خطرناک لاشیں صفحہ 36 تا 45

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
خطرناک لاشیں صفحہ 36 تا 45

"قطعی غلط! مجھے یقین ہے کہ تصویر کی شناخت میں غلطی ہوئی تھی۔"
"ہاہا۔۔۔! میں تو جانتا ہی تھا! مگر چلو خیر اچھا ہے۔ شاہد کی شامیں کچھ دنوں تک دلچسپی میں گزریں گی۔"
فیاض کچھ نہ بولا! عمران اپنے لئے چائے کی دوسرے پیالی تیار کر رہا تھا۔
"ہاں۔۔۔ تو پھر اب کس سمت تمہارے گھوڑے دوڑ رہے ہیں!" عمران نے ہنس کر پوچھا۔
"سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سلسلے میں کیا کیا جائے!"
"جس دن سمجھ میں آ گیا تم اپنے جامے سے باہر نظر آؤ گے۔"
"کیا مطلب!"
"کچھ بھی نہیں۔ ویسے میرا خیال ہے کہ یہ جامے سے باہر ہونا بھی شاید ایک محاورہ ہے!"
"میں اس وقت محاوروں پر بحث سننے نہیں آیا!"
"پھر تم جو حکم دو!" سوپر فیاض۔
"اس کیس میں میری مدد کرو، ورنہ بڑی بدنامی ہو گی۔"
"اب بتاؤ! میں کیا کروں!" عمران نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ "ایک لڑکی ہاتھ لگی تھی وہ بھی اس طرح نکلی جا رہی ہے!"
"ابھی تک اس کے متعلق اس سے زیادہ نہیں معلوم ہو سکا کہ وہ اقوام متحدہ کے ادارہ خدمت خلق کی طرف سے یہاں بھیجی گئی ہے اور امریکن مشن ہسپتال کے ایک کمرے میں اس کا قیام ہے!"
"آھ کل کے زمانے میں اتنی ہی معلومات بہت کافی ہیں۔" عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
"کیا تم اس سے زیادہ جانتے ہو۔" فیاض اسے گھورنے لگا۔
"ہرگز نہیں۔ بھلا میں اس سے زیادہ کیسے جان سکتا ہوں۔"
"نہیں تمہارے انداز سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔"
"ابے تم کون ہو میرے ناز و انداز دیکھنے والے۔" عمران نے غصیلے لہجہ میں کہا۔
"بہت جلد معلوم ہو جائے گا۔" فیاض نے کہا اور سگریٹ سلگانے لگا۔
دفعتا فون کی گھنٹی بجی اور عمران نے آگے بڑھ کر ریسیور اٹھایا۔
" ہیلو۔۔۔!" عمران نے ماؤتھ پیس میں کہا۔
"میں ہوں سلیمان۔۔۔ صاحب!" دوسرے طرف سے آواز آئی۔ "یہاں پرائیویٹ فون پر آپ کی کال تھی۔ میں نے ڈس کنکٹ کر کے۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ اب آپ کو اطلاع دے رہا ہوں۔"
"اچھا، اچھا۔ میں آ رہا ہوں۔" عمران نے کہا اور سلسلہ منقطع کر دیا۔
سلیمان نے اس وقت بڑی ذہانت سے کام لیا تھا۔ پرائیوٹ فون کی گھنٹی بجی تھی۔ اس نے ریسیور اٹھا کر سلسلہ منقطع کر دیا تھا اور پھر عمران کے ذاتی فون کے نمبر ڈائیل کئے تھے۔ اس طرح دونوں کمروں کے درمیان رابطہ قائم ہو گیا تھا۔
پرائیویٹ فون پر جولیا کے علاوہ اور کس کی کال ہوتی۔
"کیا تمہیں باہر جانا ہے۔" فیاض نے پوچھا۔
"نہیں تو۔"
"مگر تم نے ابھی کسی سے وعدہ کیا ہے۔"
"آہا۔۔۔!" عمران نے جھینپتے ہوئے انداز میں قہقہہ لگایا اور پھر بولا۔ "یار فیاض یہ نہ جانے کون لڑکی ہے خواہ مخواہ فون پر بور کیا کرتی ہے۔ کہتی ہے آ جاؤ۔۔۔ آ جاؤ۔۔۔ آ جاؤ۔ پھر اس کے علاوہ میں کیا کہوں کہ اچھا آ رہا ہوں!"
