خطابات بہاولپور نمبر5

جاویداقبال

محفلین
قانون بین الممالک
محتری صدر!محترم وائس چانسلراورمہمانان گرامی!
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ!
"انٹرنیشنل"کےلیےعام طورپر"بین الاقوامی"کالفظ مستعمل ہوتاہےاسکے باوجودمیں نےعمدہ"بین الممالک"کالفظ استعمال کیاہے۔اولامیں اسکی توجیہ کردوں کہ قانون اصل میں سلطنتوں کے آپس کےتعلقات کےمتعلق ہوتاہے،حالت جنگ میں بھی اورحالت امن میں بھی سلطنت کےباشندوں کواس سےکوئی تعلق نہیں ہوتا۔یعنی دوقوموں کےتعلقات سےاس میں بحث نہیں ہوتی بلکہ دومملکتوں کےمعاملات ومفادات سےبحث ہوتی ہےاسلیےمیں اردومیں"بین الممالک"کی اصلاح کو"بین الاقوامی"پرترجیح دیتاہوں۔آجکل اس کےلیے"بین الملل"کالفظ بھی استعمال ہوتاہےجواسی غلط فہمی پرمبنی ہےکیونکہ ملت کےمعنی قوم کےہیں۔سلطنت کےنہیں۔لیکن کبھی کبھی عربی میں"بین الدول"کالفظ استعمال ہوتاہےجومیرےنزدیک زیادہ صحیح ہے۔یہاں"دولت"مملکت کےمعنی میں ہیں۔اس مختصرتوجیہ کےبعداصل موضوع پرکچھ۔ عرض کرتاہوں۔
جس طرح کل کے موضوع کےضمن میں،میں نے عرض کیاتھاکہ اصول فقہ ایسی چیزہےجس پرمسلمان فخرکرسکتے ہیں،اسی طرح آج کاموضوع یعنی قانون بین الممالک بھی ایک ایساعلم ہےجومسلمانوں کاہی رہین منت ہےاورمسلمانوں ہی نےسب سے پہلےاسکووجودبخشا،یہ ذراعجیب سادعوی ہےاس لیےکہ جب اس قانون کاتعلق دومختارسلطنتوں کےباہمی تعلقات سےہے۔اورخودمختارسلطنتیں آج سےنہیں بلکہ ہزارہاسال سےانسانی سماج میں موجودہیں،ان میں جنگیں بھی ہوتی رہی ہیں،ان میں آپس میں پرآمن تعلقات بھی رہےہیں اسلیے یہ کہناکہ انٹرنیشنل لامسلمانوں کارہین منت ہےاورمسلمانوں ہی نےاسےوجودبخشاہے،یہ بات تھوڑی سی وضاحت کی محتاج ہے۔اصل میں اگرہم اس علم کے آغازپرغورکریں تویہ کہناپڑتاہےکہ اس کاآغازسلطنتوں سےنہیں بلکہ اس سےبہت پہلےکےایک زمانےمیں افرادسےہوتاہے۔ہرفرداپنی جگہ خودمختارہےاسلیے اس قانون کی اساس ابتداء افرادکےباہمی تعلقات پرہونی چاہیے۔لیکن ہم اپنی علمی ضرورتوں کووجہ سے اس کوافرادکےتعلقات سے نہیں ملاتے




















بلکہ ذرااوربعدکےزمانے سےشروع کرتے ہیں۔افرادکےبعدکنبوں اورخاندانوں کازمانہ آتاہے۔ایک کنبےیاایک خاندان کےتعلقات دوسرےکنبےیاخاندان سےہوں،یہ بھی ایک معنی میں انٹرنیشنل چیزبن جاتی ہے۔جب کہ ہرکنبہ اپنی جگہ خودمختارہواوردوسراکنبہ بھی مساوی خودمختاری کاحامل ہوتوان کے کچھ۔ باہمی تعلقات ہوتےہیں۔جن کے لیے قاعدوں کی ضرورت ہوگی۔لیکن اسےبھی ہم نظراندازکردیتےہیں اورکہتےہیں کہ اس کی حیثیت اتنی اہم نہیں ہےکہ اس علم کےشایان شان ہو۔اسکےبعدقبیلوں کادورشروع ہوتاہےایک قبیلےمیں بہت سےخاندان ہوتےہیں اورہم تاریخ میں دیکھتےہیں کہ قبیلےخودمختاررہےہیں۔مثلااسلام سےپہلےعرب میں ہرقبیلہ اتناہی خودمختارہوتاتھاجتنی آجکل کی بڑی سلطنتیں ہیں۔