خطرناک لاشیں از ابنِ صفی (صفحہ 66 تا 76)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

قیصرانی

لائبریرین
شادی کرو گے!"

"ارے۔۔۔ یہ کتے کا پلا تم سے شادی کی خواہش رکھتا ہے!"

"ہاں۔۔۔ ڈیڈی۔۔۔ ذرا دیکھو تو۔۔۔ یہ کتے کا پلا!" مارتھا اٹھلائی۔

"بس تو پھر یہ بھی میرے غصے کا شکار ہو جائے گا۔ تم فکر مت کرو۔" انگریز بولا۔ پھر دفعتاً اس نے بلند آواز میں کہا۔ "کیپٹن موت کا ناچ شروع ہونے جا رہا ہے۔ اندھی لڑکی کا وار بہت کم خطا کرتا ہے۔ پچھلی رات تو تم آخری وار کا نظارہ کرنے کے لئے رکے ہی نہیں تھے۔ ورنہ اس اندھی آرٹسٹ کے کمال کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکتے۔ خیر آج سہی۔آج تو خود تمہیں ہی یہ وار سہنا ہے۔ آج تم اچھی طرح داد دے سکو گے!"

"نہیں نہیں! تم ایسا نہیں کر سکتے۔" فیاض خوفزدہ سی آواز میں چیخا اور پھر اسے اپنی بے بسی پر رونا آ گیا۔ وہ کمزور دل کا آدمی نہیں تھا۔ فوجی زندگی میں بڑے بڑے معرکے جھیلے تھے! پچھلی جنگ عظیم کے دوران میں سینکڑوں بار موت کے منہ میں جانے سے بچا تھا! لیکن آج کا خوف۔۔۔ ایسا خوف اسے پہلے کبھی نہیں محسوس ہوا تھا۔ اس سے پہلے کبھی خود کو بے بس تصور کرنے کی نوبت نہیں آئی تھی۔۔۔ پھر کیا تھا؟ کیا اسی انجکشن کا اثر جو کچھ دیر پہلے اسے دیا گیا تھا۔

"میں ایسے دیسی کتوں کو معاف کرنا پسند نہیں کرتا جو میری بیٹیوں کے چکر میں پڑیں!" انگریز کہہ رہا تھا۔ اچانک صادق نے فیاض کی طرف دیکھ کر مارتھا سے کہا۔ "کیا یہ حضرت بھی تمہارے عاشقوں میں سے ہیں!"

"بدتمیز لڑکے خاموش رہو۔" انگریز دھاڑا۔ "تمہاری موت ہی تمہیں یہاں لائی ہے۔"

"کیا یہ خوبصورت لڑکی موت ہے!" صادق نے ہونٹوں پر زبان پھیر کر کہا۔

"چپ رہو۔!" وہ پھر گرجا۔ "موت کا ناچ دیکھو۔ یہ اندھی لڑکی بہت اچھا ناچتی ہے۔"

"میرے پاپا کہتے ہیں کہ محبت اندھی ہوتی ہے۔" صادق بڑبڑایا۔

"مگر یہ لڑکی موت ہے! نفرت ہے!" انگریز نے قہقہہ لگا کر کہا۔ "یہ ناچتے ناچتے ٹھیک اس کے دل کے مقام پر خنجر پیوست کر دے گی! غور سے دیکھو! اور اس اندھی لڑکی کے کمال کی داد دو! اور کل تمہارا بھی یہی حشر ہوگا! تمہیں یہ اندھی محبت تمہارے گھر پہنچا دے گی۔"

گرامو فون پر ریکارڈ بجنے لگا اور اندھی لڑکی خنجر چمکاتی ہوئی ناچنے لگی۔

کیپٹن فیاض اس طرح چیخنے لگا جیسے اس پر "نہیں نہیں" کا دورہ پڑ گیا ہو! لڑکی ناچتی رہی۔۔۔ اور انگریز چیختا رہا۔۔۔ "کیپٹن فیاض۔۔۔ خاموش رہو۔۔۔ فن کی قدر کرنا سیکھو۔ دہقان نہ بنو۔۔۔! اس لڑکی نے بڑی محنت سے یہ کمال حاصل کیا ہے اس کا دل نہ توڑو۔۔۔ لڑکی اگر تیسرے وار میں خنجر اس کے دل میں پیوست نہ ہوا تو یہی تمہارے سینے میں اتار دیا جائے گا۔ تم مجھے اچھی طرح جانتی ہو!"

