برائے اصلاح

الف عین صاحب دیگر محفلین

دوستی تو شباب تک رہ گئی
اب مری جاں عذاب تک رہ گئی

تری آنکھوں کی باتیں کون کرے
اب تو مستی شراب تک رہ گئی

دیپ جلتے ہیں ہر کہیں لیکن
رات خانہ خراب تک رہ گئ

تیری مرضی کہ زندگی میری
اب ترے ہی جواب تک رہ گئی

کس طرح ہو اثر عبادت میں
بندگی جب ثواب تک رہ گئی

اب میں جاوں کہاں سر-محشر
بات میری جناب تک رہ گئی

جب کبھی دیکھنے لگا ان کو
آنکھ میری حجاب تک رہ گئی

پاس تیرے عمل مگر غافل
تیری قسمت کتاب تک رہ گئی

اب وہ بھی بے حیا نہیں عابد
پیری ان کی حجاب تک رہ گئی
 

الف عین

لائبریرین
ردیف میں گئی کو گَءِ باندھنا پسند نہیں آیا، ویسے جون ایلیا کی سند تو مل جائے گی کہ انھوں نے بھی 'نہیں' کو 'نئیں' لکھا ہے اور نَءِ باندھا ہے
مطلع دو لخت محسوس ہوتا ہے اور یہ
دیپ جلتے ہیں ہر کہیں لیکن
رات خانہ خراب تک رہ گئ
بھی.
پاس تیرے عمل مگر غافل
تیری قسمت کتاب تک رہ گئی
... پہلے مصرع میں 'ہے' کی کمی ہے 'عمل ہے پر غافل' بھی اچھا نہیں لگتا، دوسرا مصرع واضح نہیں

اب وہ بھی بے حیا نہیں عابد
پیری ان کی حجاب تک رہ گئی
شعر سمجھ نہیں سکا
وہ بھی ُُوُ بی' تقطیع ہونا درست نہیں
بے حیا وہ بھی اب نہیں عابد
 
Top