وہ نہ صرف حالت امن کے تعلقات میں بلکہ حالت جنگ میں بھی خودمختاری رکھتاتھا۔ہرقبیلےکاسرداردوسرےقبیلےکےخلاف اعلان جنگ کرسکتاتھا،صلح کرسکتاتھا،معاہدےکرسکتاتھا۔غرض وہ تمام کام سرانجام دےسکتاتھاجن کواب ایک سلطنت یاایک مملکت اپنی امتیازی شان سمجھتی ہے۔لیکن کسی نہ کسی وجہ سے ہمارے اہل علم قبائلی دورکوبھی نظراندازکردیتے ہیں اوراس کاآغازمملکت سےکرتےہیں،چاہے وہ چھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔
مملکت سب سےپہلے ایک شہر(City State)کی صورت میں وجودمیں آئی ہے۔غالبافرنگی مصنفین اس کوسٹی اسٹیٹ سےاس لیے شروع کرتےہیں کہ ایک زمانےمیں یونان میں شہری مملکتیں پائی جاتی تھی۔ان میں آپس میں جنگیں بھی ہوتی تھی،پرامن تعلقات بھی رہاکرتےتھے۔بہرحال جوبھی ہواگرچہ اسلام سے بہت پہلے یونان میں سٹی اسٹیٹ کاوجودتھالیکن یہ صرف یونان سےمخصوص چیزنہیں ہےبلکہ دنیاکےہرحصےمیں ہمیں نظرآتی ہے،حتی کہ عرب میں بھی قبل ازاسلام سٹی اسٹیٹ کاوجودنظرآتاہے۔عرب میں قبیلےبھی تھےاورشہربھی تھے۔قبیلہ اورشہرکایہ فرق گویااسلام کےانٹرنیشنل لاکاایک پیشروتھا۔وہاں قبیلےخانہ بدوش آبادیوں پرمشتمل ہوتےتھے۔ان کے پاس کوئی بستی نہیں ہوتی تھی جہاں وہ سال کے بارہ مہینےرہیں۔اسکےبرخلاف شہرتھےجہاں کےرہنےوالےخانہ بدوشی کی زندگی نہیں گزارتےتھے۔اسطرح عرب میں ہم کوبیک وقت شہری مملکتیں بھی ملتی ہیں اورقبیلےبھی ملتےہیں۔غالبایونان بھی ایک زمانےمیں ایساہی رہاہوگالیکن جس زمانےکےحالات سےمغربی مصنفین بحث کرتےہیں۔اس زمانےمیں وہاں شہری مملکتیں تھیں،یعنی لوگ بستیوں میں آبادتھے۔بہرحال زیربحث علم کاآغازاس دورسےہوتاہےجب انسان فردسےگزرکر،کنبےاورخاندان سےگزرکرقبیلےسےبھی گزرکراس سےوسیع تریونٹ یعنی شہری مملکتوں میں بسنے لگاتھا۔میں یہ عرض کرتاہوں کہ اگرصرف فردکامعاملہ فردکےساتھ۔ ہوتووہ بہت کمزورہوتاہے۔چنانچہ مرداورعورت دو ملکر ایک کنبہ بناتے ہیں تاکہ اپنےفرائض منصبی کی تکمیل کریں اورتنہاہونےکی بجائےدوآدمی ہوں تواپنےکسی بھی دشمن خواہ وہ فطرت کےمظاہرہوں،یااپنے ہم














جنس انسان ہوں یاکوئی جانور،ان سب کےمقابلے کےان میں قوت آتی ہے۔اسکےبعدجب افرادکوبھی محسوس ہواکہ ہم دوآدمیوں کودوسرےدوآدمی شکست دےسکتےہیں جوہم سےزیادہ طاقتورہیں،توانھوں نےسوچاکہ بہترہوکہ ہم بجائےزوجین کے(یعنی مرداورعورت)بڑےکنبےمیں رہیں تاکہ دوسرےدوافرادسےآسانی کےساتھ۔ مقابلہ کرسکیں۔جس سےکنبہ وجودمیں آیا۔لیکن جب یہ دیکھاکہ کنبےبھی بہت کمزورہیں اورایک کنبےکامقابلہ دوسرےکنبےسےہوتوبعض اوقات مقابلہ نہیں کرسکتےہیں توکنبےسےوسیع تردائرےیعنی قبیلےمیں رہناپسندکیاگیا۔اجتماعیت (یااپنی تعدادکوبڑھانے)کایہ رجحان،انٹرنیشنل لااورانسانی فطرت کاایک بنیادی پہلوہے۔اس لیےکنبوں سےگزرکرقبیلوں سےبھی گزرکرشہرمملکتوں میں انسان بسنےلگا۔کیونکہ شہرمیں کئی قبیلےرہتےتھےجس کانتیجہ یہ تھاکہ وہ کسی تنہاقبیلےکےمقابلےمیں اپنےآپ کومحفوظ بھی پاتاتھااورشہرکےاطراف مثلافصیل وغیرہ بناکراپنی حفاظت کاانتظام کرتااورزیادہ اطمینان کےساتھ۔ زندگی گزارتاتھا۔
