جنگل میں دھنک - منیر نیازی

عمر سیف

محفلین
آئینہ بن کر کبھی اُن کو بھی حیراں دیکھیے
اپنے غم کو اُن کی صورت سے نمایاں دیکھیے

اس دیارَ چشم و لب میں دل کی یہ تنہائیاں
اِن بھرے شہروں میں بھی شامِ غریباں دیکھیے

عمر گزری دل کے بُجھنے کا تماشا کر چکے
کس نظر سے بام و در کا چراغاں دیکھیے

دیکھیے اب کے برس کیا گُل کھِلاتی ہے بہار
کتنی شدّت سے مہکتا ہے گلستاں دیکھیے

اے منیر اِس انجمن میں چشمِ لیلٰی کا خیال
سردیوں کی بارشوں میں برق لرزاں دیکھیے
 

عمر سیف

محفلین
ہنسی چُھپا بھی گیا اور نظر ملا بھی گیا
یہ اِک جھلک کا تماشا جگر جلا بھی گیا

اُٹھا، تو جا بھی چکا تھا، عجیب مہماں تھا
صدائیں دے کے مجھے نیند سے جگا بھی گیا

غضب ہوا جو اندھیرے میں جل اُٹھی بجلی
بدن کسی کا طلسمات کچھ دِکھا بھی گیا

نہ آیا کوئی لبِ بام، شام ڈھلنے لگی
وفورِ شوق سے آنکھوں میں خون آ بھی گیا

ہوا تھی، گہری گھٹا تھی، حنا کی خوشبو تھی
یہ ایک رات کا قصّہ لہو رُلا بھی گیا

چلو چلیں منیر، اب یہاں رہیں بھی تو کیا
وہ سنگ دل تو یہاں سے کہیں چلا بھی گیا
 

عمر سیف

محفلین
دل جل رہا تھا غم سے مگر نغمہ گر رہا
جب تک رہا میں ساتھ مرے یہ ہُنر رہا

صبحِ سفر کی رات تھی، تارے تھے اور ہوا
سایہ سا ایک دیر تلک بام پر رہا

میری صدا ہوا میں بہت دُور تک گئی
پر میں بُلا رہا تھا جیسے، بے خبر رہا

گزری ہے کیا مزے سے خیالوں میں زندگی
دُوری کا یہ طلسم بڑا کارگر رہا

خوف آسماں کے ساتھ تھا سر پر جھکا ہوا
کوئی ہے بھی یا نہیں ہے، یہی دل کو ڈر رہا

اُس آخری نظر میں عجب درد تھا منیر
جانے کا اُس کے رنج مجھے عمر بھر رہا
 

الف عین

لائبریرین
ایک باغی بیٹے کی تصویر

باپ مرتا جا رہا تھا، ماں بہت دلگیر تھی
چپ تھی بس جیسے وہ کوئی خواب کی تصویر تھی

ہر طرف پیروں کے سائے، شام تھی تنہا بہت
اور بیٹا باپ کے اس حال پر رویا بہت

دیکھ کر اک دوسرے کو کوئی بھی بولا نہیں
کیا تھا ن کے سخت دل میں، راز یہ کھولا نہیں

دل دکھی تھے، نظریں گہرے غم نصیبوں کی طرح
پھر بھی دونوں لگ رہے تھے دو رقیبوں کی طرح
 

الف عین

لائبریرین
میرے دشمن کی موت

تیغ لہو میں ڈوبی تھی اور پیڑ خوشی سے جھوما تھا
بادِبہاری چلی جھوم کے جب اس نے مجھے دیکھا تھا
گھایل نظریں اُس دشمن کی ایسے مجھ کو تکتی تھیں
جیسے انہونی کوئی دیکھی ان کمزور نگاہوں نے

