جذباتی افسانے

نظام الدین

محفلین

ترقی پسند افسانوں کے بعد جذباتی افسانے آتے ہیں۔ جذباتی افسانوں میں جذبات اور احساسات کی شدت کو نمایاں طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ مختلف جذبوں کے زیر اثر افسانے کے کردار عجیب و غریب حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک افسانے میں سریش کو جب پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی وجہ سے نرملا سے شادی نہیں کرسکتا تو وہ نرملا کو اس طرح مخاطب کرتا ہے۔ ’’نرملا! تم آج سے میری بہن ہو۔‘‘ ’’تمہاری بہن؟‘‘ نرملا نے گھبرا کر کہا۔ ’’ہاں ہاں میری بہن۔‘‘ سریش نے بہن کے لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ’’میں سچ کہہ رہا ہوں۔ تم آج سے میری بہن ہو۔ کاش کہ تم عمر میں مجھ سے پانچ دس سال بڑی ہوتیں اور میں تمہیں ’’ماں‘‘ کہہ سکتا۔‘‘ اسی طرح ایک افسانے میں دو بھائی ایک ہی لڑکی سے محبت کرتے ہیں مگر جب چھوٹے بھائی کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا بڑا بھائی ان دونوں کی مشترکہ محبوبہ سے شادی کرنے کو تلا ہوا ہے تو وہ مندر میں دیوی یا دیوتا کے سامنے اس لڑکی کا ہاتھ اپنے بڑے بھائی کے ہاتھ میں دے کر خود سادھو بن کر زندگی گزارنے کا حلف اٹھاتا ہے۔ جذباتی افسانوں میں قہقہے، آنسو، سسکیاں، قسمیں، ہچکولے کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ عموماً انجام خودکشی ہوتا ہے اور محبت کے دیوتا کے سامنے عجیب و غریب قربانیاں دی جاتی ہیں۔

(کنہیا لال کپور کی کتاب ’’سنگ و خشت‘‘ سے اقتباس)
 
Top