جھوٹ بولے کوا کاٹے

یوسف-2

محفلین
jhoot1.GIF

jhoot2.GIF

نئی بات سنڈے میگزین 9 دسمبر 2012 ء صفحہ نمبر 18
 

یوسف-2

محفلین
یوسف-2 بھائی یہ تصویری شکل میں ہی ہے کیا؟
جھوٹ بولے کوا کاٹے
خلیل جبران کہتا ہے کہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، سوائے ایک جھوٹ کے کہ میں جھوٹ نہیں بولتا۔ ہم میں سے اکثر لوگوں کاکہنا ہے کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت اور سچوں پر خدا کی رحمت۔ مگر اس قسم کے بہت سے سچے بیانات کے باوجودجھوٹ کی اپنی صحت پر آج تک نہ کوئی اثر پڑا ہے اور نہ آئندہ پڑنے کا کوئی امکان ہے۔ لہٰذا ہم نے سوچا کہ کیوں نہ روز افزوں پھلتے پھولتے اس جھوٹ کی جھوٹی سچی کہانی پر طبع آزمائی کریں۔ سو ہم آج جھوٹ کی گردان، دروغ بر گردن راوی کہتے ہوئے شروع کرتے ہیں ۔ یعنی جھوٹ بولیں گے تو ہم، لیکن اگر خدا نخواستہ پکڑے گئے تو ذمہ داری ہم پر نہیں بلکہ نامعلوم راوی پر ہوگی ۔ اور یہ تو آپ کو بھی معلوم ہی ہوگا کہ ہمارے ہاں اکثر جرائم کرنے والے چونکہ نامعلوم لوگ ہوتے ہیں، حتیٰ کہ ایف آئی آر میں بھی ملزمان کے نام’ نامعلوم‘ ہی لکھے جاتے ہیں، اسی لئے اکثر جرم کی سزا کسی کو بھی نہیں ملتی۔راوی نامعلوم ہوا تو وہ بھی بچ جائے گا اور ہم بھی جھوٹ بولنے کے باوجود کبھی نہیں پھنسیں گے۔ جھوٹ کی یوں تو کئی اقسام ہیں مگر چند ایک زبان زد خاص و عام ہیں۔ مثلاً ایک تو سفید جھوٹ ہوتا ہے جسے سب بالاتفاق جھوٹ کہتے ہیں، خواہ اس میں سچ کی آمیزش ہی کیوں نہ ہو۔ اسے عموماََجھوٹے لوگ بولتے ہیں۔ کسی غیر جھوٹے کی یہ مجال نہیں کہ وہ سفید جھوٹ بول سکے۔ اس جھوٹ کو بولنے والے اس بات کی قطعا پرواہ نہیں کرتے کہ ایک جھوٹ کو نبھانے کے لئے انہیں مزید کتنا جھوٹ بولنا پڑے گا۔ بس یوں سمجھ لیں کہ اس قسم کے افراد ہر دم ،ہر جگہ اور ہر ایک کے سامنے جھوٹ بولنے کو تیار رہتے ہیں۔ تجربہ کار جھوٹوں کا کہنا ہے کہ جھوٹ ایسا بولنا چاہیے جو اگر صبح بولا جائے تو کم از کم شام تک تو اس کا بھرم باقی رہے جبکہ غیر تجربہ کار جھوٹے عموماً جھوٹ بولتے ہی پکڑے جاتے ہیں۔
جھوٹ کی ایک بہترین قسم مصلحت آمیز جھوٹ ہے۔ ایسا جھوٹ عموماً سچے لوگ بولتے ہیں۔ گو ہوتا تو یہ بھی جھوٹ ہی ہے مگر اسے مصلحت کا خوبصورت لبادہ پہنا دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسے بولنے والے نہ صرف یہ کہ کوئی کراہیت محسوس نہیں کرتے بلکہ اسے بسا اوقات ’ضروری ‘بھی قرار دیتے ہیں۔راوی اس کی تمثیل میں یہ روایت بیان کرتا ہے کہ کسی دربار میں کوئی درباری بادشاہ سلامت کو زیر لب برا بھلا کہہ رہا تھا کہ بادشاہ کی نظر اس درباری پر پڑ گئی۔ بادشاہ نے ساتھ والے درباری سے دریافت کیا کہ یہ زیر لب کیا کہہ رہا ہے۔ اس نے مصلحت آمیز جھوٹ کا سہار لیتے ہوئے کہا کہ حضور یہ آپ کی شان میں تعریفی کلمات ادا کر رہا ہے۔ بادشاہ نے خوش ہوتے ہوئے اسے زر و جواہر سے نوازنا چاہا تو قریب ہی بیٹھا ایک سچا مگر بد نیت درباری بول پڑا کہ حضور یہ جھوٹ ہے۔سچ تو یہ ہے کہ یہ درباری آپ کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ اس پر بادشاہ بولا۔ تمہارے اس سچ سے تو اس کا یہ جھوٹ ہی بہتر تھا کہ کم از کم اس کی نیت تو نیک تھی۔ جھوٹ کی مثال رشک و حسد کی بھول بھلیوں سے بھی دی جا سکتی ہے۔ جب حسد کرنے والے لوگوں کو معاشرے نے ذلت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا تو ”پارسا“ قسم کے لوگ بڑے پریشان ہوئے کہ اب ہم کیا کریں؟ حسد کرنہیں سکتے اور کئے بغیر رہ بھی نہیں سکتے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے لئے رشک جیسا خوبصورت لفظ تراش لیا۔ تاکہ اپنا’ گزارہ‘ بھی ہوتا رہے اور’ پارسائی ‘کا بھرم بھی برقرار رہے۔ ایسے ہی پارساو¿ں کے بارے میں ایک گناہ گار شاعر کیا خوب کہہ گیا ہے کہ :
