یوسفی تزک یوسفی سے انتخاب

یو سفی صاحب کی کتاب زر گزشت کے مقدمے ’’ تزکِ یوسفی سے انتخاب پیشِ خدمت ہے۔ پڑھیے اور سر دھنیے۔

پہلی کتاب‘‘ چراغ تلے پر نظر ِ ثالث جناب شاہد احمد دہلوی مرحوم نے کی تھی۔ ( نظر ثانی گھر کے سنسر نے کی تھی۔ چنانچہ کتاب بھی سوکھ کے آدھی رہ گئی۔) دوسری کتاب ‘‘ خاکم بدہن’’ جناب شان الحق حقی نے نظر ثانی فرمائی۔ شاہد احمد دہلوی کی طرح وہ بھی واں کے نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں۔ خیال آیا کہ تیسری کتاب کا ذائقہ بدلنے کی خاطر اس دفعہ کیوں نہ کسی لکھنوی اہلِ زبان سے اصلاح کے بہانے چھیڑ چھاڑ کا آغاز کیا جائے۔ ( یوں تو میں بھی ٹھیٹ اہلِ زبان ہوں، بشرطیکہ زبان سے مراد مارواڑی زبان ہو) چنانچہ محبِ گرامی جناب محمد عبدالجمیل صاحب سے رجوع کیا جن کے جدِ اعلیٰ مولانا فضل حق خیر آبادی ، غالب کا دیوان مرتب کرتے وقت بیسیوں اشعار حذف کرکے پروفیسروں اور ریسرچ اسکالروں کے مستقل روزگار کا بندوبست فرماگئے۔ جمیل صاحب نے میری زبان کے ساتھ لگے ہاتھوں جوانی کا بھی جائزہ لے ڈالا۔ اور انھیں بالترتیب داغدار اور بے داغ پاکر اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔ فرمایا کہ یہ ترتیب اگر الٹی ہوتی تو کیا بات تھی۔
مسودے کے کچھ حصے پڑھ کر فرمایا‘‘ ایسا لگتا ہے کہ کچھ کوائف آپ نے صیغہ راز میں رکھے ہیں۔’’
‘‘مثلاً؟’’
‘‘ مثلاً یہی کہ کب اور کہاں پیدا ہوئے؟’’
‘‘یکم محرم کو۔ ستوانسا ۔ٹونک( راجھستان) میں، جہاں کے خربوزے اور ‘‘ چکوباز’’ مشہور ہیں۔ تاریخ، خاندان اور جائے ولادت انتخاب میں میرا ووٹ نہیں لیا گیا تھا۔ پکڑے جاتے ہیں بزرگوں کے کیے پر ناحق۔ آبائی مسکن جے پور۔ تعلیم جے پور آگرے اورعلی گڑھ میں ہوئی۔ اور عمرِ عزیز کا بیشتر حصہ کراچی میں گزرا۔ شہروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے۔’’
‘‘زندگی میں وہ کون سے پہلی ایکٹریس تھی جس پر آپ جی جان سے فریفتہ ہوئے؟’’
‘‘ آپ اس بہانے میرا سنِ پیدائش معلوم کرنا چاہتے ہیں۔’’
نشے اور سوانحِ حیات میں بھی جو نہ کھلے اس سے ڈرنا چاہیئے۔ کچھ تو کھلیے۔پسندیدہ رنگ؟ پسندیدہ خوشبو؟ پسندیدہ حسن وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔؟’’
۱۔ ‘‘ سبھی رنگ پسند ہیں۔ سو کے نوٹوں کے رنگ بدلتے رہے ہیں۔
۲۔ تیز مہکار چہکار نہیں بھاتی۔ رات کی رانیاں۔۔۔ دونوں قسم کی۔۔۔ دور کسی اور کے آنگن ہی سے مہک دیتی اچھی لگتی ہیں۔
۳۔ جہاں تک حسن کا تعلق ہے، وغیرہ وغیرہ پسند ہے۔’’
‘‘اپنا تازہ ترین فوٹو شامل کرنے میں تامل تھا تو کم از کم حلیہ ہی بیان کردیتے۔’’
‘‘آئینہ دیکھتا ہوں تو قادرِ مطلق کی صناعی پر جو ایمان ہے وہ کبھی کبھی متزلزل ہو جاتا ہے۔’’
