بینظیربھٹو اور مجاہد بریلوی کی یادیں

یوسف-2

محفلین
بی بی کو یاد کرنے کے لیے مجھے ذرا پیچھے جانا پڑ رہا ہے۔
شہید بینظیر بھٹو کی پانچویں برسی کے دن سکھر سے شکار پور۔۔ شکارپور سے رتو ڈیرو ۔۔۔اور رتو ڈیرو سے گڑھی خدا بخش کے سفر میں ذاتی اور سیاسی یادوں کا ایک ہجوم ہے ۔۔۔مشکل ہورہا ہے کہ بات کہاں سے شروع کروں۔ مہینہ اور دن تو یاد نہیں ۔۔۔
کابل سے واپسی کے بعد پہلی بار جیل جانا ہوا۔۔۔ جس سے فکر و نظر کے بے شمار دریچے وا ہوئے۔۔۔ جیل سے نکلے تو معیار بند ہوچکاتھا اور ایک طویل بے روز گاری انتظار کر رہی تھی۔ یوں دن رات کا اوڑھنا، بچھونا کراچی پریس کلب میں ہی ہوتا جو ضیاء الحق کے خلاف جمہوری تحریک کا سب سے بڑا گڑھ تھا۔۔۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد بے نظیر بھٹو کی طویل نظر بندیوں اور پھر جلاوطنی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔۔۔ اپریل 86ء میں بے نظیر بھٹو کی واپسی کے بعد جب کراچی میں پہلی بار ملاقات ہوئی تو سب کچھ بدل چکا تھا۔۔۔ اس بے نظیر بھٹو میں جن سے مارچ 1978ء میں پہلی بار ملاقات ہوئی تھی جلاوطنی اور نظر بندیوں کے مصائب و آلام سے کندن بن کر نکلنے والی بے نظیر بھٹو میں زمین آسمان کا فرق تھا۔۔۔ اگست 88ء میں جنرل ضیاء الحق کی گیارہ سالہ آمریت ایک حادثے میں اپنے انجام کو پہنچی۔ دسمبر1989ء میں پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد بی بی سے پہلی ملاقات آسٹرین قونصل خانے میں یکم جنوری کو ہوئی۔ اس زمانے ہر سال یکم جنوری کی صبح کو نئے سال کو خوش آمدید کہنے کے لیے یہ بڑی شاندار رنگارنگ تقریب ہوتی تھی۔۔۔ سارے شہر کے تاجروں، سیاستدانوں، سفارتکاروں کا ایک ہجوم تھا جو بی بی کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ٹوٹا پڑتا تھا۔ مجھے قطعی امید نہیں تھی کہ شہر کی اشرافیہ کے اس بے پناہ ہجوم میں میرا سامنا ان سے ہو سکے گا۔۔۔ مگر اچانک مجھے پیچھے سے آواز آئی۔۔۔’’ہیلو مجاہد کیسے ہو۔۔۔ بی بی نے مجھے اسلام آباد آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں میڈیا میں آپ کی ضرورت ہے۔۔۔ میں نے بڑی انکساری سے چند الفاظ میں شکریہ ادا کرتے ہوئے ان سے کہا کہ میں کراچی میں ہی خاصا خوش و خرم اپنا وقت گزار رہا ہوں۔۔۔ بی بی رخصت ہوئیں تو ممتاز صحافی اور اس وقت کے کراچی پریس کلب کے صدر عبدالحمید چھاپرا نے مجھے گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔۔ اگرتم اسلام آباد جانے پر حامی بھر لیتے تو میں تم سے ساری زندگی بات نہیں کرتا۔۔۔
بی بی کا پہلا دور پلک جھپکتے گزر گیا۔۔۔ گیارہ سال سے اقتدار کے پیاسے جیالے دنوں اور ہفتوں میں۔۔۔ برسوں کی قربانیوں کو کیش کرانے پر تلے تھے۔۔۔ ایک آدھ بار اسلام آباد جانا ہوا مگر کوئی ایسا در نظرنہیں آیا جس کے راستے۔۔۔ بی بی سے ملاقات کی راہ کھلتی۔۔۔