لڑکی کچھ کہے بغیر ناچتی رہی اور فیاض دیوانوں کی طرح چیختا رہا اور پھر یک بیک خاموش ہو گیا۔

"کھچاک" کی آواز کے ساتھ خنجر اس کے سر کے قریب صوفے میں پیوست ہو گیا تھا۔ جیسے ہی لڑکی نے دوبارہ خنجر کھینچ کر ناچنا شروع کیا وہ پھر چیخنے لگا۔

صادق حیرت سے آنکھیں پھاڑے تماشا دیکھ رہا تھا۔ مارتھا اب وہاں موجود نہیں تھی۔

اچانک صادق نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا! آواز اتنی بلند تھی کہ تیز ترین موسیقی پر بھی حاوی ہو گئی۔ فیاض چیختے چیختے خاموش ہو گیا اور انگریز بھی اسے گھورنے لگا۔ مگر اس کا قہقہہ تھا کہ طویل ہی ہوتا جا رہا تھا۔ اتنی لمبی سانس کسی کی بھی سمجھ میں نہ آ سکی! قہقہہ کسی طرح ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔

"خاموش رہو۔۔۔ خاموش رہو۔" انگریز چیخا۔ لیکن قہقہہ نہ رکا۔۔۔ دفعتاً ریکارڈ ختم ہو گیا اور پھر تو سناٹے میں یہ قہقہہ بہت زیادہ بھیانک معلوم ہونے لگا! ریکارڈ دوبارہ نہیں لگایا گیا۔ اندھی لڑکی بھی رک گئی تھی۔

"خاموش رہو۔۔۔ خاموش رہو۔" انگریز پھر دھاڑا۔۔۔ اور پھر وہ لوگ بھی اسے جھنجھوڑ کر خاموش کرانے لگے، جو اسے پکڑے ہوئے تھے۔

دفعتاً صادق تڑپ کر ان کی گرفت سے آزاد ہو گیا! وہ لوگ دراصل اسی قہقہے کے جال میں پھنس کر غافل ہو گئے تھے۔

صادق کی لات اس آدمی کے سینے پر پڑی، جو سب سے پہلے اس کی طرف جھپٹا تھا۔ پھر ایسا معلوم ہونے لگا جیسے وہ ہوا میں اڑ رہا ہو۔ اس کے پیر زمین پر لگتے ہوئے معلوم ہی نہیں ہوتے تھے۔ بس ایسا لگتا تھا جیسے وہ صرف ان کے سینوں پر پڑ رہے ہوں! اندھی لڑکی چیخ مار کر ایک جانب لڑھک گئی۔ کیونکہ اس بار کے سپاٹے میں صادق نے اس کے ہاتھ سے خنجر چھین لیا تھا۔

یک بیک صادق اسی طرح اچھلتا کودتا اور انہیں لاتیں رسید کرتا ہوا بولا۔ "یہ دیکھو بیٹو۔۔۔ یہ ہے موت کا ناچ۔۔۔ اگر ہمت ہو تو مجھے ناچنے سے روک دو۔"

فیاض بری طرح چونکا! کیونکہ اس بار صادق کی آوا ز بدلی ہوئی تھی! ہوسکتا ہے ان لوگوں میں سے ایک آدھ کے پاس پستول یا ریوالور بھی رہے ہوں! لیکن انہیں اتنا ہوش نہیں تھا کہ وہ ان کے استعمال کے متعلق سوچ سکتے۔

"صفدر۔۔۔! بلا ضرورت دخل نہ دینا!" صادق نے چیخ کر کہا اور کیپٹن فیاض حلق پھاڑ کر چیخا "عمران"

