جو بس میں ہو تو فقط اس پہ وار دی جائے

عظیم

محفلین

غزل


جو بس میں ہو تو فقط اس پہ وار دی جائے
تمام زندگی چھپ کر گزار دی جائے


یہ خود میں جھانکتے رہنا بہت عجیب ہے فعل
جو ہو سکے تو یہ عینک اتار دی جائے

وہ دیکھتا ہے جب اچھوں کو تو یہ دور نہیں
کہ مجھ غریب کی صورت سنوار دی جائے

جو اس کے چاہنے والے ہیں صرف اس کے ہیں
کہاں قبول جو دنیا ہزار دی جائے

بس ایک آخری خواہش بچی ہے اک بت کی
وہ بول دیں تو یہ خواہش بھی مار دی جائے

نصیب میں یہی دیوانگی تھی میرے اگر
تو کیوں نہ ہنس کے حیاتی گزار دی جائے

عظیم چھوڑ کے بیٹھا ہوں اپنے دوست پہ سب
مگر صدا تو یونہی بار بار دی جائے


«««««​
باںا
 
Top