بخشو بی بلّی۔۔۔۔۔۔۔ عبدالمجید عابد

mullah-general-670.jpg


کہتے ہیں کہ حکیم لقمان کے پاس دنیا کی ہر بیماری کا علاج موجود تھا لیکن وہ پھر بھی وہم کا علاج نہیں کر سکے۔ اگر آج حکیم صاحب حیات ہوتے تو ہم ان سے موجودہ دور کے لاعلاج مرض کا علاج دریافت کرتے اور شاید وہ اس مرض کا بھی کوئی علاج نہ بتا پاتے۔
آج کے دور کا لاعلاج مرض مذہبی تعصب اور تنگ نظری ہے اور اس بیماری کا علاج فی الحال کسی کے پاس نہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم پر لبرل انتہا پسند ہونے کی تہمت لگائی جائے، ایک واقعہ سن لیجیے اور اس کی روشنی میں خود ہی فیصلہ کریں۔
1999 میں ہندوستانی وزیر اعظم واجپائی جب تاریخی دورے پر لاہور آئے تو انہوں نے مینار پاکستان کا بھی دورہ کیا اور کہا کہ ہم ہندوستان کی تقسیم کو تسلیم کرتے ہیں اور دونوں ملکوں کی ترقی کے لیے بہتر یہی ہے کہ اب دشمنی کی روش بھلا کر امن کے لیے کام کیا جائے۔
ذرائع کے مطابق اس دور میں کشمیر کے مسئلے پر جتنی پیش رفت ہوئی اتنی آج تک نہیں ہو سکی۔ واجپائی صاحب تو واپس چلے گئے لیکن ایک جماعت کے جوشیلے ارکان نے مینار پاکستان کو پانی سے دھویا تاکہ اس کو “پاک” کیا جائے۔
اس قسم کی بیہودہ حرکت صرف ایک ہی جماعت کر سکتی تھی، وہ جماعت جو پاکستان کی تشکیل کے سخت خلاف تھی اور جس کے امیر صاحب “قومی ریاست” (Nation State) کے تصور سے ہی نالاں تھے۔
ایک زمانے میں تو امیر صاحب کا لاہور کی امریکی قونصل گاہ سے براہ راست رابطہ بھی تھا۔
جی ہاں، سمجھ تو آپ گئے ہی ہوں گے۔
ہمارے دوست علی آفتاب نے دو سال قبل اپنے گانے میں دو جماعتوں کی مناسبت کی طرف اشارہ کیا تھا، اور حالیہ واقعات نے ان کی پیش گوئی کو درست ثابت کیا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں صرف ظاہری حلیے کا فرق ہے، نظریاتی طور پر ان جماعتوں کا قبلہ ایک ہی ہے۔