"شاید میرے دماغ کی خرابی ہی مجھے اس طرف لائی ہے۔" فیاض بڑبڑایا۔
"قطعی قطعی سوپر فیاض۔" عمران سر ہلا کر بولا۔ " میں کہتا ہوں کہ اگر تم صرف ایک ہی رات اس چھت کے نیچے گزارو تو پاگل کتے بھی تم سے پناہ مانگنے لگیں گے۔"
"عمران پچھتاؤ گے کسی دن۔ یہ میری وارننگ ہے۔" فیاض اٹھتا ہوا بولا۔
"آخری وارننگ تو نہیں ہے سوپر فیاض۔" عمران نے مضحکہ اڑانے والے انداز میں پوچھا۔
لیکن فیاض اس کا جواب دیئے بغیر باہر نکل گیا۔
عمران نے بہت احتیاط سے دروازہ بند کیا اور پھر اس کمرے سے چلا آیا جہاں پرائیویٹ فون تھا۔ اس نے جولیا کے نمبر ڈائیل کئے۔ دوسری طرف سے جلد ہی جواب ملا۔
"میں نے ابھی آپ کو رنگ کیا تھا جناب۔" جولیا نے کہا۔ " صفدر پھر ہسپتال جا پہجچا ہے۔"
"مگر میں نے منع کر دیا تھا۔"
"میں اسے مطلع کرنا بھول گئی تھی جناب۔ معافی چاہتی ہوں۔ مگر اس وقت اس کی طرف سے ملی ہوئی اطلاع اہم بھی ہو سکتی ہے۔"
"ارے پوری بات بھی تو بتاؤ نا۔"
"لڑکی کسی سے خائف معلوم ہوتی ہے۔ اپنے کمرے میں بند ہو گئی ہے۔ کئی آدمی اس کا کمرہ کھلوانے کی کوشش کر چکے ہیں لیکن انہیں ناکامی ہوئی ہے۔"
"تب پھر کہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ خائف ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مر گئی ہو۔"
"میں نے بھی صفدر سے یہی سوال کیا تھا۔ لیکن وہ کہتا ہے کہ لڑکی زندہ ہے اور وہ دروازہ کھول کر باہر آنے سے انکار کر رہی ہے۔"
"اور کچھ۔۔۔!"
"دروازہ کھلوانے والوں میں ایک لڑکی بھی ہے جس کا تعلق ہسپتال سے نہیں ہے اور یہ لڑکی بھی غیر ملکی ہی ہے۔ صفدر اس کی قومیت کا اندازہ نہیں کر سکا۔"
فکر نہیں۔ ساری دنیا کی عورتیں ایک ہی قوم ہیں۔" عمران نے کہا۔
"میں نہیں سمجھی جناب۔"
"کچھ نہیں۔" عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا۔
وہ بحثییت ایکس ٹو ان سے غیر ضروری گفتگو نہیں کر سکتا تھا۔
وہ پھر اپنی نشست کے کمرے میں آیا۔ کپڑے پہننے اور باہر جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ اندھیرا پھیل چکا تھا اور خنکی بھی بڑھ گئی تھی۔
وہ اس حصے تک پیدل آیا جہاں کرائے پر گیراج لے رکھا تھا۔ گیراج میں داخل ہو کر اس نے دروازہ بند کر دیا۔
پھر کار کی ڈگی سے وہ سوٹ کیس نکالا جس میں میک اپ کا سامان رہتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس کے چہرے کی بناوٹ میں خاصی تبدیلیاں نظر انے لگیں۔ اب وہ کار گیراج سے نکال رہا تھا۔ گیراج کے چوکیدار اسے پہچانتے تھے اس لئے اس نے فلٹ ہیٹ کا گوشہ نیچے جھکا لیا تھا اور کوٹ کے کالر کھڑے کر لئے تھے۔کار تیزی رفتاری سے امریکن مشن ہسپتال کی طرف روانہ ہو گئی۔ عمران سوچ رہا تھا کہ فیاض کے آدمیوں سے بہت بڑی حماقت سرزد ہوئی ہے۔ پتہ نہیں اس کا انجام کیا ہو۔ یہ تو کھلی ہوئی بات تھی کہ وہ کسی دوسرے کے لئے ہی کام کر رہی تھی۔۔۔ اور ایسے لوگ جو دوسروں کے لئے کوئی غیر قانونی حرکت کرتے ہیں اگر پولیس کی نظروں میں آ جائیں تو ان کی زبان کھلنے کے خوف سے کام لینے والا ان کی زندگیوں کے خواہاں ہو جاتا ہے۔
