واجدحسین
معطل
بتیسواں باب
امام ابو عبداللہ الحلیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہاد کی فرضیت کا حکم مختلف مراحل سے گزر کر نازل ہوا ۔
( 1) سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر خود آپ کی ذات کے بارے میں احکام نازل ہوتے رہے ۔
( 2 ) پھر آپ پر کافروں کو تبلیغ کرنے کا حکم نازل ہوا :قُم فَا نذِ ر ( مدثر ۔ 2) [اٹھو اور ہدایت کردو]
( 3 ) آپ کو اس بارے میں کچھ خوف لاحق ہوا تو یہ آیات نازل ہوئیں:
[arabic]يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ [/arabic]( سورہ المائدہ 67)
اے پیغمبر جو ارشادات اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچا دو اور اگر ایسا نہ کیا تو تم اللہ کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے ( یعنی پیغمبری کا حق اداء نہ کیا ) اور اللہ تم کو لوگوں سے بچائے رکھے گا۔
( 4) جب کافروں نے دعوت سن کر مذاق اڑایا ، آپ کو جھٹلایا تو صبر کا حکم نازل ہوا :
[arabic]فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [/arabic]( الحجر ۔ 94 ۔ 95)
پس جو حکم تم کو ( اللہ تعالی کی طرف سے ) ملا ہے وہ ( لوگوں کو سنا دو اور مشرکوں کا ( ذرا ) خیال نہ کرو ہم تمھیں ان لوگوں ( کے شر ) سے بچانے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں ۔
( 5 ) پھر آپ کو ان سے اعراض کا حکم دیا گیا :
[arabic]وَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلا [/arabic]( المزمل ۔ 10)
اور جو جو ( دل آزار ) باتیں یہ لوگ کہتے ہیں ان کو سہتے رہو اور اچھے طریق سے ان سے کنارہ کش رہو۔
اور آپ سے فرمایا گیا !
[arabic]وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ [/arabic]( الانعام ۔ 68 )
اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کے بارے میں بیہودہ بکواس کر رہے ہیں تو ان سے الگ ہوجاؤ۔
( 6 ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دوسرے مسلمانوں کو ہجرت کی اجازت دے دی گئی اور یہ ارشاد نازل ہوا :
[arabic]وَمَنْ يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الأرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَ[/arabic]عَةً ( النساء ۔ 100)
اور جو شخص اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑجائے وہ زمین میں بہت سی جگہ اور کشائش پائیگا ۔
( 7 ) پھر آپ کو ہجرت کا حکم دیا گیا اور اللہ تعالی نے فرمایا :
[arabic]وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ [/arabic]( بنی اسرائیل ۔ 80)
اور کہو کہ اے پروردگار مجھے ( مدینے میں ) اچھی طرح داخل کیجیئو۔
( 8 ) پھر مسلمانوں کو ان لوگوں سے قتال کی اجازت دی گئی جو خود مسلمانوں سے قتال کریں:
[arabic]وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ [/arabic]( البقرہ ۔ 190 )
اور تم لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو لڑتے ہیں تم سے اور کسی پر زیادتی نہ کرو بے شک اللہ تعالی حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتے ۔
( 9 ) پھر خود جہاد شروع کرنے کی اجازت دے دی گئی :
[arabic]أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ[/arabic] ( الحج ۔ 39 )
( اب ) ان لوگوں کو لڑنے کی اجازت دے دی گئی ہے جن سے کافر لڑتے ہیں اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور بلا شبہ اللہ تعالی ان ( مسلمانوں ) کو غالب کرنے پر قادر ہیں ۔
( 10 ) پھر اللہ تعالی نے جہاد کو فرض کر دیا اور مکہ میں پیچھے رہ جانے والوں پر ہجرت فرض کردی اور یہ آیات نازل ہوئیں :