بےغیرت بریگیڈ کے گانے ‘آلو انڈے’ کا ایک منظر –.
دیکھا جائے تو نظریات کے علاوہ افراد میں بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنا سیاسی سفر جماعت کے ذریعے شروع کیا، جیسے عارف علوی یا جاوید ہاشمی صاحب۔
انتخابات میں کامیابی کے بعد خیبر پختونخواہ میں صوبائی حکومت بناتے وقت تحریک اور جماعت کا اتحاد اس بات کا ثبوت ہے کہ علی آفتاب کی بات درست تھی۔
یعنی کہ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھی۔ بات یہیں تک رہتی تو گوارا تھی لیکن جماعت کو وزارت تعلیم کا قلم دان دے کر تحریک انصاف نے عربی حکایت کے مطابق اونٹ کو خیمے میں گھسنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس موقعے پر جماعت اور تحریک انصاف کے تعلیم سے متعلق خیالات پر نظر ڈالنا وقت کا تقاضا ہے۔
جماعت اسلامی کے منشور میں تعلیم کے متعلق یہ سات نکاتی لائحہ عمل موجود ہے؛
1. ہم ملک میں نظریہ پاکستان سے ہم آہنگ اسلامی نظام تعلیم نافذ کریں گے اور مستقل قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعے سرکاری و پرائیوٹ اداروں کے لیے یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے گا اور انٹرمیڈیٹ تک دینی و دنیاوی تعلیم کے امتزاج سے ایسا نصاب تعلیم تشکیل دیا جائے گا جس کے تحت قرآن و حدیث کی تعلیم ہر طالب علم کے لیے لازمی ہو۔
2. اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے ساتھ ساتھ تمام صوبائی اور علاقائی زبانوں کو ترقی کے بھرپور مواقع فراہم کیے جائیں گے۔
3. فنی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
4. اعلی پیشہ ورانہ تعلیم کے اداروں میں غریب گھرانوں کے میرٹ پر آنے والے طلبہ و طالبات کے تمام اخراجات حکومت برداشت کرے گی۔
5. پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی مکمل حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
6. شرح خواندگی کو 5 سال میں سو فیصد کریں گے۔
7. ایسی پالیسی بنائی جائے گی جس کے تحت ہر استاد رٹائیرمنٹ کے بعد ذاتی مکان کا مالک ہو۔
8. طلبہ یونینز بحال کی جائیں گی۔
تحریک انصاف کی چھے نکاتی تعلیمی پالیسی ملاحضہ کریں:
1. ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جائے گی۔ انگریز کے نظام تعلیم سے چھٹکارا پایا جائے گا۔
2. یکساں نظام تعلیم نافذ کیا جائے گا۔
3. اردو یا مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے گا۔
4. پرائمری تعلیم کو مضبوط بنا کر ضلعی سطح پر اختیارات دیے جائیں گے۔
5. بجٹ کا پانچ فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کیا جائے گا۔
6. تعلیم بالغاں اور تعلیم نسواں پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ ملک بھر میں ہر یونین کونسل میں ایک گرلز سکول قائم کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ تحریک انصاف قائد اور اقبال کے نظریات کی روشنی میں ایک اسلامی فلاحی ریاست قائم کرنا چاہتی ہے۔ (واضح رہے کہ یہ تمام معلومات حرف بہ حرف اصل سے نقل کی گئی ہیں، یہ ہماری اپنی ایجاد نہیں ہیں)
ظاہری مطالعے پر تو دونوں تحاریر میں کوئی خاص فرق نہیں اور کوئی قابل اعتراض بات بھی نہیں۔ اگر دونوں جماعتیں نظریاتی بحث کا حوالہ حذف کر دیں تو ایک قابل قدر تعلیمی پالیسی بنائی جا سکتی ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ جماعت اسلامی میں یہ نظریاتی بحث اس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ اسکے بغیر اب انکا گزارا ہی نہیں ہوتا اور یہیں سے ہمارے اور اُن کے راستے جدا ہو جاتے ہیں۔
غضب خدا کا، وہ جماعت جو پاکستان کا وجود تک تسلیم کرنے سے گریزاں تھی، آج اسی ملک کے نام نہاد نظریے کی ٹھیکے دار بنی بیٹھی ہے!
یہ جماعت طلبہ یونین بحال کرنا چاہتی ہے لیکن اسکی زیر سایہ طلبہ کی جمیعت نے جس طرح ارض پاک کی درس گاہوں کو خون سے رنگا، وہ ہمیں ابھی تک یاد ہے۔
جماعت کے روحانی وارث، طالبان تو خواتین کی درس گاہیں بارود سے اڑاتے پھرتے ہیں اور تحریک انصاف والے یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ جماعت خیبر پختونخواہ میں تعلیم نسواں کو فروغ دے گی؟ کیا اسے کھلا تضاد کہا جائے یا جہالت کا اعلیٰ نمونہ؟
اگلے روز خبر آئی کہ تحریک انصاف والے ڈاکٹر عطاالرحمان کو خیبر پختونخواہ میں شعبہء تعلیم کا مشیر بننے کی پیشکش کر رہی ہے۔
سیانے کہتے تھے کہ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر صاحب کی علمیت پر ہم سوال نہیں اٹھا سکتے لیکن یہ امر فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے دور میں پاکستان میں پی ایچ ڈی (PhD) افراد کی تعداد میں پریشان کن اضافہ دیکھنے کو ملا اور ان میں سے شائد ہی کوئی ڈگری کسی نئی سائنسی ایجاد یا نظریے کا محرک بنی ہو۔ کم از کم پچاس ڈگریاں تو صرف رائے بریلی سے تعلق رکھنے والی ایک مشہور مذہبی شخصیت پر ہیں۔
علاوہ ازیں ڈاکٹر صاحب کے سیاسی خیالات بھی پریشان کن ہیں۔ پچھلے سال ایک اداریے میں جناب نے لکھا تھا کہ پاکستان کے لیے صدارتی نظام حکومت زیادہ موثر رہے گا اور جب تک ایسا نظام رائج نہیں ہوتا، یہاں ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم کی جانی چاہیے کیونکہ موجودہ سیاست دان جاہل اور نااہل ہیں۔
ان کے خیال میں جج صاحبان پر مشتمل ایک ایسا بندوبست ہونا چاہیے جو ملک کے اعلی عہدوں پر فائض افراد کی چھانٹی کرے۔ یاد رہے کہ ایسے نظام ایران اور سنگا پور جیسے ممالک میں تو آزمائے جا چکے ہیں لیکن کسی حقیقی جمہوری ملک میں ان اقدام کی کوئی جگہ نہیں۔
اگر یہی کچھ خیبر پختونخواہ کی تعلیم کا سامان ہے تو بخشو بی بلی، چوہا لنڈورا ہی بھلا۔۔۔

تحریر:عبدالمجید عابدبہ شکریہ ڈان اردو
 
Top