برڈ فلو کی نئی قسم بھی مہلک ترین ہے، ڈبلیو ایچ او


برڈ فلو وائرس کی نئی قسم سے خود کو محفوظ رکھنے کیلئے ایک ماسک پہنی خاتون 24 اپریل 2013 کی اس تصویر میں بیجنگ میں ایک سڑک سے گزررہی ہیں۔ اے ایف پی تصویر

بیجنگ: چین میں اب تک 22 افراد کی جان لینے والے برڈ فلو کی نئی قسم ‘ مہلک ترین اقسام میں سے ایک ہے’ اور وہ دیگر اقسام کے مقابلے میں انسانوں میں قدرے آسانی سے منتقل ہوسکتی ہے۔ اس بات کا انکشاف عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) نے کیا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابقH7N9 برڈ فلو مارچ میں ظاہر ہونے کے بعد اب تک صرف چین میں 108 افراد کو متاثر کرچکا ہے۔

تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا کہ لوگ کیوں اور کسطرح اس سے متاثرہ ہورہے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اب تک کسی بہت گھمبیر صورتحال کا امکان نہیں یعنی لوگوں کےدرمیان ( وائرس) کی مسلسل اور مستقل منتقلی کا ۔

ڈبلیو ایچ او کی نگرانی میں بین الاقوامی سائنسدانوں کی ٹیم نے چین میں اپنی پانچ روزہ تحقیقات کا آغاز کیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ جاننے کے قریب نہیں کہ آیا یہ وائرس ایک انسان سےدوسرے میں منتقل ہوسکتا ہے یا نہیں۔

ڈبلیوایچ او کے اسسٹنٹ ڈائریکٹرجنرل برائے ہیتلتھ سیکیورٹی کائجی فوکوڈا نے کہا؛ ‘ صورتحال اب تک مشکل اور پیچیدہ ہے اور مسلسل بدل رہی ہے۔’

ایک بریفنگ میں انہوں نے کہا؛’ جب ہم انفلوئنزا وائرس کو دیکھتے ہیں تو وہ غیر معمولی طور پر انسانوں کیلئے ایک خطرناک وائرس ہوتا ہے۔ ‘

برڈ فلو کی ایک اور قسم H5N1 بھی چین میں دیکھی گئ جس سے 2003 اور 2013 میں متاثرہ ہونے والے 45 چینیوں میں سے 30 ہلاک ہوگئے تھے ۔ لیکن حالیہ H7N9 وبا سے اب تک اموات کی شرح کم ہے۔ لیکن فوکوڈا کے مطابق اب بھی یہ انفلوئنزا کی مہلک ترین وبا ہے۔

ماہرین نے متاثرہ تین افراد سے H7N9 کے نمونے لے کر ان کا جینیاتی مطالعہ کیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ وائرس ایشیا کے پرندوں میں پائے جانے والے تین اقسام کے فلو وائرس کا مکسچر ہے۔

اسی طرح 2009 اور2010 میں سوائن فلو وائرس دراصل ایک ممالئے (سور) اور برڈ فلو کا متزاج تھا۔ یہ کم نقصان دہ ثابت ہوا کیونکہ ممالیوں کے وائرس انسانوں پر کم شدت سے اثرانداز ہوتے ہیں۔ تاہم H5N1 اور حالیہ H7N9 اقسام زیادہ خطرناک ہیں۔

ماخذ:ڈان اردو
 
Top