خود سے خود کو روز گھٹانا پڑتا ہے

ایک تازہ غزل پیش ہے ۔ آپ سب کے مشوروں اور تجاویز کا منتظر رہونگا۔
****************************************
ذہن سے اُس کو روز بھلانا پڑتا ہے
خود سے خود کو روز گھٹانا پڑتا ہے

حل ہوتی ہے ایک اک مشکل، بندے کو
رب کے آگے سر کو جھکانا پڑتا ہے

اک سائل سے نظریں چرانا کیا مشکل؟
شرم کا پانی تھوڑا سکھانا پڑتا ہے

اس موڑ پہ میرے پاؤں شل ہو جاتے ہیں
اِس سے آگے تیرا ٹھکانا پڑتا ہے

ان آنکھوں کے سحر میں اب نہ آئینگے
خود کو روز ہمیں سمجھانا پڑتا ہے

اونچی بڑھتی بستی کا دستور ہے اب
دروازوں کو تالا لگانا پڑتا ہے

اب موبائل ہی سے باتیں ہوتی ہیں
اب لوگوں سے کم ملنا ملانا پڑتا ہے

کام میں اکثر یادیں شام پہ ٹلتی ہیں
پھر شام میں اِن کا آنا جانا پڑتا ہے

اُن کی بس یادیں باقی ہیں، دور ہیں وہ
کام اِنھیں یادوں سے چلانا پڑتا ہے

اُن کو دیکھ کے جی دھک سے رہ جاتا ہے
لیکن پھر بھی ہنسنا ہنسانا پڑتا ہے

غم سب خوشیاں چھین لینگے یہ جان کے بھی
مجبوری میں گلے لگانا پڑتا ہے

خود کو میں کچھ وقت نہیں دے پاتا ہوں
اور کاشف یہ غم سب سے چھپانا پڑتا ہے
****************************************
شکریہ ۔
 
آخری تدوین:
Top