ترکی میں سیکولر قوت کا مظاہرہ

اظہرالحق

محفلین
کل ترکی میں سیکولر نظام کے حق میں ایک بہت بڑا مظاہرہ ہوا ، جس کا صرف ایک نقاطی ایجنڈا تھا یعنی ، اسلامی نظام کی مخالفت ، اور یہ مظاہرہ کرنے والے زیادہ تر مسلمان ہی تھے چاہے وہ نام کے ہی مسلمان ہوں ۔ ۔

اس وقت ساری دنیا میں لوگ اسلامی نظام سے گھبرائے ہوئے نظر آتے ہیں ، میری نظر میں اس کی دو وجوہات ہیں

1- پچھلی دو تین صدیوں سے ، جو نئے نظام آئے ، سوشلزم ، کیمونزم وغیرہ وہ اب ڈوب چکے ہیں ، اس وقت کیپٹلزم دنیا پر چھایا ہے ، اور اسکے بھی جانے کے امکانات پیدا ہو چکے ہیں ، اور دنیا کے “بڑوں“ کو ڈر ہے ، کہ اس نظام کی ناکامی کے بعد جو متبادل نظام جگہ لے سکتا ہے وہ ہے اسلامی نظام ، اور اسی ڈر کی وجہ سے ساری دنیا اسلامی نظام کے خلاف ہو رہی ہے ۔ ۔

2- اسلامی نظام کو ایک ظالم نظام کے طور پر جانا جاتا ہے ، اور اسلام کو سختیوں کا مذہب بھی کہا جاتا ہے ۔۔ ۔ اور افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے سامنے اسلام کا رول ماڈل نہیں ہے ، صومالیہ ، افغانستان وغیرہ میں اسلام پسندوں کی حکومتوں‌نے کچھ اچھا اثر نہیں ڈالا ، کیونکہ وہ اسلام کی وہ تصویر پیش کرنا چاہتے ہیں جو صدیوں پرانی ہے ، نئے دور کے تقاضے اور ضروریات کو مدِ نظر نہیں رکھا جاتا ۔ ۔ ۔ اسلئے لوگ اسلامی نظام کو سمجھ نہیں پاتے ۔ ۔

اس وقت ساری دنیا میں ، بالخصوص اسلامی ممالک میں جو بے چینی کی فضا جنم لے رہی ہے ، میرا خیال ہے وہ ہی ایک انقلاب کی شکل اختیار کرے گی ۔ ۔ ۔ ۔ اور بیسویں صدی کے اوائل میں جیسے دنیا کا نقشہ تبدیل ہوا تھا ۔ ۔ اسی طرح کی تبدیلی اس صدی کی دوسری دہائی میں آنے والی ہے ۔ ۔ ۔

کچھ لوگ اسے ایشیا کی صدی قرار دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ مگر میں اسے اسلام کی صدی کہوں گا ۔ ۔ ۔بقول اقبال ۔ ۔

سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
 

ابوشامل

محفلین
سلام اظہر صاحب! آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں، اور میں آپ کے تجزیے سے صد فی صد متفق ہوں۔ تبدیلی آنے والی ہے بلکہ بہت جلد آنے والی ہے کیونکہ عالمی سطح پر جس بڑے پیمانے پر اور جس تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں وہ کسی انقلاب کی ہی نوید ہیں۔

اظہر صاحب! میں نے جب لڑکپن میں پہلی بار پڑھا تھا تو انتہائی حیرت ہوئی تھی کہ ترکی جیسے ملک میں جو صدیوں تک خلافت اسلامیہ کا علمبردار رہا اور جس کے دارالحکومت استنبول کو علامہ اقبال ملت اسلامیہ کا دل کہتے تھے اس نے اسلامی اقدار کو کس ڈھٹائی سے اپنے ہر شعبہ ہائے زندگی سے نکال باہر پھینکا۔ بہرحال اتاترک نے کیا کیا اور کیا نہ کیا، یہ ایک الگ بحث ہے۔