قدیم یونان کی تاریخ میں شہری مملکتوں کےتعلقات کی نوعیت کچھ۔ ایسی تھی جس کی بناپرمیں اس کوانٹرنیشنل لاقراردینےکےلیے آمادہ نہیں۔یونان کےباشندے سب ایک ہی نسل کےتھے،سب ایک ہی زبان بولتےتھے،ایک ہی مذہب رکھتےتھےلیکن الگ الگ شہروں میں رہتے اورہرشہراپنی جگہ مطلق آزادوخودمختارہوتا۔آپس میں لڑائیاں اورجنگیں بھی ہواکرتی تھیں۔لیکن مغربی مصنفین کےبیان کےمطابق یونان کی شہری ریاستوں میں اگرکچھ۔ معین قواعدتھےتوصرف اپنےہم نسل یونانیوں کےساتھ۔ برتاؤکےمتعلق تھے۔ایک یونانی شہرجوخودمختارمملکت کی صورت رکھتا،دوسرے یونانی شہرکےساتھ۔ تعلقات میں چندمعین قواعدپرعمل کرتامگرباقی ساری دنیاکےمتعلق اپنی اپنی صوابدیدکےسواکوئی معین ضابطہ یاقاعدہ نہیں تھا۔کبھی کچھ۔ برتاؤ ہوتااورکبھی کچھ۔،کوئی اس سےبازپرس کاحق نہیں رکھتاتھا،یونانی قانون بین الممالک میں خامی یہ تھی کہ وہ صرف ایک محدودتعدادکےانسانوں سےمتعلق تھاباقی ساری دنیاکووحشی قراردےکریونانی اس قابل نہیں سمجھتےتھےکہ ان کے ساتھ۔ کسی معینہ قاعدےپرعمل کریں۔یہ معینہ قاعدےجوہم وطن اورہم نسل لوگوں سےمتعلق تھے،وہ بھی آج ہمیں وحشت کےحامل نظرآتےہیں کہ انٹرنیشنل لاکےآغازمیں قدیم ترین مثالیں ہم کویونان میں ملتی ہیں،جہاں خودمختارشہری مملکتیں حالت امن وجنگ میں چندمعینہ قواعدپرعمل کرتی تھیں۔لیکن وہ صحیح معنوں میں انٹرنیشنل نہ تھا۔
اس کے بعدفرنگی مصنفین کےنزدیک انٹرنیشنل لاکےضمن میں رومی دورقابل ذکرہےاس دورمیں شہری مملکتیں باقی نہیں رہی تھیں لیکن شہرروماجوابتداء ایک خودمختارشہرتھا،ایک بڑی وسیع سلطنت کےپایہ تخت کی حیثیت اختیارکرچکاتھاجویورپ کےعلاوہ شمالی افریقہ اورایشیاتک کےکچھ۔ علاقوں پرمشتمل تھی۔اس دورمیں جنگ بھی ہوتی رہی اورپرامن تعلقات بھی ہوتےرہےلیکن میں اس دورکوبھی قانون














بین الممالک کےلیےموزوں نہیں سمجھتااسکی وجہ یہ ہےکہ فرنگی مصنفوں کےبیان کےمطابق،رومی سلطنت اگرجنگ یاامن کےزمانےمیں معین قواعدپرعمل کرتی توساری دنیاکےساتھ۔ نہیں بلکہ صرف ان سلطنتوں کےساتھ۔ جن سےاسکےمعاہدےرہے ہوں۔مثلاایک سلطنت سےاس کےتعلقات پیداہوئے،دوستانہ معاہدہ ہوااورپھربعدمیں کسی وجہ سے جنگ چھڑی تووہ اس قابل سمجھی جاتی تھی کہ اس کے ساتھ۔ معینہ قواعدپرعمل کیاجائے۔باقی دنیاکےلیےکوئی قاعدہ نہیں تھا،صرف ذاتی صوابدیدپرعمل ہوتاتھا۔ایک مثال سےشایدآپ پرواضح ہوسکےکہ حقیقت کیاتھی۔