خود نوشتوں کا قصہ

ان دنوں شیخ محمد عبد اللہ کی خود نوشت سوانح حیات "آتش چنار"کا مطالعہ جاری ہے ۔ زبان اس قدر پیاری ہے کہ چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا ۔ یوں تو خود نوشتیں ایک طرفہ مدعی کے مدعا کی سی ہوتی ہیں، اور اس میں علامہ موہن داس کرم چند گاندھی جیسے بہت کم ہوتے ہیں جو واقعی سچ بات لکھ دیتے ہیں ۔ علامہ گاندھی نے اپنی خود نوشت "دی ایکسپریمنٹ آف مائی تروتھ" میں لکھا ہے کہ جس شب ان کے والد کا انتقال ہوا اس شب وہ اپنی بیوی کے ساتھ شب باسی میں مصروف تھے ، ان کے والد نے مرنے سے قبل انھیں آواز بھی دی لیکن اس وقت وہ اس دنیا میں تھے کہ انھوں نے والد کی بات کو سنی ان سنی کر دی جس کا انھیں کافی ملال بھی رہا ۔

خود نوشتوں میں ساری سچی باتیں بہت کم ہی لوگ ذکر کرتے ہیں اور بڑے بڑے پیر و مرشد اپنی شخصیت کو ابھار کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں خواہ وہ صوفی قدرت اللہ شہاب ہوں یا پھر کانگریسی نمک حلال اور ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولوی ابوالکلام آزاد مکی۔ مولوی آزاد نے اپنے تذکرہ میں اپنے پیدائش اور بعد کے واقعات کو کافی بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے جس کے بارے میں چچا یوسفی نے بھی خوب چٹکی لی اور کہا " اتنی دقت سے مولانا آزاد ہی پیدا ہو سکتے تھے، اتنی خجالت ، طوالت و اذیت تو آج کل سیزیرین پیدائش میں بھی نہیں ہوتی۔ "

بہر حال ہمیں اس سے نہیں مطلب کے کون کس کو کس نظر سے دیکھتا ہے ۔لوگ خواہ کچھ بھی کہیں بڑے لوگوں کی باتیں بہرحال بڑی ہوتی ہیں، اور تمام تر خود نمائی اور بڑ بولے پن کے باوجود ان سے کافی کچھ سیکھنے کو ملتا ہے ، ان کے ذریعہ بہت سارے تاریخی حقائق کا ادراک ہوتا ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انھیں کہاں کہاں ٹھوکریں لگیں اور ہمیں کہاں کہاں محتاط رہنا چاہئے ۔ شیر کشمیر کے اس روداد سے بھی بہت ساری باتیں سیکھنے کو مل رہی ہیں ۔ ٹک لگا رہا ہوں ، آپ لوگوں کو بھی شیر کروں گا ۔ ابھی تک جتنا پڑھا ہے اس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ مسلم قوم نے ہر زمانے میں آزمائش کا شکار رہی، اور ان آزمائش کا حل دور دور تک نظر نہیں آتا ، پتہ نہیں ابھی کتنی قربانیاں باقی ہیں ۔
 
Top