حیوانوں کی بستی - سفر کی تیاری - ساتویں قسط

تفسیر

محفلین
.

سفر کی تیاری
نعمان کےجانے کے بعدمیں نےسکنیہ کو کال کراسکوتمام تفصیل بتائیں اوراسکونعمان سےمتعلق معلومات دیں-
" کیا تم ایک دن میں ان کی تصدیق کرسکتی ہو؟ میں تمہیں نعمان کی موبل فون کیمرہ سےلی ہوئ تصویر بھیج رھا ھوں"۔
" وہ توہوسکتاہے۔ انٹلیجینس سروس میں کچھ لوگ میرے جاننےوالےہیں ۔اگر نعمان سےمتعلق باتیں تصدیق بھی ہوجائیں ۔ پھر بھی میرا خیال ہے کہ یہ میل جھول ریمشاں کےلیےخطرناک ثابت ہوسکتا ہے"۔ سکنیہ نےاپناخدشہ ظاہر کیا۔
" مجھے پتہ ہے۔ لیکن یہ نہیں پتہ کہ اس کو کیسے رُوکوں گا۔ دوسرے وہ ریمشاں پرغلط الزام لگا ہم سب کو پریشان کرسکتا ہے"۔ میں نےسکینہ کوجواب دیا۔
" میں تمہیں شام میں کال کروں گی۔ اللہ حافظ "۔
"اللہ حافظ"۔
٭٭٭
" چلو کلفٹن چلیں۔ تم نےکبھی اونٹ کی سواری کی ہے" ۔ میں ریمشاں سے پُوچھا۔
" نہیں، میں نےتو نہیں بھائی جان " ۔ ریمشاں نےمعصومیت سے کہا۔
میں نےگیراج سےکرائے کی گاڑی نکالی اور ہم پہلےشہر کی طرف چلے۔ برنس روڈ پر بڑی بھیڑ تھی۔ گاڑی پارک کرنےکی جگہ نہیں ملی۔ میں نےڈی۔جے سائینس کالج کےقریب ایک گلی میں گاڑی پارک کے لاک کردی- اور ہم پیدل برنس روڈ کی طرف چلے۔ جامع کلاتھ مارکیٹ سے گزرتےہوئے ریمشاں نےمیرا کندھا ہلا کر کہا۔ "چوڑیاں ۔بھائی جان مجھےچوڑیاں دلائے ۔ میں چوڑیاں پہنوں گی"۔
" ٹھیک ہے لیکن اپنی پسند سےلینا مجھ سےنہ پوچھنا کہ کونسی پسند ہیں"۔
" نہیں پوچھوں گی۔ مجھےمیری پسند پتہ ہے"۔ ریمشاں نےاترا کے کہا۔
تقریبا بیس پچیس سٹ دیکھنے کے ریمشاں نےہا ر مان لی۔ اس نےبسورتےہوے کہا۔" گاؤں میں تو لال، ہری ، نیلی اور پیلی چوڑیاں ہوتی تھیں۔ اتنے رنگ اور ڈیزائن تو نہیں ہوتےتھے۔ بھائی جان آپ بتائیں نا کونسی لوں"۔
" میں نے کیا کہا تھا؟"