یہ انصاف تو بعد میں ہوگا، کیا جھوٹا کیا سچّا ہے
کون یقین سے کہہ سکتا ہے، کون برا کون اچھا ہے
لیکن پھر بھی ایک بار تو میرا دل بھی کانپاتھا
کاش یہ سب کچھ کبھی نہ ہوتا میں نے دکھ سے سوچا تھا
گھایل نظریں اُس دشمن کی گہری سوچ میں کھوئی تھیں
جیسے انہونی کوئی دیکھی ان کمزور نگاہوں نے

کون ہوں میں اور کون تھا وہ جس پر ہونی نے وار کیا
کون تھا وہ جس شخص کو میں نے بھری بہار میں مار دیا
 

الف عین

لائبریرین
گیت

اے صاحبِ جمال
اب آ کے دیکھ تیرے لیے کیا ہے میرا حال
اے صاحبِ جمال

کچھ رحم کر نہ اتنے تغافل سے کام لے
آ اور مسکرا کے مرا ہاتھ تھام لے
تیرے بغیر مجھ کو تو جینا ہوا محال
اے صاحبِ جمال

دنیا سے دور، اس کی بھری محفلوں سے دور
چوکھٹ پہ تیری آ کے گرا ہوں غموں سے چور
پردہ اھا کے سُن بھی ذرا اب مرا سوال
اے صاحبِ جمال
 

الف عین

لائبریرین
گیت
نیلے نیلے آسمان پر بادل ہیں چمکیلے
جانے کیا دیکھا گوری نے ہو گئے نین نشیلے
نیلے نیلے آسمان پر۔۔۔۔۔

سایہ بن کر دل سے گزری یاد گئی برساتوں کی
یا دیکھی تصویر نظر نے پیار میں ڈوبی راتوں کی
نیلے نیلے آسمان پر۔۔۔۔۔

روشنیاں سی چمک رہی ہیں آھ کسی کی نگاہوں میں
چلی ہوا دیوانی ہو کر، پھول برس گئے راہوں پر
نیلے نیلے آسمان پر۔۔۔۔۔

اُڑی مہک کالے بالوں سے، جیسے دور اندھیرے میں
پھلواری کوئی کھلی ہوئی ہو دیواروں کے گھیرے میں
نیلے نیلے آسمان پر۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
پرانے گھر کا گیت

شام ہوئی گھر آ باورے، شام ہوئی گھر آ
تو نے سفر میں کیا کچھ دیکھا ہم کو بھی تو سنا باورے
شام ہوئی گھر آ

کیسے کیسے لوگ ملے تھے، کیا تھا ان کا نام
کہاں کہاں کی خاک اُڑائی، کہاں کیا بسرام
کون تھا جس نے تیرے دل سے مجھ کو دیا بھلا، باورے
شام ہوئی گھر آ

پچھلے پہر کا چاند تھا کتنا چپ چپ اور اداس
اک سایہ کاموش کھڑا تھا دیواروں کے پاس
یاد ہے اس نے تجھے کہا تھا ’’آج رات مت جا‘‘، باورے
شام ہوئی گھر آ
 

الف عین

لائبریرین
گیت

کب تک چلتا رہے گا راہی ان انجانی راہوں میں
کب تک شمع جلے گی غم کی ان بے چین نگاہوں میں

وہ بھی بھول گیا ہوگا تجھے دنیا کے جنجالوں میں
کتنا بدل گیا ہے توٗ بھی آتے جاتے سالوں میں
گا کوئی گیت خوشی کا پاگل، کیا رکھّا ہے آہوں میں

مل بھی گیا وہ، پھر کیا ہوگا؟ لاکھوں ملتے دیکھے ہیں
یہ گلزار تو رات کی چُپ میں سب نے کھِلتے دیکھے ہیں
رات کٹی تو خاک اڑتی ہے پیار کی جلوہ گاہوں میں
کب تک ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
گیت

کس کو ڈھونڈھنے گھر سے نکلی ۔۔ اے راتوں کی ہوا
کہاسں ہیں تیرے من کے موہن۔۔ کچھ تو بھید بتا
اے راتوں کی ہوا

