تقریر کی کہانی از سجاد میر

یوسف-2

محفلین
سوال یہ ہے کہ اگر وزیراعظم نے ایسی تقریر کی ہوتی جس کے چرچے چار دانگ عالم میں ہوتے تو وہ کیسی تقریر ہوتی ہے۔ اس میں کیا مسالہ ہوتا جو اس تقریر میں نہیں ہے۔ تقریر کا مزہ مجھے بھی نہیں آیا، مگر اب جو میں نے ہر ایک کو اس پر تنقید کرتے سنا ہے تو ایک پیشہ ور لکھاری اور تجزیہ نگار کے طور پر سوچنے لگ گیا ہوں کہ آخر اس میں خرابی ہے کیا۔
کوئی اسے ان کے اقتدار کے سو دن پورے ہونے کی تقریر قرار دے رہا ہے کہ انتخاب جیتنے کے98دن بعد یہ تقریر کی گئی تھی۔ کوئی یہ بتا رہا ہے کہ چلیں ایسا نہ سہی مگر کوئی75دن تو گزر گئے۔ اتنے دن انہوں نے ہونٹ سئے رکھے ۔ اب بولے ہیں تو کچھ کہتے۔ یہ کچھ نہ کہنے سے مراد ان کی یہ ہے کہ ان کے خیال میں وزیراعظم بتاتے کہ وہ آسمان سے کیا تارے توڑ کر لائے ہیں اور کیا تھگلی لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جو دو چار باتیں انہوں نے کیں، اس کی تو سب کو خبر تھی۔ مثلاً کہ وہ انرجی کا مسئلہ حل کرنے کے لئے کیا کر رہے ہیں اور کیا کرنے والے ہیں۔ اب تو انہیں کوئی دھماکا خیز اعلان کرنا چاہئے تھا جو وہ نہیں کر سکے۔ الٹا انہوں نے کہہ دیا کہ اپنا5سالہ دور اقتدار پورا ہونے سے پہلے وہ بجلی کا مسئلہ حل کر دیں گے۔ یہ بات تو پچھلی حکومت نے بھی کی تھی۔ تو وہ کیا کہتے جو سچ بھی ہوتا اور عوام کے دلوں کے تاروں کو بھی چھیڑنے کے کام آتا۔ کوئی ہے تو بتا دے۔ مجھے تو سمجھ نہیں آیا۔
پھر وہ چین کا قصہ لے بیٹھے کہ کاشغر سے گوادر تک ایک ہائی وے تعمیر کی جائے گی۔ بھئی یہ ایک اچھا خواب ہے۔ خوابوں سے تو پیٹ نہیں بھرتے۔ ان کا دوسرا خواب اس سے بھی زور دار ہے کہ چین کی مدد سے بلٹ ٹرین چلائی جائے گی۔ اس طرح کی چار چھ باتیں اور ہیں۔ ہیں نا یہ خواب ہائے دور دراز جن پر ابھی جانے کام کب شروع ہوگا۔ آخر ان خوابوں کے سہارے یہ قوم کیسے اپنے دن گزارے۔ مگر ایک بات ہے، میاں صاحب، خواب اونچے دیکھتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ خواب پورے نہیں ہوتے۔ موٹر وے بھی ایک خواب ہی تو لگتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورا ہوگیا نا۔ جو پورا نہیں ہوا، اس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ تب میاں صاحب اقتدار میں نہ تھے۔ اس کے باوجود مشرف اور بے نظیر پشاور اور فیصل آباد تک والے منصوبے مکمل کرنے پر مجبور ہوئے۔ چلئے یوں سمجھ لیجئے، یہ ذرا اس سے بھی اونچے خواب ہیں۔ ہو سکتا ہے ان کے پاس کوئی منصوبے ہوں۔ مگر ان کے لہجے سے تو یہ صرف خواب لگتا ہے، تعبیر میں ڈھلتاد کھائی نہیں دیتا۔
تو کیا اصل مسئلہ لہجے کا ہے۔ ذرا رکئے اس طرف میں آتا ہوں۔ اصل خرابی کا اندازہ لگانے سے پہلے ذرا انصاف تو کر لیں کہ انہوں نے کیا کیا کہا اور وہ اس کے علاوہ کیا کہہ سکتے تھے۔
