رباب واسطی
محفلین
السلام علیکم
اصلاح کی غرض سے عرض کیا ہے
جہاں جہاں سے بھی گذرے نشان چھوڑ آئے
سچ سمیٹ لیئے اور گمان چھوڑ آئے
درونِ سینہ جو غم رہے برسوں پنہاں
ہم ان کا بٹا کر دھیان چھوڑ آئے
وہ جن سے راز و نیاز ہوتے تھے
وہ ڈال پھولوں کی، وہ گلستان چھوڑ آئے
وہ جن کی آنکھوں میں ہم کھٹکتے تھے
مشکلیں ان کی کرکے آسان چھوڑ آئے
ربابؔ و مطرب، وہ دلنشیں نغمے
حسین شاموں کو بھی حیران چھوڑ آئے
اصلاح کی غرض سے عرض کیا ہے
جہاں جہاں سے بھی گذرے نشان چھوڑ آئے
سچ سمیٹ لیئے اور گمان چھوڑ آئے
درونِ سینہ جو غم رہے برسوں پنہاں
ہم ان کا بٹا کر دھیان چھوڑ آئے
وہ جن سے راز و نیاز ہوتے تھے
وہ ڈال پھولوں کی، وہ گلستان چھوڑ آئے
وہ جن کی آنکھوں میں ہم کھٹکتے تھے
مشکلیں ان کی کرکے آسان چھوڑ آئے
ربابؔ و مطرب، وہ دلنشیں نغمے
حسین شاموں کو بھی حیران چھوڑ آئے