
اچانک عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر " اللہ " کہا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ وہ منہ چلاتا ہوا اُن دونوں کو احمقوں کی طرح دیکھ رہا تھا۔
اس پر بھی فیاض کو خوشی ہوئی کہ جج صاحب نے عمران کے متعلق کچھ نہیں پوچھا۔ فیاض کوئی دوسرا سوال سوچ رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ یہ دُعا بھی کر رہا تھا کہ عمران کی زبان بند ہی رہے تو بہتر ہے مگر شاید عمران چہرہ شناسی کا بھی ماہر تھا کیونکہ دوسرے ہی لمحے میں اس نے بھی بکنا شروع کر دیا۔
" ہاں صاحب! اچھے لوگ بہت کم زندگی لے کر آتے ہیں! ایاز صاحب تو ولی اللہ تھے۔ چرخ کج رفتار ردناہنجار کب کسی کو۔۔۔ غالب کا شعر ہے!"۔
لیکن قبل اس کے کہ عمران شعر سناتا فیاض بول پڑا۔ " جی ہاں قصبے والوں میں کچھ اس قسم کی افواہ ہے!"۔
 

سارہ خان

محفلین
صفحہ نمبر 52۔۔۔۔53

" بھئی یہ بات تو کسی طرح میرے حلق سے نہیں اُترتی! سُنا میں نے بھی ہے"۔ جج صاحب بولے۔" اس کی موت کے بعد قصبے کے کچھ معزز لوگوں سے ملا بھی تھا انہوں نے بھی یہی ظاہر کیا تھا کہ وہ کوئی پہنچا ہوا آدمی تھا لیکن میں نہیں سمجھتا۔ اس کی شخصیت پُراسرار تھی۔۔۔ مگر ان معنوں میں نہیں!"۔
" اس کے نوکر کے بارے کیا خیال ہے جو قبر کی مجادری کرتا تھا"۔ فیاض نے پوچھا۔
" وہ بھی ایک پہنچے ہوئے بزرگ ہیں"۔ عمران نے تڑ سے بولا۔ جج صاحب اسے گھورنے لگے لیکن اس بار بھی انہوں نے اس کے متعلق کچھ نہیں پوچھا۔
" کیا وصیت نامے میں یہ بات ظاہر کر دی گئی ہے کہ قبر کا مجادر عمارت کے بیرونی کمرے پر قابض رہے گا"۔ فیاض نے جج صاحب سے پوچھا۔
" جی ہاں! قطعی!"۔ جج صاحب نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔ " بہتر ہوگا اگر ہم دوسری باتیں کریں! اس عمارت سے میرا بس اتنا ہی تعلق ہے کہ میں قانونی طور پر اس کا مالک ہوں۔ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ میرے گھر کے کسی بھی فرد نے آج تک اس میں قیام نہیں کیا"۔
" کوئی کبھی ادھر گیا بھی نہ ہوگا؟"۔ فیاض نے کہا۔
" بھئی کیوں نہیں! شروع میں تو سب ہی کو اس کو دیکھنے کا اشتیاق تھا! ظار ہے وہ حیرت انگیز طریقے سے ہماری ملکیت میں آئی تھی"۔
" ایاز صاحب کے جنازے پر نور کی بارش ہوئی تھی"۔ عمران نے پھر کڑا لگایا۔
" مجھے پتا نہیں"۔ جج صاحب بیزاری سے بولے۔" میں اس وقت وہاں پہنچا تھا جب وہ جا چکا تھا"۔
" میرا خیال ہے کہ وہ عمارت آسیب زدہ ہے"۔ فیاض نے کہا۔
" ہوسکتا ہے! کاش وہ میری ملکیت نہ ہوتی! کیا اب آپ لوگ مجھے اجازت دیں گے؟"۔
" معاف کیجئیے گا"۔ فیاض اٹھتا ہوا بولا۔ " آپ کو بہت تکلیف دی مگر معاملہ ہی ایسا تھا"۔
فیاض اور عمران باہر نکلے! فیاض اس پر جھلایا ہوا تھا۔ باہر آتے ہی اس پر برس پڑا۔
" تم ہر جگہ اپنے گدھے پن کا ثبوت دینے لگتے ہو"۔
" اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ تمھیں گولی مار دوں"۔ عمران نے کہا۔
" کیوں میں نے کیا کیا ہے؟"۔
" تم نے کیوں نہیں پوچھا کہ محبوبہ یک چشم فودہ تاریخ کی رات کو کہاں تھی"۔
" کیون بور کرتے ہو! میرا موڈ ٹھیک نہیں ہے"۔
" خیر مجھے کیا، میں خود ہی پوچھ لوں گا"۔ عمران نے کہا۔" سر جہانگیر کو جانتے ہو؟"۔
" ہاں، کیوں؟"۔
" وہ میرا رقیب ہے"۔
" کیس طرح پتا لگاؤ کہ وہ آج کل کہاں ہے؟"۔
" میرا وقت برباد نہ کرو"۔ فیاض جھنجھلا گیا۔
" تب پھر تم بھی وہیں جاؤ جہاں شیطان قیامت کے دن جائے گا"۔ عمران نے کہا اور لمبے لمبے ڈگ مارتا ہوا جج صاحب کے گیراج کی طرف چلا گیا۔ یہاں سے رابعہ باہر جانے کے لیے کار نکال رہی تھی۔
" مس سلیم"۔ عمران کھنکار کر بولا۔ " شاید ہمارا تعارف پہلے بھی ہوچکا ہے"۔
" اوہ جی ہاں، جی ہاں"۔ رابعہ جلدی سے بولی۔
" کیا آپ مجھے لفٹ دینا پسند کریں گی؟"۔
" شوق سے آئیے۔۔۔۔!"۔
رابعہ خود ڈرائیو کر رہی تھی۔ عمران شکریہ ادا کرکے اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔
" کہاں اُترئیے گا؟"۔ رابعہ نے پوچھا۔
" سش پوچھئیے تو میں اُترنا ہی نہ چاہوں گا"۔
رابعہ صرف مسکرا کر رہ گئی۔ اس وقت اس نے ایک مصنوعی آنکھ لگا رکھی تھی اس لیے آنکھوں پر عینک نہیں تھی۔
فیاض کی بیوی نے اسے عمران کے متعلق بہت کچھ بتایا تھا۔ اس لیے وہ اسے احمق سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھی۔۔۔!
" کیا آپ کچھ ناراض ہیں؟"۔ عمران نے تھوڑی دیر بعد پوچھا۔
" جی!"۔ رابعہ چونک پڑی۔ " نہیں تو!"۔۔۔ پھر ہنسنے لگی۔
" میں نے کہا شاید مجھ سے لوگ عموما ناراض رہا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں انہیں خواہ مخواہ غصہ دلا دیتا ہوں"۔
" پتہ نہیں! مجھے تو آپ نے ابھی تک غصہ نہیں دلایا"۔
" تب تو یہ میری خوش قسمتی ہے"۔ عمران نے کہا۔ " ویسے اگر میں کوشش کروں تو آپ کو غصہ دلا سکتا ہوں"۔
رابعہ پھر ہنسنے لگی ۔" کیجئیے کوشش!"۔ اس کے کہا۔
 

سارہ خان

محفلین
صفحہ نمبر 54۔۔۔۔55
" اچھا کو آپ شاید یہ سمجھتی ہوں کہ یہ ناممکن ہے"۔ عمران نے احمقوں کی طرح ہنس کر بولا۔
" میں تو یہی سمجھتی ہوں کہ مجھے غصہ نہیں آتا"۔
" اچھا تو سنبھلئیے"۔ عمران نے اس طرح کہا جیسے ایک شمشیر زن دوسرے شمشیر زن کو للکارتا ہوا کسی گھٹیا سی فلم میں دیکھا جا سکتا ہے۔
رابعہ کچھ نہ بولی وہ کچھ بور سی ہونے لگی تھی۔
" آپ چودہ تاریخ کی رات کو کہاں تھی؟"۔ عمران نے اچانک پوچھا۔
" جی ۔۔۔۔"۔ رابعہ بےاختیار چونک پڑی۔
" اوہ! سٹیرنگ سنبھالیے۔ کہیں کوئی ایکسیڈنٹ نہ ہوجائے"۔ عمران بولا۔ " دیکھئیے۔ میں نے آپ کو غصہ دلا دیانا"۔ پھر اس نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور اپنی ران پیٹنے لگا۔
رابعہ کی سانس پھولنے لگی تھی اور اس کے ہاتھ سٹیرنگ پر کانپ رہے تھے۔
" دیکھئے" اس نے ہانپتے ہویے کہا۔ " مجھے جلدی ہے۔۔۔۔ واپس جانا ہوگا۔۔۔۔ آپ کہاں اُتریں گے ؟"۔
" آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا"۔ عمران پُر سکون لہجے میں بولا۔
" آپ سے مطلب! آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے؟"۔
" دیکھا۔۔۔ آگیا غصہ! ویسے یہ بات بہت اہم ہے اگر پولیس کے کانوں تک جا پہنچی تو زحمت ہوگی! ممکن ہے کہ میں کوئی ایسی کاروائی کرسکوں جس کی بناء پر پولیس یہ سوال ہی نہ اٹھائے"۔
رابعہ کچھ نہ بولی وہ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھی۔
" میں یہ بھی نہ پوچھوں گا کہ آپ کہاں تھیں"۔ عمران نے پھر سے کہا۔ " کیونکہ مجھے معلوم ہے۔ مجھے آپ صرف اتنا بتا دیجئیے کہ آپ کے ساتھ کون تھا؟"۔
" مجھے پیاس لگ رہی ہے"۔ رابعہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
" اوہو! تو روکئے۔۔۔۔ کیفے نبراسکا نزدیک ہی ہے"۔
کچھ آگے چل کر رابعہ نے کار کھڑی کر دی اور وہ دونوں اتر کر فٹ پاتھ پر سے گزرتے ہوئے کیفے نبراسکا میں چلے گئے۔
عمران نے ایک خالی گوشہ منتخب کیا! اور ہو بیٹھ گئے!۔۔۔۔ چائے سے پہلے عمران نے ایک گلاس ٹھنڈے پانی کے لیے کہا۔
" مجھے یقین ہے کہ واپسی میں کنجی اس کے پاس رہ گئی ہوگی"۔ عمران نے کہا۔
" کس کے پاس؟"۔ رابعہ پھر چونک پڑی۔
" فکر نہ کیجئیے مجھے یقین ہے کہ اس نے آپ کو اپنا صحیح نام اور پتہ ہرگز نہ بتایا ہوگا اور کنجی واپس کر دینے کے بعد سے اب تک ملا بھی نہ ہوگا"۔
رابعہ بالکل نڈھال ہوگئی اور مردہ سی آواز میں کہا۔ "پھر اب آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟"۔
" آپ اس نے کب اور کن حالات میں ملی تھیں؟"۔
" اب سے دو ماہ پیشتر!"۔
" کہاں ملا تھا؟"۔
" ایک تقریب میں! مجھے یہ یاد نہیں کہ کس نے تعارف کرایا تھا"۔
" تقریب کہاں تھی؟"۔
" شاید سر جہانگیر کی سالگرہ کا موقع تھا"۔
" اوہ!"۔۔۔۔ عمران کچھ سوچنے لگا۔ پھر اس نے آہستہ سے کہا۔ " کنجی آپ کو اس نے کب واپس کی تھی؟"۔
" پندرہ کی شام کو"۔
" اور سولہ کی صبح کو لاش پائی گئی"۔ عمران نے کہا۔
رابعہ بُری طرح ہانپے لگی۔ وہ چائے کی پیالی میز پر رکھ کر کرسی کی پُشت سے ٹِک گئی۔ اس کی حالت باز کے پنجے میں پھنسی ہوئی کسی نھنی منی چڑیا سے مشابہ تھی۔
" پندرہ کے دن بھر کنجی اس کے پاس رہی! اس نے اس کی ایک نقل تیار کرا کر کنجی آپ کو واپس کر دی! اس کے بعد پھر وہ آپ کو نہیں ملا۔ غلط کہہ رہا ہوں؟"۔
" ٹھیک ہے"۔ وہ آہستہ سے بولی۔ " وہ مجھ سے کہا کرتا تھا کہ وہ ایک سیاح ہے!"۔
" جعفریہ ہوٹل میں قیام پذیر ہے۔۔۔ لیکن پرسوں میں وہاں گئی تھی۔۔۔"۔
وہ خاموش ہوگئی، اس پر عمران نے سر ہلا کر کہا۔" اور آپ کو معلوم ہوا کہ اس نام کا کوئی آدمی وہاں کبھی ٹھہرا ہی نہیں"۔
" جی ہاں"۔ رابعہ سر جھکا کر بولی۔
" آپ سے اس کی دوستی کا مقصد محض اتنا ہی تھا کہ وہ کسی طرح آپ سے اس عمارت کی کنجی حاصل کر لے"۔
" میں گھر جانا چاہتی ہوں۔۔۔ میری طبعیت ٹھیک نہیں"۔
" دو منٹ"۔ عمران نے ہاتھ ہلا کر کہا۔" آپ کی زیادہ تر ملاقاتیں کہاں ہوئیں تھیں؟"۔
" ٹپ ٹاپ نائیٹ کلب میں"۔
" لیڈی جہانگیر سے اس کے تعلقات کیسے تھے؟"۔
" لیڈی جہانگیر۔۔۔"۔ رابعہ چڑ کر بولی۔" آخر ان معاملات میں آپ ان کا نام کیوں لے رہے ہیں"
 

