جون ایلیا تعبیر کی تلاش - جون ایلیا

حسان خان

لائبریرین
خوشی کے ترانے گائے جائیں، شادیانے بجائے جائیں کہ ہمیں غلامی سے رستگاری پائے ہوئے اب چوالیس برس پورے ہو رہے ہیں۔ کیوں، کیا ہمیں آزادی کے چوالیس برس گزرنے پر شادیانے نہیں بجانے چاہییں، خوشی کے ترانے نہیں گانے چاہییں؟ آزادی، افراد اور اقوام کی زندگی کی آبرومندی، روحوں کی خرسندی، بستیوں کی آئینہ بندی۔

مگر کیا ہم اس تقریبِ سعید پر خوشی منانے کا ادنیٰ سا حق بھی رکھتے ہیں؟ آزادی ہمارے لیے پانچ حرفوں کے مجموعے سے زیادہ کوئی حیثیت رکھتی ہے؟ حرفوں کا یہ مجموعہ کیا ہمارے اندر کسی خوش آئند اور خوشگوار احساس کو بیدار کرتا ہے؟

اس سوال کا دل شکن جواب یہ ہے کہ، نہیں۔ افسوس کہ ہم حرفوں سے کسی کیف آگیں حالت میں نہیں آ سکتے۔ لفظوں سے جی نہیں بہلا سکتے۔ ہم لاکھ چراغاں کریں۔ اس سے کچھ نہیں ہوتا۔ آزادی کا لفظ نہ ہمارے اندر کوئی کیفیت پیدا کرتا ہے اور نہ ہمارے باہر۔ بات یہ ہے کہ دل کیا محسوس کرتے ہیں، گلیاں کیا کہتی ہیں، شاہراہیں کیا جتاتی ہیں اور چوراہے کیا دہراتے ہیں۔ ہم نے ان چوالیس برس میں اس کے سوا اور کیا کیا ہے کہ ایک لفظ 'آزادی' کو مہمل بنا دیا ہے۔

وائے ہو ہم پر کہ ہمارے خواب کی تعبیر چکناچور ہو گئی۔ یہاں پوچھنا چاہیے کہ خواب کی تعبیر کس نے چکناچور کی، عوام کی امنگوں کو کس نے نڈھال کیا، ان کے جذبوں کو کس نے پامال کیا؟

اس کا جواب اس کے سوا اور کیا ہے کہ حکمرانوں نے اور سیاستدانوں نے۔ ان حکمرانوں سے زیادہ ناشدنی اور کون ہوگا جنہوں نے بے تکان جھوٹ بولنے کا تاریخ سے ٹھیکا لیا ہو۔ یاد رکھا جائے اور ہرگز فراموش نہ کیا جائے کہ حکومت کوئی اچھا ادارہ نہیں ہے۔ یہ بات ہمارے بڑوں نے ہمیں بتائی ہے اور ہم نے اسے گرہ میں باندھ لیا ہے۔ حکومت کو تاریخ کے تدریجی سفر میں صرف برداشت کیا جاتا رہا ہے۔ بہترین حکومت بھی ایک بدترین حکومت ہوتی ہے، ایک جابرانہ ادارہ۔ اس جابرانہ ادارے کو پاکستان کے عوام نے اذیت ناکی کے ساتھ برداشت کیا۔

افلاطون نے حکمرانی کو سب سے اہم مرتبہ قرار دیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ حکمراں کو حکیموں اور دانش مندوں کے گروہ سے آنا چاہیے۔ اس بھلے آدامی نے فلسفی حکمراں کا خواب دیکھا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ سیاستدانوں کو حکیم اور دانشور ہونا چاہیے۔

ہم اپنے ماحول اور اپنے معاشرے کے دائرے میں جب ایسی باتوں کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمیں زہریلی ہنسی آتی ہے۔ سیاست داں اور حکیم، سیاست داں اور دانش مند! مجھے اس وقت بڑی بے کیفی کے ساتھ یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ میں یکسر مہمل اور محض لایعنی باتیں کرنے کی کتنی غیر معمولی اہلیت رکھتا ہوں۔ مگر کیا بھی کیا جائے کہ میں اس احساس انگیز موقع پر، مہمل اور لایعنی باتیں کرنے سے کسی طرح بھی باز نہیں آ سکتا تھا۔ اگرچہ یہ باتیں مجھے بہت اداس اور آزردہ کر رہی ہیں۔ بے آرام کر رہی ہیں۔ مگر میرے لوگو! کیا تم سیاست دانوں کا نام سن کر بے آرام نہیں ہو جاتے، جنہوں نے ہماری اور تمہاری زندگی کے بہترین دور کو بری طرح ضائع کیا، انہوں نے ہمیں ہمارے اندر بھی ذلیل کیا اور ہمارے باہر بھی۔

یہ کتنی بدبختی کی بات ہے کہ ہمارے سماج کے سب سے اہم لوگ وہ ہیں جنہیں 'سیاست مدار' کہا جاتا ہے۔ وقت کے سب سے زیادہ افسوس ناک لوگوں کو قوم کی امیدوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ تم، اس متاعِ عزیز ملک کے سیاست دان، تم۔۔۔ آخر تم کون ہو، کیوں ہو؟ میں بڑی اذیت کے ساتھ یہ سوچتا ہوں کہ اس ملک کے معصوم اور سادہ دل لوگ تمہارے نام بھی کیوں جانتے ہیں؟

شروع کے چند سال چھوڑ کر ہمارے ملک کی باقی تاریخ میں سیاست مداروں کی بدکوشی اور بدکیشی کے سوا کسی اور خوشگوار حقیقت کے مظاہر تقریباً ناپید رہے ہیں۔ ہماری اس دور کی تاریخ کا مطالعہ ہمیں کم ہی خوش کرتا ہے، بلکہ قریب قریب پوری سچائی یہ ہے کہ وہ ہمیں بے حد ناخوش اور بیزار کرتا ہے۔

ہاں میں محسوس کر رہا ہوں کہ ماضی پر گریہ و زاری کرنے کا کوئی حاصل نہیں، اب کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ یہی کیا جا سکتا ہے کہ اپنی تقدیر کے فیصلے سیاست کے ستم ظریفانہ بازی گروں پر نہ چھوڑے جائیں اور اپنے خوابوں کی تعبیر خود تلاش کی جائے۔ پاکستان پائندہ باد!

(سسپنس ڈائجسٹ، اگست ۱۹۹۱)
 
پہلے تو میں سمجھا کہ یہاں تعبیر آپی کی تلاش ہو رہی ہے:ROFLMAO:
تفنن برطرف
کیا ہی سچی باتیں لکھا کرتے تھے جون ایلیا مرحوم۔

ماضی پر گریہ و زاری کرنے کا کوئی حاصل نہیں، اب کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ یہی کیا جا سکتا ہے کہ اپنی تقدیر کے فیصلے سیاست کے ستم ظریفانہ بازی گروں پر نہ چھوڑے جائیں اور اپنے خوابوں کی تعبیر خود تلاش کی جائے۔​
ہمیں ایسا کرنا چاہیے پر افسوس صد افسوس کہ ہم ایسا کریں گے نہیں
 
Top