بھرشٹ مینڈیٹ۔۔۔۔۔ سلمان حیدر


تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان — فائل فوٹو –.

اپنے دینے والے گلزار صاحب نے مرزا غالب پر ایک ڈرامہ لکھا تھا جس کے ایک منظر میں نصیر الدین شاہ جو غالب بنے ہوئے ہیں ہولی کے دن ہندوؤں کے کسی محلے سے گزر کر بلی ماراں کے محلے میں آتے ہیں تو گھر کے راستے میں مٹھائی لینے کو رک جاتے ہیں۔ مٹھائی خریدتے ہوئے وہ حلوائی کے تھال سے کچھ اٹھا نے لگتے ہیں تو حلوائی انہیں ٹوکتے ہوئے ان کے رنگ بھر ے کپڑوں کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ جن ہاتھوں سے وہ ہندوؤں کے ساتھ رنگ کھیل کر آ رہے ہیں ان ہاتھوں سے مٹھائی کو مت چھوئیں۔ مرزا بہت معصومیت سے اس حلوائی سے پوچھتے ہیں کہ کیا مٹھائی بھی ہندو یا مسلمان ہوتی ہے اور یہ بھی کہ اس گلاب جامن کا مذہب کیا ہے۔ اس ڈرامے میں اس کے بعد کیا ہوا یاد نہیں شاید اس لیے کہ جو ڈرامہ ہمارے یہاں ہو رہا ہے وہ زیادہ دلچسپ ہے۔
اس ڈرامے میں مرزا تو کوئی نہیں حلوائی کئی ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ جب بات حلوے مانڈے کی ہو تو گلاب جامن تو کیا ووٹ کا بھی نہ صرف مذہب ہوتا ہے بلکہ کبھی کبھی تو فرقہ بھی۔​
وہ ڈرامہ ہندوستان میں بنا تھا اس لیے صرف ہندو مسلمان کا مسئلہ تھا یہ پاکستان ہے جس میں ووٹ ہندو بھی ہوتا ہے عیسائی بھی، شیعہ بھی ہوتا ہے سنی بھی، دیوبندی بھی ہوتا ہے بریلوی بھی، لیکن عام طور پر احمدی نہیں ہوتا۔ اور جب کبھی وہ احمدی ہوتا ہے تو لوگ اس سے یوں دور بھاگتے ہیں جیسے اگر وہ ان کے بیلٹ باکس میں پڑ گیا تو تبدیلی کا مینڈیٹ بھرشٹ ہو جائے گا۔​
ابن انشا نے اردو کی آخری کتاب میں تفریق کا سبق پڑھاتے ہوئے لکھا تھا کہ تفریق کا مطلب منہا کرنا ہوتا ہے یعنی ایک عدد میں سے دوسرے کو نکالنا۔ انشا کیوں کے انشا تھا اور اردو کی آخری کتاب لکھ رہے تھا اس لیے انہوں نے یہیں بس نہیں کیا بلکہ یہ بھی لکھا کہ کچھ عدد خود نکل جاتے ہیں جب کہ کچھ کو زبردستی نکالنا پڑتا ہے۔ فتوے دے دے کر نکالنا پڑتا ہے ڈنڈے مار مار کر نکالنا پڑتا ہے۔​
تفریق کے اس سبق سے ہم نے ایسا سبق سیکھا کہ اس وقت کے نئے پاکستان میں احمدیوں کو نکالنے کے لیے جو طریقہ استعمال کیا گیا وہ انشا کی کتاب سے ہی لیا گیا تھا۔ نظریہ ضرورت کے تحت اس طریقے میں تھوڑی بہت ترمیم کرنا پڑی. احمدی آسانی سے نکل بھی نہیں رہے تھا اس لیے پہلے ان کے خلاف فتوے دیے گئے پھر ڈنڈے مارے گئے اور آخرمیں آئین میں ترمیم کر کے انہیں اسلام کے دائرے اور ووٹر لسٹ دونوں سے نکال کر نیا پاکستان بنا لیا گیا۔​
پرانے قائد اعظم کے زمانے یعنی پرانے پاکستان میں ایک احمدی پاکستان کے وزیر خارجہ ہوا کرتے تھے، نئے پاکستان میں ان وزیر خارجہ کا کل فرقہ اسلام سے خارج ہو گیا اور اب جو پاکستان بننے جا رہا ہے اسے مزید نیا کرنے کے لیے قائد اعظم نمبر تین نے ان پرانے نکالے ہوؤں سے ووٹ مانگنے کی ویڈیو کو اپنے خلاف پروپیگنڈا قرار دے دیا ہے۔ اس طرح وہ پرانے قائداعطم کو کافر اعظم قرار دینے والوں کے ووٹ بھی پکے کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور خود کافراعظم کہلانے سے بھی بچ گئے ہیں۔​
اگر پرانے قائد اعظم سیاست کرنا سیکھ لیتے اور صرف ایک وزیر خارجہ کو خارج کر دیتے تو وہ کافر اعظم کہلانے سے بچ جاتے مولانا حضرات ہر نئے الیکشن میں ان کو یہ خطاب دینے کی شرمندگی اٹھانے سے بچ جاتے اور ہم بار بار آئین کی ڈینٹنگ پینٹنگ کر کر کے نیا پاکستان بنانے سے بچ جاتے۔​
خیر احمدی صاحبان پچھلے نئے پاکستان کے لیے آئین کے چب نکالنے کے دوران سیدھے کر دیے گئے تھا اب کے الیکشن میں تبدیلی کے کلین سویپ کے بعد جو نیا پاکستان بننے جا رہا ہے اس کے آئین میں کیا تبدیلی آتی ہے اور کون کون کہاں کہاں سے نکالا جاتا ہے دیکھتے ہیں۔​
تحریر:سلمان حیدر​
بہ شکریہ ڈان اردو
 
Top