" مجھےتو بالکل یاد نہیں نا۔ آپ بتائیں نا "۔ ریمشاں نے معصومیت سے کہا
" ان سب میں سے چھ ڈیزائن چنو"۔
" مگربھائ جان"۔
" دیرمت کرو"
" یہ والے۔ مگر مجھےان کے رنگ نہیں پسند"
میں نےدوکان دار کی طرف اشارہ کیا۔ ان کو بتاو کہ کس ڈیزائن میں کونسا رنگ چاہیے۔
پندرہ منٹ کے بعد ہم بندوخان کے دوکان پر کگڑے تھے۔ لڑکے نے پراٹھےاور نہاری کا ڈنر باکس یمارے ہاتھ میں دیا اور میں نے اس کی قیمت چُکائی ۔
جب کلفٹن پر پہنچےتوشام ہوگی تھی۔ ہم نےکلفٹن گارڈن میں بیٹھ کر بندوخان کےمشہور پراٹھےاور نہاری کھائی۔ ہم دونوں کےہاتھ چکنائی سے بھرگے۔ ریمشاں نےتھرماس سےگرم گرم چائےنکال کرمجھےدی اور خود کےلیے بھی نکالی۔
" بھائی آپ نے کہا تھا کہ اونٹ کی سواری کریں گے۔ مجھےتوآپ کےعلاوہ کوئی نہیں نظر آرہا "۔
" وہاں دیوار تک جا کرساحل سمندر کو دیکھواونٹ کی بہن" ۔ میں نے ہنس کر کہا۔
" ارے یہ توہہت ہی خوبصورت نظارہ ہے ۔ میں نےدیکھ لیا- وہ رہا اونٹ بان ۔ بھائی جان نیچے چلیں نا آپ ہر کام میں اتنی دیر کیوں کرتے ہیں"۔
تھوڑی دیرمیں ہم سمندر کی گیلی ریت پرچل رہے تھے ۔ ریمشان ایک بچے کی طرح سمندر سے کھیل رہی تھی۔ جب پانی واپس جارہا ہوتا تو وہ اس کو پکڑ نے کےلیےدوڑتی۔ جب پانی ساحل کےطرف لوٹتا تو وہ اس سے بچنے کے لیےساحل کی طرف بھاگتی۔ ایک دفعہ وہ ساحل کی طرف تیز نہیں بھاگ سکی اور لہر نےاس کو پکڑ لیا۔ ریمشاں پانی میں گر کرمکمل بھیگ گئ۔ اس کو یہ اچھا لگا اور پھروہ ساحل کےمتوازی پانی میں بھاگنے لگی۔ میں اس کے لڑکپن کودیکھ رہا تھا - مجھےسادیہ کی بےحدیاد آئی۔
" صاب ، میم صاب۔ آپ اونٹ کی سواری کرے گا"۔
میں نے پیچھےموڑ کردیکھا۔ اونٹ بان نےاونٹ کومیرے قریب بیٹھا دیاتھا۔
"ریمشاں"۔ میں چلایا۔
ریمشاں نےہماری دیکھا اوردوڑتی ہوئی آئ۔