ابتدائی زمانے میں جنگ سےپہلے اعلان جنگ کی ضرورت سمجھی جاتی تھی اوراعلان جنگ کاطریقہ یہ تھاکہ فوج روانہ ہوتی،دشمن کی سرحدتک پہنچتی توایک پادری کامذہبی رہنما،ایک نیزہ دشمن کی سرزمین میں گاڑتااوریہی اعلان جنگ سمجھاجاتاتھا،اس کےبعدجنگ شروع ہوسکتی۔بعدکے زمانےمیںجب رومی سلطنت بہت وسیع ہوگئی تودشمن کی سرحدتک پہنچنےمیں ہفتوں لگ جاتےتھے۔ایسےمیں ان پادریوں کوشہرروماکےسرکاری خزانےمیں مختلف ملکوں کی مٹی تھیلوں میں بھرکررکھ۔ لی گئی۔جب اعلان جنگ کی ضرورت ہوتی تواس خاص ملک کاتھیلانکالاجاتااورپادری صاحب اس تھیلےمیں نہایت ہی متانت کےساتھ۔ اپنانیزہ گاڑدیتے،اس طرح کی عجیب وغریب باتیں انسانی تاریخ میں ملتی ہیں۔لیکن اس موضوع کےسلسلےمیں نہ صرف یہ عرض کرناضروری ہےکہ ہم رومی عہدکوبھی انٹرنیشنل لاکےلیےموزوں قرارنہیں دیتے۔ان کاقانون اگرچہ جنگ وامن کےمتعلق ہی تھالیکن وہ اسےساری دنیاکےلیےیکساں نہیں برتتےتھے۔انٹرنیشنل لاکےمشہورانگریزمورخ،اوپن ہائم نےاس موضوع پرایک ضخیم کتاب تصنیف کی ہےوہ ایک جگہ لکھتاہےکہ "رومن دورمیں غیرممالک کےذکریاان کےمعاملات پربحث کی نہ توضرورت ہےاورنہ گنجائش ہے۔"اسکی یہ رائےرومیوں کےاس دعوی پرمبنی ہےکہ دنیارومیوں کاکرہ،اوررومیوں کی ملکیت ہےکوئی اپنےگھرکےاندرقانون بین الممالک کااستعمال نہیں کرتا۔لہذاوہ کہتے ہیں،کہ رومی دور(Period)میں رومی سلطنت اوراس سےتعلقات رکھنےوالےملکوں کےباہراجنبی ممالک سےتعلقات میں انٹرنیشنل لاکاسوال پیداہی نہیں ہوتا۔
اس کےبعدیکایک ایک ہزارسال کی جست لگاکریورپی مورخ بیان کرتے ہیں کہ انٹرنیشنل لاچودھویں صدی عیسوی میں شروع ہوتاہے۔اس دوران میں جواسلامی دورگزراہےاسکاکوئی ذکروہاں نہیں ملتا۔بہرحال جسےمغربی مصنفین ماڈرن انٹرنیشنل لاکہتےہیں۔میں اس کوبھی انٹرنیشنل لاکہنےکےلیےتیارنہیں ہوں۔اسکی وجہ یہ ہے کہ 1856ء تک معینہ قاعدوں پریورپ میں صرف عیسائی سلطنتوں کےآپس کےتعلقات کےضمن میں عمل کیاجاتارہا۔غیرعیسائی سلطنتوں کےلیےان معینہ قواعدپرعمل کرنےکی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔1856ء میں پہلی مرتبہ مجبورایورپی عیسائي سلطنتوں نےاعتراف کیاکہ
















اس قاعدےکاایک غیرعیسائی سلطنت یعنی ترکی کےساتھ۔ بھی ہوگا،اس کے بعدتقریباساٹھ۔ سترسال کاوقفہ پڑااوردوسری سلطنت جسکویورپی حکومتوں نےانٹرنیشنل لاکےقواعدکااہل سمجھاوہ جاپان تھا،جب اسنے 1905ءکی جنگ میں روس کوشکست دی۔اسکےبعدپہلی جنگ عظیم شروع ہوتی ہے۔اس وقت کچھ۔ اورسلطنتوں کوبھی اسکااہل سمجھاگیا۔اس سلسلےمیں کچھ۔ شرطیں رکھی گئیں،جن کوپوراکرنےکےبعدکسی سلطنت کولیگ آف نیشنزکارکن بنایاجاتاتھا۔دوسری جنگ عظیم کےبعدلیگ آف نیشنزکی بجائے"مجلس اقوام متحدہ"کاقیام عمل میں آیا۔اس میں بھی ہرملک کواپنی ذاتی حیثیت سےرکن نہیں بنایاجاتاجب تک کہ کم سےکم دوایسی سلطنتیں جوپہلےسےمجلس اقوام متحدہ کی ممبرہوں،سفارش نہ کریں اوریہ اطمینان نہ دلائیں کہ یہ واقعی ایک متمدن ملک ہے،انٹرنیشنل لاپرعمل کرتاہےاوراسکامستحق ہےکہ اسکےساتھ۔ انٹرنیشنل لاکےمطابق عمل کیاجائے۔
