F@rzana
محفلین
رنگیلے کی برسی آئی اور خاموشی سے گزر گئی۔ ہمارے ساتھ وقت، یا جو بھی اسے کہیں، کا اس سے بڑا مذاق اور کیا ہو سکتا ہے!
سعید خان المعروف رنگیلا ہی فقط وہ شخص تھا جس نے اس روتے ہوئے دیس کو ہنسانے کا ٹھیکہ لیا ہوا تھا۔
’گا میرے منوا گاتا جارے جانا ہے ہم کا دور۔‘ اس کی فلم ’دیا اور طوفان‘ میں نے بہت بعد میں دیکھی لیکن یہ گانا میں نے اپنے گاؤں میں نوجوان بیل گاڑی والوں کو گاتے ہوئے بہت پہلے سنا۔
جب میں نے ’دیا اور طوفان‘ دیکھی تو میں نے خوشی سے شور مچاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ گانا تو بالکل اسی طرح میرے گاؤں کے بیل گاڑی پر جاتے ہوئے ’بھائی‘ گاتے ہیں۔ ہم تب بہت چھوٹے تھے اور خود سے ہر بڑے کو ’بھائی‘ کہتے تھے۔
اس گانے کے شاعر اور گانے والے رنگیلا خود ہی تھے۔
رنگیلا پاکستان کی بولتی فلموں کا چارلی چپلن تھا
ہم اپنے گاؤں میں ہر اس شحض کو رنگیلا ہی کہتے جو بھی زبردست مذاق کرتا۔ ایک ایسا بھی آدمی تھا جو رنگیلے کا ہمشکل تھا اور اسے کہتے ہی رنگیلا تھے۔
ہم بچے تھے اور ہماری دنیا تب واقعی ایک اسٹیج تھی اور ہم سب اداکار تھے۔ کوئی ہم میں سے سدھیر ہوتا ، تو کوئی مظہر شاہ، کوئی وحید مراد تو کوئی ندیم۔ کوئی محمد علی تو کوئی خلیفہ نذیر، کوئی منور ظریف، کوئی ننھا، کوئی الن تو کوئی رنگیلا۔ اور ہم لڑکوں میں سے ہی کوئی زیبا تھی تو کوئی شبنم۔
میرا محلہ، میرے محلے کے بچوں کا سمجھو کہ ایک ’ہالی وڈ‘ تھا۔ ایک اسٹریٹ تھیٹر تھا۔
جو فلمیں دیکھتے وہ آ کر کاپی ٹو کاپی کھلی گلی میں کرتے۔ فائیٹ کے بیک گراؤنڈ میں منہ سے گھونسوں کی آوازیں بھی نکالتے ڈہشوم۔۔۔ ڈہشوم۔۔ رقص و گانوں میں طبلوں اور گھنگھرؤں کی بھی۔ شمع ہے بھجنے والی۔۔۔۔۔
ناگ منی فلم دیکھ کر جو میرے دوست یوسف نے ڈانس سیکھے اور کیے تھے وہ شاید رانی نے بھی نہیں کیے ہوں گے۔ یوسف مر گیا۔ آج اگر وہ زندہ ہوتی تو بڑی رقاصہ ہوتی (میں اور وہ ایک دوسرے سے اسی تجنیس میں بات کرتے)۔ یوسف اپنے حسن و ادا میں واقعی یوسف تھا۔
رنگیلا نے اس روتے ہوئے دیس کو ہنسانے کا ٹھیکہ لیا ہوا تھا
نہ میں فلم کا نقاد ہوں اور نہ فلمی صحافی لیکن رنگیلے کی فلمیں میں نے تھرڈ میں بھی بڑے شوق سے دیکھی تھیں۔ المیہ اور طربیہ دونوں۔ وہ واقعی برف میں آگ لگانے والا اداکار تھا۔
اس کی فلمیں رنگیلا، رنگیلا اور منور ظریف اور کبڑا عاشق ۔’ رونے والے بتا تو ذرا مجھ کو، تو کسے یاد کرکے رویا ہے‘ پوری فلم میں اس کا ایک گونگے کا کردار!
ذہن مین آج بھی فلم کی ریل کی طرح چل رہی ہیں۔
فلم ’انسان اور گدھا‘ میں اس کی ایکٹنگ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست اور عہد اقتدار پر ایک بالواسطہ جگت تھی۔
رنگیلا پاکستان کی بولتی فلموں کا چارلی چپلن تھا۔ صوبہ سرحد کا ڈومیسائيل رکھنے والا مزاح کا اتنا خدا ہو سکتا ہے یہ کم ہی سوچا تھا!
کاش ان کی زندگی کے اور دن ہوتے اور وہ کاش آج کے پاکستان پر ایک فلم ’رنگیلا جنرل‘ کے نام سے بناتے!