[arabic]كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ[/arabic] (البقرہ ۔ 216 )
قتال کرنا تم پر فرض کیا گیا ہے اور وہ تم کو (طبعاً ) برا لگتا ہے اور یہ ممکن ہے کہ تم کسی بات کو برا سمجھو اور وہ تمھارے حق میں بہتر ہو اور ممکن ہے تم ایک کام کو بھلا سمجھو اور وہ تمھارے حق میں برا ہو۔
[arabic]قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُمْ مِنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً[/arabic] ( التوبہ ۔ 123 )
اپنے قریب کے کافروں سے لڑو اور چاہئے کہ وہ تمھارے اندر سختی پائیں۔
[arabic]وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ[/arabic] ( البقرہ ۔ 244 )
اور لڑو اللہ کی راہ میں اور جان لو بے شک اللہ تعالی خوب سننے والے اور خوب جاننے والے ہیں ۔
اور اسی طرح کی دوسری آیات نازل ہوئیں ۔
( 11 ) پھر جہاد کو ایک ایسی لازمی چیز قرار دے دیا گیا جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے ۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
[arabic]إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالإنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ[/arabic] ( التوبہ ۔ 111 )
بے شک اللہ تعالی نے مسلمانوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو اس قیمت پر کہ ان کے لئے جنت ہے خرید لیا ہے وہ لوگ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں پھر قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں ( یہ ) اللہ کے ذمہ سچا وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا کون ہے ؟ پھر تم خوشیاں مناؤ اس معاملے ( خرید و فروخت ) پر جو تم نے اللہ سے کیا اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔
مراد اس آیت سے یہ ہے کہ جب جہاد کو فرض کر دیا گیا تو اسے ماننا اور کرنا ایمان کا جزء بن گیا اور اس کی فرضیت اس شرط پر ہوئی جو اس میں نکل کر قتل کرے گا یا قتل ہوگا تو اسے جنت ملے گی اور اس چیز کو ایک خرید و فروخت کی شکل میں پیش کیا گیا کہ مسلمان مجاہدین بیچنے والے ہیں ۔ اللہ تعالی خریدار ہے اور خریدنے والا جب قیمت پیش کردے تو بیچنے والے پر بیچی گئی چیز دینا لازم ہو جاتا ہے پس اس سے جہاد کی فرضیت اور اس کا لازم ہونا سمجھ میں آگیا ( شعب الایمان للبیہقی )
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کسی بھی سودے کے قیمتی ہونے کا اندازہ تین چیزوں سے لگایا جاتا ہے ۔
( 1 ) خریدنے والے کی عظمت سے کیونکہ بڑے لوگ کبھی حقیر چیزیں خریدنے کے لئے نہیں نکلتے ۔
( 2 ) خریدنے اور بیچنے والے کے درمیان خرید و فروخت کروانے والے کی عظمت سے کیونکہ بڑے لوگ کبھی کسی ادنی سودے کے درمیان نہیں آتے ۔
( 3 ) قیمت کی عظمت سے کیونکہ کسی گھٹیا چیز کے لئے بڑی قیمت نہیں لگائی جاتی ۔ بس اسی سے آپ مجاہدین اور شہداء کی جانوں کی قیمت کا اندازہ لگا لیں کہ ان کا خریدار خود اللہ تعالی ہے اور درمیان میں سودا کرنے والے سید الکائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور سودے کی قیمت اللہ کے قرب والی جنت ہے۔
بعض عارفین نے فرمایا کہ جانیں تین قسم کی ہیں ایک وہ ہیں جن کی آزادی کی وجہ سے ان کا سودا نہیں ہوا یہ انبیاء علیہم السلام کی جانیں ہیں ۔
دوسری وہ جانیں جن کا سودا ان کے گھٹیا ہونے کی وجہ سے نہیں ہوا یہ کافروں کی جانیں ہیں۔
تیسری وہ جانیں جن کی اعزاز کی وجہ سے ان کا سودا ہو گیا یہ ہیں ایمان والوں کی جانیں ۔