ان حالات میں،میں اپنےابتدائی بیان کودھراتاہوں کہ اگرانٹرنیشنل لاچندمخصوص قوموں کےلیےنہیں بلکہ اس کااطلاق دنیاکےتمام ملکوں پریکساں ہوناچاہیے،تواس قانون کاآغازمسلمانوں سےہوااورشایداب بھی مسلمانوں ہی کےہاں وہ قانون ہے،کسی دوسرےکےپاس تاحال نہیں آیا۔جیساکہ میں نےابھی عرض کیاہے کہ اس وقت مجلس اقوام متحدہ کاخودبخودیابہ استحقاق خودممبربنناکسی سلطنت کےلیےممکن نہیں ہے،جب تک دوممبرسلطنتیں اس کی سفارش نہ کریں اوراسکی ذمہ داری نہ لیں کہ یہ واقعی ایک متمدن سلطنت ہے۔اسکےبرعکس اسلامی قانون میں اس فرق وامتیازکی گنجائش نہیں کہ کوئی ملک مسلمانوں کےمعیارکےقواعدپرعمل کرتاہےیانہیں کرتا۔حتی کہ ہم دیکھیں گےکہ اگرکوئی دشمن ہمارے ساتھ۔ غیرانسانی برتاؤبھی کرے،تب بھی ہم اسکےساتھ۔ اپنےقواعدکےمطابق انسانیت کابرتاؤکریں گے۔ان حالات میں مجھےیہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ قانون بین الممالک ،جوحقیقت میں بین الممالک بھی ہواورقانون بھی ہومسلمانوں سےشروع ہوتاہے۔اسکاآغازکس طرح ہوا؟اورچیزوں کی طرح یہ بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پرمبنی ہےکیونکہ جب مکہ معظمہ میں اسلام شروع ہواتوابتداء میں بہت سی عملی دشواریاں تھیں کیونکہ مسلمانوں کےپاس کوئی علیحدہ مملکت نہیں تھی۔وہ ایک دشمن شہریعنی مکہ ہی میں رہتےتھےاورہم اسکےمتعلق کہہ سکتےہیں وہ مملکت کےاندرایک مملکت(State wihin a state) کی حیثیت رکھتی تھی۔یعنی مسلمانوں کی آبادی شہرمکہ میں توتھی،لیکن شہرمکہ کےپرانےنظام کےتحت نہیں تھی۔شہرمکہ کاجوپراناحاکم تھااسکی وہ اطاعت نہیں کرتے تھےاورشہرمکہ کےجوقوانین تھےانکی بھی وہ اطاعت نہیں کرتےتھےبلکہ اپنی ہرضرورت کےلیے اپنےسردار،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سےرجوع کرتے۔انکااپناعلیحدہ قانون تھا،اپنی علیحدہ تنظیم تھی۔میں یہ بھی کہتاچلوں کہ اسلام کےآغازپرشہرملکہ واقعی ایک شہری مملکت کی حیثیت رکھتاتھا۔قریش میں کچھ۔ آزادقبیلےتھےجوخانہ بدوش لوگوں پر














مشتمل تھےاورقریش ہی میں کچھ۔ اورقبیلےتھےجوشہرمکہ میں بس گئےتھے۔ایسےشہروں کےحالات پراب تک کم کام گیاہے،البتہ طائف اورمکہ کےمتعلق بعض چیزیں تحریرہوئی ہیں۔لیکن اوربھی شہرتھے۔مثلاشہرمدینہ کے حالات پرقانونی نقطہ نظرسےمیری نظرسےآج تک کوئی چیزنہیں گزری۔اسکےمتعلق بہت کم ایسی چیزیں ملتی ہیں جنکاتعلق اسلام سےپہلےکےادوارسےہو۔