لیکن موجودہ تناظر میں صدر احمد نجدت سیزر کا بیان قابل غور ہے کہ ترکی میں پہلی بار سیکولر ازم کو سنگین ترین خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ وہ خطرات کس سے ہیں؟ اسلام سے، یعنی اسلام مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گیا ہے (حیرتناک بات ہے کہ نہیں)۔

ترک فوج ہمیشہ سے سیاسی معاملات خصوصا مذہب پسندوں کے اقتدار میں آنے پر جمہوریت کو اپنے پیروں تلے روندتی رہی ہے جس کی دو واضح مثالیں دو سابق وزرائے اعظم عدنان میندریس اور نجم الدین اربکان ہیں جن میں اول الذکر کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا جبکہ اربکان صاحب پر تاحیات سیاست میں حصہ لینے پر پابندی ہے۔

اور اب یہی کھیل طیب اردوگان اور عبداللہ گل اور ان کی جماعت کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں انقرہ اور استنبول میں ہونے والی سیکولر پسندوں کی ریلیوں میں اہم ترین کردار فوج نے ادا کیا جو درون خانہ حکومت کا تختہ الٹنے کا تمام تر منصوبہ تیار کر چکی ہے۔

آپ نے استنبول میں اسلام پسندوں کے حق میں ہونے والے مظاہرے کے بارے میں نہیں سنا؟ انقرہ میں سیکولر پسندوں کے ہونے والے مظاہرے کو تو اتنی زیادہ کوریج دی گئی جیسے ترکی میں انقلاب آگیا لیکن استنبول میں اسلام کے حق میں ہونے والے مظاہرے کے بارے میں میڈيا نے کچھ نہ بتایا۔ اس مظاہرے میں تقریبا 80 ہزار افراد نے اسلام کے حق میں نعرے لگائے۔

آپ نے شاید کہیں یہ بات کہی تھی کہ اب صرف دو کیمپ ہیں ایک بنیاد پرستوں اور ایک روشن خیالوں کا اور اب تو عالمی سطح پر بھی واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ مسلم دنیا واضح طور پر دو طبقات میں بٹتی جا رہی ہے اور میرے خیال میں اب کوئی تیسرا گروہ نہیں بلکہ جو اس میں خود کو نیوٹرل رکھے گا یا اس کی کوشش کرے گا وہ بھی دراصل روشن خیالوں کا ہی حامی ہوگا۔

ترکی کی موجودہ سیاسی صورتحال میں میرا ذاتی اندازہ یہ ہے کہ طیب اردوگان سیکولر پرستوں کے لیے تر نوالہ ثابت نہیں ہوں گے جس کا وہ ہمیشہ سے ثبوت دیتے آرہے ہیں۔ ویسے حیران کن بات ہوگی کہ ترکی کی جمہوری تاریخ میں پہلی بار کوئی اسلام پسند صدارت پر پہنچے گا جبکہ وزارت عظمی تو پہلے ہی ان کے پاس ہے۔ لیکن اگر فوجی قوتیں اپنی کوششوں میں کامیاب ہو گئیں تب بھی یہ ترکی میں نئے دور کا آغاز ہوگا اور اس کے بعد ترکی اور ملت اسلامیہ میں بڑی واضح تبدیلیاں آئیں گی۔

اللہ انہیں ہمت دے اور استقامت نصیب فرمائے اور دین کے اصل فہم کے ساتھ تدابیر اختیار کرنے کی صلاحیت دے۔ اقبال شاید موجودہ وقت (یا مستقبل قریب) کے بارے میں ہی کہہ گئے ہیں:

اٹھ کہ بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے​
 

ابوشامل

محفلین
اسی بارے میں پاکستان کے کالم نگار شاہنواز فاروقی کا مندرجہ ذیل کالم پڑھیے:
28-04-07.gif
 
Top