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تمام مسلمان اللہ کے غلام ہیں اور غلام کے پاس ایسی کوئی چیز نہیں ہوتی جو وہ اپنے آقا کو بیچ سکے [ کیونکہ غلام اور اس کی تمام چیزیں اس کے آقا کی ہوتی ہیں ] تو غلام اسی وقت اپنے آپ کو آقا کو بیچ سکتا ہے جب آقا اسے آزاد کردے پس معلوم ہوا کہ اللہ تعالی اپنے جن بندوں کی جان کو خریدتا ہے پہلے انہیں دوزخ سے آزاد کرتا ہے اور اس بات کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے جن میں مجاہدین کے لئے آگ کے حرام ہونے اور آگ سے ان کے آزاد ہونے کا ذکر ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ ایک اعرابی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو آپ یہی آیت تلاوت فرما رہے تھے اس نے پوچھا یہ کس کا کلام ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اللہ تعالی کا کلام ہے اس نے کہا اللہ کی قسم یہ تو نفع والا سودا ہے ہم اس خرید و فروخت کو کبھی ختم نہیں کریں گے چنانچہ جہاد میں نکل کر شہید ہو گیا ۔ّّّّ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات اور سرایا کا مختصر تذکرہ اور بعد کے مسلمانوں کی فتوحات کے مختصر احوال
امام ابو عبداللہ الحلیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہاد کی فرضیت کا حکم مختلف مراحل سے گزر کر نازل ہوا ۔
( 1) سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر خود آپ کی ذات کے بارے میں احکام نازل ہوتے رہے ۔
( 2 ) پھر آپ پر کافروں کو تبلیغ کرنے کا حکم نازل ہوا :قُم فَا نذِ ر ( مدثر ۔ 2) [اٹھو اور ہدایت کردو]
( 3 ) آپ کو اس بارے میں کچھ خوف لاحق ہوا تو یہ آیات نازل ہوئیں:
[arabic]يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ [/arabic]( سورہ المائدہ 67)
اے پیغمبر جو ارشادات اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچا دو اور اگر ایسا نہ کیا تو تم اللہ کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے ( یعنی پیغمبری کا حق اداء نہ کیا ) اور اللہ تم کو لوگوں سے بچائے رکھے گا۔
( 4) جب کافروں نے دعوت سن کر مذاق اڑایا ، آپ کو جھٹلایا تو صبر کا حکم نازل ہوا :
[arabic]فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [/arabic]( الحجر ۔ 94 ۔ 95)
پس جو حکم تم کو ( اللہ تعالی کی طرف سے ) ملا ہے وہ ( لوگوں کو سنا دو اور مشرکوں کا ( ذرا ) خیال نہ کرو ہم تمھیں ان لوگوں ( کے شر ) سے بچانے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں ۔
( 5 ) پھر آپ کو ان سے اعراض کا حکم دیا گیا :
[arabic]وَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلا [/arabic]( المزمل ۔ 10)
اور جو جو ( دل آزار ) باتیں یہ لوگ کہتے ہیں ان کو سہتے رہو اور اچھے طریق سے ان سے کنارہ کش رہو۔
اور آپ سے فرمایا گیا !
[arabic]وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ [/arabic]( الانعام ۔ 68 )
اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کے بارے میں بیہودہ بکواس کر رہے ہیں تو ان سے الگ ہوجاؤ۔
( 6 ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دوسرے مسلمانوں کو ہجرت کی اجازت دے دی گئی اور یہ ارشاد نازل ہوا :
[arabic]وَمَنْ يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الأرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَ[/arabic]عَةً ( النساء ۔ 100)
اور جو شخص اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑجائے وہ زمین میں بہت سی جگہ اور کشائش پائیگا ۔
( 7 ) پھر آپ کو ہجرت کا حکم دیا گیا اور اللہ تعالی نے فرمایا :
[arabic]وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ [/arabic]( بنی اسرائیل ۔ 80)