اگست 91ء میں بی بی کی حکومت ختم کر دی گئی۔۔۔ میں نے اس زمانے میں شاعر عوام حبیب جالب پر ایک کتاب مرتب کی تھی جس کی رونمائی کی تیاریاں کر رہا تھا۔۔۔ بی بی کراچی آ چکی تھیں۔ بلاول ہاؤس کیونکہ وزیراعظم ہاؤس نہیں رہا تھا اس لیے میری انہیں دعوت بھی پہنچ گئی اور اس کی منظوری بھی آگئی۔۔۔ کراچی پریس کلب میں ہزاروں کا مجمع تھا۔۔۔ حبیب جالب کی اپنے انتقال سے پہلے کراچی میں یہ آخری تقریب تھی۔۔۔ ٹوٹتے، ڈوبتے ترنم سے حبیب جالب نے جب بی بی پر اپنی مشہور نظم کا یہ بند پڑھا کہ:
ڈرے ہوئے ہیں مرے ہوئے ہیں،
لرزیدہ لرزیدہ ہیں
ملا، تاجر، جنرل، جیالے ایک نہتی لڑکی سے
تو بی بی سمیت سارے ہجوم نے کھڑے ہوکر حبیب جالب کو خراج عقیدت پیش کیا۔۔۔ اکتوبر 94ء میں بی بی دوسری بار اقتدار میں آئیں۔ شاید انہیں وزیراعظم ہوئے تیسرا یا چوتھا دن ہوا تھا کہ علی الصبح پی ایم ہاؤس سے فون آیا۔۔۔’’آج شام سات بجے آپ کی وزیراعظم سے ملاقات ہے‘‘۔۔۔ بھاگم بھاگ اسلام آباد کا ٹکٹ لیا مگر ایئر پورٹ پہنچنے پر علم ہوا کہ جہاز لیٹ ہے۔۔۔ یوں جب وزیراعظم ہاؤس پہنچا تو آٹھ بج چکے تھے۔۔۔ وسیع و عریض وزیراعظم ہاؤس کے دروازے سے داخل ہوتے ہی ایک صوفے پر ڈھیروں فائلیں لیے ناہید خان نظر آئیں جنہوں نے مجھے اطلاع دی کہ وزیراعظم ڈنر پر چلی گئیں اب تو اگلے ہفتے ہی آپ کو وقت ملے گا۔۔۔ ناہید خان کے پہلو میں کھڑے سفید وردی میں ملبوس ایک اے ڈی سی کو نہ جانے کیا خیال آیا کہ اس نے کہا۔۔۔ آپ چند منٹ انتظار کریں۔۔۔ میں وزیراعظم کو اطلاع دیتا ہوں۔۔۔ کچھ ہی دیر میں اے ڈی سی مجھے اطلاع دیتے ہیں کہ میں صبح دس بجے پہنچ جاؤں وزیراعظم کل جہاں جا رہی ہیں آپ ان کے ساتھ ہیلی کاپٹر’’اے‘‘ میں ہوں گے۔۔۔
اگلی صبح وزیراعظم ہاؤس کے ہیلی پیڈ پر پہنچا تو۔۔۔ ناہید خان نے اطلاع دی کہ آپ میڈیا ٹیم کے ساتھ ہیلی کاپٹر بی میں ہوں گے کیونکہ اے ہیلی کاپٹر میں نصیر اللہ بابر اور میں پی ایم کے ساتھ ہوں گے۔
پشاور کے قریب کسی فیکٹری کا افتتاح تھا۔۔۔ حسب روایت وزیراعظم کے پہنچتے ہی سینکڑوں جیالوں نے انہیں گھیر لیا۔۔۔ حتیٰ کہ وزیراعلیٰ سرحد آفتاب شیرپاؤ بھی ان کے قریب نہیں پہنچ پا رہے تھے۔۔۔ سو میں نے آخری صف میں بیٹھنے پر عافیت سمجھی۔۔۔ ابھی بیٹھے چند منٹ ہوئے تھے کہ فوجی وردی میں ملبوس ایک اہلکار کی مجھے آواز سنائی دی جو مجھے تلاش کر رہے تھے۔۔۔میں نے آگے بڑھ کر تعارف کرایا تو انہوں نے بڑی گھبرائی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔’’ آپ ہیلی کاپٹر’’اے‘‘ میں کیوں نہیں تھے وزیراعظم سخت ناراض ہیں ۔تقریب کے ختم ہوتے ہی میں نے دیکھا کہ ذرا فاصلے سے ایک صوفہ رکھا تھا جس پر وزیراعظم بیٹھی تھیں۔ گورنر، وزیراعلیٰ ،ناہید خان اور دیگر عہدیدار چند فٹ کے فاصلے پرکھڑے تھے۔۔۔ وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری جنرل قیوم جو بعد کے برسوں میں ہم سے بڑے قریب ہوئے اپنے جلومیں لے کرآگے بڑھے اور وزیراعظم کے ساتھ بیٹھنے کو کہا۔۔۔ وزیراعظم نے رسمی الفاظ میں پریس کلب کی تقریب کا ذکر کرتے ہوئے کہا۔۔۔میں آپ کے لیے کیا کر سکتی ہوں۔۔۔ پھر جنرل قیوم سے کہا کہ اگلے ہفتے ایران، ترکی کے دورے میں، مجھے شامل کریں۔۔۔ ساتھ میں یہ بھی کہا کہ مجھے آپ سے ایک ضروری کام لینا ہے۔۔۔ جس پر سفر کے دوران بات ہوگی۔ (جاری ہے) (روزنامہ نئی بات، 28 دسمبر 2012 ء)
 
Top