سارہ خان

محفلین
صفحہ نمبر 56۔۔۔57

" کیا آپ میرے سوال کا جواب نہ دیں گی؟"۔ عمران نے بڑی شرافت سے کہا۔
" نہیں! میرا خیال ہے کہ میں نے ان دونوں کو کبھی نہیں ملتے دیکھا"۔
" شکریہ! اب میں اس کا نام نہیں پوچھوں گا! ظاہر سے اس کا نام بھی صحیح نہیں ہوگا۔۔۔ لیکن اگر آپ اس کا حُلیہ بتا سکیں تو میں مشکور ہونگا"۔
رابعہ کو بتانا ہی پڑا۔ لیکن وہ بہت زیادہ مغموم تھی اور ساتھ ہی ساتھ خائف بھی۔

۹​


عمران فٹ پاتھ پر تنہا کھڑا تھا۔۔۔! رابعہ کی کار جا چکی تھی۔ اس نے جیب سے ایک چیونگم نکالی اور منہ میں ڈال کر دانتوں سے اسے کچلنے لگا۔۔۔ غور و فکر کے عالم میں چیونگم اس کا بہترین ساتھی ثابت ہوتا تھا۔۔۔ جاسوسی ناولوں کے سارغ راسانوں کی طرح نہ اسے سگار سے دلچسپی تھی نہ پائپ سے! شراب بھی نہیں پیتا تھا۔
اس کے ذہن میں اس وقت کئی سوال تھے اور وہ فٹ پاتھ کے کنارے پر اس طرح کھڑا ہوگیا جیسے سڑک پار کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔۔۔ لیکن یہ حقیقت تھی کہ اس کے ذہن میں اس قسم کا کوئی خیال نہیں تھا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ ان معاملات سے سر جہانگیر کا تعلق ہو سکتا ہے، دوسری لاش کے قریب اسے کاغذ کا جو ٹکڑا ملا تھا وہ سر جہانگیر کے ہی رائٹنگ پیڈ کا تھا۔ رابعہ سے پُراسرار نوجوان کی ملاقات بھی سر جہانگیر کے ہی یہاں ہوئی تھی۔ اور لیڈی جہانگیر نے جس خوبصورت نوجوان کا تذکرہ کیا تھا وہ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔ لیکن لیڈی جہانگیر بھی اس سے واقف نہیں تھی۔ لیڈی جہانگیر کی یہ بات بھی سچ تھی کہ اگر وہ شہر کے کسی ذی حیثیت خاندان کا فرد ہوتا تو لیڈی جہانگیر اس سے ضرور واقف ہوتی! فرض کیا کہ اگر لیڈی جہانگیر بھی کسی سازش میں شریک تھی تو اس نے اس کا تذکرہ عمران سے کیوں کیا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اس کی دوسری زندگی سے واقف نہ رہی ہو۔ لیکن پھر بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے تذکرہ کیا ہی کیوں؟ وہ کوئی ایسی اہم بات تھی! سینکڑون نوجوان لڑکیوں کے چکر میں رہے ہوں گے۔ چاہے وہ پانی پینے کے مشکیزے سے بھی بدتر کیوں نہ ہوں! پھر ایک اور سوال اس کے ذہن میں ابھرا! آخر اس مجاور نے پولیس والے کو رابعہ کے متعلق کیوں نہیں بتایا تھا۔ قبر اور لاش کے متعلق تو اس نے سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ حیرانگی اس بات کی تھی کہ وہ لوگ کون ہیں اور اس مکان میں کیوں دلچسپی لے رہے ہیں اگر وہ سر جہانگیر ہی ہے تو اس کا اس عمارت سے کیا تعلق؟۔۔۔ سر جہانگیر سے وہ اچھی طرح واقف تھا، لیکن یوں بھی نہیں کہ وہ اس پر کسی قسم کا شبہ کر سکتا۔ سر جہانگیر شہر کے معزز ترین لوگوں میں تھا۔ نہ صرف معزز بلکہ نیک نام!
تھوڑی دیر بعد عمران سڑک پار کرنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ روکتی ہوئی کار اس کی راہ میں حائل ہوگئی۔ یہ رابعہ ہی کہ کار تھی۔
" خدا کا شکر ہے کہ آپ مل گئے"۔ اس نے کھڑکی سے سر نکال کر کہا۔
" میں جانتا تھا کہ آپ کو پھر میری ضرورت محسوس ہوگی!"۔ عمران نے کہا اور کار کا دروازہ کھول کر رابعہ کے برابر بیٹھ گیا!۔۔۔ کار پھر چل پڑی۔
" خدا کے لیے مجھے بچائیے"۔ رابعہ نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔ " میں ڈوب رہی ہوں!"۔
" تو کیا آپ مجھے تنکہ سمجھتی ہیں"۔ عمران نے قہقہہ لگایا۔
" خدا کے لیے کچھ کیجئیے۔ اگر ڈیڈی کو اس کا علم ہوگیا تو۔۔۔۔؟"۔
" نہیں ہونے پائے گا"۔ عمران نے سنجیدگی سے کہا۔" آپ لوگ مردوں کے دوش بدوش جھک مارنے میدان میں نکلی ہیں۔۔۔۔ مجھے خوشی ہے۔۔۔ مگر آپ میں جانتیں کہ مرد ہر میدان میں آپ کو الّو بناتا ہے۔۔۔ ویسے معاف کیجئیے مجھے نہیں معلوم کہ الو کی مادہ کو کیا کہتے ہیں"۔
رابعہ کچھ نہ بولی اور عمران کہتا رہا۔" خیر بھول جائیے اس بات کو۔ میں کوشش کروں گا کہ اس ڈرامے میں آپ کا نام نہ آنے پائے! اب تو آپ مطمئن ہیں نا۔۔۔ غاڑی روکئے۔۔۔ اچھا ٹاٹا۔۔۔"۔
" ارے!"۔ رابعہ نے ہلکی سی چیخ نکالی اور اس نے پورے بریک لگا دئیے۔
" کیا ہوا؟"۔ عمران گھبرا کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔
" وہی ہے"۔ رابعہ بڑبڑائی۔" اترئیے۔۔۔ میں اسے بتاتی ہوں"۔
" کون ہے؟ کیا بات ہے؟"۔
" وہی جس نے مجھے اس مصیبت میں پھنسایا ہے"۔
" کہاں ہے؟"۔
" وہ۔۔۔ اس بار میں ابھی ابھی گھسا ہے۔ وہی تھا۔۔۔ چمڑے کی جیکٹ اور کتھئی پتلون میں۔۔۔"
" اچھا تو آپ جائیے۔ میں دیکھ لوں گا"۔
" نہیں میں بھی۔۔۔۔"۔
" جاؤ!"۔ عمران آنکھیں نکال کر بولا! رابعہ سہم گئی! اس وقت احمق عمران کی آنکھیں اسے بڑی خوفناک معلوم ہوئیں۔ اس نے چُپ چاپ کار موڑ لی۔
عمران بار میں گھسا!۔۔۔ بتائے ہوئے آدمی کو تلاش کرنے میں دیر نہیں لگی۔ وہ ایک میز پر تنہا بیٹھا تھا۔ وہ گٹھیلے جسم کا ایک خوش رو نوجوان تھا۔ پیشانی کشادہ اور چوٹ کے نشانات سے داغدار تھی۔ شاید ہو سر کو دائیں جانب جھکائے رکھنے کا عادی تھا۔ عمران اس کے قریب ہی میز پر بیٹھ گیا۔
 

سارہ خان

محفلین
صفحہ نمبر 58۔۔۔۔59

ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اسے کسی کا انتظار ہو! کچھ مضطرب بھی تھا۔ عمران نے پھر ایک چیونگم نکال کر منہ میں ڈال لیا۔
اس کا اندازہ غلط نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی چمڑے کی جیکت والے آدمی کے پاس آگیا۔ اور پھر عمران نے اس نے چہرے سے اضطراب کے آثار غائب ہوتے دیکھے۔
" سب چوپٹ ہو رہا ہے"۔ چمڑے کی جیکٹ والا بولا۔
" اس بڈھے کو شق ہو گیا ہے!"۔ دوسرا آدمی بولا۔
عمران ان کی گفتگو صاف سُن رہا تھا۔ جیکٹ والا چند لمحے پُرخیال انداز میں ٹھوڑی کھجاتا رہا پھر بولا۔
" مجھے یقین ہے کے اس کا خیال غلط نہیں ہے! وہ سب کچھ وہیں ہے لیکن ہمارے ساتھی بوڑھے ہیں۔ آوازیں سنتے ہی اس کی روح فنا ہوجاتی ہے"۔
" لیکن بئی! آخر وہ آوازیں ہیں کیسی؟"۔
" کیسی بھی ہوں۔ ہمیں اس کی پروانہ نہیں کرنی چائیے"۔
" اور وہ دونوں کس طرح مرے؟"۔
" یہ چیز!"۔ جیکٹ والا کچھ سوچتے ہوئے بولا۔" ابھی تک میری سمجھ میں نہ آسکی! مرتا وہی ہے جو کام شروع کرتا ہے۔ یہ ہم شروع ہی سے دیکھتے رہے ہیں"۔
" پھر ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟"۔ دوسرے آدمی نے کہا۔
" ہمیں آج یہ معاملہ طے ہی کر لینا ہے!"۔ جیکٹ والا بولا۔" یہ بھی بڑی بات ہے کہ وہاں پہ پولیس کا پہرہ نہیں ہے"۔
" لیکن اس رات کو ہمارے علاوہ اور بھی کوئی وہاں تھا، مجھے تو اس آدمی پر شبہ ہے جو باہر والے کمرے میں رہتا ہے"۔
" اچھا اٹھو۔ ہمیں وقت نہیں برباد کرنا چاہئے"۔
" کچھ پی تو لوں! میں بہت تھک گیا ہوں۔۔۔ کیا پیئو گے۔۔۔ وسکی یا کچھ اور؟"۔
پھر وہ دونوں پیتے رہے اور عمران اٹھ کر قریب ہی ایک پبلک تیلیفون بوتھ میں چلا گیا۔ دوسرے لمحے وہ فیاض کا نجی فون نمبر ڈائیل کر رہا تھا۔
" ہیلو!۔۔۔ ہاں میں ہی ہوں!۔۔۔ خیریت کہاں۔۔ زکام ہوگیا ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ جوشاندہ پی لوں! ۔۔۔ ارے تو اس میں ناراض ہونے کی کیا بات ہے۔ دیگر احوال یہ ہے کہ ایک گھنٹے کے اندر اندر اور عمارے کے گرد مسلح پہرہ لگ جانا چاہئے۔۔۔۔ بس بس آگے مت پوچھو۔ اگر اس کے خالاف ہوا تو آئیندہ شرلاک ہومز ڈاکٹر وانسن کی مدد نہیں کرے گا"۔
ٹیلی فون بوتھ سے واپس آ کر عمران نے پھر اپنی جگہ سنبھال لی۔ جیکٹ والا دوسرے آدمی سے کہہ رہا تھا۔
" بوڑھا پاگل نہیں ہے اس کے اندازے غلط میں ہوتے"۔
" اونہہ ہوگا"۔ دوسرا میز پر خالی گلاس رکھتا ہوا بولا۔" صحیح ہو یا غلط سب جہنم میں جائے لیکن تم اپنی کہو۔ اگر اس لڑکی سے پھر ملاقات ہوگئی تو کیا کرو گے؟"۔
" اوہ"۔ جیکٹ والا ہنسنے لگا۔" معاف کیجئیے گا میں نے آپ کو پہچانا نہیں"۔
" ٹھیک، لیکن اگر وہ پولیس تک پہنچ گئی تو؟"۔
" وہ ہرگز ایسا نہیں کر سکتی۔۔۔ بیان دیتے وقت اسے اس کا اظہار بھی کرنا پڑے گا کہ وہ ایک رات میرے ساتھ اس مکان میں بسر کر چکی ہے۔ اور پھر میرا خیال ہے کہ شاید اس کا ذہن کنجی تک پہنچ ہی نہ سکے"۔
عمران کافی کا آرڈر دے کے دوسرے چیونگم سے شغل کرنے لگا اس کے چہرے سے اسے معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ سارے ماحول سے قطعی بےتعلق ہے۔ لیکن یہ حقیقت تھی کہ ان دونوں کی گفتگو کا ایک ایک لفظ اس کی یادداشت ہضم کرتی جا رہی تھی۔
" تو کیا آج بوڑھا آئے گا؟"۔ دوسرے آدمی نے پوچھا۔
" ہاں آج فیصلہ ہوجائے"۔ جیکٹ والا بولا۔
دونوں اٹھ گئے۔ عمران نے اپنے حلق میں بچی کچھی کافی انڈیل لی۔ بل وہ پہلے ہی ادا کر چکا تھا۔
وہ دونوں باہر نکل کر فٹ پاتھ پر کھڑے ہوگئے اور پھر ان دونوں نے ایک ٹیکسی رکوائی، کچھ دیر بعد ان کی ٹیکسی کے پیچھے ایک دوسری ٹیکسی بھی جا رہی تھی جس کی پچھلی سیٹ پر عمران اکڑوں بیٹھا سر کھجا رہا تھا۔ حماقت انگیز حرکتیں اس سے اکثر تنہائی میں سرزد ہو جاتی تھیں۔
ارکھیم لین میں پہنچ کر اگلی ٹیکسی رُک گئی۔ وہ دونوں اترے اور ایک گلی میں گھس گئے۔یہاں عمران ذرا سا چونک گیا۔ اس نے انہیں گلی میں گھستے ضرور دیکھا تھا۔ لیکن جتنی دیر میں وہ ٹیکسی کا کرایہ چکاتا وہ انہیں کھو چکا تھا!۔
گلی سنسان پڑی تھی۔ آگے بڑھا تو دائنے ہاتھ ایک دوسرے گلی دکھائی دی۔ اب اس دوسری گلی کو طے کرتے وقت اسے احساس ہوا کہ وہاں تو گلیوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ لہذٰا سر مارنا فضول سمجھ کر وہ پھر سڑک پر آگیا۔ اور اس گلی کے سرے سے تھوڑے ہی فاصلے پر رک کر ایک بُک سٹال کے شو کیس میں لگی ہوئی کتابوں کے رنگ برنگ گردپوش دیکھنے لگا، شاید پانچ ہی منٹ بعد ایک ٹیکسی ٹھیک اسی گلی کے دہانے پر رکی اور ایک معمر آدمی اتر کر کرایہ چکانے لگا۔ اس کے چہرے پر بھورے رنگ کی ڈاڑھی تھی۔
 