"میں انہیں موت کا اصل ناچ دکھا رہا ہوں سوپر فیاض!" عمران نے اسی طرح اچھل اچھل کر لاتیں چلاتے ہوئے کہا۔

"اوہ۔۔۔ پکڑو اسے!" یک بیک انگریز دھاڑا۔ پھر عمران نے اس کی جیب سے ریوالور بھی برآمد ہوتے دیکھا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے عمران کی لات اس کے منہ پر پڑی اور وہ کراہ کر ڈھیر ہو گیا۔ ریوالور اچھل کر دور جا پڑا جسے ایک آدمی نے اٹھانے کی کوشش کی۔ مگر عمران بجلی کی سی سرعت سے اس پر جا پڑا۔ اس بار اس کا خنجر والا ہاتھ بھی چلا تھا۔ اس آدمی نے چیخ مار کر زمین پکڑ لی۔

"ڈاکٹر گلبرٹ!" عمران اسی طرح اچھلتا ہوا بولا۔ "تم میرے کمال کی داد نہیں دے رہے! دہقان نہ بنو بلکہ فن کی قدر کرنا سیکھو! ورنہ میں اسی طرح ناچتے ناچتے یہیں فنا ہو جاؤں گا۔"

ایک بار عمران چوک ہی گیا اور اس کی ٹانگ ڈاکٹر گلبرٹ کے ہاتھ میں آ گئی۔ وہ فرش پر ڈھی ہو گیا اور ڈاکٹر گلبرٹ سمیت پانچ آدمی اس پر ٹوٹ پڑے۔

"مار ڈالو۔۔۔ مار ڈالو۔۔۔!" گلبرٹ غرا رہا تھا۔

"عمران میں بالکل بے بس ہوں۔۔۔ مفلوج کر دیا گیا ہوں!" کیپٹن فیاض نے پوری قوت سے چیخ کر کہا۔

"پروا نہ کرو!" عمران کا جواب تھا۔

وہ لوگ حقیقتاً نروس ہو گئے تھے اس لئے عمران پر گرتے وقت نہیں خیال نہیں رہ گیا تھا ابھی عمران کے داہنے ہاتھ میں خنجر موجود ہے! وہ تو انہیں اس وقت ہوش آیا جب ان کا ایک آدمی دونوں ہاتھوں سے پیٹ دبائے ہوئے بھینسوں کی طرح ڈکرا کر بائیں جانب لڑھک گیا۔ ان کی بوکھلاہٹ کی معراج تو یہ تھی کہ وہ اپنے ساتھی کا حشر دیکھ کر عمران سے خنجر چھیننے کی بجائے اسے چھوڑ کر ہٹ گئے! اور اس کی پہل ڈاکٹر گلبرٹ ہی سے ہوئی تھی! وہ ویسے بھی لڑائی بھڑائی والا آدمی معلوم نہیں ہوتا تھا۔

اس بار ان کی گرفت سے آزاد ہوتے ہی اس نے اس ریوالور پر قبضہ جما لیا جو ڈاکٹر گلبرٹ کی جیب سے برآمد ہوا تھا۔

"تم سب اپنے ہاتھ اٹھا دو۔" عمران نے پیچھے ہٹ کر دیوار سے لگتے ہوئے کہا۔ اس کا لہجہ بے حد سرد تھا اور اب اس نے اپنا موت کا ناچ بھی روک دیا تھا۔

فیاض نے کراہ کر کروٹ لینے کی کوشش کی! لیکن بندش ڈھیلی نہیں تھی! اس لئے اس میں کامیابی کا سوال نہیں پیدا ہو سکتا تھا۔

"کیا تم لوگوں نے سنا نہیں!" عمران نے گرج کر کہا اور انہوں نے اپنے ہاتھ اوپر اٹھا دیئے!
 

قیصرانی

لائبریرین
O

دوسرے دن ڈاکٹر گلبرٹ رحمان صاحب کے آفس میں لایا گیا! اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پڑی ہوئی تھیں!