‘‘ خاندان اور بچپن کے حالات پر بھی آپ نے روشنی نہیں ڈالی۔ حد یہ کہ بینک کا نام تک نہیں بتایا؟’’
‘‘ایک چشمِ دید واقعہ آپ کو سناتا ہوں۔ اس صدی کی تیسری دہائی میں ایک خاتون نے جو ارد میں معمولی شدبد رکھتی تھیں، اس زمانے کا مقبولِ عام ناول‘‘ شوکت آرائ بیگم ’’ پڑھا ، جس کی ہیروئن کا نام شوکت آرا اور معاون کردار کا نام فردوس تھا۔ ان کے جب بیٹیاں ہوئیں تو دونوں کے یہی نام رکھے گئے۔ ایک کردار کا نام ادریس اور دوسرے خدائی خوارکاچھن تھا۔ یہ دونوں انھوں نے اپنے چھوٹے بیٹے کو بطور نام اور عرفیت بخش دیئے۔ بچے کل چار دستیاب تھےجب کہ ناول میں ، ہیرو کو چھوڑ کر ، ابھی ایک اور اہم کردار، پیارے میاں نامی ولن باقی رہ گیا تھا۔ چنانچہ ان دونوں ناموں اور دہرے رول کا بوجھ بڑے بیٹے ہی کو اٹھانا پڑا، جس کا نام ہیرو کے نام پر مشتاق رکھا گیاتھا۔ یہ سادہ لوح خاتون میری ماں تھی۔ بحمداللہ! ناول کی پوری کاسٹ، باستثنائے شوکت آرا ، جس کا طفولیت ہی میں انتقالہوگیا تھا، زندہ و سلامت ہے۔ والدہ کی بڑی خواہش تھی کہ ڈاکٹر بنوںاور عرب جاکر بدووں کا مفت علاج کروں، اس لیے کہ ناول کے ہیرو نے یہی کیا تھا۔ مولا کا بڑا کرم ہے کہ ڈاکٹر نہ بن سکا، ورنہ اتنی خراب صحت رکھنے والے ڈاکٹر کے پاس کون پھٹکتا۔ ساری عمر کان میں اسٹیتھس کوپ لگائے اپنے ہی دل کی دھڑکنیں سنتے گزرتی۔ البتہ ادھر دوسال سےمجھے بھی سعودی عرب، بحرین قطر، عمان اور عرب مارات کی خاک نہیں تیل چھاننے اور شیوخ کی خدمت کی سعادت نصیب ہوتی رہی ہے۔ ناول کے بقیہ پلاٹ کا بے چینی سے انتظار کر رہا ہوں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اردو ادب کبھی زندگی پر اثر انداز نہیں ہوا، وہ ذرا دیدہ عبرت نگاہ سے اس عاجز کو دیکھیں۔ یہ ہے کچا چٹھا۔ کہیے جمیل صاحب! اب تو ٹھنڈک پڑی؟’’
جس توجہ اور دقتِ نظر سے جمیل صاحب نے مسودہ ملاحظہ فرمایا، وہ ان کے التفاتِ خاص اور زباندانی کا ہنستا مسکراتا ثبوت ہے۔ مثلاً پہلے باب میں، میں نے لکھا ہے کہ بچے سردہ سے اپنی بتیسی بجاتے ہیں۔ بتیسی کو قلم زد کرتے ہوئے فرمایا۔‘‘ یہ آپ نے کیا لکھ دیا؟’’ڈرتے ڈرتے پوچھا‘‘ کیا لکھنئو میں کچھ اور بجاتے ہیں؟’’ ارشاد ہوا‘‘ بچے کے تو اٹھائیس دانت ہوتے ہیں ۔ بتیسی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔’’ گزارش کی کہ‘‘ اگر یہ لکھ دوں کہ بچے اپنی اٹھائیسی بجاتے ہیںتو لوگ جنانے کیا سمجھ بیٹھیں گے۔ اور اگر کسی بچے کی آدھی داڑھ نکل آئی تو کیا ساڑھے اٹھائیسی بجانا لکھوں؟’’ عینک اتار کے مسکراتی ہوئی آنکھیں دکھاتے ہوئے بولے۔‘‘ اور یہاں( علم دریاومیں) آپ نے حرامزدگی لکھا ہے۔ حرمزدگی ہونا چاہیئے۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک پیدائشی صفت ہے ، دوسری اپنے زورِ بازو سے پیدا ہوتی ہے۔ ’’