ہم گناہ گار تو آسودہ ملامت ہیں
یہ پارسا ہیں، ذرا ان پر بھی نظر رکھنا
کہتے ہیں کہ پہلی مرتبہ جھوٹ بولنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ دوسری مرتبہ تھوڑی بہت ہچکحاہٹ ہوتی ہے جبکہ تیسری مرتبہ جھوٹ بولنے والا اتنا رواں ہوجاتا ہے کہ اُسے اپنے اس عمل پر کسی قسم کی ندامت یا پشمانی کا احساس تک نہیں ہوتااور پھر و ہ آئندہ بڑے اعتماد سے جھوٹ بولنے لگتا ہے۔ لیکن جس طرح بڑے سے بڑا مجرم بھی اپنے پیچھے کوئی ایسی نشانی ضرور چھوڑ جاتا ہے جو اس تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے۔ اسی طرح ہر جھوٹ بولنے والے سے بھی کوئی ایسی حرکت ضرور سرزد ہوجاتی ہے جس سے شک کا دروازہ کھل جاتا ہے ۔آپ کو ایسے بہت سے لوگوں سے واسطہ پڑا ہوگا جن کے جھوٹ سے آپ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہویا آپ کو نقصان اٹھانا پڑا ہو۔تاہم مستقبل میں آپ ایسے کسی بھی متوقع نقصان سے بچ سکتے ہیں ۔ یہ جاننے کے لیے کہ آیا آپ کا مخاطب جھوٹ تو نہیں بول رہا،آپ اچانک گفتگو کا موضوع تبدیل کردیں۔ اگر وہ سکون اور اطمینان محسوس کرے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ جھوٹ بول رہاتھا۔ جب کہ سچا شخص اچانک موضوع بدلنے سے پریشان ہوجاتا ہے اور مختلف حیلوں بہانوں سے آپ کو اصل موضوع پر لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ ماہرین کا کہناہے کسی شخص کی حرکات و سکنات کی بنا پربھی یہ تعین کیا جاسکتا ہے کہ وہ سچ بول رہاہے یا جھوٹ۔کیونکہ جھوٹے شخص کے چہرے پر تناو¿ ہوتا ہے اور ہاتھوں اور بازوں کی حرکت اس کی گفتگو کا ساتھ نہیں دے رہی ہوتی۔جھوٹا شخص آنکھ ملاکر بات کرنے سے بھی کتراتا ہے۔
جھوٹ بلیک اینڈ وہائیٹ بھی ہوتے ہیں۔ بھئی سفید جھوٹ سے کون واقف نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ جب سفید جھوٹ کا وجود ہے تو پھر کوئی سیاہ جھوٹ بھی ہو گا کہ سفید کا تصور سیاہ کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ جھوٹ وہ جادوئی چھڑی ہے جس کی مدد سے آپ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بنا سکتے ہیں۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سفید رنگ کی روشنی، سات رنگوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے تو ہم بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ سفید جھوٹ میں ساتوں رنگ کے جھوٹ کی آمیزش ہوتی ہوگی۔ اب یہ ماہرین دروغیات کا کام ہے کہ سفید جھوٹ میں سے ہر رنگ کے جھوٹ کو علیحدہ علیحدہ کر کے عوام الناس کو رنگ برنگے جھوٹ سے متعارف کرائیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے سائنس دانوں نے سفید رنگ کی روشنی کو شیشے کے منشور میں سے گذار کر سات رنگوں میں علیحدہ علیحدہ کر کے دکھا دیا ہے۔ جبکہ قوس قزح کی صورت میںیہی منظر قدرت ہمیں روز اول سے دکھاتی چلی آرہی ہے۔