عمران بھی موجود تھا اور فیاض ایک اپاہجوں والی پہئے دار کرسی پر لایا گیا تھا! ڈاکٹر گلبرٹ کے چہرے پر پریشانی ظاہر نہیں ہو رہی تھی۔

اس نے رحمان صاحب کو مخاطب کر کے کہا۔ "تم لوگ جاہل ہو! میں نے ایک بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے!"

"ہم لوگ تو ازلی جاہل ہیں! لیکن تم اس کی پروا نہ کرو!" عمران بول پڑا۔

"میں ایک ایسا تجربہ کر رہا تھا جس سے مستقبل کی دنیا بڑی شاندار اور پرامن بن سکتی!"

"کیا تجربہ!" رحمان صاحب اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولے۔

"یہ بات تم جیسے حقیر آدمیوں کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔ ویسے مجھے یہ بتاؤ کہ میری وجہ سے کتنی جانیں ضائع ہوئی ہیں!"

"تین!"

"اور اس کے لئے تم مجھے پھانسی کے تختے تک لے جانا چاہتے ہو!" ڈاکٹر گلبرٹ نے ایک طویل سانس لے کر کہا۔

"لیکن میں ثابت کر سکتا ہوں کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے!"

"کوشش کرو!" عمران سر ہلا کر بولا۔

"میں نے یہاں کے ایک دریا پر ایک پل دیکھا تھا۔"

"ضرور دیکھا ہوگا! کیونکہ تم لڑکی کی طرح اندھے نہیں ہو!" عمران نے کہا۔

"پوری بات سنو!" ڈاکٹر گلبرٹ غرایا۔

"سناؤ!" عمران نے ٹھنڈی سانس لی!

"اس پل پر ایک یادگار بھی نظر آئی تھی جس پر تحریر تھا! ان بہادروں کی یاد میں جنہوں نے اپنی جانیں دے کر اس پل کو پائیہ تکمیل تک پہنچایا تھا۔ میں کہتا ہوں کہ میرے تجربے میں ضائع ہونے والوں کی یادگار بناؤ اور اس پر لکھو۔ "ان بہادروں کی یاد میں جنہوں نے انسانیت کا مستقبل سنوارنے کے سلسلے میں اپنی جانیں دی ہیں اور انہیں جس نے استعمال کیا تھا اسے بھی ہم سلام کرتے ہیں!"

"سلام کرو سوپر فیاض!" عمران احمقانہ انداز میں بولا۔

"تم خاموش رہو۔" رحمان صاحب نے اسے ڈانٹا اور وہ مسکین سی صورت بنا کر رہ گیا۔

"اس آدمی کو یہاں سے ہٹا دو ! ورنہ میں اپنے سر پر ہتھکڑیاں مار لوں گا۔" ڈاکٹر گلبرٹ نے عمران کو گھورتے ہوئے دانت پیس کر بولا۔

"تم اپنا بیان جاری رکھو وہ اب نہیں بولے گا۔" رحمان صاحب بولے۔

"میں نے میڈیکل سائنس میں اس صدی کا سب سے بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے!"

"ارے کیا بکواس لگا رکھی ہے تم نے!" رحمان صاحب بھی جئھنجھلا گئے!

"اسے میرے حوالے کر دیجئے جناب!" کیپٹن فیاض نے کہا۔

"بیکار باتیں نہ کرو!" رحمان صاحب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ پھر گلبرٹ سے بولے۔ "یہ بتاؤ کہ میرے محکمے کا وہ آفیسر شاہد کیسے ٹھیک ہوگا۔"

"بس ایک سال بعد وہ ممی کو ممی اور پاپا کو پاپا کہنے لگے گا؟"

"کیا مطلب؟"

"یہ سمجھ لو کہ وہ بالکل دوبارہ پیدا ہوا ہے اپنی پچھلی زندگی اسے کبھی نہ یاد آ سکے گی! وہ بالکل اسی طرح آہستہ آہستہ شعور و ا دراک حاصل کرے گا! جیسے نوزائیدہ بچے کرتے ہیں اور اسے بھی یاد رکھو کہ اس کی جتنی بھی عمر ہے اتنی ہی اس کی زندگی اور بڑھ گئی ہے!"