اور کہو کہ اے پروردگار مجھے ( مدینے میں ) اچھی طرح داخل کیجیئو۔
( 8 ) پھر مسلمانوں کو ان لوگوں سے قتال کی اجازت دی گئی جو خود مسلمانوں سے قتال کریں:
[arabic]وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ [/arabic]( البقرہ ۔ 190 )
اور تم لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو لڑتے ہیں تم سے اور کسی پر زیادتی نہ کرو بے شک اللہ تعالی حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتے ۔
( 9 ) پھر خود جہاد شروع کرنے کی اجازت دے دی گئی :
[arabic]أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ[/arabic] ( الحج ۔ 39 )
( اب ) ان لوگوں کو لڑنے کی اجازت دے دی گئی ہے جن سے کافر لڑتے ہیں اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور بلا شبہ اللہ تعالی ان ( مسلمانوں ) کو غالب کرنے پر قادر ہیں ۔
( 10 ) پھر اللہ تعالی نے جہاد کو فرض کر دیا اور مکہ میں پیچھے رہ جانے والوں پر ہجرت فرض کردی اور یہ آیات نازل ہوئیں :
[arabic]كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ[/arabic] (البقرہ ۔ 216 )
قتال کرنا تم پر فرض کیا گیا ہے اور وہ تم کو (طبعاً ) برا لگتا ہے اور یہ ممکن ہے کہ تم کسی بات کو برا سمجھو اور وہ تمھارے حق میں بہتر ہو اور ممکن ہے تم ایک کام کو بھلا سمجھو اور وہ تمھارے حق میں برا ہو۔
[arabic]قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُمْ مِنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً[/arabic] ( التوبہ ۔ 123 )
اپنے قریب کے کافروں سے لڑو اور چاہئے کہ وہ تمھارے اندر سختی پائیں۔
[arabic]وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ[/arabic] ( البقرہ ۔ 244 )
اور لڑو اللہ کی راہ میں اور جان لو بے شک اللہ تعالی خوب سننے والے اور خوب جاننے والے ہیں ۔
اور اسی طرح کی دوسری آیات نازل ہوئیں ۔
( 11 ) پھر جہاد کو ایک ایسی لازمی چیز قرار دے دیا گیا جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے ۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
[arabic]إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالإنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ[/arabic] ( التوبہ ۔ 111 )
بے شک اللہ تعالی نے مسلمانوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو اس قیمت پر کہ ان کے لئے جنت ہے خرید لیا ہے وہ لوگ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں پھر قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں ( یہ ) اللہ کے ذمہ سچا وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا کون ہے ؟ پھر تم خوشیاں مناؤ اس معاملے ( خرید و فروخت ) پر جو تم نے اللہ سے کیا اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔
مراد اس آیت سے یہ ہے کہ جب جہاد کو فرض کر دیا گیا تو اسے ماننا اور کرنا ایمان کا جزء بن گیا اور اس کی فرضیت اس شرط پر ہوئی جو اس میں نکل کر قتل کرے گا یا قتل ہوگا تو اسے جنت ملے گی اور اس چیز کو ایک خرید و فروخت کی شکل میں پیش کیا گیا کہ مسلمان مجاہدین بیچنے والے ہیں ۔ اللہ تعالی خریدار ہے اور خریدنے والا جب قیمت پیش کردے تو بیچنے والے پر بیچی گئی چیز دینا لازم ہو جاتا ہے پس اس سے جہاد کی فرضیت اور اس کا لازم ہونا سمجھ میں آگیا ( شعب الایمان للبیہقی )
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کسی بھی سودے کے قیمتی ہونے کا اندازہ تین چیزوں سے لگایا جاتا ہے ۔