عمران نے کار کی رفتار تیز کر دی۔

***********

کیپٹن فیاض نے ابھی ابھی گھر میں قدم رکھا تھا۔ گھر میں داخل ہونے سے پہلے وہ اپنا موڈ ٹھیک کر لینا زیادہ مناسب سمجھتا تھا۔ کیونکہ اس کی بیوی اس کی پیشانی پر شکنیں دیکھ کر اور زیادہ بور کرنا شروع کر دیتی تھی۔
لیکن جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا، فون کی گھنٹی بجی اور اس کے ہونٹوں پر بکھری ہوئی زبردستی کی مسکراہٹ غضب آلود کھنچاؤ میں تبدیل ہو گئی۔
وہ ہر سامنے آتی ہوئی چیز کو ٹھوکر سے ہٹاتا ہوا فون کی طرف جھپٹا۔
"ہیلو!" وہ ماؤتھ پیس میں غرایا۔
دوسری طرف سے خالص اختری بائی فیض آبادی کے اسٹائل میں آواز آئی۔ "دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے۔"
"کون بیہودہ ہے؟"
"سوپر فیاض! وہی پرانا خادم!" فیاض نے اب عمران کی آواز پہچان لی اور دانت پیس کر بولا۔ " اب کیا ہے؟"
"امریکن ہسپتال پہنچ کر اپنی عقل مندی کا ثبوت ملاحظہ کرو۔ مگر ان برخوردار شاہد سلمہا کو ساتھ لانا مت بھولنا۔"
"آخر بات کیا ہے؟" فیاض کا لہجہ نرم ہو گیا۔
"ہلدا پاگل ہو گئی ہے۔"
"نہیں۔۔۔!"
"ہاں پیارے۔ پاگل پن کے معاملے میں ہمیشہ بے حد سنجیدہ رہتا ہوں۔ تم آؤ تو!"
"تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ وہ پاگل ہو گئی ہے۔"
" میں اس وقت ہسپتال سے زیادہ دور نہیں ہوں!"
"اچھا میں آ رہا ہوں! لیکن یہ بات غلط نکلی تو اچھا نہ ہو گا۔"
"آو بھی۔۔۔!" دوسری طرف سے کہا گیا اور پھر سلسلہ منقطع ہونے کے آواز آئی۔
اب فیاض نے انسپکٹر شاہد کو فون پر تلاش کرنے کی مہم شروع کر دی۔ بدقت تمام وہ مل سکا اور فیاض نے اسے امریکن ہسپتال پہنچنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی جلد ہی پہنچ جائے گا۔
پھر فیاض نے کسی طرح ایک پیالی چائے حلق میں انڈیلی اور امریکن مشن ہسپتال کی طرف خود بھی روانہ ہو گیا۔ اس کی کار ہوا سے باتیں کرتی جا رہی تھی۔
ہسپتال میں پہنچنے پر شاہد سے جلد ہی ملاقات ہو گئی۔ وہ بہت زیادہ بوکھلایا ہوا نظر آ رہا تھا۔
"وہ پاگل ہو گئی ہے جناب۔ اس وقت آپریشن تھیٹر میں بے ہوش پڑی ہے۔" اس نے کہا۔
"کیا قصہ ہے؟"
"کچھ دیر قبل کسی نے اس کے کمرے کا دروازہ کھلوانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس نے باہر آنے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر کئی آدمیوں نے کوسس کی۔ آخر کار وہ کمرے سے نکل ائی۔ اپنے کپڑے چیر پھاڑ ڈالے۔۔۔! اچھلتی کودتی رہی پھر گر کر بے ہوش ہو گئی! اکثر لوگوں پر چیزیں بھی کھینچ ماری تھیں!"
"سب سے پہلے کس نے دروازہ کھلوانے کی کوشش کی تھی!"
"یہی سوال یہاں بھی دہرایا جا رہا ہے! لیکن اھی تک معلوم نہیں ہو سکا! ہسپتال کا عملہ اس سے لاعلمی ظاہر کرتا ہے!"
"شاید۔!"
"جی۔۔۔!"
"یہ سب کچھ محض تمہاری حماقتوں کا نتیجہ ہے! تم سے کس گدھے نے کہا تھا کہ اس سے مل بیٹھو!"
"مم! میں نے سوچا تھا جناب!"
"خاموش رہو! دوسروں کو ہنسنے کا موقع دیتے ہو! ایک بہترین گواہ ہاتھ سے نکل گیا!"