"اس سے تمہارا کیا مقصد ہے؟"

"آدمی کی شخصیت بدل دینا! لاؤ میرے پاس بڑے سے بڑا عادی مجرم لاؤ! میں اسے ایک نوزائیدہ بچہ بنا دوں گا۔ پھر جس راستے پر چاہو اسے لگا دو۔ اسی پر چل نکلے گا اور اپنی زندگی اسے کبھی نہ یاد آئے گی!ً کیا اس طرح دنیا کے بہت برے آدمی اچھے نہیں بن سکتے!"

"یار تم نے وہیں کیوں نہیں بتا دیا تھا!" عمران نے شکایت آمیز لہجے میں کہا۔ "ورنہ میں سوپر فیاض کی جگہ خود کو پیش کر دیتا۔!" عمران پھر بول پڑا۔

لیکن ڈاکٹر گلبرٹ اس کی پروا کئے بغیر کہتا رہا۔ "آج تم مجھے پھانسی دے دو۔ لیکن کل کی دنیا تمہارے نام پر تھوکے گی!"

"یہ سارا قصور تمہاری بکرا سٹائل کی داڑھی کا ہے!" عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا مگر گلبرٹ اب بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔

"دو لاشوں کے پھٹ جانے کی ذمہ داری پولیس پر عائد ہوتی ہے۔ اگر ان لاشوں کو ہاتھ نہ لگایا جاتا تو وہ کبھی پھٹتیں!"

"مگر دوسری لاش کو تو ہاتھ نہیں لگایا گیا تھا!" رحمان صاحب بولے۔

"دراصل لاشوں پر سایہ نہ پڑنا چاہئے! کسی چیز کا سایہ بھی انہیں تباہ کر سکتا ہے۔ تم یوں نہیں سمجھو گے! وضاحت کرنی پڑے گی۔ جس پر بھی تجربہ کیا گیا ہے پہلے اس کے قلب کی حرکت بند کی جاتی ہے۔ اور پھر اسے برہنہ کر کے کسی ایسی جگہ دھوپ میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں اس پر صرف دھوئیں کا سایہ پڑ سکے یعنی اس پر پڑنے والی سورج کی شعاعیں دھوئیں سے گذر کر اس کے جسم کے کسی حصے پر پڑیں۔ اسی لئے میں نے اس کام کے لئے مل ایریا کو منتخب کیا تھا۔!"

عمران نے فیاض کو گھور کر دیکھا!

"کیپٹن فیاض کو میں نے اسی لئے پکڑا تھا کہ کم از کم ایک تجربہ تو کامیاب ہو جائے! صرف پولیس ہی لوگوں کو لاش کے قریب جانے سے روک سکتی تھی۔ اگر ایسا نہ کرتا تو انسپکٹر شاہد کے بھی پرخچے اڑ گئے ہوتے! پھر میں نے اس تجربہ کے لئے کیپٹن فیاض کو منتخب کیا! لیکن بہرحال مجھے شکست ہو گئی!"

"تم بہر حال قاتل ہو!" رحمان صاحب نے کہا۔ "اگر تم بذات خود اس معاملے میں نہیں ہو تو یہ قتل تماری ہی ایماء پر ہوئے ہیں! اور وہ اندھی لڑکی!"

"اندھی لڑکی نے کسی کو بھی قتل نہیں کیا!" گلبرٹ بولا۔

"تم جھوٹے ہو!" فیاض نے غصیلے لہجے میں کہا۔

"مجھے جھوٹا ثابت کرنے کے لئے تمہیں شاہد کے جسم پر زخم کا نشان دکھانا پڑے گا۔"

"زخم کا نشان تو نہیں ہے!" رحمان صاحب نے سر ہلا کر کہا۔

"اگر ہوتا تو تہمارے بیان کے مطابق دل ہی کے مقام پر ہوتا لیکن شاہد کا جسم بالکل بے داغ ہے!"