دہشت گردی کے حوالے سے پہلی بار انہوں نے واضح مو¿قف اختیار کیا کہ مذاکرات کر لو، وگرنہ جنگ، جو بھی قبول ہو۔ ہمیں اسے ہر حال میں ختم کرنا ہے۔ یہاں بھی ان کا لہجہ مگر ڈھیلا ڈھالا تھا۔ تو کیا لٹھ لے کر پڑ جائے۔ کیا کرتے۔ ہم ذرا سوچیں تو سہی بھارت کے ساتھ دوستی کے حوالے سے ان کا ایجنڈا بھی چھپا ہوا نہیں۔ اس بار بھی انہوں نے اس کا اعادہ کیا۔
اب ذرا بتائیے، آپ کو اور ہمیں کیا توقع تھی۔ موجودہ بگڑے حالات میں کیا وہ بھارت کو دھمکی دیتے کہ باز آجاﺅ ورنہ جنگ کے لئے تیار ہو جاﺅ۔ یا کہتے، بھئی کچھ کر لو، ہم تو آپ سے صلح کرکے رہیں گے۔ کیا کہتے؟ دہشت گردوں کے بارے میں کیا مو¿قف اپناتے۔ میں نے افواج پاکستان کو حکم دے دیا کہ چڑھائی کر دیں یا یہ کہ ہم خود کو اس جنگ سے الگ کرتے ہیں، اور امریکہ والوں کو حکم دیتا ہوں کہ ان کا کوئی ڈرون ادھر کا رخ نہ کرے وگرنہ گرالیا جائےگا۔
بات لمبی ہوگئی۔ یوں لگ رہا ہے کہ میں نواز شریف کی55منٹ کی تقریر کی حمایت کر رہا ہوں حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ میں بھی اتنا بور ہوں جتنا آپ ہیں۔ خرابی ہے کیا؟ میں نے اوپر نیچے کی بات کی ہے۔ یہ سویا سویا تھکا تھکا سا لہجہ قوم کو مزید ڈپریشن میں مبتلا کر گیا ہے۔ میاں صاحب جب سے آئے ہیں، انہیں کسی نے مسکراتے نہیں دیکھا۔ وہ ہمیشہ سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں یہ صورت حال کی سنگینی کی وجہ سے ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ وہ بتانا چاہتے ہیں کہ حالات بہت گھمبیر ہیں۔ یہ سب درست ہے مگر کیا قیادت کا کام قوم کو مزید اداسیوں کی دلدل میں دھکیلنا ہے۔ یا اس میں لڑ مرنے کی جرا¿ت پیدا کرنا ہے ۔آج تک ہم65ءکی جنگ میں ایوب خاں کی تقریر کی داد دیتے ہیں جس نے پوری قوم کو جہاں اس بات سے آگاہ کیا تھا کہ ہم پر جنگ مسلط کر دی گئی ہے وہاں یہ حوصلہ بھی دیا تھا کہ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے ہماری افواج دشمن پر ٹوٹ پڑی ہیں۔ یہاں تو یہ لگتا ہے کہ قائد مایوس اور اداس ہے اور قوم کو بھی مایوس اور اداس کر دیا ہے۔ اب یہ ”حکمت عملی“ ختم ہونا چاہئے۔ اندازہ ہونا چاہئے کہ ہم کچھ کر سکنے کی ہمت رکھتے ہیں۔
یقینا یہ ایک حکمت عملی کا سوال ہے، مگر تقریر کے حوالے سے بھی اس میں دو معاملات اہم ہیں۔.1 سکرپٹ.2ادائیگی۔ ادائیگی میں قیادت اگر ہمیشہ اداسی طاری رکھے گی تو بڑے بڑے مضبوط اعصاب والی قوموں کے بھی حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں اور یہ جو میں نے سکرپٹ کی بات کی ہے تو گستاخی نہ ہو یہ ایک انتہائی کمزور سکرپٹ ہے جس میں کوئی جذبہ، کوئی جوش، کوئی قوت ابھرتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس وقت میرے پیش نظر بڑے بڑے لیڈروں کی کئی تقریریں ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کا کیا حال تھا۔ چرچل نے کیا ولولہ تازہ قوم کو دیا۔ اس نے کوئی وعدہ نہیں کیا سوائے آنسوﺅں، خون اور پسینے کے، مگر انداز سے ایک جرا¿ت ٹپکتی تھی۔ یہ جرا¿ت پوری قوم میں سرایت کر گئی۔ امریکی خانہ جنگی کے دوران ابراہم لنکن کی تقریر بھی۔ خود اسلام کی تاریخ ایسی ولولہ انگیز تقریروں سے بھری ہوئی ہے ایسی تقریریں کوئی خطبے نہیں ہوتیں، کوئی خطابت کے شہکار نہیں ہوتیں، مگر ایسے مرے ہوئے انداز میں قوم کو طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔
میاں صاحب کی ٹیم اب سیٹ ہو چکی ہے، مگر ایک ربع صدی پہلے ان کے پاس جو ٹیم تھی، موجودہ ٹیم اس سے کہیں کمزور نظر آتی ہے۔ انہیں اپنی اسی ٹیم پر انحصار کرنا پڑے گا۔ تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں، مگر اس ٹیم کو کوئی گائیڈ لائن تو ہو۔ ٹیم سے میری مراد صرف لکھنے والوں کی ٹیم نہیں، ہر شعبے کی ٹیم ہے۔ ان سب کا رویہ صرف مایوسی پھیلا رہا ہے۔ خزانہ، داخلہ، خارجہ ہر شعبے میں قوت عمل کی ضرورت ہے۔ چوہدری نثار بھی، مثال کے طور پر ابھی تک یہی بتا رہے ہیں کہ ہمارے ہاتھ پلے کچھ نہیں ہے۔ ہم نے وہ کوئی ربر کی گولیاں چلانے والی بندوق منگوائی۔ پتا چلا کسی کو چلانا نہیں آتی۔ اسحاق ڈار کہتے ہیں ایف آئی اے کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ بینکوںکے اندر جھانک کر لوگوں کے کھاتوں کا سراغ لگا سکے۔ کہتے ہیں سرمایہ باہر منتقل ہونا شروع ہوگیا ہے کیا یہ طے کر لیا گیا ہے کہ قوم پر اعتبار کرکے اسے لڑنے مرنے کے لئے تیار ہی نہیں کرنا۔ صرف یہ بتانا ہے کہ سب کچھ غلط ہے، صرف ہم صحیح ہیں اور ہم لگے ہوئے ہیں آپ فی الحال انتظار کریں۔
بہرحال ابلاغیات بہت نازک مسئلہ ہے۔ بھٹو کے بازو پتلے تھے۔ ماہرین نے مشورہ دیا کہ اپنی قمیص کے بٹن کھلے رکھئے ، تقریر کرتے ہوئے یہ آپ کی اس کمزوری کو چھپا لیں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس حکومت میں کسی نے میاں صاحب کو مشورہ دیا ہوگا کہ وہ اپنے چہرے کا تشنج ذرا کم کریں۔ یہ ساری قوم کے اعصاب پر تناﺅ طاری کر رہا ہے۔ میں اس بات پر زیادہ زور نہیں دینا چاہتا عام طور پر اس کے اور بھی معنی لے لئے جاتے۔ خدا کے لئے یہ ذرا ذرا سی باتیں بہت اہم ہیں۔ اب ٹیم نہیں بدلی جا سکتی ،اسی ٹیم سے کہیے وہ کچھ سیکھ لے اور گستاخی نہ ہو تو عرض کروں آپ بھی خود کو مثبت پیام دینے والا قائد ثابت کریں۔ مشکلیں اپنی جگہ، مگر قوم نے آپ کو انہیں حل کرنے کےلئے چنا ہے۔ یہ آپ کا امتحان ہے۔

بشکریہ نئی بات 22 اگست 2013
 
Top