تحریر :حسن مجتبی
۔۔۔
سعید خان المعروف رنگیلا ہی فقط وہ شخص تھا جس نے اس روتے ہوئے دیس کو ہنسانے کا ٹھیکہ لیا ہوا تھا۔
’گا میرے منوا گاتا جارے جانا ہے ہم کا دور۔‘ اس کی فلم ’دیا اور طوفان‘ میں نے بہت بعد میں دیکھی لیکن یہ گانا میں نے اپنے گاؤں میں نوجوان بیل گاڑی والوں کو گاتے ہوئے بہت پہلے سنا۔
جب میں نے ’دیا اور طوفان‘ دیکھی تو میں نے خوشی سے شور مچاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ گانا تو بالکل اسی طرح میرے گاؤں کے بیل گاڑی پر جاتے ہوئے ’بھائی‘ گاتے ہیں۔ ہم تب بہت چھوٹے تھے اور خود سے ہر بڑے کو ’بھائی‘ کہتے تھے۔
اس گانے کے شاعر اور گانے والے رنگیلا خود ہی تھے۔
رنگیلا پاکستان کی بولتی فلموں کا چارلی چپلن تھا
ہم اپنے گاؤں میں ہر اس شحض کو رنگیلا ہی کہتے جو بھی زبردست مذاق کرتا۔ ایک ایسا بھی آدمی تھا جو رنگیلے کا ہمشکل تھا اور اسے کہتے ہی رنگیلا تھے۔
ہم بچے تھے اور ہماری دنیا تب واقعی ایک اسٹیج تھی اور ہم سب اداکار تھے۔ کوئی ہم میں سے سدھیر ہوتا ، تو کوئی مظہر شاہ، کوئی وحید مراد تو کوئی ندیم۔ کوئی محمد علی تو کوئی خلیفہ نذیر، کوئی منور ظریف، کوئی ننھا، کوئی الن تو کوئی رنگیلا۔ اور ہم لڑکوں میں سے ہی کوئی زیبا تھی تو کوئی شبنم۔
میرا محلہ، میرے محلے کے بچوں کا سمجھو کہ ایک ’ہالی وڈ‘ تھا۔ ایک اسٹریٹ تھیٹر تھا۔
جو فلمیں دیکھتے وہ آ کر کاپی ٹو کاپی کھلی گلی میں کرتے۔ فائیٹ کے بیک گراؤنڈ میں منہ سے گھونسوں کی آوازیں بھی نکالتے ڈہشوم۔۔۔ ڈہشوم۔۔ رقص و گانوں میں طبلوں اور گھنگھرؤں کی بھی۔ شمع ہے بھجنے والی۔۔۔۔۔
ناگ منی فلم دیکھ کر جو میرے دوست یوسف نے ڈانس سیکھے اور کیے تھے وہ شاید رانی نے بھی نہیں کیے ہوں گے۔ یوسف مر گیا۔ آج اگر وہ زندہ ہوتی تو بڑی رقاصہ ہوتی (میں اور وہ ایک دوسرے سے اسی تجنیس میں بات کرتے)۔ یوسف اپنے حسن و ادا میں واقعی یوسف تھا۔
رنگیلا نے اس روتے ہوئے دیس کو ہنسانے کا ٹھیکہ لیا ہوا تھا
نہ میں فلم کا نقاد ہوں اور نہ فلمی صحافی لیکن رنگیلے کی فلمیں میں نے تھرڈ میں بھی بڑے شوق سے دیکھی تھیں۔ المیہ اور طربیہ دونوں۔ وہ واقعی برف میں آگ لگانے والا اداکار تھا۔
اس کی فلمیں رنگیلا، رنگیلا اور منور ظریف اور کبڑا عاشق ۔’ رونے والے بتا تو ذرا مجھ کو، تو کسے یاد کرکے رویا ہے‘ پوری فلم میں اس کا ایک گونگے کا کردار!
ذہن مین آج بھی فلم کی ریل کی طرح چل رہی ہیں۔
فلم ’انسان اور گدھا‘ میں اس کی ایکٹنگ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست اور عہد اقتدار پر ایک بالواسطہ جگت تھی۔
رنگیلا پاکستان کی بولتی فلموں کا چارلی چپلن تھا۔ صوبہ سرحد کا ڈومیسائيل رکھنے والا مزاح کا اتنا خدا ہو سکتا ہے یہ کم ہی سوچا تھا!
کاش ان کی زندگی کے اور دن ہوتے اور وہ کاش آج کے پاکستان پر ایک فلم ’رنگیلا جنرل‘ کے نام سے بناتے!
تحریر :حسن مجتبی
۔۔۔