"وہ لڑکی اندھی نہیں ہے! بلکہ اندھے پن کی بہترین ایکٹنگ کرتی ہے! میں اس ڈرامے کا مقصد بھی واضح کئے دیتا ہوں! دراصل قلب کی حرکت خوف کے مارے خود بخود بند ہو جاتی ہے کیونکہ یہ تجربہ کسی ایسے ہی آدمی پر کیا جاتا ہے جس کی موت حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے ہوئی ہو! سب سے پہلے ایسے آدمی کو ایک انجکشن دیا جاتا ہے۔ اس انجکشن کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کے اثر سے معمولی سا خوف بھی کوئی بھیانک شکل اختیار کر لیتا ہے اور لوگ سہم کر خود بخود مر جاتے ہیں! شاہد تیسرے وار سے پہلے ہی مر گیا تھا۔"

"کیپٹن فیاض کو وہ منظر اسی لئے دکھایا گیا تھا کہ وہ پہلے ہی سے خوفزدہ ہو جائے تاکہ عین وقت پر آسانی سے ہارٹ فیل ہو سکے!"

فیاض بیٹھا دانت پیس رہا تھا اور عمران کبھی کبھی رحمان صاحب کی نظریں بچا کر اسے منہ چڑھا دیتا تھا۔

"مگر لاشیں پھٹ کیوں جاتی ہیں!" رحمان صاحب نے پوچھا۔

"کیونہ وہ ادویاتی اجزاء جو اس کی کایا پلٹ کر کے لاش کے جسم میں پہنچائے جاتے ہیں دھوئیں کی پرچھائیں کے علاوہ اور کسی قسم کا سایہ نہیں برداشت کر سکتے! اگر کوئی دوسرا سایہ پڑ گیا تو بم ہی کا سا انغمار ہوتا ہے اور آس پاس کی چیزیں تباہ ہو جاتی ہیں اور اگر کوئی آدمی اس کے قریب ہو تو اس کے بھی چیتھڑے اڑ جاتے ہیں۔ دراصل دھوئیں کا سایہ ہی ان ادویات کو دوبارہ حرکت قلب جاری کرنے میں مدد دیتا ہے۔ دوسری لاش پر ایمبولینس گاڑی کا سایہ پڑ گیا تھا اس لئے اس کے چیتھڑے اڑ گئے تھے۔ میں کہتا ہوں کہ مجھے میرے ملک کے سفیر کے حوالے کر دو! تم لوگ نہیں سمجھ سکتے کہ میں کیا ہوں!"

"باگڑ بلے!" عمران بچوں کے سے انداز میں ہنسا اور کیپٹن فیاض کو آنکھ ماری!

"کیا؟" ڈاکٹر گلبرٹ غرایا۔

"کچھ نہیں! میں نے کہا کہ اب تم اس کا فارمولا مجھے بتا دو!"

"میں قوم کے سارے بڑے لیڈروں کو دوبارہ پیدا کر کے از سر نو قوم کی مرمت کرانا چاہتا ہوں! اگر ایک آدھ پولیس والا دوبارہ پیدا ہو گیا تو اس سے کیا ہوتا ہے!"

"عمران خاموش بیٹھو۔۔۔! یا چلے جاؤ!" رحمان صاحب نے پھر اسے ڈانٹا!

عمران نے مضبوطی سے ہونٹ بند کر لئے!

"وہ لڑکی ہلدا کب ٹھیک ہوسکے گی!"

"اسے دنیا کی کوئی طاقت دوبارہ صحیح الدماغ نہیں بنا سکتی! اسے محض اس خیال سے پاگل بنا دیا گیا تھا کہ پولیس ہماری راہ پر نہ لگنے پائے اور ہم کسی صورت سے اپنے تجربے کو کامیاب بنا لیں!"

"کیپٹن فیاض کی حالت بھی بہتر نہیں ہے!" رحمان صاحب نے کہا۔

"وہ خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے! لیکن کم از کم ایک ہفتہ ضرور آرام کرنا چاہئے!"