 

تفسیر

محفلین

اونٹ سواری کے بعد میں ساحل سمندر کے کنارے ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ ریمشاں نے پیچھے کھڑے ہو کراپنی باہیں میرے گلے میں ڈال دیں ۔اور اپنی تھوڈی کومیرے سر پر رکھ دیا۔
" بھائی جان ، مجھے پتہ ہے آپ کےدل میں کیا ہے ؟ اور یہ خاطریں کیوں ہیں؟ اور ہم سمندر کے کنارے کیوں ہیں؟" ریمشاں زور سے ہنسی ۔
" اچھا، ایک بھائ کو بہن کی خاطر کرنا منع ہے کیا؟"
" میرا ایک بھائ ہے جو مجھے بہت بہت پیارا ہے ، جسے جب کوئ چیز پریشان کرتی ہے توسمندر کی طرف بھاگتا ہے- آپ اسلئے پریشان ہیں کہ آپ کو پتہ ہے کہ میرے دل میں کیا ہے؟ " ریمشان نےسامنےآ کر میرا ماتھا پیار سےچوما اور آنکھوں میں آنکھوں ڈال کر کہا۔
" تو سادیہ کی طرح میرا دل کتاب کی طرح کھول لیتی ہے" ۔ میں نے کہا۔
" لو، یہ کیا بات ہوئ ۔ آپ کےدل کا تارا ہوں میں ۔میں تو وہیں رہتی ہوں نا " ۔ ریمشاں شرارت سےکہا۔
" کیا تیرا نعمان کےساتھ جانے کا فیصلہ بدل سکتا ہے؟ " مجھے پتہ تھا کہ اسکا کیا جواب ہوگا۔
" بھائ جان ۔ جو بولیں میں آپ کےلیےکروں گی۔ لیکن آپ کو پتہ ہے کہ میرا زندہ رہنے کا مقصد ایک ہی ہے میں وہی دکھ اٹھانا چاہتی ہوں جو میری ماں نےسہےاوراس راہ پرسفر کرناچاہتی ہوں جس پرمیری ماں کوچلنے پرمجبور کردیاگیاتھا "۔ ریمشاں بسورنےلگی۔
" تم کرتو رہی ہو، میری مدد سے"۔ میں نےجھنجلا کر کہا۔
" بھائ جان مجھےجانےدو"۔ ریمشاں نے میرے بازو پرچٹکی لی ۔
میرے موبل فون کی گھنٹی بجی ۔
" بھائ جان "۔ سادیہ فون پرتھی ۔
" ننھی، تم اتنی صبح" ۔
" ریمشاں کا کال آیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ مدد چاہیے" سادیہ بولی۔
" وہ کیوں؟ میں جو ہوں یہاں" ۔ میں نےحیرت سے پوچھا۔
" اس نے کہا کہ آپ دو ہاتھ کی چٹکیوں سے باز نہیں آو گے۔ چار ہاتھ چاہیں" سادیہ نےقہقہہ
لگایا۔
اچانک میرے سمجھ میں آیا کہ کیا ہورہا ہے۔ دونوں بہنیں میرے خلاف ایک دوسرے سےمل گی ہیں ۔
" ریمشاں صحیح ہے اور آپ کے پاس کوئ چارہ نہیں ہے "۔
" وہ کیسے، میں اس کو کمرے میں بند کرسکتا ہوں۔ پھر کہاں جائے گی؟ "
میں نےدیکھا ریمشان یہ سن کرہنسنے لگی۔
" آپ بھول رہے ہیں کہ نعمان اسکوگرفتار کرسکتا ہے اور اس سے اس کا سفر رک جائےگا"۔ سادیہ نےمجھےیاد دلایا۔
"دوسرے ، آپ سکینہ سےاسکی شناخت کروا رہے ہیں اس طرح ہمیں اس کی نوکری اور کردار کا پتہ چل جائےگا ، تیسرے، ریمشاں کو نعمان پر بھروسہ ہے ۔ چوتھے، آپ اور آفریدی ان پر نگاہ رکھیں گے" ۔ سادیہ نےسنجیدگی سے کہا۔
"اور آخری وجہ ، وہ آپ کی بات نہیں مانےگی۔ میں نےاسےسمجھا کردیکھ لیا"۔
" لگتا ہے توعقل مندہوگئی ہے"۔ میں نےہنس کر کہا۔
" ہوگئی کہاں سے ، جب عقل بٹ رہی تھی میں آپ کےساتھ ہی تو لائن میں کھڑی تھی۔ بھول گئے"۔ سادیہ نےہنس کر کہا۔
" تم سے کون بحث کرے اب Ucla کی اسٹودینٹ ہونا"۔
" یہ تو صحیح ہے ۔ تو پھرمیں ریمشاں کو بتادوں کہ آپ مجھ سےہارگئے؟"۔
" وہ کیوں ۔ کیا میں نہیں بتا سکتا؟"
" بھائ جان۔ آپ فون ریمشاں کودیں اور ساحل سمندر پرچہل قدمی کریں"۔ سادیہ بولی۔
" تم نےمجھ کوڈانٹ پڑوادی" ۔ میں نے منہ بسورتے ہوے فون ریمشاں کو دے دیا –

 