سارہ خان

محفلین
صفحہ نمبر 60۔۔۔۔۔61



لیکن عمران اس کی پیشانی کی بناوٹ دیکھ کر چونکا۔ شکل بھی جانی پہچانی معلوم ہو رہی تھی۔
جیسے ہی وہ گلی میں گھسا عمران نے بھی اپنے قدم بڑھائے۔ لئی گلیوں سے گزرنے کے بعد بوڑھا ایک دروازے پر دستک دینے لگا! عمران کافی فاصلے پر تھا! اور تاریکہ ہو جانے کی وجہ سے دیکھ لیے جانے کا خدشہ بھی نہیں تھا، وہ ایک دیوار سے چپک کر کھڑا ہوگیا! ادھر دروازہ کھلا اور بوڑھا کچھ بڑبڑاتا ہوا اندر چلا گیا۔ دروازہ پھر بند ہوگیا تھا۔ عمارت دو منزلہ تھی۔ عمران کافی پیچھے تھا لیکن وہ آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ اندر داخل ہونے کے امکانات پر غور کرتے وہ دروازے تک پہنچ گیا۔ اور پھر اس نے کچھ سوچے سمجھے بغیر دروازے سے کان لگا کر آہٹ سننا شروع کر دی لیکن شاید اس کا ستارہ ہی گردش میں آگیا تھا دوسرے ہی لمحے دروازے کے دونوں پٹ کھلے اور دونوں آدمی اس کے سامنے کھڑے تھے۔ اندر مدھم سی روشنی میں ان کے چہرے تو نہ دکھائی دئیے لیکن وہ کافمی مضبوط ہاتھ پیر کے معلوم ہوتے تھے۔
" کون ہے؟"۔ ان میں سے ایک تحکمانہ لہجے میں بولا۔
" مجھے دیر تو نہیں ہوئی"۔ عمران تڑ سے بولا۔
دوسری طرف سے فوراَ ہی جواب نہیں ملا۔ غالباَ یہ سکوت ہچکچاہٹ کا ایک وقفہ تھا۔
" تم کون ہو"۔ دوسری طرف سے سوال پھر دہرایا گیا۔
" تین سو تیرہ"۔ عمران نے احمقوں کی طرح بک دیا۔ لیکن دوسرے لمحے اسے دھیان نہیں تھا! اچانک اسے گریبان سے پکڑ کر اندر کھنچ لیا گیا۔ عمران نے مزاحمت نہیں کی۔
" اب بتاؤ تم کون ہو؟"۔ ایک نے اسے دھکا دے کر کہا۔
" اندر لے چلو"۔ دوسرا بولا۔
وہ دونوں اسے دھکے دیتے ہوئے کمرے میں لے آئے۔ یہاں سات آدمی ایک میز کے گرد بیٹھے ہوئے تھے اور وہ بوڑھا جس کا تعاقب کرتے ہوئے عمران یہاں تک پہنچا تھا شاید سردار کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ وہ میز کے آخری سرے پر تھا۔
وہ سب عمران کو دیکھنے لگے۔ لیکن عمران دونوں آدمیوں کے درمیان میں کھڑا چمڑے کی جیکٹ والے آدمی کو گھور رہا تھا۔
" آہا!"۔ یکایک عمران نے قہقہہ لگایا اور اپنے گول گول دیدے پھرا کر اسے کہنے لگا۔" میں تمیں کبھی نہیں معاف کروں گا۔ تم نے میری محبوبہ کی زندگی برباد کر دی!"۔
" کون ہو تم میں تمھیں نہیں پہچانتا"۔ اس نے تحیر آمیز لہجے میں کہا۔
" لیکن میں تمھیں اچھی طرح پہچانتا ہوں! تم نے میری محبوبہ پر ڈورے ڈالے ہیں۔ میں نہیں بولا! تم نے ایک رات اس کے ساتھ بسر کی میں پھر خاموش رہا لیکن میں اسے کسی طرح برداشت نہیں کر سکتا کہ تم اس سے ملنا جلنا چھوڑ دو"۔
" تم یہاں کیوں آئے ہو؟"۔ دفعتہَ اب بوڑھے نے سوال کیا اور ان دونوں کی گھورنے لگا جو عمران کو لائے تھے۔ انہوں نے سب کچھ بتا دیا۔ اس دوران عمران برابر اپنے مخاطب کو گھورتا رہا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے دوسرے لوگوں سے اسے کوئی سروکار نہیں۔
پھر اچانک کسی کا گھونسا عمران کے جبڑے پر پڑا اور وہ لڑکھڑاتا ہوا کئی قدم پیچھے کھسک گیا! اس نے جھک کر اپنی فلٹ ہیٹ اٹھائی اور اسے اس طرح جھاڑنے لگا جیسے وہ اتفاقاَ اس کے سر سے گِر گئی ہو اور اب وہ جیکٹ والے کو گھورے جارہا تھا۔
" میں کسی عاشقیہ ناول کے سعادت مند رقیب کی طرح تمھارے حق میں دستبردار ہوسکتا ہوں!" عمران نے کہا۔
" بکواس مت کرو"۔ بوڑھا چیخا۔" میں تمھیں اچھی طرح جانتا ہوں! کیا اس رات کو تم ہی وہاں تھے؟"۔
عمران نے اس کی طرف دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی۔
" یہ زندہ بچ کر نہ جانے پائے"۔ بوڑھا کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔
" مگر شرط یہ ہے"۔ عمران مسکرا کر بولا۔" میت کی بےحرمتی نہ ہونے پائے"۔
اس کے حماقت خیز اطمینان میں ذرہ بھر بھی فرق نہ ہونے پایا تھا۔۔۔ تین چار آدمی اس کی طرف لپکے۔ عمران دوسرے ہی لمحے ڈپٹ کر بولا۔" ہینڈز اپ"۔ ساتھ ہی اس کا ہاتھ جیب سے نکلا۔ اس کی طرف جھپٹنے والے پہلے تو جھجکے لیکن پھر انہوں نے بےتحاشہ ہنسنا شروع کر دیا۔ عمران کے ہاتھ میں ریوالور کی بجائے ربڑ کی ایک گڑیا تھی۔ پھر بوڑھے کی ایک گرج دار آواز نے انہیں خاموش کر دیا اور وہ پھر عمران کی طرف بڑھے۔ جیسے ہی اس کے قریب پہنچے عمران نے گڑیا کا پیٹ دبا دیا اس کا منہ کھلا اور پیلے رنگ کا گہرا غبارہ اس میں سے نکل کر تین چار فٹ کے دائرے میں پھیل گیا۔۔۔۔۔ وہ چاروں بےتحاشہ کھانستے ہوئے وہیں ڈھیر ہوگئے۔
" جانے نہ پائے"۔ بوڑھا پھر چیخا۔
دوسر لمحے میں عمران نے کافی وزنی چیز الیکٹرک لیمپ پر کھینچ ماری۔۔ اور زوردار آواز کے ساتھ بلب پھٹا اور کمرے میں اندھیرا پھیل گیا۔
عمران اپنی ناک پر رومال رکھے ہوئے دیوار کے سہارے میز کی سرے کی طرف کھسک رہا تھا، کمرے میں اچھا خاصہ ہنگامہ بھرپا ہوگیا تھا۔ شاید وہ اندھیرے میں ایک دوسرے پر گھونسہ بازی کی مشک کرنے لگے تھے، عمران کا ہاتھ آہستہ سے میز کے سرے پر رینگ گیا اور اسے ناکامی نہیں ہوئی جس چیز پر شروع سے ہی اس کی نظر رہی تھی۔ اس کے ہاتھ آچکی تھی۔ یہ بوڑھے کا چری ہینڈ بیگ تھا۔
 

سارہ خان

محفلین
صفحہ نمبر 62 ۔۔۔63

واپسنی میں کسی نے کمرے کے دروازے پر اس کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کی لیکن عمران اس کے سامنے کے دو تین دانتوں کو روتا ہوا چلا گیا۔ عمران جلس دے جلد کمرے سے باہر نکل جانا چاہتا تھا کیونکہ اس کے حلق میں بھی جلن ہونے لگی تھی۔ گڑیا سے نکلا ہوا غبارہ پورے کمرے میں پھیل گیا تھا۔
کھانسیوں اور گالیوں کا شور پیچھے چھوڑتا ہوا وہ بیرونی دروازے تک پہنچ گیا۔ گلی میں نکلتے ہی قریب کی ایک دوسری گلی میں گھس گیا۔ فالحال سڑک پر نکلنا خطرناک تھا۔ وہ گافی دیر گھومتا ہوا گلی سے ایک دوسری سڑک پر آگیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ٹیکسی میں بیٹھا اس طرح اپنے ہونٹ رگڑ رہا تھا جیسے سچ مچ اپنی محبوبہ سے ملنے کے بعد لپ سٹک کے نشان چھڑا رہا ہو۔