اس کی کھوج میں چلتے چلتے تھکیں گے تیرے پاؤں
پھر بھی دور رہے گا تجھ سے اس پریتم کا گاؤں
چھوڑ یہ دکھ کا کھیل بانوری۔۔ گھر کو واہس جا
اے راتوں کی ہوا

پربت کے نیلے جھرنوں کو اپنے گیت سنا
اونچے اونچے پیڑوں والے بن کی ہنسی اُڑا
اے راتوں کی ہوا
 

الف عین

لائبریرین
گیت

چاروں کھونٹ مُرلیا باجے، دھن موہن متواری

جمنا تٹ پر آن براجے سانورے شیام مراری
چاروں کھونٹ مُرلیا باجے، دھن موہن متواری
جس کو سن کر سوچ میں کھوئی گئی بربدا بن کی ناری
چاروں کھونٹ مُرلیا باجے، دھن موہن متواری

جنم جنم سے یہی مرلیا موہ کے گیت سنائے
برندا بن کی ناری کو جمنا کے تٹ پہ بلائے
کیسے کوئی لاج کے بندھن توڑ کے پریت نبھائے
گرج گرج کے جی کو جلاتی آئی بدریا کاری
 

الف عین

لائبریرین
گیت

شور کرتے گونجتے گھنگھور کالے بادلو
لاؤ اس بھولے سمے کی دل جلاتی شام کو
شور کرتے گونجتے گھنگھور کالے بادلو

ہونٹ جلتے دیپ، آنکھیں رنگ کی پچکاریاں
اپنے اپنے دھیان میں دوبی سجیلی ناریاں
اس رسیلی راس کو بس دور سے تکتے رہو
شور کرتے گونجتے گھنگھور کالے بادلو

بانسری کی دھن کہیں سوٗنے بنوں میں کھو گئی
رادھِکا موہن کا رستہ تکتے تکتے سو گئی
ڈھونڈھ کر لاؤ کہیں سے اس سلونے شیام کو
شور کرتے گونجتے گھنگھور کالے بادلو
 

الف عین

لائبریرین
گیت

جس نے مرے دل کو درد دیا
اُس شکل کو میں نے بھلایا نہیں

اک رات کسی برکھا رت کی
کبھی دل سے ہمارے مٹ نہ سکی
بادل میں جو چاہ کا پھول کھِلا
وہ دھوپ میں بھی کمھلایا نہیں
جس نے مرے دل کو درد دیا
اُس شکل کو میں نے بھلایا نہیں

کجرے سے سجی پیاسی آنکھیں
ہر دوار سے درشن کو جھانکیں
پر جس کو ڈھونڈھتے میں ہارا
اُس روپ نے درس دکھایا نہیں
جس نے مرے دل کو درد دیا
اُس شکل کو میں نے بھلایا نہیں

ہر راہ پہ سندر نار کھڑی
چاہت کے گیت سناتی رہی
جس کے کارن میں کوی بنا
وہ گیت کسی نے سنایا نہیں
جس نے مرے دل کو درد دیا
اُس شکل کو میں نے بھلایا نہیں
 

الف عین

لائبریرین
اس کو مجھ سے حجاب سا کیا ہے
آئینے میں سراب سا کیا ہے
آنکھ نشّے میں مست سی کیوں ہے
رُخ پہ زہرِ شباب سا کیا ہے
گھر میں کوئی مکیں نہیں لیکن
سیڑھیوں پر گلاب سا کیا ہے
کوئی تھا، اب نہیں ہے اور میں ہوں
سوچتا ہوں یہ خواب سا کیا ہے
شام ہے، شہر ہے، فصیلیں ہیں
دل میں پھر اضطراب سا کیا ہے
اے منیرؔ اس زمیں کے سر پر
آسماں کا عذاب سا کیا ہے
 
Top