تفسیر

محفلین

سکینہ کی کال رات بارہ بجے آئی ۔
" میں تم کو انفارمیشن فیکس کر رہی ہوں ۔ خلاصہ یہ ہے ۔ بندہ ، 28 سال کا ہے۔ اور سی۔ آی۔ ڈی میں آٹھ سال سے ہے ۔ ہمبرگ یونیورسٹی جرمنی سے کرِمینالوجی میں ڈاکٹر ہے اور پاکستانی انٹرسروس انٹلیجینس نے اسے ٹریننگ دی ہے۔ باپ ، وزارتِ دفاع میں انڈر سیکرٹری ہے ۔ ماں ، وزارتِ انصاف و عدل میں سرکاری وکیل ہے ۔ دوچھوٹی بہنیں ہیں ۔ ایک اسکول اور دوسری کالج میں ۔افسروں کی رائے میں سنجیدہ اور پیشہ ور ہے اور جذبات کے بجائےعقل سے کام لیتا ہے۔ کردار کی جانچ پڑتال سے پتہ چلا کہ صحیح ہے۔ اب تک کئی امتیازی تمخےحاصل کرچکا ہے" ۔سکینہ سانس لینے کےلیے رکی۔
" یہ تواچھی خبر کیونکہ ریمشاں اپنی بات پر اَ ڑھی ہوئ ہے" میں نے کہا۔
" مجھے پتہ ہے ۔تم نےسولہ سال کی لڑکی سےہا ر مان لی"۔ سکینہ نےقہقہہ لگایا۔
" کیا مطلب ؟" میں نےپوچھا۔
" اب بہت ہوشیار مت بنو ۔تمہیں پتہ ہے کہ سادیہ اور میں ایک دوسرے کےکتنےقریب ہیں۔ اگرسادیہ کھانسے بھی تو مجھے بتاتی ہے کہ آج وہ کتنی دفعہ کھانسی"۔ سکینہ نے کہا۔
" شب الخیر"۔
" سہانےخواب "۔ اور سکینہ نےہنس کر بن کردیا۔

 

