جو میرا ہے طبیب اُسی سے خطاب ہے - ریحان اعظمی

حسان خان

لائبریرین
جو میرا ہے طبیب اُسی سے خطاب ہے
آ دیکھ مجھ کو میری طبیعت خراب ہے
سرطان پھیلنے لگا پھر تیری یاد کا
اک پل گذارنا بھی ترے بِن عذاب ہے
ترکِ تعلقات کا اک خار دل میں ہے
نسبت سے اُس کی مجھ کو وہ کانٹا گلاب ہے
نشہ کسی کی یاد کا اُترے تو کچھ کہوں
معدوم لب کشائی کی اس وقت تاب ہے
دل مطمئن ہے ہجرِ مسلسل کے باوجود
تیری کمی ہنوز مگر تیرا خواب ہے
مجھ خلوتی کو اس سے سروکار کچھ نہیں
باہر ہے تیرگی کہ شبِ ماہتاب ہے
آنسو تو اپنی راہ بناتے ہیں خود بخود
روکے سے کب رُکا ہے اگر سیلِ آب ہے
میری رگوں میں زہرِ جدائی اُتار کے
چہرہ کسی کا صورتِ رنگِ عناب ہے
بستر پہ اُس کے سنتا ہوں کچھ دن سے روز و شب
تصویر ہے مری جو درونِ کتاب ہے
ہر ایک کے سوال کا اُس نے دیا جواب
میرا سوال تشنۂ حرفِ جواب ہے
ریحان اعظمی تو بکھرنے پہ آ گیا
سمٹا ہوا کوئی پسِ گردِ حجاب ہے
(ریحان اعظمی)
 
Top