ایک دن بکاہت استفسار فرمایا‘‘ روکن سے آپ کی کیا مرادہے؟ میں نے تو یہ کریہہ لفظ آج تک نہیں سنا۔ دلی کا ہوگا۔ یا مارواڑی ڈھیلا؟’’ عرض کیا‘‘ وہ چیز جو سودہ خریدنے کے بعد دکاندار اوپر سے مفت دیدے۔ ’’ فرمایا ‘‘ اسے تو لکھنئو میں گھاتا کہتے ہیں۔’’ عرض کیا ‘‘؟ میں نے تو یہ کریہہ لفظ آج تک نہیں سنا۔’’ حکم ہوا‘‘ گھر جاکر اپنی اہلِ زبان اہلیہ سے پوچھ لیجئے۔ وہ جو بھی فیصلہ کریں گی مجھے منظور ہوگا۔’’میں حلف اٹھا کر کہہ سکتا ہوں کہ جمیل صاحب نے انھیں ثالث محض اس بنائ پر بنایا کہ انھیں سو فیصد یقین تھا کہ وہ فیصلہ بہر صورت میرے خلاف ہی کریں گی۔ وہ اپنی بیگم کو بھی حکم بنا سکتے تھے۔ خیر، میں نے شام کو بیگم سے پوچھا‘‘ تم نے لفظ روکن سنا ہے؟’’ بولیں‘‘ ہاں! ہان! ہزار بار!’’ جی خوش ہوگیا۔ کچھ دیر بعد سند کو مزید معتبر بنانے کے لیے پوچھا‘‘ تم نے یہ لفظ کہاں سنا؟’’ بولیں‘‘ تمہی کو بولتے سنا ہے۔’’
بیرونِ خانہ ریسرچ سے بھی معلوم ہوا کہ دلی میں بھی بکثرت بولا جاتا ہے۔ جمیل صاحب کو اس تحقیق سے آگاہ کیا اور سند میں اپنے آپ کو پیش کیا۔ انھیں مزید مشتعل کرنے کے لیے جناب تابش دہلوی اور حضرت ذوالفقار علی بخاری مرحوم کا چٹاخ پٹاخ مکالمہ جو ان دنوں کہیں چھپا تھا دہرا دیا۔ تابش صاحب کے منہ سے کہیں نکل گیا ‘‘ لکھنئو والوں نے پوری ادبی تاریخ میں شعر اچھا نہیں کہا۔ ایک لے دے کے آتش ہیں ۔ ان پر بھی دہلویت کی چھاپ ہے۔ اور ویسے بھی لکھنوی شاعری میں سوائے چونچلے اور نخرے کے ہوتا کیا ہے؟ ’’ بخاری صاحب تنک کر بولے‘‘ اور داغ دہلوی کے یہاں کیا ہے؟’’ تابش صاحب نے تشریح فرمائی‘‘ جی ہاں! داغ کے یہاں بھی چونچلے اور نخرے ہیں ۔ لیکن رنڈی باز کے ہیں ، رنڈی کے نہیں!۔’’
چہرہ پہلے تو وفورِ تکدر سے تمتمایا۔ پھر شگفتہ ہوکر بولے‘‘ تابش دہلوی کی باتیں ہی باتیں ہیں۔ انتہائی شریف النفس اور پاکباز آدمی ہیں۔ انھوں نے تو رنڈی کا فوٹو بھی نہیں دیکھا ہوگا۔ رہے آپ ، تو آپ نے تو دنڈی باز بھی نہیں دیکھے۔ یوں بھی میرا خیال ہے کہ آپ کو ڈھنگ کی صحبت بھی نصیب نہیں ہوئی۔’’ عرض کیا ‘‘ مرشدی! اگر ہم میں گمراہ ہونے کی عظیم صلاحیتیں نہ ہوتیں تو آپ تک کیسے پہنچتے؟’’
دونوں اپنے اپنے لسانی مورچوں میں ڈٹے ہوئے ، بلکہ دھنسے ہوئے تھے۔ بالآخر سمجھوتا اس پر ہوا کہ آیندہ ٹکسالی پنجابی لفظ ‘‘ جھونگا’’ استعمال ہوگا جو عظیم مزاح نگار اور یارِ طرحدار کرنل محمد خان کے عطایا میں سے ہے۔