( 1 ) خریدنے والے کی عظمت سے کیونکہ بڑے لوگ کبھی حقیر چیزیں خریدنے کے لئے نہیں نکلتے ۔
( 2 ) خریدنے اور بیچنے والے کے درمیان خرید و فروخت کروانے والے کی عظمت سے کیونکہ بڑے لوگ کبھی کسی ادنی سودے کے درمیان نہیں آتے ۔
( 3 ) قیمت کی عظمت سے کیونکہ کسی گھٹیا چیز کے لئے بڑی قیمت نہیں لگائی جاتی ۔ بس اسی سے آپ مجاہدین اور شہداء کی جانوں کی قیمت کا اندازہ لگا لیں کہ ان کا خریدار خود اللہ تعالی ہے اور درمیان میں سودا کرنے والے سید الکائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور سودے کی قیمت اللہ کے قرب والی جنت ہے۔
بعض عارفین نے فرمایا کہ جانیں تین قسم کی ہیں ایک وہ ہیں جن کی آزادی کی وجہ سے ان کا سودا نہیں ہوا یہ انبیاء علیہم السلام کی جانیں ہیں ۔
دوسری وہ جانیں جن کا سودا ان کے گھٹیا ہونے کی وجہ سے نہیں ہوا یہ کافروں کی جانیں ہیں۔
تیسری وہ جانیں جن کی اعزاز کی وجہ سے ان کا سودا ہو گیا یہ ہیں ایمان والوں کی جانیں ۔
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تمام مسلمان اللہ کے غلام ہیں اور غلام کے پاس ایسی کوئی چیز نہیں ہوتی جو وہ اپنے آقا کو بیچ سکے [ کیونکہ غلام اور اس کی تمام چیزیں اس کے آقا کی ہوتی ہیں ] تو غلام اسی وقت اپنے آپ کو آقا کو بیچ سکتا ہے جب آقا اسے آزاد کردے پس معلوم ہوا کہ اللہ تعالی اپنے جن بندوں کی جان کو خریدتا ہے پہلے انہیں دوزخ سے آزاد کرتا ہے اور اس بات کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے جن میں مجاہدین کے لئے آگ کے حرام ہونے اور آگ سے ان کے آزاد ہونے کا ذکر ہے ۔
تقریر لطیف
جب اللہ تعالی نے اطلاع دی کہ میں نے ایمان والوں کی جان و مال کو خرید لیا ہے تو ایمان والوں نے عرض کیا یا اللہ اس کی قیمت کیا ملے گی تو اللہ تعالی نے فرمایا : بِانَّ لَھُم الجَنَّۃَ تمہیں جنت ملےگی پھر انہوں نے پوچھا ہم سودا کس طرح آپ کے سپرد کریں تو جواب ملا یُقَاتِلُونَ فَی سَبِیل اللہِ فَیَقتُلُونَ وَ یُقتَلُونَ میدان جہاد میں چلے آؤ لڑو اور جانیں قربان کرو سودا ہم تک پہنچ جائے گا ۔ پھر انہوں نے عرض کیا یا اللہ آپ نے خود فرمایا کہ خرید و فروخت کے وقت دو گواہ بنا لیا کرو اور ضمانت لکھوا لیا کرو تو اس خرید و فروخت کے گواہ کون ہیں ؟ جواب ملا ۔ وَعداً عَلَیہِ حَقّاً فِی التَّورَا ۃِ وَالاِنجِیلِ وَالقُران ۔ کہ تم گواہوں کی بات کرتے ہو ہم نے اس خرید و فروخت پر تین کتابوں اور ان پر عمل کرنے والی تین امتوں کو گواہ بنا دیا ہے ۔ پھر انہوں نے عرض کیا کہ اللہ آپ جو چاہیں کرسکتے ہیں آپ سےکوئی پوچھ بھی نہیں سکتا اگر آپ نے ہمارا اجر مٹا دیا تو ہم گھاٹے میں رہ جائیں گے جواب ملا : وَ مَن اَوفٰی بَعَھددِہِ مِنَ اللہِ کہ ہم سے بڑھ کر عہد کو پورا کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ پھر ہر خرید و فروخت کے بعد تو ندامت یا غمی پہنچتی ہے یا فرحت یا خوشی ۔ تو یہ خرید و فروخت کس قسم کی ہے ۔ ارشاد ہوا : فَاستَبشِرُو ا بِبَیعِکُم الِّذِی بَایَعتُم بِہ تم لوگ اس معاملے پر خوشیاں مناؤ اور اس کی مزید تاکید کے لئے فرمایا: وَ ذَلِلَ ھُوَ الفَو زُ العَظِیمُ ۔ اور بے شک یہی بڑی کامیابی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک اعرابی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو آپ یہی آیت تلاوت فرما رہے تھے اس نے پوچھا یہ کس کا کلام ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اللہ تعالی کا کلام ہے اس نے کہا اللہ کی قسم یہ تو نفع والا سودا ہے ہم اس خرید و فروخت کو کبھی ختم نہیں کریں گے چنانچہ جہاد میں نکل کر شہید ہو گیا ۔ّّّّ