۱۰​

دوسری صبح کیپٹن فیاض کے لیے ایک دوسرے درد سری لے کر آئی۔ حالات ہی ایسے تھے کے براہِ راست اسے ہی اس معاملے میں الجھنا پڑا۔ ورنہ پہلے تو معاملہ سول پولیس کے ہاتھ میں جاتا تھا۔ بات یہ تھی کہ اس خوفناک عمارت کے قریباَ ایک یا ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر ایک نوجوان کی لاش پائی گئی۔ جس کے جسم پر کتھئ پتلون اور چمڑے کی جیکٹ تھی۔ کیپٹن فیاض نے عمران کی ہدایت کے مطابق پچھلی رات کو پھر عمارت کی نگرانی کے لیے کانسٹبیلوں کا ایک دستہ تعینات کروادیا۔ ان کی رپوڑٹ تھی کہ اس رات عمارت کے قریب کوئی نہیں آیا اور نہ ہی انہوں نے قرب و جوار میں کسی کی آواز سنی لیکن پھر بھی عمارت سے تھوڑے فاصلے پر صبح کو ایک لاش پائی گئی۔
جب کیپٹن فیاض کو لاش کی اطلاع ملی تو اس نے سوچنا شروع کر دیا کہ عمران نے عمارت کے آس پاس مسلح پہرہ بٹھانے کی تجویز کیوں پیش کی؟
اس نے وہاں پہنچ کر لاش کا معائنہ کیا۔ کسی نے مقتول کی داہنی کن پٹی پر گولی ماری تھی۔ کانسٹیبلوں نے بتایا کہ انہوں نے پچھلی رات گولیوں کی آواز بھی نہیں سنی تھی۔
کیپٹن فیاض وہاں سے بوکھلایا ہوا عمران کی طرف چل دیا۔ اسکی طبعیت بری طرح جھلائی ہوئی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ عمران نے کوئی ڈھنگ کی بات بتانے کی بجائے میر و غالب کے اوٹ پٹانگ شعر سنانا شروع کر دئیے تو کیا ہوگا۔ بعض اوقات اس کی بےتکی باتوں پر اس کا دل چاہتا تھا کہ اسے گولی مار دے پر اس کی شہرت کا کیا ہوتا۔ اس کی ساری شہرت عمران کے دم سے تھی اور وہ اس کے لیے کئی پیچیدہ مسائل سلجھا چکا تھا۔ بہرحال کام عمران کرتا تھا اور اخباران میں نام فیاض کا آتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے عمران کا سب کچھ برداشت کرنا پڑتا تھا۔
عمران اسے گھر پر ہی مل گیا!۔۔۔لیکن عجیب حالت میں۔۔۔۔ وہ اپنے نوکر سلیمان کے سر پر کنگا کر رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ وہ کسی دوراندیش ماں کے سے انداز میں اسے نصحیتیں بھی کئے جا رہا تھا۔ جیسے ہی فیاض کمرے میں داخل ہوا۔ عمران نے سلیمان کی پیٹھ پر گھونسا جھاڑ کر کہ۔" ابے تو نے بتایا نہیں کہ صبح ہوگئی"۔
سلیمان ہنستا ہوا بھاگ گیا۔
" عمران تم آدمی کب بنو گے"۔ فیاض ایک صوفے پرگِرتا ہوا بولا۔
" آدمی بننے میں مجھے کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔۔۔ البتہ میں تھانےدار بننا ضرور پسند کروں گا"۔
" میری طرف سے جہنم میں جانا پسند کرو لیکن یہ بتاؤ کے تم نے پچھلی رات اس عمارت پر پہرہ کیوں لگوایا تھا؟"۔
" مجھے کچھ یاد نہیں"۔ عمران مایوسی سے سر ہلا کر بولا۔" کیا واقعی میں ایسی کوئی حرکت کی تھی؟"۔
" عمران"۔ فیاض بگڑ کر بولا۔" اگر میں آئیندہ تم سے کوئی مدد لوں تو مجھ پر ہزار بار لعنت"۔
" ہزار کم ہیں"۔ عمران سنجیدگی سے بولا۔" کچھ اور بڑھاؤ تو میں کچھ غور کرنے کی کوشش کروں گا"۔ فیاض کی قوتِ برداشت جواب دے گئی اور وہ گرج کر بولا۔
" جانتے ہو، وہاں صبح ایک فرلانگ کے فاصلے پر ایک لاش ملی ہے"۔
" ارے توبہ"۔ عمران اپنا منہ پیٹنے لگا۔
کیپٹن فیاض کہتا رہا۔" تم مجھے اندھیرے میں رکھ کر ناجانے کیا کرنا چاہتے ہو۔ حالات اگر اور بگڑے تو مجھے ہی سنبھالنے پڑیں گے لیکن کتنی پریشانی ہوگی۔ کسی نے اس کی داہنی کن پٹی پر گولی مار دی ہے، نہیں سمجھ سکتا کہ یہ حرکت کس کی ہے"۔
" عمران کے علاوہ اور کس کی ہو سکتی ہے!"۔ عمران بڑبڑایا پھر سنجیدگی سے پوچھا۔" پہرہ تھا وہاں؟"۔
" تھا۔۔۔۔ میں نے رات ہی میں یہ کام کیا تھا"۔
" پہرے والوں کی رپورٹ؟"۔
" کچھ بھی نہیں! انہوں نے فائر کی آواز بھی نہیں سنی"۔
" میں یہ نہیں پوچھ رہا۔۔ کیا کل بھی کسی نے عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی"۔
" نہیں۔۔۔ لیکن میں اس لاش کی بات کر رہا ہوں"۔
" کئے جاؤ۔ میں تمھیں نہیں روکتا۔ لیکن میرے سوالات کے جوابات بھی دئیے جاؤ۔ قبر کے مجاور کی کیا خبر ہے!۔۔۔ وہ اب بھی وہیں موجود ہے کہ غائب ہوگیا!"۔
 

سارہ خان

محفلین
صفحہ نمبر 64۔۔۔65

" عمران خدا کے لیے تنگ نہ کرو"۔
" اچھا تو علم عمران ایم۔ایس۔سی۔پی۔ایچ۔ڈی کوئی گفتگو نہیں چاہتا"۔
" تم آخر اس خبطی کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو"۔
" خیر جانے دو۔ اب مجھے اس کے متعلق کچھ اور بتاؤ"۔
" کیا بتاؤں!۔۔۔ بتا تو چکا۔۔۔ صورت سے بُرا آدمی نہیں معلوم ہوتا خوبصورت اور قدآور، جسم پر چمڑے کی جیکٹ اور کتھئی رنگ کی پتلون!"۔
" کیا؟"۔ عمران چونک پڑا۔ اور چند لمحے اپنے ہونت سیٹی بجانے والے انداز میں سکڑ کر فیاض کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
بے خطر کوس پڑا آتشِ نمرود میں عشق۔۔۔۔ نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
" کیا بکواس ہے!"۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔" اول تو تمھیں اشعار ٹھیک یاد نہیں پھر یہاں کہنے کا موقعہ کب تھا۔۔۔ عمران میرا بس چلے تو میں تمھیں گولی ماردوں"۔
" کیوں شعر میں کیا غلطی ہے؟"۔
" مجھے شاعری سے دلچسپی نہیں لیکن مجھے دونوں مصرعے بےربط معلوم ہوتے ہیں۔ لا حول ولا قوہ میں بھی انہیں لغویات میں الجھ گیا۔ خدا کے لیے کام کی باتیں کرو۔ تم نےجانے کیا کہہ رہے ہو!"۔
" میں آج رات کو کام کی بات کروں گا اور تم میرے ساتھ ہوگے لیکن ایک سیکنڈ کے لیے بھی وہاں سے پہرہ نہ ہٹایا جائے۔ تمھارا ایک آدمی پر وقت مجاور کے کمرے میں موجود ہونا چاہئے۔بس اب جاؤ!۔۔۔ میں چائے پی چکا ہوں ورنہ تمھاری کافی مدارت کرتا۔ ہاں محبوبہ کو ایک پیغام پینچا دینا کہ رقیب رو سیاہ کا سفایا ہوگیا! باقی سب خیریت ہے!"۔
" عمران میں آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑوں گا! تمھیں ابھی اور اسی وقت سب کچھ بتانا پڑے گا"۔
" اچھا تو سنو۔۔۔ لیڈی جہانگیز بیوہ ہونے والی ہے!۔۔۔ اس کے بعد تم کوشش کرو گے کہ شادی اس کے ساتھ ہوجائے۔۔۔ کیا سمجھے؟"۔
" عمران!"۔ فیاض یک بیک مار بیٹھنے کے انداز میں سنجیدہ ہوگیا۔
" یس باس"۔
" بکواس بند کرو۔ میں ابھی تمھاری زندگی تلخ کردوں گا"۔
" بھلا وہ کس طرح سوپر فیاض؟"۔
" نہایت آسانی ہے!"۔ فیاض سگریٹ لگا کر بولا۔" تمھارے گھر والوں کو شبہ ہے کہ تم سارا وقت آوارگی اور عیاشی میں گزارتے ہو! لیکن کسی کے پاس اس کا ٹھوس ثبوت نہیں۔۔۔ میں ثبوت مہیا کر دونگا۔
ایک ایسی عورت کا انتظام کر لینا میرے لیے مشکل نہ ہوگا جو براہِراست تمھاری اماں بی بی کے پاس پہنچ کر اپنے لٹنے کی داستان بیان کردے"۔
" اوہ"۔ عمران نے تشویش آمیز انداز میں اپنے ہونٹ سکوڑ لیے پھر آہستہ سے بولا۔
" اماں بی بی کی جوتیاں آل پروف ہیں۔ خیر سوپر فیاض یہ بھی کر کے دیکھ لو تم مجھے ایک صابر اور شاکر فرزند پاؤگے!۔۔ لو چیونگم سے شوق کرو"۔
" اس گھر میں ٹھکانہ نہیں ہوگا تمھارا۔۔۔۔"۔ فیاض بولا۔
" تمھارا گھر تو موجود ہی ہے"۔ عمران بولا۔
" تو تم نہیں بتاؤ گے"۔
" ظاہر ہے"۔
" اچھا! تو اب تم ان معاملات میں دخل نہیں دوگے میں خود ہی دیکھ لونگا"۔ فیاض اٹھتے ہوئے خشک لہجے میں بولا۔" اور اگر تم اس کے بعد بھی اپنی ٹانگ اڑاتے رہے تو میں تمھیں قانونی گرفت میں لے لونگا"۔
" یہ گرفت ٹانگوں میں ہوگی یا گردن میں!"۔ عمران نے سنجیدگی سے پوچھا۔ چند لمحے فیاض کو گھورتا رہا پھر بولا۔" ٹھہرو!"۔ فیاض رُک کر اس اسے بےبسی سے دیکھنے لگا۔۔۔۔ عمران نے الماری کھول کر اسے وہی چرمی بیگ نکالا جسے وہ کچھ نامعلوم افراد کے درمیان سے پچھلی رات کو اُڑا لایا تھا۔ اس نے ہینڈ بیگ کھول کر چند کاغذات نکالے اور فیاض کی طرف بڑھا دئیے۔ فیاض نے جیسے ہی ایک کاغذ کی تہہ کھولی بے اختیار اچھل پڑا۔۔۔۔ اب وہ دوسرے کاغذات پر بھی نظریں دوڑا رہا تھا۔
" یہ تمھیں کہاں سے ملے؟"۔ فیاض تقریباَ ہانپتا ہوا بولا۔ شدتِ جوش سے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔
" ایک ردیفروش کی دکان پر۔۔۔ بڑی دشواری سے ملے ہیں ورنہ وہ دو آنہ سیر کے حساب سے"۔
" عمران خدا کےلیے"۔ فیاض تھوک نگل کر بولا۔
" کیا کر سکتا ہے بےچارہ عمران!"۔ عمران نے خشک لہجے میں کہا۔" وہ اپنی ٹانگیں اڑانے لگا تو تم اسے اپنی قانونی گرفت میں لے لو گے"۔
" پیارے عمران! خدا کے لیے سنجیدہ ہوجاؤ"۔
" اتنا سنجیدہ ہوں کہ تم مجھے بی پی کی ٹافیاں کھلا سکتے ہو"
 