ڈاکٹر گلبرٹ نہ تو خائف نظر آٹا تھا اور نہ ہی اس کے چہرے پر جذباتی انتشار ہی کے نشان پائے جاتے تھے! انداز بالکل ایسا ہی تھا جیسے کوئی بہت بڑا آدمی پریس کانفرنس سے مخاطب ہو۔

وہ کہہ رہا تھا! "میں انسانیت کا محسن ہوں! میری قدر کرو۔ مجھے سر پر بٹھاؤ!"

"میں تمہیں بیل کے سر پر بٹھا سکتا ہوں۔!" عمران نے کہا۔

"کیونکہ تم انسانیت کے دشمن ہو! تمہارے فرشتے بھی اس طرح انسانیت کی کایا پلٹ نہیں کر سکتے! کیا ایسا بھی ہوا ہے کہ کسی آدمی کی کایا پلٹ کرنے کے بعد تم نے اس کا تدریجی نشوونما کا جائزہ لیا ہو!"

"نہیں ابھی نہیں!"

"پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ دوبارہ اسکی نشوونما تمہارے اندازے کے مطابق ہی ہوگی!"

"ہو سکتا ہے کہ کچھ دنوں کے بعد وہ کتوں کی طرح بھونکنے لگے! اور ساری زندگی بھونکتا ہی رہے!"

"نہیں ایسا نہیں ہو سکتا!"

"تم دیوانے ہو۔۔۔" عمران آنکھیں نکال کر بولا۔"تمہیں ہوش مند سمجھنا بھی دیوانگی ہی کہلائے گی!"

"بکواس مت کرو۔۔۔ تم لوگ ابھی کنویں کے مینڈکوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے!"

"یہی وجہ ہے کہ اب تک وحشت اور دیوانگی کی حدود میں داخل نہیں ہوئے!" عمران سر ہلا کر بولا۔ پھر اس نے ایک طویل سانس لی اور اٹھ گیا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
O

باہر نکل کر وہ کچھ ہی دور چلا ہوگا کہ صفدر سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔

"واہ۔۔۔ استاد!" اس نے کہا !"کمال ہی کر دیا آپ نے، جب خود یہ سب کچھ کر رہے تھے تو پھر مجھے بور کرنے کی کیا ضرورت تھی! میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ صادق آپ ہی ہوں گے!"

"بور کیا تھا! تمہارے چوہے ایکس ٹو نے۔ میرے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ۔۔۔!"

"یہ آپ نہیں کہہ سکتے! کیونکہ آپ نے پچھلی رات مجھے آواز دے کر کہا تھا کہ میں بلا ضرورت مداخلت نہ کروں!"

"ارے ہاں ۔۔۔ میرا خیال ہے کہ میں نے تمہیں اپنا تعاقب کرتے دیکھا تھا۔۔۔ مگر میں تو سمجھا تھا کہ شاید تمہیں وہ لڑکی پسند آ گئی ہے!"

"عمران صاحب مجھے بیوقوف نہ بنایا کیجئے! اف فوہ! کل رات کی اچھل کود! میرا تو سر چکرا گیا تھا! آپ کے پیر زمین پر لگتے معلوم ہی نہیں ہوتے تھے۔!"

"اسی لئے بزرگوں نے کہا ہے کہ بھنگ ایک بہت واہیات نشہ ہے!"

"کیا مطلب!"

""پچھلی رات کسی نے مجھے بھنگ پلائی تھی!"

صفدر ہنسنے لگا ! اور عمران نے ایسی شکل بنا لی جیسے اسے پچھلی رات بھنگ پی لینے پر بے حد شرمندگی ہو! پھر اس نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ "یہ ایکس ٹو بڑا خطرناک ہے!"

"کیوں؟"

"کل وہ خود بھی بیلمر ہاؤس میں موجود تھا۔!"

"ہاں میرا خیال ہے کہ میں نے بھی اس کی جھلک دیکھی تھی۔ وہ سیاہ سوٹ میں تھا اور اس کے چہرے پر سیاہ نقاب موجود تھا! مگر عمران صاحب یہ قصہ کیا ہے!"

عمران نے اسے مختصر بتانے کی کوشش کی!

