فیض تم نہ آئے تھے تو ہر اک چیز وہی تھی کہ جو ہے

تم نہ آئے تھے تو ہر اک چیز وہی تھی کہ جو ہے
آسماں حد نظر راہ گزر راہ گزر شیشۂ مے شیشۂ مے
اور اب شیشۂ مے راہ گزر رنگ فلک
رنگ ہے دل کا مرے خون جگر ہونے تک
چمپئی رنگ کبھی راحت دیدار کا رنگ
سرمئی رنگ کہ ہے ساعت بیزار کا رنگ
زرد پتوں کا خس و خار کا رنگ
سرخ پھولوں کا دہکتے ہوئے گلزار کا رنگ
زہر کا رنگ لہو رنگ شب تار کا رنگ
آسماں راہ گزر شیشۂ مے
کوئی بھیگا ہوا دامن کوئی دکھتی ہوئی رگ
کوئی ہر لحظہ بدلتا ہوا آئینہ ہے
اب جو آئے ہو تو ٹھہرو کہ کوئی رنگ کوئی رت کوئی شے
ایک جگہ پر ٹھہرے
پھر سے اک بار ہر اک چیز وہی ہو کہ جو ہے
آسماں حد نظر راہ گزر راہ گزر شیشۂ مے شیشۂ مے
 
Top