سارہ خان

محفلین
صفحہ نمبر 66۔۔۔67
" یہ کاغذات تمھیں کہاں سے ملے ہیں؟"۔
" سڑک پر پڑے ہوئے ملے تھے اور اب میں نے انہیں قانون کے ہاتھوں میں پہنچا دیا۔ قانون کا کام ہے کہ وہ ایسے ہاتھ تلاش کرے جن میں ہتھ کڑیاں لگا سکے"۔
فیاض نےبسی سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔
" لیکن اسے سن لو"۔ عمران قہقہہ لگا کر بولا۔" قانون کے فرشتے بھی ان لوگوں تک نہیں پہنچ سکتے"۔
" اچھا تو یہی بتا دو کہ ان معاملات سے ان کاغذات کا کیا تعلق؟"۔ فیاض نے پوچھا۔
" یہ تمھیں معلوم ہونا چاہئے"۔ عمران دفعتہَ سنجیدہ ہوگیا۔" اتنا میں جانتا ہوں کہ یہ کاغذات فارن آفس سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کا اُن بدمعاشوں کے پاس ہونا کیا معنی رکھتا ہے"۔ عمران بولا۔
" کن بدمعاشوں کے پاس؟"۔ فیاض چونک کر بولا۔
" وہی۔۔۔ اس عمارت میں"۔
" میرے خدا!"۔۔۔۔ فیاض مضطربانہ انداز میں بڑبڑایا۔ لیکن تمھارے ہاتھ کس طرح لگے"۔
عمران نے پچھلی رات کے واقعات دہرا دیئے! اس دوران فیاض بےچینی سے سنتا رہا، کبھی کبھی وہ رک کر عمران کو گھورنے لگتا! عمران اپنی بات ختم کر چکا تو اس نے کہا۔
" افسوس۔۔۔ تم نے بہت برا کیا۔۔۔ تم نے مجھے کل یہ اطلاع کیوں نہیں دی"۔
" تو اب دے رہا ہوں اطلاع۔ اس مکان کا پتہ بھی بتادیا جو کچھ بن پڑے کر لو"۔ عمران نے کہا۔
" اب کیا وہاں خاک پھانکنے جاؤں"۔
" ہاں ہاں کیا حرج ہے"۔
" جانتے ہو یہ کاغذات کیسے ہیں"۔ فیاض نے کہا۔
" اچھے خاصے ہیں۔ ردی کے بھاؤ بک سکتے ہیں"۔
" اچھا تو میں چلا!"۔ فیاض کاغذ سمیٹ کر چرمی جیکٹ میں رکھتا ہوا بولا۔
" کیا انہیں اس طرح لے جاؤ گے!"۔ عمران نے کہا۔" نہیں ایسا نہ کرو مجھے ابھی قاتلوں کا بھی سراغ لگانا پڑے"۔
" کیوں؟"۔
" فون کر کے پولیس کی گاڑی منگواؤ"۔ عمران ہنس کر بولا۔" کل رات سے وہ لوگ اس کی تلاش میں ہیں۔ میں رات بھر گھر سے باہر ہی رہا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت مکان کی نگرانی ہو رہی ہوگی! خیر اب تم مجھے بتا سکتے ہو کہ کاغذات کیسے ہیں"۔
فیاض پھر بیٹھ گیا۔ اب وہ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کہا۔
" سات سال پہلے ان کاغذات پر ڈاکہ پڑا تھا۔ لیکن ان میں سب نہیں ہیں۔ فارن آفس کا ایک افسر انہیں لے کر سفر کر رہا تھا۔۔۔۔ یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ کہاں اور کس مقصد سے جا رہا تھا کیونکہ یہ حکومت کا راز ہے۔۔۔ آفیسر ختم کر دیا گیا تھا۔ اس کی لاش مل گئی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ سکرٹ سروس کا ایک آدمی بھی تھا، اس کے متعلق آج تک نہ معلوم ہو سکا۔۔۔۔ شاید وہ بھی مار ڈالا گیا ہو۔۔۔۔ لیکن اس کی لاش نہیں ملی"۔
" آہا۔۔۔ تب تو یہ بہت بڑا کھیل ہے۔۔"۔ عمران کچھ سوچتا ہوا بولا۔" لیکن میں جلد ہی اسے ختم کرنے کی کوشش کرونگا"۔
" تم اب کیا کرو گے؟"۔
" ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا!"۔ عمران نے کہا۔" اور سنو ان کاغذات کو ابھی اپنے پاس ہی دبائے رہو اور ہینڈ بیگ میرے پاس رہنے دو۔ مگر نہیں اسے بھی لے جاؤ!۔۔۔ میرے ذہن میں کئی تدبیریں ہیں! اور ہاں۔۔۔ اس عمارت کے گرد دن رات پہرہ رہنا چاہئے"۔
" آخر کیوں؟"۔
" وہاں تمھارا مقبرہ بنواؤنگا"۔ عمران جھنجھلا کر بولا۔
فیاض اُٹھ کر پولیس کی کار منگوانے کے لیے فون کرنے لگا۔

۱۱​

اسی رات کو فیاض بوکھلایا ہوا فیاض کے گھر پہنچا۔ فیاض سونے کی تیاری کر رہا تھا۔ ایسے موقع پر اگر عمران کے بجائے کوئی اور ہوتا تو وہ بڑی بداخلاقی سے پیش آتا۔ لیکن عمران کا معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ اس کی بدولت آج اس کے ہاتھ ایسے کاغذات لگے تھے جن کی تلاش میں عرصے سے محکمہ سراغراسنی سر مار رہا تھا۔ فیاض نے اسے اپنے سونے کے کمرے میں بلوایا۔
" کیا بات ہے۔۔۔ کہو؟"۔
عمران ٹھنڈی سانس کے کر بولا۔" کیا تم کبھی کبھی میری قبر پر آیا کرو گے؟"۔
فیاض کا دل چاہ رہا تھا کہ اس کا سر دیوار سے ٹکرا کر سچ مچ اس کو قبر تک جانے کا موقع مہیا کرے! وہ کچھ کہنے کی بجائے عمران کو گھورتا رہا۔
" آہ! تم خاموش ہو!"۔ عمران کسی ناکام عاشق کی طرح بولا۔" میں سمجھا! تمھیں شاید کسی اور سے پریم ہوگیا ہے"
 

سارہ خان

محفلین
صفحہ نمبر 68۔۔۔69

" عمران کے بچے"۔
" رحمان کے بچے!"۔ عمران نے جلدی سے تصحیح کی۔
" تم کیا میری زندگی تلخ کیے ہوئے ہو"۔
" اوہو! کیا تمھاری مادہ دوسرے کمرے میں سوئی ہوئی ہے"۔ عمران چاروں طرف دیکھتا ہوا بولا۔
" بکواس مت کرو۔۔۔ اس وقت کیوں آئے ہو"۔
" ایک عشقیہ خط دکھانے کے لیے"۔ عمران جیب سے لفافہ نکالتے ہوئے بولا۔
فیاض نے اس کے ہاتھ سے خط لے کر جھلاہٹ میں پھاڑنا چاہا۔
" ہاں، ہاں!"۔ عمران نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔" ارے پہلے پڑھو تو میری جان مزہ نہ آئے تو محصول ڈاک بذمہ خریدار"۔
فیاض نے خط نکالا۔۔۔۔ اور پھر جیسے ہی اس کی نظریں اس پر پڑیں۔ بیزاری کی سارہ علامتیں غائب ہوگئیں اور اس کی جگہ اس تعاجب نے لےلی۔ خط ٹائپ کیا ہوا تھا۔
" عمران !۔۔۔ اگر وہ چرمی ہینڈ بیگ یا اس کے اندر کی کوئی چیز پولیس تک پہنچی تو تمھاری شامت آجائے گی! اسے واپس کر دو۔۔۔ بہتری اسی میں ہے ورنہ کہیں۔۔۔ کسی جگہ موت سے ملاقات ضرور ہوگی۔ آج رات کو گیارہ بجے ریس کورس کے قریب ملو، ہینڈ بیگ تمھارے ساتھ ہونا چاہیے! اکیلے ہی آنا! ورنہ اگر تم پانچ ہزار آدمی بھی ساتھ لاؤ گے تو تب بھی گولی تمھارے ہی سینے میں پڑے گی"۔
فیاض خط پڑھ چکنے کے بعد عمران کی طرف دیکھنے لگا۔
" لاؤ۔۔۔۔ اسے واپس کردو"۔ عمران نے کہا۔
" پاگل ہوگئے ہو"۔
"ہاں"۔
" تم ڈر گئے"۔ فیاض ہنسنے لگا۔
" ہارٹ فیل ہوتے ہوتے بچا ہے"۔ عمران ناک کے بل بولا۔
" ریوالور ہے تمھارے پاس؟"۔
" ریوالور!"۔ عمران اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونستے ہوئے بولا۔" ارے باپ رے"۔
" بس کرو"۔ عمران برا سا منہ بنا کر بولا۔" اس میں آواز بھی ہوتی ہے اور دھواں بھی نکلتا ہے! میرا دل بہت کمزور ہے! لاؤ ہینڈ بیگ واپس کردو"۔
" کیا بچوں کی سی باتیں کر رہے ہو"۔
" اچھا تو تم نہیں دوگے"۔ عمران آنکھیں نکال کر بولا۔
" فضول مت بکو مجھے نیند آرہی ہے"۔
" ارے واہ۔۔۔ فیاض صاحب! ابھی میری شادی نہیں ہوئی اور میں باپ بنے بغیر مرنا پسند نہیں کرونگا"۔
" ہینڈ بیگ تمھارے والد کے آفس میں بھیج دیا گیا ہے"۔
" تب انہیں اپنے جوان بیٹے کی لاش پر آنسو بہانے پڑیں گے! کنفوشش نے کہا تھا"۔
" جاؤ یار خدا کے لیے سونے دو"۔
" گیارہ بجنے میں صرف پانچ منٹ رہ گئے ہیں"۔ عمران گھڑی کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔
" اچھا! چلو تم بھی یہیں سو جاؤ"۔ فیاض نے بےبسی سے کہا۔
کچھ دیر خاموشی ہی رہی پھر عمران نے کہا۔" کیا اس عمارت کے گرد اب بھی پہرہ ہے؟"۔
" ہاں!۔۔۔۔ کچھ اور آدمی بڑھا دیئے گئے ہیں لیکن آخر تم یہ سب کیوں کر رہے ہو۔ آفیسر مجھ سے اس کا سبب پوچھتے رہتے ہیں اور میں ٹالتا رہتا ہوں"۔
" اچھا تو اٹھو! یہ کھیل بھی اسی وقت ختم کر دیں! تیس منٹ میں ہم وہاں پہنچیں گے باقی بچے بیس منٹ! گیارہ سوا گیارہ بجے تک سب کچھ ہوجانا چاہئے"۔
" کیا ہونا چاہئے؟"۔
" ساڑھے گیارہ بجے بتاؤں گا۔۔۔! اٹھو!۔۔ میں اس وقت عالمِ تصور میں تمھارا عہدہ بڑھتا ہوا دیکھ رہا ہوں"۔
" آخر کیوں؟ کیوئی خاص بات؟"۔
" علی عمران ایم۔ایس۔سی۔پی۔ایچ۔ڈی۔ کبھی کوئی عام بات نہیں کرتا۔ سمجھے ناؤ گٹ اپ!"۔
فیاض نے لباس تبدیل کیا۔
تھوڑی دیر بعد اس کی موٹر سائیکل بڑی تیزی سے اس دیہی علاقے کی طرف جا رہی تھی جہاں وہ عمارت تھی! عمارت کے قریب پہنچ کر عمران نے فیاض سے کہا۔
" تمھیں صرف اتنا کرنا ہے کہ تم اس وقت تک قبر کے مجاور کو باتوں میں الجھائے رکھو جب تک میں واپس نہ آجاؤں۔ سمجھے! اس کے کمرے میں جاؤ ایک سیکنڈ کے لیے بھی اس کا ساتھ نہ چھوڑنا"۔

۱۲​

عمارت کے گرد مسلح پہرہ تھا۔۔۔! دستے کے انچارج نے فیاض کو پہچان کر سلیوٹ کیا۔ فیاض
 

