(4)
چلّے کی سردی تھی اور کڑکڑاتے جاڑے ۔ وقت کی بات اور ہونی شُدنی کہ توصیف کا بڑا لڑکا کلیم خاصا چنگا بھلا کھیلتا مالتا اندر آیا اور پلنگ پر لیٹتے ہی اس شدت کا بُخار چڑھا کہ ماں اور باپ دونوں پریشان ہو گئے ۔ بارہ برس کا بچہ اور پہلونٹی کا ، دونوں میاں بیوی کا دَم ہَوا تھا ۔ علاج جس قدر توجہ سے ہوتا تھا اُسی قدر حالت ردی ہوتی جارہی تھی ۔ تین دن اور تین رات یہی کیفیت رہی ۔ دُنیا بھر کے جتن کر ڈالے ، مگر حالت میں کسی طرح فرق نہ ہوا ، اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ خُود ڈاکٹر بھی مایوسی کی باتیں کرنے لگے ۔ چوتھے روز جب کلیم پر بیہوشی طاری ہوئی اور توصیف کیلجہ پر گھونسے مار رہی تھی ، اُس کو اُس عورت کا خیال آیا جس کا بچہ صرف چالیس رُوپے کے واسطے اس سے بِچھڑا تھا ۔
دن کے تین بجے تھے ، وہ عورت اپنے بچہ کی یاد میں اپنی جھونپڑی میں خاموش بیٹھی آنسُو بہا رہی تھی کہ توصیف اس کے پاس پہونچی اور کہا ،
”چلو ، میں زمیندار کا رُوپیہ دُوں اور تُم اپنے بچہ کو لے آؤ۔“
عورت پر ایک شادئ مرگ کی کیفیت طاری ہوگئی وہ اُچھل پڑی اور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگی ،
”کیا آپ میرا بچھڑا ہوا کلیم مجھ سے ملوا دیں گی؟“
توصیف : ” کیا تمہارے بچہ کا نام بھی کلیم ہے؟“
عورت : ”جی ہاں۔“
توصیف : ” ہاں چلو ، میرے ساتھ چلو۔“
عورت توصیف کے ساتھ چلی مگر راستہ بھر اُس کی حالت عجیب رہی ، وہ توصیف کا منہ دیکھتی تھی ، بِلبلاتی تھی ، گڑگڑاتی تھی ، ہاتھ جوڑتی اور کہتی تھی ،
” بیگم ، چالیس رُوپے بہت ہیں مگر میں ہاتھ جوڑوں گی اور دُوں گی ، پانچ چھ رُوپے کے برتن تو میرے پاس ہیں یہ لے جائیے ، تین رُوپے کا ایک ہَل ہے ، باقی رُوپیہ جب تک میں نہ دُوں آپ میرے کلیم کو اپنے پاس رکھ لیجئے ، میں دُور سے ایک دفعہ روز صرف دیکھ جایا کروں گی ۔“
توصیف اپنے بچہ کی علالت میں اس درجہ مُستغرق تھی کہ اُس کو دُنیا مافیا کا ہوش نہ تھا ، وہ کسی بات کا جواب دیتی تھی نہ دینے کے قابل تھی ، زمیندار کے گھر پر پہنچی تو توصیف کی صُورت دیکھتے ہی اُس کے اوسان جاتے رہے ۔ اُس نے رُوپے دیے تو کہنے لگا،
”حضور ، آپ نے کیوں تکلیف کی ، میں وہیں حاضر ہوجاتا۔“
اب ایک عجیب منظر تھا ۔ زمیندار نے کلیم کو آواز دی اور ماں کا دل جو بچہ کی جُدائی میں تڑپ رہا تھا مچھلی کی طرح لوٹنے لگا ، وہ کبھی دروازہ کو دیکھتی اور کبھی توصیف کو ۔ اُس کے ہاتھ توصیف کی طرف جُڑے ہوئے تھے اور زبان سے صرف اتنا کہہ رہی تھی ،
”بیگم تیری مامتا ٹھنڈی رہے۔“
کلیم باہر آیا ۔ ماں کی صُورت دیکھتے ہی دوڑا اور اس کے گلے میں ہاتھ ڈال کر چمٹ گیا ۔ اُس وقت عورت نے فرطِ مسرت سے ایک چیخ ماری اور توصیف کے قدموں میں گر کر کہا ،
”اے بیگم خُوش رہ ، بِچھڑا ہوا لال مُجھ سے ملوا دیا ۔“
توصیف کا دل اپنے کلیم میں پڑا ہوا تھا ۔ بھاگم بھاگ گھر آئی تو ڈاکٹر کے یہ الفاظ اُس کے کان میں پہنچے ،
”اگر اِس دوا سے بُخار اُتر گیا تو خیر ورنہ پھر حالت بہت خطرناک ہوگی ۔“
برابر کے پلنگ پر خاموش لیٹ گئی ، رات کے دس بجے ہوں گے ، بچہ کا بدن دیکھا تو بدستُور چنے بُھن رہے تھے ، مایوس ہو کر پھر لیٹی اور یقین ہو گیا کہ اب بُخار اُترنے والا نہیں ۔
بارہ بجے کے قریب بُخار اور تیز ہوا اور توصیف اب قطعی مایوس ہو گئی ۔ ان ہی خیالات میں غلطاں و پیچاں لیٹی ہوئی تھی کہ آنکھ لگ گئی ۔ دیکھتی کیا ہے کہ ایک شخص سامنے کھڑا کہہ رہا ہے ،
”توصیف ! خُدا کا اصلی گھر تو بِچھڑے ہوئے کلیم کی ماں کا دل تھا ، تُو نے اُس کی مامتا کی قدر کی ، تیرا بچہ تُجھ کو مبارک ہو ، تُو نے غریب کلیم کو ملوایا اُٹھ تُو بھی اپنے کلیم سے مِل ۔“
توصیف ابھی خواب ہی دیکھ رہی تھی کہ مُوسٰی کی اِس آواز نے اُس کو چونکا دیا ،
”الٰہی تیرا شُکر ہے بُخار اُتر گیا ۔“
گھبرا کر اُٹھی تو بچہ پسینے میں نہا رہا تھا اور بُخار کا پتہ دُور دُور تک نہ تھا ۔
1920ء
---------- > اختتام < ----------