تفسیر

محفلین

ریمشاں ، آفریدی اور میں میکلوڈ روڈ پر سی۔آئ۔ڈی کی آفس بلڈنگ میں داخل ہوئے۔ فرنٹ لوبی میں ائیر پورٹ کی طرح سےچیکینگ کروا کرہم کھلےحصہ میں پہنچے۔ پولیس وردی میں ایک شخص ہماری طرف بڑھا ۔
" آپ لوگ ڈی۔آجی نعمان سےملنے آئیں ہیں؟"
" میں نےاثابت میں سر ہلایا "-
" میں ان کا پی۔ اے ہوں - کیا میں آپ کے آی۔ڈی کارڈ دیکھ سکتاہوں "
آفریدی اور میں نےاپنےشناختی کارڈ دیکھائے۔
" آپ کا شناختی کارڈ مس ریمشاں "۔ اسے ریمشاں کا نام پتہ تھا۔
" میرے پاس نہیں ہے۔ تم نعمان کو کال کرو" ۔ ریمشان نےرعب سے کہا۔
افسر نےموبل پرایک بٹن دبایا- اور ریمشاں کےحلیہ اورقدوقامت کو بیان کیا۔
" آپ لوگ میرے ساتھ آئے"۔ افسر بولا۔
کئ راستوں اور دروازوں سےگزر کرہم ایک وسیع کمرے میں داخل ہوئے - نعمان نےمیز کے پیچھےسےاٹھ کرہم سب سےہاتھ ملایا۔ اور ہم کوصوفہ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اور پی۔ اے کو چائے لانے کو کہا۔
" آپ نےسکینہ کےذریعےمیرے متعلق سب تصدیق کرلیا ہوگا"۔ نعمان نےہنس کر کہا۔
میں سمجھ گیا کہ اس نےہمارے بارے میں بھی تحقیقات کیں ہیں۔
" دنیا کے بڑے اور سنگین جرائم میں انسانوں کی تجارت تیسرے نمبر پر آتی ہے۔ اس وقت دنیا میں 2 کروڑ 70 لاکھ انسان غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عورتوں کا عالمی بیوپار ایک نیا مسلہ نہیں ہے۔ لیکن اب جرائم کے پیشہ ور نیٹ ورک اس جرم کو کنڑول کرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اسحلہ اور ناجائز نشہ ور چیزوں کا بھی کاروبار کرتے ہیں۔ اسلئے ہمارے پاس دو مسائل ہیں۔ عورتوں اور بچوں کے بنیادی انسانی حقوق اور ان کی جانی حفاظت "۔نعمان نے بولنا شروع کیا۔
عورتوں اور بچوں کوجنسیاتی اور مزدوری کےغلام بنانے کی تجارت کا منبع اور نقل و مقام ہے ایشیا میں پاکستان ہے۔
نیپالی، بنگلا دیشی ، ہندوستانی، ایرانی ، برمی، افغانی ، کازخستانی ، کرگز رتانی ، ترکمینستانی ، ازبکستانی عورتیں کو پاکستان لایا جاتا ہے اورانہیں یہاں سے مشرق وسطہ ، یورپ اور امریکہ میں منتقل کیا جاتا ہے۔ جہاں یہ عورتیں جنسی غلامی میں بیچ دی جاتی ہیں ۔
یہ مسئلہ پاکستان کا اپنا اندونی بھی ہے۔جو کہ ہمارے رسم ورواج نے پیدا کیا ہے۔ مگراس سے توتم لوگ واقف ہو۔
یو۔ایس۔اے کےاسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی 2004 کی رپورٹ " انسانوں کا بیوپار" کے مطابق ہرسال 6 سے8 لاکھ عورتیں اور بچوں کا عالمی حدود کے آرپار بیوپار ہوتا ہے۔ان میں سے 70% عورتیں اور 30% بچےہوتےہیں زیادہ ترملظوم کو عصمت فروشی کےلیے بیچااورخریداجاتا ہے۔
پاکستان میں 2002 کا آرڈیننس نےفیڈرل انویسٹگشن ایجنسی کےاندرانسانوں کے بیوپار کے خلاف کےایک یونٹ بنایا ہے اس کوانٹی۔ٹرافکینگ۔یونٹ کہتے ہیں۔ میں آج کل کراچی میں اس کا ذمہ دار ہوں۔
2004 میں ہم نے 479 کیس پر کام کیا، 289 لوگوں کوپکڑا ، 248 کورٹ میں مقدمے کیے اور 72 افراد کوسزا دلوائی۔ لیکن ہم اس منحوسیت کو کم کرنےمیں کامیاب نہیں ہوئےہیں ۔
جس کیس میں اس وقت میں کام کر رہا ہوں اس میں ہمیں امید ہے کہ ہم ایک بڑےگروہ کوتباہ کرنےمیں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ مسئلہ یہ کہ ہرچیزہمارے پلان کےمطابق کام کررہی تھی اورتم لوگ نمودارہوگے۔ اب معاملہ کی نوعیت بدل گی۔اگر ریمشاں اس میں حصہ نہیں لے گی تو مجھےاپنے کواس تحقیقات سےعلحیدہ کرنا پڑےگا اورہمارا اس گروہ تعلق ختم ہوجائےگا۔ اورہم ان کی نگرانی نہیں رکھ سکیں گے" ۔
نعمان خاموش ہوگیا۔ افسر نےداخل ہو کرسب کوگرم گرم چائےدی۔
" میرے پاس تم لوگوں کی پوری رپورٹ ہے اور مجھےاب یہ بھی پتہ ہے کے ریمشاں تمہارا سفر کیا ہے۔ تمہارا بھائی تم کو یہاں سے آگےنہیں لےجاسکتا۔ میں اب تمہارا ہم سفرہوں"۔

اختتام - سفر کی تیاری ۔ ساتویں قسط

.
 
Top