شہرمکہ میں جب اسلام کاآغازہواتومسلمانوں کی حیثیت ایک مملکت درمملکت کی تھی لیکن جب ہجرت کرکےمدینہ پہنچےتووہاں چندہی ہفتوں کےاندرمسلمانوں نےایک مملکت قا‏ئم کردی جسکادستوربھی ہم تک پہنچاہےاورایک مثال ہےاس امرکی کہ مملکت کس طرح قائم ہوتی ہے۔پرانی سلطنتوں سےمتعلق ہمیں بالکل معلوم نہیں ہوتاکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچےتودیکھاکہ اس شہرمیں کئی قبیلےرہتے ہیں جن میں تقریبا120سال سےآپس میں لڑائی بھڑائی کاسلسلہ جاری ہےاوروہاں کوئی مرکزیت،تنظیم یاحکومت بالکل نہیں پائی جاتی۔ایسےمیں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نےتجویزپیش کی کہ دفاعی وعدالتی اغراض کےلئےاہل مدینہ اپنےآپ کامنظم کرلیں اوراپنےلیےسردارمنتخب کرلیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تجویزکومقامی پاشندوں اورقبیلوں نےقبول کیا۔یہاں یہ سوال پیداہوگاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوسردارکیوں بنایاگیاجب کہ مسلمان وہاں اکثریت میں نہیں تھےوہاں مسلمان بھی دو طرح کےتھے۔مدنی مسلمان یعنی انصاراورمکی مسلمان یعنی مہاجر،ساتھ۔ ہی ساتھ۔ مدینہ کےمشرک بھی تھےجنھوں نےابھی تک اسلام قبول نہیں کیاتھا۔یہودی بھی تھےاورکچھ۔ عیسائی بھی وہاں پائےجاتے تھے۔اس تنوع اورباہمی اختلاف کےباوجودہم دیکھتےہیں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کومدینہ کاسردارمنتخب کیاگیا۔اس کی وجہ یہ نظرآتی ہےکہ شہرمدینہ کےقبیلوں میں آپس میں سخت لڑائی جھگڑےتھے،اس لیےیہ عملاناممکن تھاکہ ان قبیلوں میں آپس میں سےکسی ایک قبیلے کےکسی شخص کوسردارمنتخب کیاجائےتودوسرےقبیلوں کےلوگ اسےقبول کریں۔ب کوکیاجائےتوالف قبول نہیں کرتا،الف کوکیاجائےتوج قبول نہیں کرتا۔ان حالات میں انھیں مناسب یہ معلوم ہواکہ کسی اجننی کوسرداربنالیں۔غالبایہی وجہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوسردارمنتخب کرلیاگیااورسرداراوررعیت کےحقوق وفرائض دونوں تفصیل کےساتھ۔ ایک دستاویزمیں لکھئےگئے۔یہی دستاویزہےجسےہم شہرمملکت مدینہ کادستورکہہ سکتےہیں۔وہ دستورجوہم تک پہنچاہے۔اس میں اندرونی انتظامات کےمتعلق کافی تفیصل سےاحکام دیےگئےہیں اورمذہبی آزادی کابھی اس میں صراحت سےذکرہے،دفاع کےانتظامات اورجنگ وصلح کےقواعدبھی اس میں درج ہیں۔بہرحال جب یہ مملکت قا‏ئم ہوگئی توبہت جلدمسلمانوں کوجنگوں سےدوچارہوناپڑا۔چنانچہ 2ہجری میں میدان بدرمیں مکہ والوں کا،یعنی شہری مملکت کااس شہری مملکت مدینہ کےمسلمانوں سےمقابلہ ہوا۔انٹرنیشنل لامیں چونکہ عمومادوہی چیزوں سےبحث ہوتی ہے:حالت جنگ اورحالت امن میں غیروں کے













