برائے اصلاح

کوئی حسرت نہ کوئی غم ہے باقی
خلش دل کی مگر پیہم ہے باقی

ٹپک پایا نہ آنکھوں سے ہماری
مچلتا سینے میں ماتم ہے باقی

نہ وہ پروانے کے جیسی تڑپ ہے
نہ اب وہ شوق کا عالم ہے باقی

اثر دل پر نہیں کچھ موسموں کا
یہاں بس یاس کا موسم ہے باقی

سخن ور ہم ہوئے تیرے سبب سے
ترا پر ذکر اب کم کم ہے باقی

ابھی گا لے ترانے زندگی کے
ابھی سانسوں کا زیرو بم ہے باقی

ہوائے تند کی زد میں ہے ہیں ہم لوگ
چراغِ زیست کوئی دم ہے باقی
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کوئی حسرت نہ کوئی غم ہے باقی
خلش دل کی مگر پیہم ہے باقی
درست
ٹپک پایا نہ آنکھوں سے ہماری
مچلتا سینے میں ماتم ہے باقی
مچلتا کے الف کا اسقاط گوارا نہیں لگ رہا اور ارمان تو مچلتے ہیں، ماتم؟ کچھ اور مصرع ثانی کی کوشش کرو
نہ وہ پروانے کے جیسی تڑپ ہے
نہ اب وہ شوق کا عالم ہے باقی
پروانے کی ے کا اسقاط جائز ہونے پر بھی روانی میں مزاحم ہے
تڑپ ہے اب نہ پروانے کی مانند
یاکچھ اور مصرع بہتر ہو گا
اثر دل پر نہیں کچھ موسموں کا
یہاں بس یاس کا موسم ہے باقی
دونوں مصرعوں میں موسم اچھا نہیں
رتوں کا کچھ اثر دل پر نہیں ہے
سخن ور ہم ہوئے تیرے سبب سے
ترا پر ذکر اب کم کم ہے باقی
ترا پر.... اچھا نہیں لگتا، کسی طرح مگر استعمال کیا جائے
ابھی گا لے ترانے زندگی کے
ابھی سانسوں کا زیرو بم ہے باقی

ہوائے تند کی زد میں ہے ہیں ہم لوگ
چراغِ زیست کوئی دم ہے باقی
دونوں درست
 
درست

مچلتا کے الف کا اسقاط گوارا نہیں لگ رہا اور ارمان تو مچلتے ہیں، ماتم؟ کچھ اور مصرع ثانی کی کوشش کرو

پروانے کی ے کا اسقاط جائز ہونے پر بھی روانی میں مزاحم ہے
تڑپ ہے اب نہ پروانے کی مانند
یاکچھ اور مصرع بہتر ہو گا

دونوں مصرعوں میں موسم اچھا نہیں
رتوں کا کچھ اثر دل پر نہیں ہے

ترا پر.... اچھا نہیں لگتا، کسی طرح مگر استعمال کیا جائے

دونوں درست
بہت بہت شکریہ
ترمیم کے بعد دوبارہ پیش ہے



کوئی حسرت نہ کوئی غم ہے باقی
خلش دل کی مگر پیہم ہے باقی

ابھی گا لے ترانے زندگی کے
ابھی سانسوں کا زیرو بم ہے باقی

ٹپک پایا نہ آنکھوں سے ہماری
تمھارا سینے میں ماتم ہے باقی

سخن ور ہم ہوئے تیرے سبب سے
مگر ذکر اب ترا کم کم ہے باقی

نہ پروانے کے جیسی اب تڑپ ہے
نہ اب وہ شوق کا عالم ہے باقی

اثر دل پر نہیں کچھ ان رتوں کا
یہاں بس یاس کا موسم ہے باقی

ہوائے تند کی زد میں ہے عمران
چراغِ زیست کوئی دم ہے باقی
 
Top