(3)
حالات روز روز بڑھتے گئے ۔ ادھر میاں محسن ہفتہ میں پانچ چار مرتبہ روزہ تو نہیں مگر روزہ کی حد کو ضرور پہنچ جاتے ۔ ضرورت تھی کہ محسن کے اماں باوا جو فرشتہ بہو کے متلاشی تھے اور اپنی دانست میں بیٹے کو دُنیا ہی میں حُور دے دی ، کچھ روز زندہ رہ کر دیکھتے کہ لڑکا فردوسِ بریں میں کیسی زندگی بسر کر رہا ہے ۔ مگر دونوں میں سے ایک بھی نہ رہا ورنہ باپ نہیں تو ماں زیادہ نہیں تو فاقوں سے بچا لیتی ۔ یہ نہیں کہ حبیبہ خود کھا لیتی ہو ، وہ واقعی اپنے وظیفوں کے آگے کسی چیز کی پرواہ نہ کرتی تھی اور اس کا یقین تھا کہ مغفرت صرف خدا ہی کی رضامندی ہے اور خدا کی رضامندی نماز روزہ پر موقوف ہے ۔ ایک روز جبکہ ملیریا بُخار کثرت سے پھیلا ہوا تھا ، دوپہر کے وقت محسن کو بھی بُخار چڑھا ۔ ہانپتا کانپتا گھر پہنچا ، دُلائی اوڑھی ، رضائی اور لحاف اوڑھے مگر سردی کسی طرح کم نہ ہوئی ۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے تک تھر تھر کانپتا رہا ، تین بجے ذرا سردی کم ہوئی تو بیوی سے کہا ،
”سرشتہ دار صاحب کہتے تھے کہ ملیریا بخار سب کے واسطے یکساں ہے پھر کیا بات ہے کہ انگریزوں کو کم ہوتا ہے اور ہندوستانیوں کو زیادہ ؟ اس کا سبب صرف یہ ہے کہ ہندوستانی احتیاط نہیں کرتے ۔“
بیوی : ” احتیاط سے کچھ نہیں ہوتا ۔ تقدیر میں بیماری لکھی ہے تو کون مٹا سکتا ہے ، ایک نہیں لاکھ احتیاط کرو۔“
میاں : ” یہ تو صحیح ہے مگر تقدیر کے ساتھ تدبیر بھی ہے جو لوگ مُسہل لے کر پیٹ کی کثافت ان دنوں میں صاف کر لیتے ہیں اور کونین کا استعمال کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی گھروں میں سیل نہیں ہونے دیتے کہ مچھر پیدا ہوں ، وہ ہرگز اس بُخار میں مبتلا نہیں ہوتے ۔“
بیوی : ” اُستانی بشیرن کیوں مریں ؟“
میاں : ”وہ تو موتی جھرا تھا ۔“
بیوی : ” موتی جھرا ہو یا دِق ، یہ دِن ہی برسات کے تھے ۔ “
میاں : ” اب میں کیا کروں ؟ چلا نہیں جاتا جو ڈاکٹر کے ہاں جاؤں ۔“
بیوی : ” رات کو اُتر جائے گا گھبراتے کیوں ہو؟ بھادُوں کا بخُار شبِ برات کی چپاتیاں ہیں کوئی گھر خالی نہیں ۔ صبح کو حکیم کے پاس چلے جانا ۔ “
بُخار موسمی تھا صبح کو اُتر گیا تو محسن ڈاکٹر کے پاس گیا اس نے مسہل کی دوا دی ۔ غریب نے ایک روز کی چھٹی لی اور بیوی سے کہہ دیا مُجھ کو بارہ بجے کھچڑی ملنی چاہیے ، مگر کہا اُس وقت کہ بیوی اشراق کا سلام پھیر حصن حصین کا ختم شروع کر چکی تھیں ۔ ساڑھے بارہ بجے کے قریب محسن کو بُھوک لگی تو کیا دیکھتے ہیں مُستقل مزاج بیوی بدستُور جانماز پر بیٹھی ختم میں مصروف ہے ۔ آج میاں کو خُدا دوست بیوی کی قدر معلوم ہوئی اور جل کر کہا ،
”تو کیا اب بھی فاقہ کروں !“
بیوی : ” ہُوں اُوں اُوں ہُوں ہُوں ۔“
میاں : ” بس تم تو پڑھے جاؤ ، میں سو جاتا ہوں۔“
بیوی : ” اون اون ہوں ہوں ہوں ۔“
بیوی فارغ ہوئیں تو ایک بج رہا تھا ۔ کھچڑی چڑھائی ۔ پکتے پکاتے گھنٹہ پون گھنٹہ اور لگا ۔ دو بجے میاں کھانے بیٹھے اور بیوی ظہر کی نماز کو کھڑی ہوئیں ۔ کھچڑی میں نمک پھیکا تھا مگر مانگتے کس سے اور دیتا کون ، دو چار منٹ راہ دیکھ کر خُود ہی اُٹھے ، کوٹھری میں گئے تو اندھیرا گُھپ تھا چاروں طرف ٹٹولا ، مرچیں ملیں ، دھنیا ملا ، پیاز ملی ، لہسن ملا مگر نمک نہ ملا ۔ بُخار ، مُسہل ، فاقہ ، لوٹتے تھے کہ دیوار کی ٹکر اس زور سے لگی کہ بجلی کُوند گئی ۔ ۔ سر پکڑ کر آ بیٹھے اور پاؤں پھیلا کر لیٹ گئے ۔ بیوی نماز میں میاں غوطے میں ، بلی کو اس سے اچھا موقع کون سا ملتا ، کھچڑی کھائی اور شوربہ پیا ۔
---×---