ساتھ۔ تعلقات۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوحالت امن کےصرف چندمہنیےملےاوراس کے بعدیہ جنگ پیش آئی۔انٹرنیشنل لاء کادوسراجزیعنی حالت جنگ کےقوانین کیاہیں؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےطرزعمل سےہمیں اس کی نظریں ملنے لگتی ہیں۔یعنی اعلان جنگ کیاجائےیانہ کیاجائےیانہ کیاجائے؟جنگ میں صرف بالغ مردوں کوقتل کیاجائےجوہتھیاراٹھاکرحملہ کرسکتےہیں یادشمن کےہرفردکو،بچے کوبھی بیمارکوبھی،عورت کوبھی،غلام کوبھی قتل کرسکتےہیں؟صرف میدان جنگ میں قتل کیاجائےیامیدان جنگ کےباہربھی اسےقتل کیاجاسکتاہے؟اسی طرح مثلادشمن کےآدمیوں کوہم جنگ میں گرفتارکرلیں توجنگی قیدیوں کےساتھ۔ کیابرتاؤکیاجائے؟کیاانھیں قتل کردیاجائے؟یاانہیں مفت رہاکردیاجائےیاانہیں فدیہ لےکررہاکردیاجائےیاانہیں تبادلہ اسیران کےطورپریعنی ہماراجوقیدی انکےپاس ہےاسکےمعاوضےمیں دشمن کاقیدی جوہمارےپاس ہےرہاکریں وغیرہ۔اسطرح کی بیسیوں تفصیلیں جوقانون جنگ سےمتعلق ہیں۔اسکےلیےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاطرزعمل مسلمانوں کےلیےنظیربنتاگیا،کبھی توقولی حدیث کےذریعےسےاورکبھی فعلی حدیث کےذریعےسے۔بہرحال دونوں طریقوں سےاسلامی قانون بنتاگیااورانٹرنیشنل لاکااسلامی تصوروجودمیں آیا۔اس میں ہم دیکھتےہیں کہ وہاں اس کاامتیازنہیں تھاکہ غیرمسلم اجنبی کس مذہب کاہے،یہودی ہے،بت پرست ہے،لامذہب ہے،اسکاکوئی امتیازنہیں تھاسب کےساتھ۔ معینہ قواعدبرتےجاتےتھے۔مثلااعلان جنگ کی ضرورت ہےتواعلان جنگ اس سلطنت کےساتھ۔ بھی کیاجاتاتھاجس کاکوئی مذہب ہے،اس سلطنت کےساتھ۔ بھی کیاجاتاجوبت پرست ہے،اس سلطنت کےساتھ۔ بھی کیاجاتاجوکسی چیزکی قائل نہیں ہےوغیرہ۔
غرض اسطرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سالہ مدنی زندگی اسلامی انٹرنیشنل لاکےاکثرقواعدکومعین ومدون کرنےکاباعث بنی۔چنانچہ جب اس موضوع پرکتابیں لکھی جانےلگیں تومسلمان مصنف حسب معمول پہلےقرآن کی طرف دیکھتے،اورقرآنی آیات کاذکرکرتے،ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےعمل کوبحث میں لاتے۔کہ فلاں موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےیوں کہایاکیاتھا،لہذاوہ اسلامی قانون ہے۔یہ اسلامی انٹرنیشنل لاحضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کےدورسےتعلق رکھتاتھا۔مکی زندگی کی طرف ہم کم ہی رجوع کرسکتےہیں۔کیونکہ وہ مملک درمملکت کی حیثیت رکھتی ہےاس زمانےمیں جنگ بھی نہیں ہوئی۔چاہے مسلمانوں کواذیت دہی کےسلسلےمیں قتل کیاجارہاہو،لیکن جنگ نہیں ہوتی تھی۔اسکےبعدمسلمانوں میں فقہ کی ترقی ہوئی جسکامیں نے پہلےبھی ذکرکیاتھا۔جب مسلمان علماء فقہ پرکتابیں لکھنے لگےتوانکاتصورمغربی تصورکےمقابلےمیں بہت وسیع رہا۔کسی بھی مغربی قانون کوزیادہ جامع بنانےکےلیےپہلےہی دن سےاسکودین ودنیادونوں کاحامل بنایااوراس میں صلوۃ،روزہ،حج زکوۃ جیسی عبادتوں کابھی ذکرکیا،تجارتی معاملات اوروراثت کاذکربھی کیااوراس میں انٹرنیشنل لا