اور تو اور انتساب بھی ان کی نگاہِ مردم شناس سے نہ بچ سکا۔ فرمایا‘‘ سچ سچ بتائیے۔ ان دونوں میں سے مرزا عبدالودود بیگ کون ہے؟ اور ہاں ! یہ تو آپ کی سوانح نو عمری ہے۔ ہر چند کہ آپ کو یہ فخر حاصل ہے کہ آپ نے عزتِ سادات بغیر عاشقی کیے کھوئی ، لیکن اب بھی کچھ نہیں گیا ہے۔ بقول شاعر، یوسفی گر نہیں ممکن تو زلیخائی کر۔ نئی نسل کے پڑھنے والے اپنے بزرگوں کی نالائقی اور بے راہ روی کے قصے پڑھ کر پھولے نہیں سماتے۔ آپ بھی پھڑکتے ہوئے انتساب کے پردہ زنگاری میں کسی معشوق کو بٹھا دیتے تو نقادوں کے ہاتھوں چتھاڑ ہونے سے پہلے کتاب تکیوں کے نیچے پہنچ جاتی اور دس دن کے اندر اندر دوسرا ایڈیشن بایزاد حکایت لذیذ و شوق انگیز نکالنا پڑتا۔ مثلاً۔۔:
‘‘ ۰۰۰ کے نام
جس نے بشری کمزوری
کے ایک لمحے کو
ہمیشگی بخش دی۔’’
عرض کیا ‘‘ صاحب! اول تو نقطوں(۰۰۰) کے نام صرف جیومیٹری کی کتاب معنون کی جاسکتی ہے۔ دوسرے، ایک لمحہ تو انسانی کمزوری کے لیے بھی بہت کم ہے۔ ایک گھنٹہ نہیں تو کم از کم ایک منٹ تو کردیجیے پلیز’’ اپنے مخصوص انداز میں سنی ان سنی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا‘‘ گاہ بگاہ، آپ کی انشائے ارغوانی کے پیشِ نظر سونے کے دانت والی لڑکی کے نام ! کیسا رہے گا۔ چہ گنہ اگر تراشم صنمے زِ سنگِ خارا۔ آپ کے ہیرو غالب نے بھی تو بڑے اترونے پن سے اقبالِ جرم کیا تھا کہ بھئی مغل بچے بھی غضب ہوتے ہیں۔ جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں ۔ میں بھی مغل بچہ ہوں عمر بھر میں ایک بڑی ستم پیشہ ڈومنی کو میں نے بھی مار رکھا ہے۔’’ عذر کیا‘‘ مگر میں تو مغل نہیں ہوں۔’’ بولے ‘‘ کوئی مضائقہ نہیں۔ بچے تو ابھی تک ہیں۔’’ اس کے بعد بچّہ اور بچّے ، سرگودھا اور سرگودھے، وضع اور وضعے کے املا۔ املے پر ایسی گھمسان کی بحثا بحثی ہوئی کہ منہ لگائی ڈومنی کوئے ملامت سے بے تال گاتی، ڈھولک بجاتی نکل گئی۔
کتابت کا مرحلہ آیا تو پہلے لاہور کے ایک صاحبِ طرز ، نفاست پسند، درویش منش خطاط سے رجوع کیا۔ دوتین دفعہ درخواست کی تو سکوت فرمایا۔ چوتھی مرتبہ ارشاد فرمایا‘‘ شکریہ! پچاس روپیہ فی صفحہ اجرت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فقیر صرف مفید و مذھبی تصانیف کی کتابت کرتا ہے۔ ’’ ان کے ایما پر میں نے نمونتاً ‘‘ چراغ تلے ’’ کا نسخہ ایک صاحب کے توسط سے ان کی خدمت میں پیش کردیا۔ اور جواب کے انتظار میں رہا۔ ڈر ڈر کے کی گئی مگر امید کی گئی۔ دودن دن بعد اسے جہاں تہاں سے سونگھ کر انہی صاحب کی زبانی کہلا بھیجا کہ‘‘ روزآنہ تہجد کے بعد کلام پاک کی خطاطی کرتا ہوں۔ نہیں چاہتا کہ سارا ثواب ان کی کتاب کی بھینٹ چڑھ جائےمیں نے بے مصرف کتابت ترک کردی ہے۔ ہاں! کبھی کبھار کسی کی فرمائش پر لوحِ مزار کی عبارت لکھ دیتا ہوں۔’’ اب لے دے کے اپنی لوحِ مزار رہ گئی تھی۔ سو وہ تاریخِ وفات کے بغیر ادھوری ادھوری معلوم ہوتی۔ نے چراغے نے گلے۔ نے صاحبِ مزارے! ان صاحب سے جو ایلچی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے میں نے کہا‘‘ یہ تو ہوا سو ہوا۔ ذرا ان سے اتنا پوچھیے گا کہ جب فد غن کا یہ عالم ہے تو انھوں نے دیوانِ غالب کی کتابت کیا سمجھ کے کی۔’’ انھوں نے کھڑے کھڑے وہیں قضیہ نمٹادیا ۔ فرمایا کہ شاعری کی اور بات ہے۔ شعر میں جس بات پر ہزاروں آدمی مشاعروں میں اچھل اچھل کے داد دیتے ہیں، وہی بات اگر نثر میں کہہ دی جائے تو پولیس تو بعد کی بات ہے، گھر والے ہی سر پھاڑ ڈالیں۔
پاپ کی جس گٹھری نے ان بزرگ پر گرانی کی اسے ایک نوجوان عزیزی محمد شفیق نے بصد شوق اٹھالیا۔ لاہوا ہی میں دوسطر یومیہ کی رفتار سے کتابت شروع ہوئی۔کوئی پندرہ بیس صفحے مکمل ہوپائے ہوں گے کہ میرا لاہور جانا ہوا۔ میں نے کہا‘‘ اگر آپ اسی رفتار سے کتابت کرتے ہرے تو یہ کتاب تو پانچ چھ سال میں ختم ہوجائے گی، اس کے بعد آپ کیا کریں گے۔ خط البتہ اچھا ہے، لیکن جابجا ناہمواری اور کجی پائی جاتی ہے۔الفاظ اکھڑے اکھڑے لگتے ہیں۔’’ بولے‘‘ لکھتے میں ہنسی آجائے تو قلم میں لرزش پیدا ہوجاتی ہے۔ جو حصے غیر دلچسپ ہیں وہ نہایت عمدہ لکھے گئے ہیں۔ بہت کافی ہیں۔ بے شک کسی کو دکھالیں۔’’ میں نے کہا‘‘ برخوردار ! اگر ایسا ہی ہے تو پہلے مسودہ پڑھ کر ہنس لیا کرو۔ پھر یکسوئی کے ساتھہاتھ جماکر کتابت کرو۔’’ کہنے لگے‘‘ جناب! محنتانہ صرف لکھنے کا طے ہوا ہے۔ عدیم الفرصت آدمی ہوں۔ میری شادی ہوئے ابھی ایک مہینہ بھی نہیں ہوا۔’’ اندرایں صروت التماس ہے کہ قارئین کو جہاں جہاں ان کے خط میں لرزشِ خفی و جلی نظر آئے ، اسے اس عاجز کا کمالِ فن سمجھ کر انھیں معاف فرمائیں۔
پاکستان کے جانے پہچانے کارٹونسٹ برادرم عزیز بھی عرصہ دراز سے مزاح اور معدے کے انھی امراض میں مبتلا ہیں اور میرے دوا شریک بھائی بنے ہوئے ہیں۔ ممنون ہوں کہ انھوں نے ‘‘فینی ڈارلنگ’’ کو بغور پڑھ کر دو عدد کارٹونوں سے مزین کیا۔ ملاقات ہوئی تو دیر تک اپنا پیٹ پکڑکے ، بلکہ کہنا چاہئے کہ اپنی اچکن پکڑکے اس میں ہامونیم کی دھونکنی کی طرح ہوا بھرتے اور نکالتے ہوئے ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگئے۔ انھیں یوں مائل بہ ستائش دیکھا تو میں بھی جھوٹی کسرِ نفسی کو بالائے داد رکھ کر خوب ہنسا۔ عرض کیا‘‘ چلئے محنت ٹھکانے لگی۔ آپ نے پسند کیا۔’’ دوبارہ اچکن دھونکتے ہوئے فرمایا‘‘ بھائی جان! بڑا مزہ آیا۔ کارٹون غضب کے ہیں!’’ ابکی بار دونوں نے اپنے اپنے کمالِ فن پر منہ موڑکر اپنی اپنی دھونکنی دھونکی۔
 
Top