نفسیاتی ماہرین بتلاتے ہیںکہ گو چہرے کے اعصاب عموماََ یہ بتلا دیتے ہیں کہ انسان سچ بول رہاہے یا جھوٹ تاہم بعض جھوٹے افراد کے اعصاب اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ وہ اپنا جھوٹ ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ اور بعض اوقات سچ بولنے والا اتنی گھبراہٹ کا شکار ہوجاتا ہے کہ اس کا سچ بھی جھوٹ لگنے لگتا ہے۔ لیکن عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ ایک جھوٹا انسان ایک نارمل شخص سے زیادہ بولتا ہے اور غیر ضروری اور غیر متعلقہ تفصیلات بیان کرتا ہے۔ وہ خاموش ہونے سے اس لیے ڈرتا ہے کہ کہیں کوئی ایسا سوال نہ پوچھ لیا جائے، جس سے اس کا جھوٹ پکڑا جائے۔ اکثر جھوٹ بولنے والے صاف کہنے کی بجائے بات کوگھمانے اور الجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔جھوٹے سے اگر کچھ پوچھا جائے تو اس پر گھبراہٹ طاری ہوجاتی ہے، جسے وہ چھپانے کے لیے اپنے سراور گردن کو بار بار حرکت دیتا ہے۔جھوٹ بولنے والا غیر ارادی طور پر اپنے چہرے، گردن اور منہ پر ہاتھ پھیرتا رہتا ہے اور ناک یا کان کو کھجاتا نظر آتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے اظہار میں سچا نہ ہوتو اس چہرے پر تاثرات تاخیر سے ظاہر ہوں گے اور اچانک غائب ہوجائیں گے۔ جب کہ سچے جذبات اظہار سے پہلے چہرے پر آجاتے ہیں اور دیر تک برقرار رہتے ہیں۔ جھوٹ بولنے والے کئی افراد اپنی باتوں کا یقین دلانے اور نارمل نظر آنے کے لیے مسکراہٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ حقیقی مسکراہٹ میں چہرے کے سارے اعصاب حصہ لیتے ہیں اوردیکھنے والے کو پورا چہرہ کھِلا کھِلاسا دکھائی دیتا ہے۔سچی مسکراہٹ دیر تک قائم رہتی ہے اور آہستہ آہستہ تحلیل ہوتی ہے۔ جب کہ زبردستی کی مسکراہٹ صرف ہونٹوں اور اس کے آس پاس کے اعصاب تک محدود رہتی ہے۔
جنگ اور لوگوں میں صلح کروانے کے علاوہ جھوٹ کی جس تیسری قسم کی اجازت ہمارے دین نے ہمیں عطاکی ہے، وہ ترمذی شریف کی ایک صحیح حدیث کے مطابق یہ ہے کہ خاوند اپنی بیوی کو راضی اور خوش کرنے کے لئے بھی جھوٹ بول سکتا ہے، بالخصوص اُس وقت جب سچ بولنے کی صورت میں بیوی کے ناراض ہونے کا شدید خدشہ ہو۔ دوسری طرف ہماری دیسی بیویاں اپنے شوہروں کو جھوٹ بولنے سے روکنے کے لئے بھی ایک جھوٹ ہی کا سہارا لیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جھوٹ بولنے والوں کو کالا کوا کاٹا کرتا ہے یعنی (سیاں اگر ) جھوٹ بولے (تو) کوا کاٹے، (لہٰذا، اے سیاں!) کالے کوے سے ڈریو۔ ورنہ میں میکے چلی جاو¿ں گی، تم دیکھتے رہیو۔ اگربیویوں کی یہ بات سچ ہوتی تو.... عدالت میں جج صاحبان گواہوں کو طلب کرنے کی بجائے کووں کو طلب کرتے تاکہ مدعی یا مدعا علیہ میں سے جو بھی جھوٹ بولے، ترنت فیصلہ ہوجائے۔ سیاسی جلسوں میں عوام اپنے لیڈروں کی تقریریں سننے کے لئے جاتے وقت اپنا پالتو کوا لے جانا ہرگز نہ بھولتے۔ قومی و بین الاقوامی کانفرنسوں میں میڈیا نمائندوں کے ساتھ ساتھ کووں کو بھی بطور مندوب بلایا جاتا تاکہ جیسے ہی کوئی مقرر جھوٹ بولے، اُسے کانفرنس بدر کیا جاسکے۔ اور خود بیویاں اپنے اپنے گھروں میں پہلے پہل تو بخوشی طوطے اور کبوتر پالنے کی بجائے کوے پالا کرتیں کہ اُن کے شوہر جیسے ہی جھوٹ بولیں، کوا حرکت میں آکر نہ صرف اُن کے جھوٹ کا پردہ فاش کردے بلکہ موقع پر سزا بھی دے سکے۔لیکن پھر بالآ خر اُنہیں اپنے کووں کو بیچ کر طوطے اور کبوتر ہی پالنے پڑتے۔ بھئی اب صبح شام میکہ جانا اتنا آسان بھی تو نہیں ہے کیونکہ پیٹرول کی مہنگائی اور سی این جی کی نایابی کے باوجود شہروں میں ٹریفک کا بڑااژدہام ہوتا ہے جبکہ دیہاتوں میں تو ٹرانسپورٹ کی دستیابی ہی ایک بڑا مسئلہ ہے۔٭٭٭
 
Top