کابھی ذکرکیا،ایک لحاظ سے ہم کہہ سکتےہیں کہ مسلمان فقہاء کاتصوریہ رہاکہ انٹرنیشنل لاکوئی انٹرنیشنل چیزنہیں ہےبلکہ ہماری اپنی چیزہےہماری چیزاس معنی میں کہ اجنبی ممالک سے،حالت امن یاحالت جنگ میں جس قاعدےپرہم عمل کریں،وہی ہمارا انٹرنیشنل لاہے۔یہ نہیں کہ اسکواوروں کےمشورےاوررضامندی سے مدون کیاجائے،اورپھراس پرعمل کیاجائےبلکہ ان کے نزدیک اسلامی انٹرنیشنل لااسلامی انٹرنل لاکاایک جزوتھا۔اسی لیےجب مسلمان فقہاء مجموعہ قوانین مدون کرنےلگےتوانھوں نےعبادات،معاملات،رواج اوروراثت وغیرہ کےساتھ۔ انٹرنیشنل لاکاذکربھی ضروری سمجھا۔اسکوبظاہرانھوں نے "سیر"کانام دیا۔میں بظاہرکالفظ اس لیےاستعمال کررہاہوں۔کیونکہ اس وقت ہمارے پاس جوقدیم ترین فقہ کی کتاب ہے۔وہ امام زید بن علی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب"المجموع فی الفقہ"ہے۔امام زیدرضی اللہ عنہ،زیدیہ فرقہ کےبانی اورامام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کےپوتے،اورامام زین العابدین،کےبیٹےتھے،زیدبن علی زین العابدین بہت بڑےعالم تھے،انہوں نے"المجموع فی الفقہ"کےنام سے جوکتاب لکھی ہے۔اس میں ایک باب انٹرنیشنل لاسےمتعلق ہے۔جسکو"کتاب السیر"کانام دیاگیاہے۔"سیر"جمع ہےلفظ "سیرت"کی۔مشہورحنفی امام سرخسی نےاپنی "کتاب المبسوط"میں لکھاہےکہ سیرت سےمرادحکمران کاوہ طرزعمل ہوتاہےجواجنبیوں سےحالت جنگ اورحالت امن میں ملحوظ رکھاجائےاوراس میں وہ اضافہ کرتےہیں کہ غیرمملکت کےلوگ ہی نہیں ہمارےمملکت کےاندرکےباشندوں میں سےبھی کم از کم دوکےمتعلق اسکااطلاق ہوگا۔ایک تومرتدوں کےمتعلق اوردوسرےباغیوں کےمتعلق۔اس سےظاہرہوتاہےکہ انٹرنیشنل لاء کااسلامی تصور،اس تصورکےمقابلےمیں جوآجکل مغرب میں پایاجاتاہےزیادہ وسیع ہے۔بہرحال امام زیدبن علی نےپہلی مرتبہ"سیر"کی اصطلاح انٹرنیشنل لاکےمعنی میں استعمال کی اوراس وقت سےآج تک اس سے کسی نےاختلاف نہیں کیاگیا۔ہرمولف حنفی،شافعی،مالکی،حنبلی،شیعی وغیرہ سبھی یہی لفظ استعمال کرتےہیں۔ایک واحداستثناء اوروہ بھی نامکمل استثناء اس فرقےسےمتعلق ہےجسےہم خوارج کانام دیتےہیں،اس مذہب کی فقہ کی کتاب میں جو،بڑی مشکل سے میں نےحاصل کی،اس میں اس بات کاعنوان بجائے"کتاب السیر"کے"کتاب الدماء"یعنی خونون کاقانون رکھاگیاہے۔کیونکہ اس میں جنگ اورخون ریزی سےبحث ہوتی ہے۔میں نےاسکی مزیدتحقیق کی توتاریخ سے معلوم ہواکہ جوکتاب میرےپاس ہےوہ ایک ہم عصرمؤلف کی کتاب سےاخذکی گئی ہیں اوروہ پرانامؤلف اسکو"سیرالدماء"کانام دیتاہے۔وہی "سیر"کالفظ جوہم استعمال کرتےہیں وہ اس کو"دماء"یعنی خون کےساتھ۔ ملاتاہے۔"سیرالدماء"یعنی خونوں کےمتعلق طرزعمل۔لیکن حالیہ مؤلفوں نے"سیر"کے لفظ کوبوجھل پایااوراسےحذف کرکے"کتاب الدماء"نام رکھا۔الغرض،انٹرنیشنل لاکےمتعلق قدیم ترین کتاب جوہمیں دستیاب ہوئی ہے،وہ امام زیدبن علی رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔جنکی وفات 120 ہجری میں
 
Top