جاسمن

لائبریرین

جج کے گھر میں کمسن ملازمہ پر تشدد کے مقدمے میں وحشیانہ تشدد کی دفعات شامل: ’انفیکشن کے باعث بچی کی طبیعت بگڑ جاتی ہے‘​

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے 14 سالہ گھریلو ملازمہ پر تشدّد کے مقدمے میں ایف آئی آر میں نئی دفعات شامل کر لی ہیں۔
نئی دفعہ 328اے مقدمے میں شامل کی گئی ہے جو وحشیانہ تشدد، جسم کے اعضا ٹوٹنا سے متعلق دفعہ ہے ۔
ابتدائی ایف آئی آر بچی کے والد کی مدعیت میں درج کروائی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ متاثرہ بچی اسلام آباد میں تعینات ایک سول جج کے گھر میں گذشتہ 6 ماہ سے بطور گھریلو ملازمہ کام کر رہی تھیں۔
متاثرہ بچی کا تعلق پنجاب کے شہر سرگودھا سے ہے۔

انفیکشن کے باعث طبیعت بگڑ جاتی ہے‘​

ایئرمیڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر فرید ظفر نے بی بی سی کو بتایا کہ مبینہ طور پر تشدد سے زخمی ہونے والی لڑکی کی حالت اب بہتر ہے۔ ان کے مطابق انفیکشن کی نوعیت اس طرح کی ہے کہ جس سے ان کی طبیعیت بگڑ جاتی ہے۔
ڈاکٹر فرید کے مطابق ’اس بچی کو شاید نہانے تک کی بھی سہولت میسر نہیں تھی اور انھیں شاید بہت ہی خراب حالت میں رکھا گیا تھا اور ان کے جسم پر زخم بھی تھے۔ ‘
ڈاکٹر فرید کے مطابق آج بچی کی سچوریشن کا ایشو ہوا جس وجہ سے انھیں آکسیجن پر رکھا گیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’ابھی یہ بچی کھا پی رہی ہے اور باتیں بھی کر رہی ہے۔‘
ڈاکٹر فرید نے بتایا کہ بچی کے دس بہن بھائی ہیں جبکہ ان کے والد سبزی منڈی میں مزدوری کرتے ہیں اور والدہ لوگوں کے گھروں میں جا کر کام کرتی ہیں۔
ان کے مطابق اس بچی کی ری ہیبیلیٹیشن کا پلان بھی بنایا ہوا ہے، جس کے تحت انھیں مکمل صحتیابی کے بعد ایک باعزت اور بامقصد شہری بنایا جائے گا۔

سر سمیت جسم پر 15 جگہ پر زخموں کے نشانات‘​

یاد رہے کہ والد کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ جب وہ اپنی بیٹی سے ملاقات کرنے اپنی اہلیہ سمیت اسلام آباد آئے تو جج کے گھر میں وہ انھیں زخمی حالت میں ملی جبکہ بچی لگاتار رو رہی تھی والد کے مطابق بچی کی حالت کو دیکھتے ہوئے اسے فوراً طبی امداد کی غرض سے سرگودھا لے گئے جہاں کے سرکاری ہسپتال نے انھیں ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد لاہور کے جنرل ہسپتال ریفر کر دیا کیونکہ بچی کے زخم خراب ہو چکے تھے۔
درج مقدمے کے متن کے مطابق بچی کا دعویٰ ہے کہ اس پر سول جج کی اہلیہ کی جانب بدترین تشدد کیا جاتا رہا ہے۔
سرگودھا کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) فیصل کامران نے بتایا ہے کہ ڈی ایچ کیو ہسپتال سرگودھا کی ابتدائی میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچی کے سر سمیت جسم پر 15 جگہ پر زخموں کے نشانات ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’بچی کے سر پر متعدد جگہ گہرے زخم ہیں اور بروقت علاج نہ ہونے کے باعث یہ زخم خراب ہو چکے ہیں اور ان میں کیڑے پڑ گئے ہیں۔‘
میڈیکل رپورٹ کے مطابق ’15 ظاہری چوٹوں کے علاوہ بچی کے اندرونی اعضا بھی متاثر ہیں۔‘
اسلام آباد پولیس کے سربراہ ڈاکٹر اکبر ناصر کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پولیس ملزمہ کو گرفتار کرنے کی کوشش کرے گی کیونکہ جن دفعات کے تحت مقدمہ درج ہوا ہے وہ ناقابل ضمانت دفعات ہیں۔‘
واضح رہے کہ اس سے قبل سنہ 2017 میں اسلام آباد کے ایک ایڈیشنل سیشن جج اور ان کی اہلیہ کے خلاف کمسن ملازمہ پر گھریلو تشدد کرنے پر مقدمہ درج کیا گیا تھا اور جرم ثابت ہونے پر انھیں تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور اس سزا کو سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔

جج کی اہلیہ روزانہ اس پر تشدد کرتی تھی‘​

بچی نے بتایا کہ ’وہ (جج کی اہلیہ) روزانہ ان پر ڈنڈوں اور چمچوں سے تشدد کرتی تھیں اور کمرے میں بھوکا پیاسا پھینک دیتی تھیں۔ اور یہ کہ انھیں سول جج کے گھر ملازمت کے بعد سے زیادہ تر عرصہ ایک کمرے میں بند کر کے رکھا گیا تھا۔"

ایف آئی آر کے مطابق جب بچی کے والد اور والدہ کئی ماہ صرف فون پر بات کرنے کے بعد گذشتہ روز بچی سے ملنے جج کے گھر پہنچے تو انھیں ایک کمرے سے اس کے رونے کی آواز آئی۔
’جب ہم نے اس کمرے کا رخ کیا تو وہاں سے بچی زخمی حالت میں موجود تھی اور زارو قطار رو رہی تھی۔‘
ایف آئی آر میں بچی کے جسم پر موجود زخموں کی تفصیلات بھی درج ہیں۔ والد کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ ’بچی کے سر پر جگہ جگہ زخم تھے جن میں چھوٹے کیڑے پڑ چکے تھے۔ ان کا بازو، دونوں ٹانگیں اور ایک دانت بھی ٹوٹا ہوا تھا۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق ’بچی کے جسم کے دیگر حصوں پر زخموں کے علاوہ ان کے گلے پر بھی نشانات تھےجیسے کسی نے گلا گھونٹنے کی کوشش کی ہو۔‘
 

شمشاد

لائبریرین
چونکہ جج کی بیوی ہے اور ملازمہ ایک غریب بچی ہے، لہذا جج کی بیوی کے خلاف کچھ بھی نہیں ہو گا۔ یہی پاکستان میں ہوتا ہے۔
 

عثمان

محفلین
گھروں میں کام کرنے والے ملازمین سے بدسلوکی پاکستان میں انتہائی عام ہے۔ ایسا سلوک کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے تئیں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت اچھا برتاؤ کرتے ہیں۔
 
Top