جوش برسات کی پہلی گھٹا - جوش ملیح آبادی

حسان خان

لائبریرین
کیا جوانی ہے فضا میں، مرحبا صد مرحبا
چل رہی ہے روح کو چھوتی ہوئی ٹھنڈی ہوا
آ رہی ہے دور سے کافر پپیہے کی صدا
حُسن اٹھا ہے خاک سے انگڑائیاں لیتا ہوا
جھوم کر برسی ہے کیا برسات کی پہلی گھٹا
آرزو میں ہے تلاطم، جوش ارمانوں میں ہے
حسرتوں میں ولولے ہیں، تازگی جانوں میں ہے
نوجوانی کا تبسم سرد میدانوں میں ہے
روشنی ہے دشت میں، خوشبو بیابانوں میں ہے
جھوم کر برسی ہے کیا برسات کی پہلی گھٹا
مطربوں نے ساحلوں پر جا کے چھیڑے ہیں ستار
ہَل دھرے کاندھوں پہ ہنستے جا رہے ہیں کاشتکار
مست ہے جنگل میں چرواہا، چمن میں جوئے بار
گا رہا ہے ناخدا دریا کے سینے پر ملار
جھوم کر برسی ہے کیا برسات کی پہلی گھٹا
بستیوں میں نَے ہے گرمِ زمزمہ، جنگل میں بانس
جی اٹھی ہے دھوپ کے مارے ہوئے میداں کی گھانس
لے رہے ہیں پھول اطمینان سے باغوں میں سانس
ابر کے ناخن نے دل سے کھینچ لی گرمی کی پھانس
جھوم کر برسی ہے کیا برسات کی پہلی گھٹا
ماہ پیکر لڑکیاں رنگینیوں پر تُل گئیں
رنگ کی پُڑیاں ہزروں ایک دن میں کھل گئیں
لی جو گہری سانس دل کی کلفتیں سب دھل گئیں
گرد کچھ اس طرح سے بیٹھی کہ آنکھیں کھل گئیں
جھوم کر برسی ہے کیا برسات کی پہلی گھٹا
بھر دیے پانی نے جل تھل، ندیاں بہنے لگیں
چھوڑ کر شانوں پہ زلفیں، مسکرائے نازنیں
آج ہے غرقِ سفیدی، سرخ تھی کل جو زمیں
سرد پانی چوس کر ذروں نے آنکھیں بند کیں
جھوم کر برسی ہے کیا برسات کی پہلی گھٹا
چھا گئی لو، دفعۃً آموں کے باغوں پر بہار
اٹھ رہی ہے سوندھی سوندھی سی شمیمِ خوشگوار
شاخ پر کوئل غزلخواں ہے، لبِ جو مے گسار
گا رہے ہیں رکھ کے ڈولی نیم کے نیچے کہار
جھوم کر برسی ہے کیا برسات کی پہلی گھٹا
پڑ رہا ہے تیز پانی، پک رہی ہیں پوریاں
رقص کرتا جا رہا ہے موجِ باراں میں دھواں
مہوشوں کی زیب و زینت، الحفیظ و الاماں
ہر کلائی میں نظر آتی ہیں دھانی چوڑیاں
جھوم کر برسی ہے کیا برسات کی پہلی گھٹا
ابر کے سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے جزو و کل
خار کی نبضوں میں بھی دوڑا ہوا ہے خونِ گل
صحن میں پانی ہے اور پانی میں ہے بچوں کا غل
اک طرف لکڑی کی کشتی، اک طرف مٹی کا پل
جھوم کر برسی ہے کیا برسات کی پہلی گھٹا
باہمی آویزشیں غم خواریاں سی بن گئیں
بے زری کی کلفتیں زرداریاں سی بن گئیں
بھر گیا پانی، زمیں پر دھاریاں سی بن گئیں
جا بجا مٹی جو سمٹی کیاریاں سی بن گئیں
جھوم کر برسی ہے کیا برسات کی پہلی گھٹا
زندگی کی سرد نبضوں میں حرارت آ گئی
منعموں میں خُلق، کانٹوں میں نزاکت آ گئی
ہجر کے افسردہ چہروں پر بشاشت آ گئی
حد ہے خوش چشموں کی آنکھوں میں مروت آ گئی
جھوم کر برسی ہے کیا برسات کی پہلی گھٹا
(جوش ملیح آبادی)
۱۹۲۳ء
 
Top