شاہد کچھ نہ بولا! سر جھکائے کھڑا رہا۔ فیاض کچھ سوچنے لگا تھا!
 

شمشاد

لائبریرین
یک بیک اس نے کہا! "مگر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ پاگل ہو گئی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ کوئی وقتی قسم کا دورہ ہو!"
"نہیں جناب! ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ وہ یک بیک ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے۔ اس قسم کے دورے اس پر کبھی نہیں پڑھے۔ خیال ہے کہ وہ مستقل طور پر پاگل ہو سکتی ہے!"
فیاض پھر خاموش ہو گیا! کچھ دیر پہلے ہی وہ عمران کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ ہلدا کوئی غیر متعلق لڑکی ہے اور تصویر شناخت کرنے والے سے غلطی ہوئی تھی! پھر یک بیک اسے ہو کیا گیا۔
کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس حادثے میں کسی آدمی کا ہاتھ ہو!
پھر اب کیا کرنا چاہیے!
فیاض کو اس وقت کلی طور پر یقین ہو گیا تھا کہ عمران اس کیس کے سلسلے میں اس سے کہیں زیادہ باخبر ہے!
پھر کیا؟ اسے عمران ہی کو ٹٹولنا چاہیے! مگر یہ آسان کام نہیں تھا۔ اور اب تو وہ پہلے سے کہیں زیادہ شتر غمزے دکھائے گا۔
"جاؤ اب آرام کرو!" اس نے شاہد سے زہریلے لہجے میں کہا۔ "کھیل بگڑ چکا ہے!"
"مجھے بے حد شرمندگی ہے! کپتان صاھب! میں معافی چاہتا ہوں! جی ہاں! مجھ سے حماقت سرزد ہوئی تھی!"
فیاض دوسری طرف مڑ گیا! اس نے ہسپتال میں پوچھ گچھ کرنے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔
********************

دوسرے صبح عمران نے بلیک زیرو کو فون کیا!
"کیا خبر ہے! وہ ہوش میں آئی یا نہیں؟"
"آ گئی ہے جناب! مگر پھر بھی بے ہوش ہی ہے!"
"کیوں؟"
" نہ تو وہ کسی کو پہچانتی ہے اور نہ ہوش کی باتیں کرتی ہے۔"
"لیکن اس کے باوجود تمہیں اس پر نظر رکھنی ہے۔"
"بہت بہتر جناب۔"
عمران نے سلسلہ منقطع کر کے جولیا کے نمبر ڈائیل کئے۔
اس کی طرف سے بھی فورا ہی کال ریسیو کی گئی۔
"رپورٹ۔۔۔ فٹنر واٹر۔" عمران نے ایکس ٹو کے لہجے میں پوچھا۔
"پچھلی رات لیفٹیننٹ صدیقی نے اس آدمی کا تعاقب کیا تھا جس کی چال میں لنگراہٹ پائی جاتی ہے۔"
"اس آدمی کا نام کیا ہے۔"
.نن۔۔۔ نام! دیکھئے جناب! نام تو مجھے یاد نہیں رہا۔"
"یہ کیا حماقت ہے! مجھے بھی نام تم ہی سے معلوم ہوا تھا۔ لیکن تم اسے بھلا بیٹھی ہو! نہیں جولیا اس طرح کام نہیں چلے گا۔ ہر وقت اپنی آنکھیں کھلی رکھو۔ کان کھلے رکھو! کیا سمجھیں!"
"میں معافی چاہتی ہوں جناب۔ آئندہ ایسی غلطی نہ ہو گی!"
"اس کا نام داور ہے!" عمران نے کہا۔
"اوہ۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ داور، داور۔۔۔! ذہن میں تو تھا لیکن بس زبان پر ہی نہیں آ رہا تھا۔"
"اچھا۔۔۔ صفدر!"
"صفدر اس لڑکی کے پیچھے ہے جس نے ہلدا کے کمرے کا دروازہ کھلوانے کی کوشش کی تھی۔ اس لڑکی کا تعلق ہسپتال سے نہیں ہے۔ وہ بارٹل سٹریٹ میں رہتی ہے۔ ہوٹلوں میں بیٹھنا اس کا ذریعہ معاش ہے۔"
"اس کے متعلق کوئی اہم بات۔"
"کوئی اہم بات ابھی تک نہیں معلوم ہو سکی۔"
"داور کے بارے میں کوئی خاص بات!"