سارہ خان

محفلین
صفحہ نمبر 70۔۔۔71
نے اس سے چند سرکاری قسم کی رسمی باتیں کیں اور سیدھا مجاور کے ۃجرے کی طرف چلا گیا اس کے دروازے کھلے ہوءے تھے اور اندر مجاور غالبأ مراقبے کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا فیاض کی ٓہٹ پر اس نے ٓنکھیں کھول دیں جو انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔۔
"کیا ہے اس نے جھلاءے ہوءے لہجہ میں کہا ۔۔
" کچھ نہیں میں دیکھنے ٓیا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہے یا نہیں "فیاض بولا۔۔
" میری سمجھ میں نہیںآتا کہ آ خر یہ ہو کیا رہا ہے انہی گدھوں کی طرح دیوانی ہو گءی ہے"۔۔
"کن گدھوں کی طرح"۔۔
" وہ ہی جو سمجھتے ہیں شہید مرد کی قبر میں خزانہ ہے۔۔"
" کچھ بھی ہو" فیاض بولا " ہم نہیں چاہتے کہ یہاں سے روزانہ لاشیں بر آمد ہوں اگر ضرورت سمجھی تو قبر کھدواءی جاءے
گی۔۔۔"
" بھسم ہو جاﷺگے " مجاور گرج کر بولا " خون تھوکوگے ۔۔۔۔ مروگے۔۔"
" کیا سچ مچ اس میں خزانہ ہے۔۔"
اس پر مجاور پھر گرجنے برسنے لگا۔!۔۔فیاض بار بار گھڑی کی طرف دیکھتا جا رہا تھا عمران کو گءے پندرہ منٹ ہو چکے تھے ۔۔ وہ مجاور کو باتوں میں الجھاءے رہا !۔۔۔۔اچانک ایک عجیب قسم کی آواز آءی ! مجاور اچھل کر مڑا ۔۔ اس کی پشت کی طرف دیوار میں ایک بڑا سا خلا نظر آرہا تھا !۔۔۔فیاض بوکھلا کر کھڑا ہو گیا وہ سوچ رہا تھا کہ یک بیک دیوار کو کیا ہو گیا۔۔۔وہ اس سے پہلے بھی کءی بار اس کمرے میں آیا تھا لیکن اسے بھول کر بھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ یہاں کوءی چور دروازہ بھی ہو سکتا ہے ۔۔مجاور چیخ مار کر اس دروازے میں گھستا چلا گیا ! ۔۔ فیاض بری طرح بوکھلا گیا تھا ۔۔ اس نے جیب سے ٹارچ نکالی اور پھر وہ بھی اس دروازے میں داخل ہو گیا! ۔۔۔ یہاں چاروں طرف اندھیرا تھا ۔۔ شاید کسی تھہ خانے میں چل رہا تھا ۔۔ کچھ دور چلنے کے بعد سیڑھیاں نظر آءیں۔۔۔۔یہاں قبرستاں کی طرح خاموشی تھی !۔۔۔۔اور جب وہ اوپر پہنچا تو اس نے خود کو مرشد مرد کی طرح برآمد ہوتے پایا جس کا تعویذ کسی صندوق کے ڈھکن کی طرح سیدھا اٹھا ہوا تھا۔۔۔
ٹارچ کی روشنی کا داءرہ صحن میں چاروں طرف گردش کر رہا تھا ۔۔ پھر فیاض نے مجاور کو کمرے سے نکلتے دیکھا۔۔۔
" تم لوگوں نے مجھے برباد کر دیا" وہ فیاض کو دیکھ کر چیخا " آﷺ اپنے کرتوت دیکھ لو" ۔۔ وہ کمرے میں گھس گیا ۔۔فیاض تیزی سے اس کی طرف جھپٹا۔۔
ٹارچ کی روشنی دیوار پر پڑی ۔۔ یہاں کا بہت سا پلاسٹڑ ادھڑا ہوا تھا اور اسی جگہ پانچ پانچ انچ کے فاصلے پر تیں بڑی پھیریاں نصب تھیں ۔۔فیاض اگے بڑھا! ادھڑے ہوئے پلاسٹر کے پیچھے ایک بڑا سا خانہ تھا-ان چھریوں کے دوسرے سرے اسی میں غائب ہوگئے تھے۔اب چھریوں کے علاوہ اس خانہ میں اور کچھ نہیں تھا-
مجاور قہر آلود نظروں سے فیاض کو گھور رہاتھا!-
“ یہ سب کیا ہے “فیاض مجاور کو گھور کر بولا-
مجاور نے اس ظرح کھنکار کر گلا صاف کیا جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو- لیکن خلاف توقع اس نے فیاض کے سینے پر زوردار ٹکر ماری اور اچھل کر بھاگا!- فیاض چاروں شانے چت گر گیا- لیکن سنبھلنے سے پہلے اس کا دایاں ہاتھ ۔۔ہولسٹر سے ریوالور نکال چکا تھا-لیکن بے کار مجاور قبر میں چھلانگ لگا چکا تھا-
فیاض اٹھ کر قبر کی طرف بھاگا-لیکن مجاور کے کمرے میں پہنچ کر بھی اس کا نشان نہ ملا۔۔وہ کمرے سے باہر نکل آیا- ڈیوٹی کانستیبل بدستور اپنی جگہوں پر موجاد تھے-انہوں نے کسی بھاگتے ہوئے آدمی کے متعلق لا علمی ظاہر کی - ان کا خیال تھا کہ عمارت کے باہر کوئی نکلا ہی نہیں -
آخر اسے عمران کا خیال آیا- وہ کہاں گیا تھا- کہیں یہ اس کی حرکت نہ ہو- اس خفیہ خانے میں کیا چیز تھی- اب سارے معاملات فیاض کے ذہن میں صاف ہو گئے تھے- لاش کا راز، تیں ذخم جین کا درمیانی فاصلہ پانچ پانچ انچ تھا! دفعتاً کسی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا- فیاض چانک کر مڑا- عمران کھڑا بری طرح منہ بسور رہا تھا-
“ تو یہ تم تھے-“ فیاض اسے نیچے سے اوپر گھورتا ہو بہ لا-
“ میں تھا نہیں ابھی ہوں - توقع ہے کہ ابھی دو چار دن تک زندہ رہوں گا“-
“ وہاں سے کیا نکالا تم نے “
“ چوٹ ہوگئی پیارے فرماؤ“ عمران بھرائی ہوئی آواز میں بولا- وہ مجھ سے پہلے ہی ہاتھ صاف کر گئے- میں نے تو بعد میں ذرا اس خفیہ خانے کے میکینزم پر غور کرنا چاہا تھا کہ ایک کھٹکے کو ہاتھ لگاتے ہی قبر تڑخ گئی-!“ -
“ لیکن وہاں تھا کیا“ -
“ وہ بقیہ کاغذات جو اس چرمی ہینڈ بیگ میں نہیں تھے“ -
“کیا“ ارے او احمق پہلے کیوں نہیں بتایا- فیاض اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر بولا-“ لیکن وہ اندر گھسے کس طرح “-“
“ آؤ دکھاؤں “ عمران ایک طرٍف بڑھتا ہوا بولا- وہ فیاض کو عمارت کے مغربی گوشے کی سمت لایا!یہاں دیوار سے ملی ہوئی قد آدم جھاڑیاں تھیں -عمران نے جھاڑیاں ہٹا کر ٹارچ روشن کی -فیاض کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا-دیوار مٰن اتنی بڑی نقب تھی کہ ایک آدمی بیٹھ کر-
 

قیصرانی

لائبریرین
باآسانی اس سے گذر سکتا تھا۔

"یہ تو بہت برا ہوا۔" فیاض بڑبڑایا۔

"اور وہ پہنچا ہوا فقیر کہاں ہے؟"

"وہ بھی نکل گیا! لیکن تم کس طرح اندر پہنچے تھے۔"

"اسی راستے سے! آج ہی مجھے ان جھاڑیوں کا خیال آیا تھا۔"

"اب کیا کرو گے بقیہ کاغذات!" فیاض نے بے بسی سے کہا۔

"بقیہ کاغذات بھی انہیں واپس کردوں گا۔ بھلا آدھے کاغذات کس کام کے۔ جس کے پاس رہیں، پورے رہیں۔ اس کے بعد میں باقی زندگی گذارنے کے لئے قبر اپنے نام الاٹ کرالوں گا۔"
 

قیصرانی

لائبریرین
۱۳​

عمران کےکمرے میں فون کی گھنٹی بڑی دیر سے بج رہی تھی۔ وہ قریب ہی بیٹھا ہوا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ اس نے گھنٹی کی طرف دھیان تک نہ کیا پھر آخر گھنٹی جب بجتی ہی چلی گئی تو وہ کتاب میز پر پٹخ کر اپنے نوکر سلیمان کو پکارنے لگا۔

"جی سرکار!" سلیمان کمرے میں داخل ہوکربولا۔

"ابے دیکھ یہ کون الو کا پٹھا گھنٹی بجا رہا ہے۔"

"سرکار فون ہے۔"

"فون!" عمران چونک کر فون کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔ "اسے اٹھا کر سڑک پر پھینک دے۔

سلیمان نے ریسیو اس کی طرف بڑھا دیا۔

"ہیلو!" عمران ماؤتھ پیس میں بولا۔ "ہاں ہاں عمران نہیں تو کیا کتابھونک رہاہے۔"

"تم کل رات ریس کورس کے قریب کیوں نہیں ملے؟" دوسری طرف سے آواز آئی۔

"بھاگ جاؤ گدھے۔" عمران نے ماؤتھ پیس پر ہاتھ رکھے بغیر سلیمان سے کہا۔

"کیا کہا!" دوسری طرف سے غراہٹ سنائی دی۔

"اوہ۔ وہ تو میں نے سلیمان سے کہا تھا!۔۔۔ میرا نوکر ہے۔۔۔ ہاں تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پچھلی رات کو ریس کورس کیوں نہیں گیا۔"

"میں تم سے پوچھ رہا ہوں۔"

"تو سنو میرے دوست!" عمران نے کہا۔ "میں نے اتنی محنت مفت نہیں کی۔ ہینڈ بیگ کی قیمت دس ہزار لگ چلی ہے۔ اگر تم کچھ بڑھو تو میں سودا کرنے کو تیار ہوں۔"

"شامت آگئی ہے تمہاری۔"

"ہاں ملی! مجھے بہت پسندآئی۔" عمران نے آنکھ مار کر کہا۔

"آج رات تمہارا انتظار کیا جائے گا۔ اس کے بعد کل کسی وقت تمہاری لاش شہر کے کسی گٹر میں بہہ رہی ہوگی۔"ارے باپ! تم نے اچھا کیا کہ بتا دیا اب میں کفن ساتھ لئے بغیر گھر سے باہر نہ نکلوں گا۔"

"میں پھر سمجھاتا ہوں۔" دوسری طرف سے آواز آئی۔

"سمجھ گیا!" عمران نے بڑی سعادت مندی سے کہا اور سلسلہ منقطع کر دیا۔

اس نے پھر کتاب اٹھا لی اور اسی طرحمشغول ہوگیا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ تھوڑی دیر بعد گھنٹی پھر بجی عمران نے ریسیور اٹھا لیا اور جھلائی ہوئی آواز میں بولا۔

"اب میں یہ ٹیلیفون کسی یتیم خانے کو پریزینٹ کردوں گا سمجھے۔۔۔ میںبہت ہی مقبول آدمی ہوں۔۔۔ کیا میںنے مقبول کہا تھا مقبول نہیں مشغول آدمی ہوں۔"

"تم نے ابھی کسی رقم کی بات کی تھی۔" دوسری طرف سے آواز آئی۔

"قلم نہیں فاؤنٹین پن!" عمران نے کہا۔

"وقت برباد مت کرو۔" دوسری طرف سے جھنجھلائی ہوئی آواز آئی۔ " ہم بھی اس کی قیمت دس ہزار لگاتے ہیں!"

"ویری گڈ!" عمران بولا۔ "چلو یہ تو طے رہا! بیگ تمہیں مل جائے گا۔"

"آج رات کو۔"

"کیا تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو۔" عمران نے پوچھا۔

"اسی طرح جیسے پہلی انگلی دوسری انگلی کو جانتی ہو۔"

"گڈ" عمران چٹکی بجا کربولا۔ "تو تم یہ بھی جانتے ہوگے کہ میں ازلی احمق ہوں۔"

"تم!"