"مگر مقصد کیا تھا؟" صفدر نے پوچھا۔

"کچھ نہیں۔۔۔ بس دیوانگی! یار یہ آدمی خود کو اشرف المخلوقات کہتا ہے مگر میرا خیال ہے کہ وہ گدھوں سے زیادہ اونچا نہیں ہے! بلکہ میرا خیال ہے کہ گدھوں سے بھی بدتر ہے!"

"کیوں؟"

"گدھے کبھی گدھے پن کی حدود سے تجاوز کرنے کی کوشش نہیں کرتے! مگر آدمی خواہ مخواہ اپنا وقت برباد کرتا رہتا ہے کوئی صاحب کینچوؤں کے پیچھے پڑ گئے ہیں! کوئی صاحب چیونٹیوں کا شجرہ نسب جاننے کی فکر میں ہیں! کوئی صاحب پرندوں سے رسم و راہ پیدا کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں! اب ایک صاحب اٹھے تھے کہ آدمی ہی کی کایا پلٹ کر کے رکھ دیں!"

"کام واقعی شاندار تھا عمران صاحب!" صفدر نے کہا۔

"بشرطیکہ اسے قانون کی حمایت حاصل ہو جاتی دوبارہ اس طرح حرکت قلب جاری کرنا کہ آدمی کی شخصیت ہی بدل جائے!"

"لیکن جو تین جانیں ضائع ہو گئیں اسے کس کھاتے میں ڈالو گے!"

"کاش اسے قانون کی حمایت حاصل ہوتی!" صفدر نے کہا۔

"ایسی دیوانگیوں کو بعض اوقات قانون کی بھی حمایت حاصل ہو جاتی ہے! خطرناک ایجادات کے سلسلے میں نہ جانے کتنی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں اور یہ قوانین ہی کے سائے میں ہوتا ہے۔ پچھلی جنگ عظیم کو مختلف ممالک کے قوانین کی ہی حمایت حاصل تھی۔ قوانین ہی کے سائے تلے لاکھوں آدمیوں کی لاشوں پر فتح کے جشن برپا کئے گئے تھے۔۔۔ اور کتنی مثالیں دوں!"

دفعتاً عمران چلتے چلتے رک گیا۔ صفدر بھی رکا۔۔۔؟ اور عمران کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

"میرا دل چاہتا ہے کہ یہیں سڑک پر ناچنا شروع کر دوں!"

"اگر آپ ایسا کر بیٹھے تو میں اسے دیوانگی کہوں گا۔ عمران صاحب!"

"تم دیوانوں کی سی باتیں کر رہے ہو صفدر! اگر تمہیں دنیا میں کبھی کوئی ایسا آدمی مل جائے تو مجھے اس کے پتے سے ضرور آگاہ کرنا۔ میں اسے کسی عجائب گھر مںیں رکھوا دوں گا تاکہ دیوانے اسے دیکھ کر محظوظ ہو سکیں! اگر میں اس سڑک پر ناچنا شروع کر دوں تو تم مجھے دیوانہ کہو گے لیکن لاشوں پر ناچنے والے سورما کہلاتے ہیں! انہیں اعزاز ملتے ہیں! ان کی چھاتیاں تمغوں سے سجائی جاتی ہیں۔

"بھاگو صفدر۔۔۔ میں ناچنے جا رہا ہوں۔۔۔ بھاگو ورنہ میرے ساتھ تم بھی پکڑ کر بند کر دیئے جاؤ گے۔"

"بھاگو۔۔۔!"

ڈاکٹر گلبرٹ پر مقدمہ چل رہا ہے۔۔۔ دوسری طرف اس کے ملک کی حکومت کوشاں ہے کہ اسے اس کے حوالے کر دیا جائے۔ اس کی موافقت میں بین الاقوامی رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔۔۔ اس کے کارنامے کے متعلق اس ملک میں بڑے بڑے اونچے مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ بڑی پرمغز تقریریں کی جا رہی ہیں۔ اور عمران صفدر سے کہتا ہے کہ اگر تمہیں دنیا میں ایک بھی ہوشمند آدمی مل جائے تو مجھے اس کے پتے سے ضرور آگاہ کر دینا۔

ختم شد
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top