" اس نے رات کا کچھ حصہ ٹپ ٹاپ نائٹ کلب میں گزارا تھا۔ اور کچھ حصہ گرینڈ میں! تقریبا تین بجے گھر واپس آیا تھا۔ بعد کی رپورٹ ابھی تک نہیں ملی۔"
"سول لائنز والے ڈاکٹر پر کون ہے۔"
"کیپٹن خاور۔۔۔ لیکن وہ ابھی تک اس کی شکل بھی نہیں دیکھ سکا۔"
"اس ڈاکٹر کا نام یاد ہے۔"
"جی ہاں۔ ڈاکٹر گلبرٹ، یہ انگریز ہے۔"
"کیا وہ اپنے مکان میں موجود نہیں ہے۔"
"یہ بھی نہیں معلوم ہو سکا۔ لیکن مکان پر ڈاکٹر گلبرٹ کا نام کی تختی موجود ہے۔"
"مجھے شام تک اس کے متعلق بہت کچھ معلوم ہونا چاہیے۔ سمجھیں۔" عمران کا لہجہ ناخوشگوار تھا۔
"میں خود بھی کوشش کروں گی جناب۔"
******************************

کیپٹن فیاض تھکے تھکے سے انداز میں مسکرایا۔ وہ بہت دیر سے عمران کی اوٹ پٹانگ باتین سن رہا تھا۔۔۔ اور انہیں برداشت بھی کر رہا تھا۔ کیونکہ اب اس کی امیدوں کا واحد مرکز عمران ہی تھا۔
عمران جس کے متعلق اس کا خیال تھا کہ وہ اس کیس کے سلسلے میں بہت آگے جا چکا ہے۔ بہت کچھ جانتا ہے۔ اتنا مواد اکٹھا کر چکا ہے کہ کسی وقت بھی اسے استعمال کر کے یہ قصہ نپٹا سکتا ہے۔
"سوپر فیاض!" یک بیک عمران سنجیدہ نظر آنے لگا! اور پھر کچھ دیر ٹھہر کر بولا۔ "تم اب اس سلسلے میں قطعی خاموشی اختیار کر لو! ورنہ لاکھ برس بھی کامیابی کی شکل نہ دکھائی دے گی!"
"دیکھو عمران! مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ اگر تم ہی یہ قصہ ختم کر دو! مگر دشواری یہ ہے کہ قانون تمہارا ساتھ نہ دے گا۔"
"یہی تو آج تک نہیں سمجھ سکو گے! قانون یقینا تمہارا ساتھ دیتا ہو گا! مگر میرے پیچھے تو دم ہلاتا پھرتا ہے! تم اس کی پرواہ نہ کرو! جب بھی کسی کام میں ہاتھ لگاتا ہوں تو قانون اور مجرم دونوں ہی میری تاک میں رہتے ہیں۔ تم دیکھ ہی رہے ہو۔ میں آج بھی آزادی سے آئس کریم کھا رہا ہوں!"
"تمہاری مرضی!" فیاض نے ایک طویل سانس لی۔
"بس پھر وعدہ رہا کہ یہ کیس میں تمہارے حوالے کر دوں گا۔"
"ارے یار اس کی پرواہ نہیں ہے۔ میں تو دراصل یہ چاہتا ہوں کہ شہر میں جو ہراس پھیلا ہوا ہےکسی طرح اس کا خاتمہ ہو جائے۔"
"ایسا ہی ہو گا۔" عمران نے یقین دلانے کے سے انداز میں سر ہلا کر بولا۔
اتنے میں فون کی گھنٹی بجی! عمران نے ریسیور اٹھا لیا۔ دوسری طرف سے سلیمان تھا جس نے اسے دوسرے کمرے سے پرائیویٹ فون پر کال کی اطلاع دی۔
عمران باتھ روم کے بہانے کمرے میں آیا۔ سلیمان یہاں موجود تھا۔
"عورت تھی یا مرد!"
"مرد ہی تھی جناب۔"
"تھا!" عمران آنکھیں نکال کر بولا۔ "مجھے غصہ نہ دلایا کرو ورنہ کسی دن بھسم کر دوں گا۔"
پھر اس نے بلیک زیرو کے نمبر ڈائیل کئے!
"کیوں؟" کیا تم نے مجھے رنگ کیا تھا!" عمران نے پوچھا۔
"جی ہاں!" دوسری طرف سے آواز آئی!" اس لڑکی کے متعلق رپورٹ دینی تھی۔"
"کوئی خاص بات!"