"ہاں میں! ریس کورس بڑی سنسان جگہ ہے! اگر بیگ لے کر تم نے مجھے ٹھائیں کر دیا تو میں کس سے فریاد کروں گا۔"

"ایسا نہیں ہوگا۔" دوسری طرف سے آواز آئی۔

"میں بتاؤں! تم اپنے کسی آدمی کو روپے دے کر ٹپ ٹاپ نائٹ کل میں بھیج دو میں مدہوبالا کی جوانی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بیگ واپس کردوں گا۔"

"اگر کوئی شرارت ہوئی تو۔"

"مجھے مرغا بنا دینا۔"

"اچھا! لیکن یہ یاد رہے کہ تم وہاں بھی ریوالور کی نال پر رہو گے۔"

"فکر نہ کرو۔ میں نے آج تک ریوالور کی شکل نہیں دیکھی۔" عمران نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔ اور جیب سے چیونگم کا پیکٹ تلاش کرنے لگا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
۱۴​

ٹھیک آٹھ بجے کے قریب عمران اپنی بغل میں ایک چرمی بیگ دبائے ٹپ ٹاپ نائٹ کلب پہنچ گیا قریب قریب ساری میزیں بھری ہوئی تھیں۔ عمران نے بار کے قریب کھڑے ہوکر مجمع کا جائزہ لیا آخرکار اس کی نظریںایک میز پر رک گئیں جہاں لیڈی جہانگیر ایک نوجوان عورت کے ساتھ بیٹھی زرد رنگ کی شراب پی رہی تھی۔ عمران آہستہ آہستہ چلتا ہوا میز کے قریب پہنچ گیا۔

"آہا۔۔۔ مائی لیڈی۔" وہ قدرے جھک کر بولا۔

لیڈی جہانگیر نے داہنی بھوں چڑھا کر اسے تیکھی نظروں سے دیکھا اور پھر مسکرانے لگی۔
"ہل۔۔او۔۔۔عمران۔۔۔!" وہ اپنا داہنا ہاتھ اٹھا کر بولی۔ "تمہارے ساتھ وقت بڑا اچھا گزرتا ہے! یہ ہیںمس تسنیم!
خان بہادر ظفر تسنیم کی صاحبزادی! اور یہ علی عمران۔"

!ایم۔ ایس۔ سی۔ پی۔ ایچ۔ ڈی"عمران نے احمقوں کی طرح کہا۔

"بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر!" تسنیم بولی۔ لہجہ بیوقوف بنانے کا سا تھا۔

"مجھے افسوس ہوا۔"

"کیوں؟" لیڈی جہانگیر نے حیرت زدہ آواز سے کہا۔

"میں سمجھتا تھا کہ شائد ان کا نام گلفام ہوگا۔"

"کیا بیہودگی ہے!" لیڈی جہانگیر جھنجھلا گئی۔

"سچ کہاہوں! مجھے کچھ ایسا ہی معلوم ہوا تھا۔ تسنیم ان کے لئے قطعی موزوںنہیں۔۔۔ ہاں کسی ایسی لڑکی کا نام ہوسکتا ہے جو تپ دق میںمبتلا ہو تسنیم۔۔۔ بس نام کی طرح کمر جھکی ہوئی۔"

"تم شائد نشے میں ہو۔" لیڈی جہانگیر نے بات بنائی۔"لو اور پیو!"

"فالودہ ہے؟" عمران نے پوچھا۔

"ڈیئر تسنیم!" لیڈی جہانگیر جلدی سے بولی۔ "تم ان کی باتوںکو برا مت ماننا یہ بہت پرمذاق آدمی ہیں! اور عمران۔۔۔بیٹھو نا۔"

"برا ماننے کی کیا بات ہے" عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ "میں انہیں گلفام کے نام سے یاد رکھوں گا۔"

"مائی ڈیئرس! تم دونوں بیٹھو۔" لیڈی جہانگیر دونوں کے ہاتھ پکڑ کر جھومتی ہوئی بولی۔
"نہیں مجھے ایک ضروری کام یاد آگیا ہے۔" تسنیم نے آہستہ سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔

"اور میں!" عمران سینے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔"تم پر ہزاروں کام قربان کر سکتا ہوں"

"بکو مت! جھوٹے۔۔۔ تم مجھے خوامخواہ غصہ دلاتے ہو۔"

"میں تمہیں پوجتا ہوں! سوئیٹی۔۔۔ مگر اس بڈھے کی زندگی میں۔۔۔"

"تم پھر میرا مذاق اڑانے لگے!"

"نہیں ڈیئرسٹ! میں تیرا چاند تو میری چاندنی۔۔۔ نہیں دل کا لگا۔۔۔

"بس بس!۔۔۔بعض اوقات تم بہت زیادہ چیپ ہو جاتے ہو!"

"آئی ایم سوری۔" عمران نے کہا اور اس کی نظریں قریب ہی کی ایک میز کی طرف اٹھ گئیں۔ یہاں ایک جانی پہچانی شکل کا آدمی اسے گھور رہا تھا! عمران نے ہینڈ بیگ میز سے اٹا کر بغل میں دبا لیا پھر دفعتاً سامنے بیٹھا ہوا آدمی اسے آنکھ مار کر مسکرانے لگا۔ جواب میں عمران نے باری باری اسے دونوں آنکھیں ماریں! لیڈی جہانگیر اپنے گلاس کی طرف دیکھ رہی تھی اور شائد اس کے ذہن میں کوئی انتہائی رومان انگیز جملہ کلبلا رہا تھا۔

"میں ابھی آیا!" عمران نے لیڈی جہانگیر سے کہا اور اس آدمی کی میز پر چلا گیا۔

"لائے ہو۔" اس نے آہستہ سے پوچھا۔

"یہ کیا رہا۔" عمران نے ہینڈ بیگ کی طرف اشارہ کیا پھر بولا۔ "تم لائے ہو۔"

"ہاں آں!" اس آدمی نے لائے ہوئے ہینڈ بیگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

"تو ٹھیک ہے!" عمران نے کہا۔"اسے سنبھالو اور چپ چاپ کھسک جاؤ۔"

"کیوں؟" وہ اسے گھورتاہوا بولا۔

"کپتان فیاض کو مجھ پر شبہ ہو گیا ہے ہوسکتا ہے کہ اس نے کچھ آدمی میری نگرانی کے لئے مقرر کردئے ہوں۔"

"کوئی چال!"

"ہرگز نہیں! آج کل مجھے روپوں کی سخت ضرورت ہے۔"

"اگر کوئی چال ہوئی تو تم بچو گے نہیں۔" آدمی ہینڈ بیگ لے کر کھڑا ہوگیا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
۱۵​

وہ آدمی ہینڈ بیگ لیے جیسے ہی باہر نکلا کلب کی کمپاؤنڈ کے پارک سے دو آدمی اس کی طرف بڑھے۔

"کیا رہا۔" ایک نے پوچھا۔

"مل گیا۔" بیگ والے نے کہا۔

"کاغذات ہیں بھی یا نہیں۔"

"میں نے کھول کرنہیں دیکھا۔"

"گدھےہو۔"

"وہاں کیسے کھول کر دیکھتا۔"

"لاؤ۔۔۔ ادھر لاؤ۔" اس نے ہینڈ بیگ اپنےہاتھ میں لیتے ہوئے کہا! پھر چونک کر بولا۔ "اوہ! یہ اتنا وزنی کیوں ہے۔"

اس نے بیگ کھولنا چاہا لیکن اس میں قفل لگا ہوا تھا۔

"چلو یہان سے"تیسرا بولا "یہاں کھولنےکی ضرورت نہیں۔"

کمپاؤنڈ کے باہر پہنچ کر وہ ایک کار میں بیٹھ گئے۔ ان میں سے ایک کار ڈرائیو کرنے لگا۔

شہر کی سڑکوں سے نکل کر کار ایک ویران راستے پر چل پڑی آبادی سے نکل آنے کے بعد انھوں نے کار کے اندر روشنی کردی۔

ان میں ایک جو کافی معمر مگر اپنے دونوں ساتھیوں سے زیادہ طاقتور معلوم ہوتا تھا ایک پتلے سے تار کی مدد سے ہینڈبیگ کا قفل کھولنے لگا اور پھر جیسے ہی ہینڈ بیگ کا فلیپ اٹھایا گیا پچھلی سیٹ پربیٹھے ہوئے دونوں آدمی بے ساختہ اچھل پڑے۔ کوئی چیز بیگ سے اچھل کر ڈرائیور کی کھوپڑی سے ٹکرائی اور کار سڑک کے کنارے ایک درخت سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔ رفتار زیادہ تیز نہیں تھی ورنہ کار کے لڑ جانے میں کوئی دقیقی باقی نہیں رہ گیا تھا۔ تین بڑے بڑے مینڈک کار میں اچھل رہے تھے۔

بوڑھے آدمی کے منہ سے ایک گالی نکلی اور دوسرا ہنسنے لگا۔

"شپ اپ" بوڑھا حلق کے بل چیخا۔ "تم گدھے ہو۔ تمہاری بدولت۔۔۔"

"جناب میں کیا کرتا! میں اسے وہاں کیسے کھول سکتا تھا! اس کا بھی تو خیال تھا کہ کہیں پولیس پیچھے نہ لگی ہو۔"

"بکواس مت کرو۔ پہلے ہی اطمینان کر چکا تھا کہ وہاں پولیس کا کوئی آدمی نہیں تھا! کیا تم مجھے معمولی آدمی سمجھتے ہو۔ اب اس لونڈے کی موت آگئی ہے۔ ارے تم گاڑی روک دو۔" کار رک گئی۔

بوڑھا تھوڑی دیر تک سوچتا رہا پھر بولا۔

"کلب میں اس کے ساتھ اور کون تھا۔"

"ایک خوبصورت سی عورت! دونوں شراب پی رہے تھے۔"

غلط ہے! عمران شراب نہیں پیتا۔"

"پی رہا تھا جناب۔"

بوڑھا کسی سوچ میں پڑ گیا۔

"چلو! واپس چلو۔"وہ کچھ دیر بعد بولا۔"میں اسے وہیں کلب میں مار ڈالوں گا۔" کار پھر شہر کی طرف مڑی۔

"میرا خیال ہے کہ وہ اب تک مر چکا ہوگا۔" بوڑھے کے قریب بیٹے آدمی نے کہا۔

"نہیں! وہ تمہاری طرح احمق نہیں ہے!" بوڑھا جھنجھلا کر بولا۔ "اس نے ہمیں دھوکہ دیا ہےتو خود بھی غافل نہیں ہوگا۔"

"تبو وہ کلب ہی سے چلا گیا ہوگا۔"

"بحث مت کرو۔" بوڑھےنے گرج کرکہا۔ "میں اسے ڈھونڈ کر ماروں گا۔ خواہ وہ انے گھر ہی میں کیوں نہ ہو۔"
 

قیصرانی

لائبریرین
۱۶​

عمران چند لمحے بیٹھارہا پھر اٹھ کر تیزی سے وہ بھی باہر نکلا اور اس نے کمپاؤنڈ کے باہر ایک کار کے اسٹارٹ ہونے کی آواز سنی! وہ پھر اندر واپس آگیا۔

"کہاں بھاگے پھر رہے ہو۔" لیڈی جہانگیر نے پوچھا اس کی آنکھیں نشے سے بوجھل ہورہی تھیں۔

"ذرا کھانا ہضم کر رہا ہوں۔" عمران نے کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھتئے ہوئے کہا۔۔۔ لیڈی جہانگیر آنکھیں بندکرکے ہنسنے لگی۔

عمران کی آنکھیں بدستور گھڑی پر جمی رہیں۔۔۔ پھر وہ اٹھا اب وہ ٹیلیفون بوتھ کی طرف جا رہا تھا۔ اس نے ریسیور اٹھا کر نمبر ڈائل کئے اور ماؤتھ پیس میں بولا۔

"ہیلو سوپر فیاض۔۔۔ میں عمران بول رہا ہوں۔۔۔ بس اب روانہ ہو جاؤ۔"

ریسیور رکھ کر وہ پھر ہال میں چلا آیا۔ لیکن وہ اس بار لیڈی جہانگیر کے پاس نہیں بیٹھا تھا۔
چند لمحے کھڑا ادھر ادھر دیکھتا رہا پھر ایک ایسی میز پر جا بیٹھا جہاں تین آدمی پہلے ہی سے موجود تھے اور یہ تینوں اسکے شناسا تھے اس لئے انہوں نے برا نہیں مانا۔

شائد پندرہ منٹ تک عمران ان کے ساتھ قہقہے لگاتا رہا لیکن اس دوران بار بار اسکی نظریں داخلے کے دروازے کی طرف اٹھ جاتی تھیں۔
اچانک اسے دروازے میں ایک بوڑھا دکھائی دیا جس سے اس نے چند روز قبل کاغذات والا ہینڈ بیگ چھینا تھا۔ عمران اور زیادہ انہماک سے گفتگو کرنے لگا لیکن تھوڑی ہی دیر بعد اس نے اپنے داہنے شانے میں کسی چیز کی تیز چھبن محسوس کی اس نے کنکھیوں سے داہنی طرف دیکھا! بوڑھا اس سے لگا ہوا کھڑا تھا اور اسکا بائیاں ہاتھ کوٹ کی جیب میں تھا اور اسی جیب میں رکھی ہوئی کوئی سخت چیز عمران کے شانے میں چبھ رہی تھی! عمران کو یہ سمجھنے میں دشواری نہ ہوئی کہ وہ ریوالور کی نالی ہی ہوسکتی ہے۔

