جینے کے لیے درد کا سامان بہت ہے

جینے کے لیے درد کا سامان بہت ہے
اب تک جو ہوا خیر سے نقصان بہت ہے

کچھ روز سے وہ آئے نہیں کوئ بہانے
کچھ روز سے دل اپنا پریشان بہت ہے

دنیا میں تو تم جانے دو سب شکوے شکایت
لڑنے کے لیئے حشر کا میدان بہت ہے

ہونے نہیں دیتا تیری یادوں سے یہ غافل
ہر زخم جگر ہم پہ مہربان بہت ہے

ملتے ہیں شب و روز سبھی لوگ شناسا
اک تجھ سے ملاقات کا ارمان بہت ہے

سمجھاؤں اس کیسے کہ سمجھانا ہے مشکل
ہم دونوں میں یکجہتی کا فقدان بہت ہے

ہم پر بھی مہرباں ہیں بےکار مشاغل
ہم پر بھی تمناؤں کا احسان بہت ہے

گمنام ہے رقابت پہ کمربستہ زمانہ
اب دل کے اجڑنے کا امکان بہت ہے
شاعر کا نام مجھے یاد نہیں۔ اہل ذوق سے درخواست ہے اگر کسی کو معلوم ہو تو ضرور بتائیے۔
 
Top