"جی ہاں! ماہرین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ کسی قسم کے زہر کی وجہ سے اس کا ذہنی توازن بگڑ گیا ہے۔"
"اس خاص بات کا علم تو مجھے پہلے ہی سے تھا۔ اور کچھ!"
"جی نہیں!"
عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا۔ اسے دراصل ڈاکٹر گلبرٹ اور داور کی فکر تھی۔ لیکن ان کے متعلق ابھی تک کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں ہو سکی تھیں۔ وہ اگر چاہتا تو فیاض سے ڈاکٹر گلبرٹ کا ریکارڈ دیکھنے کی خواہش ظاہر کر سکتا تھا اور شاید اس اسٹیج پر فیاض سارا دفتر لا کر اس کے سر پر پٹخ دیتا۔ مگر دشواری یہ تھی کہ عمران فیاض پر اعتماد نہیں کر سکتا تھا۔ اگر وہ ڈاکٹر گلبرٹ کا تذکرہ اس سے کر دیتا تو وہ خود یا اس کا کوئی ماتحت ڈاکٹر گلبرٹ کی گود میں جا بیٹھنے کی کوشش شروع کر دیتا۔
***********

صفدر تین دن سے اس لڑکی کا تعاقب کر رہا تھا۔ وہ بارٹل اسٹریٹ کی ایک عمارت کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتی تھی۔ راتیں ہوٹلوں میں گزارتی تھی اور دن بھر فلیٹ میں پڑی رہتی تھی۔ اس کا نام مارتھا اور یہ یوریشئین تھی۔
پچھلے دنوں اس نے گرینڈ میں ایک شکار پھانسا تھا اور اس پر روغن قاز مل رہی تھی۔ یہ ایک وجیہہ نوجوان تھا۔ لیکن صفدر کا اندازہ تھا کہ عورتوں کے معاملے میں بالکل اناڑی ہی ہے کیونکہ کل سے آج تک اس نے مارتھا پر بڑی رقم خرچ کر دی تھی۔
اس نے مارتھا سے کہا تھا کہ وہ بہت عرصہ سے کسی سفید فام لڑکی سے دوستی کا خواہشمند تھا۔۔۔ اور پھر یہ تھی بتا دیا تھا کہ نہ جانے کیوں اسے انگریز لڑکیوں سے خوف معلوم ہوتا ہے۔ اس پر مارتھا بہت ہنسی تھی۔
آج بھی وہ دونوں گرینڈ میں تھے اور صفدر انہیں بہت قریب سے دیکھ رہا تھا۔ اس نوجوان نے مارتھا کو اپنا نام صادق بتایا تھا۔
"میں پچھلی رات سو نہیں سکا۔" وہ مارتھا سے کہہ رہا تھا۔
"کیوں؟" مارتھا نے پوچھا۔
"بس نیند نہیں آئی تھی۔ تمہارے متعلق سوچتا رہا!"
"کیا سوچ رہے تھے؟"
"یہی کہ تم کتنی اچھی ہو!" کاش ہم بہت دنوں تک دوست رہ سکیں!"
"تم چاہو گے تو ضرور رہ سکیں گے۔"
"یہی تو مصیبت ہے۔۔۔!" صادق نے ٹھنڈی سانس لی۔
"کیا مصیبت ہے۔۔۔؟" وہ بس یونہی رواداری میں سوالات کرتی جا رہی تھی۔ انداز سے نہیں معلوم ہو رہا تھا کہ اسے اس موضوع سے ذرہ برابر بھی دلچسپی ہو۔
"مصیبت !" صادق نے پھر ٹھنڈی سانس لی "کل اگر کوئی تم سے بھی زیادہ خوبصورت لڑکی مل گئی تو میرا دل چاہے گا کہ اس سے دوستی پیدا ہو جائے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کرو! ویسے ناولوں وغیرہ میں تو یہ پڑھتا ہوں کہ کسی ایک کو کسی ایک سے محبت ہو جاتی ہے اور پھر وہ ساری زندگی کسی دوسرے کی شکل بھی نہیں دیکھتا۔ یعنی اسے اپنی محبوبہ سے زیادہ حسین اور کوئی لڑکی ملتی ہی نہیں ہے۔ پھر مجھے اب تک کوئی ایسی لڑکی کیوں نہیں ملی جس کے آگے اور کوئی پسند ہی نہ آ سکتی!
(ختم شد صفحہ 36 تا 45)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top