"عمران صاحب!" بوڑھا خوش اخلاقی سے بولا۔ "کیا آپ چند منٹ کے لئے باہر تشریف لے چلیں گے۔"

"آہا! چچا جان!" عمران چہک کر بولا۔ "ضرور ضرور! مگر مجھے آپ سے شکایت ہے اس لئے آپ کو بھی کوئی شکایت نہیں ہونی چاہئے۔"

"آپ چلئے تو" بوڑھے نے مسکرا کر کہا۔ "مجھے اس گدھے کی حرکت پر افسوس ہے۔"

عمران کھڑا ہو گیا! لیکن اب ریوالور کی نال اس کے پہلو میں چبھ رہی تھی۔ وہ دونوں باہر آئے۔۔۔ پھر جیسے ہی وہ پارک میں پہنچے بوڑھے کے دونوں ساتھی بھی پہنچ گئے۔

"کاغذات کہاں ہیں۔" بوڑھے نے عمران کا کالر پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ پارک میں سناٹا تھا۔ دفعتا عمران نے بوڑھے کا بائیاں ہاتھ پکڑ کر ٹھوڑی کے نیچے ایک زوردار گھونسہ رسید کیا۔ بوڑھے کا ریوالور عمران کے ہاتھ میں تھا اور بوڑھا لڑکھڑا کر گرنے ہی والا تھا کہ اس کے ساتھیوں نے اسے سنبھال لیا۔ "میں کہتا ہوں وہ دس ہزار کہاں ہیں؟" عمران نے چیخ کر کہا۔

اچانک مہندی کی باڑھ کے پیچھے سے آٹھ دس آدمی اچھل کر ان تینوں پر آپڑے اور پھر ایک خطرناک جدوجہد کا آغاز ہوگیا۔ وہ تینوں بے جگری سے لڑ رہے تھے۔

"سوپر فیاض۔" عمران نے چیخ کر کہا "داڑھی والا۔"

لیکن داڑھی والا اچھل کر بھاگا۔ وہ مہندی کی باڑھ پھلانگنے والا ہی تھا کہ عمران کے ریوالور سے شعلہ نکلا گولی ٹانگ میں لگی اور بوڑھا مہندی کی باڑھ میں پھنس کر رہ گیا۔

"ارے باپ رے" عمران ریوالور پھینک کر اپنا منہ پیٹنے لگا۔

وہ دونوں پکڑے جا چکے تھے! فیاض زخمی بوڑھے کی طرف جھپٹا جو اب بھی بھاگ نکلنے کے لئے جدوجہد کر رہ اتھا۔۔۔۔ فیاض نے ٹانگ پکڑ کر مہندی کی باڑھ سے گھیسٹ لیا۔

"یہ کون؟" فیاض نے اس کے چہرے پر روشنی ڈالی۔ فائر کی آواز سن کر پارک میں بہت سے لوگ اکٹھے ہو گئے تھے۔

بوڑھا بے ہوش نہیں ہوا تھا وہ کسی زخمی سانپ کی طرف بل کھا رہا تھا۔ عمران نے جھک کر اس کی مصنوعی داڑھی نوچ ڈالی۔

"ہائیں!" فیاض تقریبا چیخ پڑا۔ "سر جہانگیر!"

سر جہانگیر نے پھر اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی لیکن عمران کی ٹھوکر نے اسے باز رکھا۔

"ہاں سرجہانگیر!" عمران بڑبڑایا۔ "ایک غیر ملک کا جاسوس۔۔۔ قوم فروش غدار۔۔۔"
 

قیصرانی

لائبریرین
۱۷​

دوسرے دن کیپٹن فیاض عمران کے کمرے میں بیٹھا اسے تحیر آمیز نظروں سے گھور رہا تھا اور عمران بڑی سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔ "مجھے خوشی ہے کہ ایک بڑا غدار اور وطن فروش میرے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا۔ بھلا کون سوچ سکتا تھا کہ سر جہانگیر جیسا معزز اور نیک نام بندہ بھی کسی غیر ملک کا جاسوس ہو سکتا ہے۔"

"مگر وہ قبر کا مجاور کون تھا۔" فیاض نے بے صبری سے پوچھا۔

"میں بتاتا ہوں۔ لیکن درمیان میں ٹوکنا مت۔۔۔ وہ بیچارہ اکیلے ہی یہ سارا مرحلہ طے کرنا چاہتا تھا لیکن میں نے اس کا کھیل بگاڑ دیا۔۔۔ پچھلی رات وہ مجھے ملا تھا۔۔۔ اس نے پوری داستان دہرائی۔۔۔ اور اب شائد ہمیشہ کے لئے روپوش ہو گیا ہے۔ اسے بڑی زبردست شکست ہوئی ہے۔ اب وہ کسی کو منہ نہیں دکھانا چاہتا۔"

"مگر وہ ہے کون؟"

"ایاز!۔۔۔ چونکو نہیں میں بتاتا ہوں!۔۔۔ یہی ایاز وہ آدمی تھا جو فارن آفس کے سیکریٹری کے ساتھ کاغذات سمیت سفر کر رہا تھا! آدھے کاغذات اسکے پاس تھے اور آدھے سیکریٹری کے پاس! ان پر ڈاکہ پڑا۔ سیکریٹری مارا گیا اور ایاز کسی طرح بچ گیا۔ مجرموں کے ہاتھ صرف آدھے کاغذات لگے! ایاز فارن آفس کی سیکرٹ سروس کا آدمی تھا۔ لیکن اس نے آفس کو رپورٹ نہیں دی! دراصل وہ اپنے زمانے کا مانا ہوا آدمی تھا اس لئے اس شکست نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ مجرموں سے آدھے کاغذات وصول کئے بغیر آفس میں پیش نہ ہو۔ وہ جانتا تھا کہ وہ آدھے کاغذات مجرموں کے کسی کام کے نہیں! وہ بقیہ آدھے کاغذات کے لئے اسے ضرور تلاش کریں گے۔ کچھ دنوں کے بعد اس نے مجرموں کا پتہ لگا لیا۔ لیکن ان کے سرغنہ کا سراغ نہ مل سکا! وہ حقیقتاً سرغنہ ہی پکڑنا چاہتا تھا!۔۔۔ دن گذرتے گئے لیکن ایاز کو کامیابی نہ ہوئی پھر اس نے ایک نیاجال بچھایا!
اس نے وہ عمارت خرید لی اور اس میں اپنے وفادار نوکر کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگا۔ اس دوران میں اس نے اپنی اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک قبر دریافت کی اور پھر یہ میکنزم ترتیب دیا۔ اچانک اسی زمانے میں اس کا نوکر بیمار ہو کر مر گیا۔ ایاز کو ایک دوسری ترکیب سوجھ گئی اس نے نوکر پر میک اپ کرکے اس دفن کردیا اور اس کے بھیس میں رہنے لگا۔ کسی کاروائی سے پہلے اس نے وہ عمارت قانونی طور پر جج صاحب کے نام منتقل کردی اور صرف ایک کمرہ رہنے دیا!۔۔۔ اس کے بعد مجرموں کو اس عمارت کی طرف متوجہ کرنا شروع کردیا۔ کچھ ایسے طریقے اختیار کئے کہ مجرموں کو یقین ہوگیا کہ مرنے والا سیکرٹ سروس کا آدمی تھا اور بقیہ کاغذات اسی عمارت میں کہیں چھپا کر رکھ گیا ہے۔ ابھی حال ہی میں ان مجرموں کی رسائی اس کمرے تک ہوئی جہاں ہم نے لاشیں پائیں! دیوار والے خفیہ خانے میں ہی کاغذات تھے! اس کا اشارہ بھی انہیں ایاز کی ہی طرف سے ملا تھا۔ جیسے ہی کوئی آدمی خانے والی دیوار کے نزدیک پہنچتا تھا۔ ایاز قبر کے تعویذ کے نیچے سے ڈراؤنی آوازیں نکالنے لگتا تھا اور دیوار کے قریب پہنچا ہوا آدمی سہم کر دیوار سے چپک جاتا!۔۔۔ ادھرایاز قبر کے اندر سے میکنزم کو حرکت میں لاتا اور دیوار سے تین چھریاں نکل کر اس کی پشت میں پیوست ہو جاتیں۔۔۔ یہ سب کچھ اس نے محض سرغنہ کو پکڑنے کے لئے کیا تھا۔۔۔ لیکن سرغنہ میرے ہاتھ لگا۔۔۔ اب ایاز شاید زندگی بھر اپنے متعلق کسی کو کوئی اطلاع نہ دے! اور کیپٹن فیاض۔۔۔۔ میں نے اس سے وعدہ کیا ہے کہ اس کا نام کیس کے دوران میں کہیں نہ آنے پائے گا! سمجھے! اور تمہیں میرےوعدے کاپاس کرنا پڑے گا! اور تم اپنی رپورٹ اس طرح مرتب کرو کہ اس میں کہیں محبوبہ یک چشم کا بھی نہ آنے پائے۔"

"وہ تو ٹھیک ہے۔" فیاض جلدی سے بولا! "وہ دس ہزار روپے کہاں ہیں جو تم نے سر جہانگیر سے وصول کئے تھے۔"

"ہاں ٹھیک ہے۔" عمران اپنے دیدے پھرا کربولا۔ "آدھا آدھا بانٹ لیں کیوں؟"

"بکواس ہے اسے میں سرکاری تحویل میں دے دوں گا۔"فیاض نے کہا۔

"ہرگزنہیں!" عمران نے جھپٹ کر وہ چرمی ہینڈبیگ میز سے اٹھا لیا جو اسے پچھلی رات سر جہانگیر کے ایک آدمی سے ملا تھا۔

فیاض نے اس سے ہینڈ بیگ چھین لیا۔۔۔ اور پھر وہ اسے کھولنے لگا۔

"خبردار ہوشیار۔۔۔" عمران نے چوکیدار کی طرح ہانک لگائی لیکن فیاض ہینڈبیگ کھول چکا تھا۔۔۔ اور پھر جو اس نے "ارےباپ" کہہ کر چھلانگ لگائی تو ایک صوفے ہی پر جا کر پناہ لی۔ ہینڈ بیگ سے ایک سیاہ رنگ کا سانپ نکل کر فرش پر رینگ رہا تھا۔

"ارے خدا تجھے غارت کرے عمران کے بچے۔۔۔ کمینے!" فیاض صوفے پر کھڑا ہوکر دھاڑا۔

سانپ پھن کاڑھ کر صوفے کی طرف لپکا فیاض نے چیخ مارکر دوسری کرسی پر چھلانگ لگائی۔۔۔ کرسی الٹ گئی اور وہ منہ کے بل فرش پر گرا۔۔۔ اس بار اگر عمران نے پھرتی سے اپنے جوتے کی ایڑی سانپ کے سر پر نہ رکھ دی ہوتی تو اس نے فیاض کو ڈس ہی لیا ہوتا۔ سانپ کا بقیہ جسم عمران کی پنڈلی سے لپٹ گیا اور اسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ جائے گی۔ اوپر سے فیاض اس پر گھونسوں اور تھپڑوں کی بارش کر رہا تھا۔ بڑی مشکل سے اس نے دونوں سے اپنا پیچھا چھڑایا۔

"تم بالکل پاگل ہو۔۔۔ دیوانے۔۔۔ وحشی۔" فیاض ہانپتا ہوا بولا۔

"میں کیا کروں جانِ من۔۔۔ خیر اب تم اسے سرکاری تحویل میں دے دو اگر کہیں میں رات کو ذرا سا بھی چوک گیا ہوتا تو اس نے مجھے اللہ میاں کی تحویل میں پہنچا دیا تھا!"

"کیا سر جہانگیر۔۔۔؟"

"ہاں!۔۔۔ ہم دونوں میں مینڈکوں اور سانپوں کا تبادلہ ہوا تھا!" عمران نے کہا اور مغموم انداز میں چیونگم چبانے لگا! اور پھر اس کے چہرے پر وہی پرانی حماقت طاری ہوگئی۔۔۔!
ختم شد
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top